Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Sunday 31 January 2016

))))Vu & Company(((( Sobo bhai bodybuilding kertey howey ...


--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Re: ))))Vu & Company(((( قرآنی لفظِ ’سمآء‘ کے مفاہیم اور سات آسمانوں کی حقیقت

Nice

On 30 Jan 2016 11:44 am, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:

السَّمَآء کا لفظ سَمَا یَسْمُو سے ہے، جس کے معنی بلندی کے ہیں۔ لغتِ عرب میں ہے : ''سمآءُ کلِ شئٍ اعلاہ'' (کسی بھی چیز کے اُوپر جو کچھ ہے وہ اُس چیز کا سمآء ہے)۔ چنانچہ لُغوِی اِعتبار سے لفظِ 'سمآ' کا اِطلاق کرۂ ارض کے گِرداگِرد موجود تمام کائنات پر ہوتا ہے اور زمین کے علاوہ تمام کائنات اور اَجرامِ سماوِی عالمِ سماوات میں شامل ہیں۔

لُغتِ عرب میں لفظِ سمآء کے معانی کی وُسعت کے پیشِ نظر قرآنِ مجید میں بھی اﷲ ربّ العزت نے اِس لفظ کا اِستعمال متعدّد معانی میں کیا ہے۔ کہیں اِس سے مُراد بادل ہیں تو کہیں بارش۔ ۔ ۔ کہیں اِس کا اِستعمال کرۂ ہوائی کے معنی میں ہوا ہے تو کہیں بالائی کائنات کے معنی میں۔ ۔ ۔ الغرض کرۂ ارضی کی فضائے بسیط سے لے کر عالمِ طبیعی کی آخری حدوں تک وسیع و عریض کائنات کے تمام گوشوں پر لفظِ سمآء کا اِطلاق ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں جن مقامات پر یہ لفظ اِستعمال ہوا ہے وہاں سیاقِ کلام اُس کا مفہوم واضح کرتا ہے اور ہم آیات کے تسلسل پر غور و فکر کے بعد ہی اُس کے حقیقی معانی اور اﷲ ربُّ العزت کی غایتِ کلام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

قرآن مجید میں سمآء اور سمٰوٰت کا لفظ 310 مرتبہ آیا ہے جن میں سے بیشتر مقامات پر اُس کا اِطلاق لغتِ اُردو میں استعمال ہونے والے لفظ 'آسمان' کی بجائے بارِش، بادل اور سماوِی طبقات وغیرہ پر ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں لفظ سماء کا سب سے پہلا اِستعمال بادل کے معنی میں ہوا ہے۔

اﷲ ربّ العزت کا فرمان ہے :

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ.

(البقره، 2 : 19)

یا اُن کی مثال بادل سے برسنے والی بارش کی سی ہے، جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے۔

کسی مخصوص خطۂ ارضی کو اپنے دامن میں لپیٹ لینے والی کالی گھٹاؤں سے جب موسمِ گرما کی دوپہریں بھی نصف شب کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں تو اُن بادلوں سے پیدا ہونے والی گرج اور چمک سے لوگوں میں بارِش کی خوشی کے باوُجود بجلی کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی موقع کی منظرنگاری قرآنِ مجید میں اِس مقام پر کی گئی ہے۔ جب لوگ موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ آیتِ کریمہ میں قرآنِ مجید میں وارِد ہونے والا لفظِ 'سمآء' اُردو کے معروف لفظ 'آسمان' کی بجائے 'بادل' کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔

لفظِ 'سمآء' کے مختلف قرآنی معانی پر غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ 'سمآء' کا معنی ہر جگہ ایسے ٹھوس غلاف نہیں ہیں جنہوں نے اربوں کھربوں نوری سال کی مسافتوں میں بکھری کہکشاؤں کے گروہوں (clusters) کو اپنے دامن میں لپیٹ رکھا ہے اور وہ تمام مادّی عالم کو محیط ہیں۔ بلکہ قرآنِ مجید لغتِ عرب کی وُسعت کے پیشِ نظر اِس لفظ کا اِستعمال جا بجا اور بھی بہت سے معانی کے لئے کرتا ہے۔

قرآنی لفظ سمآء کے معانی

قرآنِ مجید میں لفظ 'سمآء' مروّجہ سات آسمانوں کے علاوہ اِن معانی کے لئے بھی اِستعمال ہوا ہے :

  1. بادل
  2. کرۂ ہوائی
  3. بادلوں کی فضا
  4. گھر کی چھت
  5. بارش
  6. سماوِی کائنات

1۔ بادل

قرآنِ مجید میں بہت سے مواقع پر لفظ سمآء بادلوں کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ بارِش بادلوں سے برستی ہے، جو ہماری زمین ہی کی فضا میں معلّق ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں بارِش کا ذِکر آیا ہے وہاں لفظ سمآء کا اِستعمال بارِش ہی کے معنی میں ہوا ہے۔

سورۂ حجر میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً.

(الحجر، 15 : 22)

اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں، پھر ہم بادلوں سے پانی اُتارتے ہیں۔

اِس آیتِ مبارکہ میں پانی سے بھرے بادلوں کو 'سمآء' کہا گیا ہے، جن سے پانی برسا کر اﷲ ربُّ العزت پیاسی زمینوں کو سیراب فرماتا ہے۔ وہ تمام آیات جن میں ''یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً'' (آسمان سے پانی (بارِش) اُتارتا ہے) کا بیان آیا ہے وہاں سمآء سے مراد بارش ہی ہو گی۔

2۔ بادلوں کی فضا

بادل کے علاوہ بعض مقامات پر لفظ سمآء کا ذِکر کرۂ ہوائی کی اُن مخصوص تہوں کے لئے بھی ہوا ہے جن میں بادل تیرتے رہتے ہیں۔

سورۂ نور میں اﷲ ربّ العزت نے فرمایا :

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ.

(النور، 24 : 43)

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ ہی بادل کو (پہلے) آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اُس (کے مختلف ٹکڑوں) کو آپس میں ملا دیتا ہے، پھر اُسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اُس کے درمیان خالی جگہوں سے بارش نکل کر برستی ہے۔ اور وہ اُسی فضا سے برفانی پہاڑوں کی طرح (دِکھائی دینے والے) بادلوں میں سے اولے برساتا ہے۔

سورۂ نور کی اِس آیتِ کریمہ میں لفظِ 'سمآء' کا اِستعمال زمین کے کرۂ ہوائی (atmosphere) کی اُن تہوں کے لئے ہوا ہے جن میں بادل معلّق ہوتے ہیں۔ نیز بادلوں کی بناوَٹ اور اُن کی مختلف تہوں کا ذِکر بھی کیا گیا ہے، جو سمندروں سے چل کر خشکی پر برستے ہیں اور زمینی حیات کی سیرابی کا باعث بنتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ میں یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ کے الفاظ میں واضح طور پر بادلوں کی فضا کو سماء کہا گیا ہے۔ یہ اور اِس قبیل کی دُوسری بہت سی آیات جملہ اہلِ ایمان کو حصولِ علمِ موسمیات (meteorology) کی ترغیب دیتی دکھائی دیتی ہیں۔

لفظِ سمآء کا بادلوں کی فضا کے معنی میں ایک اور مقام پر یوں اِستعمال ہوا ہے :

اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ.

(الروم، 30 : 48)

اﷲ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے اُسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے۔

3۔ بارِش

بارِش چونکہ بادلوں سے ہی پیدا ہوتی ہے اِس لئے بادل اور بادلوں کی فضا کے علاوہ کبھی لفظِ سمآء کا اِستعمال براہِ راست بارِش ہی کے معنی میں بھی ہوا ہے۔

اِرشاد فرمایا گیا :

وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ.

(انعام، 6 : 6)

اور ہم نے اُن پر لگاتار برسنے والی بارِش بھیجی اور ہم نے اُن (کے مکانات و محلّات) کے نیچے سے نہریں بہائیں۔

اِس آیتِ کریمہ میں بارِش کو سمآء کہا گیا ہے۔ یہاں سمآء کے مروّجہ معنی 'آسمان' کسی صورت میں بھی مراد نہیں لئے جا سکتے کیونکہ آسمان تو کبھی نہیں برستا، ہمیشہ بارِش ہی برستی ہے۔ اِس آیت میں اُوپر سے برسنے والی بارِش اور زمین کے اندر بہنے والی نہروں کا متوازِی ذِکر کیا گیا ہے۔

ایک اور آیتِ مبارکہ میں یہی مضمون اِس انداز میں وارِد ہوا ہے :

يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا.

(هود، 11 : 52)

وہ تم پر مُوسلادھار بارِش بھیجے گا۔

اِس آیتِ کریمہ میں بھی بارِش کو سمآء کہا گیا ہے۔

4۔ کرۂ ہوائی

قرآنِ مجید میں لفظِ سمآء کا اِستعمال زمین کے گِرد لپٹے کرۂ ہوائی کے لئے بھی ہوا ہے۔ پرندے زمین کی فضا میں اُس کی سطح سے کُچھ بلندی پر اُڑتے ہیں، زمینی فضا کی وہ بلندی جہاں پرندوں کی عام پرواز ہوتی ہے قرآنِ مجید میں اُسے بھی سمآء کہا گیا ہے۔

اِرشادِ ربانی ہے :

أَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلاَّ اللّهُ.

(النحل، 16 : 79)

کیا اُنہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اُڑتے رہتے) ہیں۔ اُنہیں اﷲ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔

اِس آیتِ مبارکہ میں فضا یا کرۂ ہوائی کو سمآء کہا گیا ہے، جہاں پرندے اُڑتے ہیں۔

5۔ گھر کی چھت

سورۂ حج میں ایک مقام پر مطلق بلندی اور گھر کی چھت کے معنی میں بھی لفظِ سمآء کا اِستعمال ہوا ہے :

اِرشادِ ربِّ جلیل ہے :

فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ.

(الحج، 22 : 15)

اُسے چاہیئے کہ (گھر کی) چھت سے ایک رسی باندھ کر لٹک جائے۔

اِس آیتِ کریمہ میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں نیک گمان نہ رکھنے والے منافقوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھر کی چھت سے رسا باندھ کر اُس سے لٹک جائیں اور خودکشی کر لیں۔ یہاں گھر کی چھت کے لئے سمآء کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔

6۔ سماوِی کائنات

لفظِ سمآء کو اﷲ ربُّ العزت نے اپنے کلامِ مجید میں کروڑوں اربوں نوری سال کی مسافت میں بکھری ناقابلِ اِحصاء و شمار کہکشاؤں کے سلسلوں پر مشتمل تمام کائنات کے لئے بھی اِستعمال کیا ہے۔ تخلیقِ کائنات کے وقت ہر طرف جو دُخانی کیفیت (gaseous state) موجود تھی، اُس کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا :

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ . . . فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ.

(فصلت، 41 : 11، 12)

پھر وہ (اﷲ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دُھواں (سا) تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اُنہیں سات آسمان بنا دیا۔

اِس آیتِ مبارکہ میں 'بالائی کائنات' کو سمآء کہا گیا ہے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اِس مقام پر بات اُس وقت کی ہو رہی ہے جب ابھی سبع سماوات نہیں بنے تھے۔ گویا یہاں جس شے کو سمآء کہا گیا ہے وہ سبع سماوات کی تخلیق سے پہلے بھی موجود تھی۔ گویا جس حالت سے سات آسمانوں کی تخلیق عمل میں آئی اُسے بھی قرآن نے سمآء سے تعبیر کیا ہے۔

ایک اور مقام پر اﷲ ربُّ العزت نے لفظِ سمآء کو جملہ سماوِی کائنات کے معنی میں اِستعمال کرتے ہوئے فرمایا :

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًاO

(الفرقان، 25 : 61)

وُہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوِی کروں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اُس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُسی کی ضوء سے) چمکنے والا چاند بنایاo

قرآنِ مجید سے آسمان کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ یہ کوئی ایسا ٹھوس اور جامد جسم نہیں جس کے آرپار جانا ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ قدیم فلاسفہ کا خیال تھا اور اُن کے زیرِ اثر ہمارے بعض علماء نے بھی یہی تصور کر لیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ. . . فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ.

(حم السجده، 41 : 11 - 12)

پھر وہ (اﷲ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دُھواں (سا) تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان اوپر کے طبقات کو دو ادوار میں مکمل سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اسی سے متعلق احکام بھیجے اور ہم نے سب سے نچلے آسمان کو ستاروں سے آراستہ کیا۔

اِن آیاتِ کریمہ اور ان کے سیاق وسباق سے درج ذیل اُمور سامنے آتے ہیں :

1۔ عالمِ سماء اِبتداء ً دُھواں (cloud of hot gases) تھا۔

2۔ اِس عالمِ سماء کو سات محکم طبقات میں تقسیم کیا گیا، جیساکہ اِرشادِ اِلٰہی ہے :

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا.

(الملک، 67 : 3)

(بابرکت ہے وہ اﷲ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے بنائے۔

سات کا عدد خاص بھی ہو سکتا ہے اور لُغتِ عرب کے قاعدے کے مطابق اِس سے محض عددی کثرت بھی مُراد ہو سکتی ہے۔

3۔ تمام ستارے اور سیارے مثلاً چاند، سورج اور دِیگر اَجرامِ فلکی جو عالمِ اَفلاک میں چراغوں کی مانند چمک رہے ہیں، پہلے طبقۂ آسمانی میں موجود ہیں۔ اُن کا مدار آسمانِ دُنیا کے نیچے ہی ہے۔ کوئی ستارہ یا سیارہ پہلے آسمان سے اُوپر نہیں۔ یہ تمام سیارگانِ فلکی باری تعالیٰ کے حکم اور اُس کی تدبیر کے مطابق محوِ گردش ہیں۔ جیسا کہ اِرشاد ہے :

وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ.

(الاعراف، 7 : 54)

اور سورج چاند اور ستارے (سب) اُسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔

اِسی طرح ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا :

كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَO

(الانبياء، 21 : 33)

تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیںo

4۔ کائنات کی حدُود اِس نوعیت کی نہیں ہیں کہ اُنہیں چُھوا نہ جا سکے یا اُن کے آرپار آنا جانا نا ممکن ہو۔ قرآن و حدیث سے یہ اَمر ہرگز ثابت نہیں کہ اِنسان آسمانوں کے پار نہیں جا سکتا، بلکہ اِس کا عقلی و شرعی اِمکان خود قرآن سے یوں ثابت ہے۔

اﷲ ربُّ العزت نے جنوں کے ساتھ اِنسانوں کو بھی مخاطب کیا اور فرمایا :

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍO

(الرحمن، 55 : 33)

اے گروہِ جن و اِنسان! اگر تم میں سماوِی کائنات کی قطاروں اور زمین (کی حدود) سے باہر نکلنے کی اِستطاعت رکھتے ہو تو (ضرور) نکل دیکھو، طاقت (و صلاحیّت) کے بغیر تم (یقینا) نہیں نکل سکتےo

اِسی آیتِ کریمہ کے مفہوم کا ایک مفاد یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان کے کناروں سے تو باہر نکل سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کی حدُود سے نہیں نکل سکتا۔ سائنس تخلیقِ سماوِی کے باب میں بھی قرآن کے اَحکامات کی تصدیق کرتی ہے۔

لفظِ سمآء کے مختلف قرآنی اِستعمالات کے بعد اَب ہم سات آسمانوں سے متعلق کچھ جدید سائنسی نظریات پیش کرتے ہیں تاکہ قرآنی بیانات کی صحت و صداقت جدید ذِہن پر آشکار ہو سکے اور وہ اُس کے کلامِ الہٰی ہونے پر یقینِ کامل پا سکے۔

سات آسمانوں کی سائنسی تعبیر

قرآنِ مجید سات آسمانوں کی موجودگی اور اُن کے مابین ہم آہنگی کا تصوّر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اِن آیات میں واضح کی گئی ہے :

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا.

(الملک، 67 : 3)

(بابرکت ہے وہ اﷲ) جس نے سات (یا متعدّد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے۔

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO

(البقره، 2 : 29)

پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے اُنہیں درُست کر کے اُن کے سات آسمانی طبقات بنا دیئے، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہےo

أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًاO

(نوح، 71 : 15)

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے کس طرح سات آسمانی طبقات اُوپر تلے پیدا کر رکھے ہیںo

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَO

(المؤمنون، 23 : 17)

اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرّۂ ارضی کے گِرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مِقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھےo

اگرچہ سات آسمانوں کے کچھ رُوحانی معانی اور توجیہات بھی بہت سی تفاسیر میں پیش کئے گئے ہیں۔ ۔ ۔ اور ہم اُن کی تائید کرتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر اُس کے ساتھ ساتھ طبیعی کائنات، اُس کے خلائی طبقات، اَجسامِ سماوِی اور خلاء اور کائنات سے متعلقہ کچھ سائنسی اور فلکیاتی توضیحات بھی ہمارے علم میں آئی ہیں۔ یہ طبیعی موجودات رُوحانی اور مابعد الطبیعی موجودات کے عینی شواہد بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اِن دونوں میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے۔

پہلی وضاحت۔ ۔ ۔ سات آسمانوں کا کائناتی تصوّر

قرآنِ حکیم نے اپنی بہت سی آیات میں سات آسمانوں کا ذِکر کیا ہے۔ گزشتہ 200 سال سے کائنات سے متعلق ہونے والی انتھک تحقیقات کے باوُجود ہم ابھی اِس بارے میں سائنسی بنیادوں پر حتمی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ صرف حالیہ چند عشروں (decades) میں فلکی طبیعیات کے سلسلے میں چند اِنتہائی دِلچسپ دریافتیں ہوئی ہیں اور اُن سے معجزۂ قرآن کی حقانیت ثابت ہو گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات کے ذریعے اِنسان نے جو کچھ بھی دریافت کیا ہے وہ سمندر میں سے فقط ایک قطرہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن پھر بھی اُس نے کم از کم اپنی پچھلی دو صدیوں کی خطاؤں کو تسلیم کرنا شروع کر دِیا ہے۔

ترکی کے نامور محقّق ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق کائنات متنوّع مقناطیسی تہوں کی عکاسی کرتی ہے۔ پہلی اور مرکزی تہ بے شمار ستاروں سے بننے والی کہکشاؤں اور اُن کے گروہوں پر مشتمل ہے۔ اُس کے اُوپر واقع دُوسری تہ بہت سی مِقناطیسی خصوصیات کی حامل ہے، جو قواسرز (quasars) پر مشتمل ہے، جنہیں ہم ستاروں کے بیج بھی کہہ سکتے ہیں۔ قواسرز کائنات کے قدیم ترین اَجرام ہیں جو بہت زیادہ ریڈشفٹ چھوڑتے ہیں۔ اُس کے گِرد تیسری مِقناطیسی پٹی ہے جو کائنات کے سِفلی مقامات کو اپنے حلقے میں لئے ہوئے ہے۔

سب سے اندرونی دائرہ اور خاص طور پر ہمارا اپنا نظامِ شمسی اپنے تمام سیاروں کے خاندان سمیت ہمارے لئے زمین پر رہتے ہوئے سب سے آسان قابلِ مُشاہدہ علاقہ ہے۔ اس نظام کی اندرونی ساخت تین الگ الگ مِقناطیسی میدانوں پر مُشتمل ہے۔

سب سے پہلے تو ہر سیارہ ایک مِقناطیسی میدان کا مالک ہے، جو اُس سیارے سے اِردگرد واقع ہوتا ہے۔ پھر اُس کے بعد نظامِ شمسی کے اِمتزاج سے تمام سیارے ایک دُوسری مقناطیسی پٹی تشکیل دیتے ہیں۔ مزید برآں ہر نظامِ شمسی اپنی کہکشاں کے ساتھ ایک الگ وسیع و عریض مِقناطیسی علاقے کی بنیاد رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ کم از کم ایک کھرب ستارے یا سورج تو صرف ہماری کہکشاں (Milky Way) میں شامل ہیں۔ مزید اعلیٰ سطح پر آس پاس واقع کہکشائیں کلسٹرز (کہکشاؤں کے گروہ) کے ایک اور مِقناطیسی میدان کا باعث بن جاتی ہیں۔ تبھی تو جب ہم زمین سے آسمان کی طرف نظر کرتے ہیں تو سات ایسی مِقناطیسی پٹیوں میں گِھرے ہوئے ہوتے ہیں جو خلاء کی بیکرانی میں پسپائی اِختیار کر چکی ہوں۔ اگر ہم زمین سے کائنات کی وُسعتوں کی طرف نظر دَوڑائیں تو سات آسمان اِس ترتیب سے واقع ہیں :

  1. پہلا آسمان : وہ خلائی میدان، جس کی بنیاد ہم اپنے نظامِ شمسی کے ساتھ مل کر رکھتے ہیں۔
  2. دُوسرا آسمان : ہماری کہکشاں کا خلائی میدان ہے۔ یہ وہ مِقناطیسی میدان ہے جسے مِلکی وے کا مرکز تشکیل دیتا ہے۔
  3. تیسرا آسمان : ہمارے مقامی کلسٹر (کہکشاؤں کے گروہ) کا خلائی میدان ہے۔
  4. چوتھا آسمان : کائنات کا مرکزی مِقناطیسی میدان ہے، جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے۔
  5. پانچواں آسمان : اُس کائناتی پٹی پر مشتمل ہے جو قواسرز (quasars) بناتے ہیں۔
  6. چھٹا آسمان : پھیلتی ہوئی کائنات کا میدان ہے، جسے رِجعتِ قہقری کی حامل (پیچھے ہٹتی ہوئی) کہکشائیں بناتی ہیں۔
  7. ساتواں آسمان : سب سے بیرونی میدان ہے، جو کہکشاؤں کی لامحدود بیکرانی سے تشکیل پاتا ہے۔

اِن سات تہ در تہ آسمانوں کا ذِکر قرآنِ مجید نے آج سے 14 صدیاں پہلے واشگاف اَنداز میں کر دِیا تھا۔ (سات آسمانوں سے متعلقہ آیاتِ مبارکہ سابقہ صفحات میں گزر چکی ہیں)۔

دُوسری وضاحت۔ ۔ ۔ سات فلکیاتی تہیں

سات آسمانوں کے تصوّر کو ذرا واضح انداز میں سمجھنے کے لئے ہم فلکی طبیعیات سے متعلقہ چند مزید معلومات کا مختصر ذِکر کریں گے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ مذکورہ بالا آسمانی تہوں کے درمیان ناقابلِ تصوّر فاصلے حائل ہیں۔

  1. پہلی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ کم و بیش 65 کھرب کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔
  2. دُوسری آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو ہماری کہکشاں کا قطر بھی ہے۔ ۔ ۔ ایک لاکھ 30 ہزار نوری سال وسیع ہے۔
  3. تیسری آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو ہمارا مقامی کلسٹر ہے۔ ۔ ۔ 20 لاکھ نوری سال کی حدُود میں پھیلی ہوئی ہے۔
  4. چوتھی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کا مجموعہ ہے، اور کائنات کا مرکز تشکیل دیتی ہے۔ ۔ ۔ 10 کروڑ نوری سال قطر پر محیط ہے۔
  5. پانچویں آسمانی تہ۔ ۔ ۔ ایک ارب نوری سال کی مسافت پر واقع ہے۔
  6. چھٹی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ 20 ارب نوری سال دُور ہے۔
  7. ساتویں آسمانی تہ۔ ۔ ۔ اُس سے بھی کئی گنا آگے ہے، جس کا اَندازہ کرنا محال ہے۔

ایک آسمان سے دُوسرے آسمان تک کا جسمانی سفر ناممکن ہے، جس کا پہلا سبب روشنی سے کئی گنا زیادہ بے تحاشا رفتار کا عدم حصول ہے اور اُس کا دُوسرا سبب کائنات میں ہر سُو بکھری مِقناطیسی قوّتوں پر نوعِ اِنسانی کا حاوِی نہ ہو سکنا ہے۔ ان آسمانوں کی حدُود سے گزرنے کے لئے ضروری ہے کہ رَوشنی سے زیادہ رفتار حاصل کی جائے، روشنی کی رفتار کا حصول چونکہ مادّی اَجسام کے لئے قطعاً ناممکن ہے اِس لئے اِس کا دُوسرا مطلب یہ ہوا کہ 'مادّے کی دُنیا سے نجات' حاصل کی جائے۔ ایسا عظیم سفر مادّی اَجسام سے تو ممکن نہیں البتہ رُوح اپنے اِرتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد ایسا کرنے پر قادِر ہو سکتی ہے۔

تیسری وضاحت۔ ۔ ۔ لامُتناہی اَبعاد

سات آسمانوں کے بارے میں لامُتناہی اَبعاد کا تصوّر بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مختلف آسمانوں میں موجود عالمِ مکاں مختلف اَبعاد کا حامل ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے سات آسمانوں کا تصوّر سات جدا جدا خلائی تسلسلوں کے تصوّر کو بھی شامل ہے۔ چونکہ ہم ابھی تک وقت سمیت چار سے زیادہ اَبعاد کو محسوس نہیں کر سکتے لہٰذا ہمارے لئے فی الحال اِن لامتناہی اَبعاد کو کاملاً سمجھ سکنا ممکن نہیں۔

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Friday 29 January 2016

))))Vu & Company(((( قرآنی لفظِ ’سمآء‘ کے مفاہیم اور سات آسمانوں کی حقیقت


السَّمَآء کا لفظ سَمَا یَسْمُو سے ہے، جس کے معنی بلندی کے ہیں۔ لغتِ عرب میں ہے : ''سمآءُ کلِ شئٍ اعلاہ'' (کسی بھی چیز کے اُوپر جو کچھ ہے وہ اُس چیز کا سمآء ہے)۔ چنانچہ لُغوِی اِعتبار سے لفظِ 'سمآ' کا اِطلاق کرۂ ارض کے گِرداگِرد موجود تمام کائنات پر ہوتا ہے اور زمین کے علاوہ تمام کائنات اور اَجرامِ سماوِی عالمِ سماوات میں شامل ہیں۔

لُغتِ عرب میں لفظِ سمآء کے معانی کی وُسعت کے پیشِ نظر قرآنِ مجید میں بھی اﷲ ربّ العزت نے اِس لفظ کا اِستعمال متعدّد معانی میں کیا ہے۔ کہیں اِس سے مُراد بادل ہیں تو کہیں بارش۔ ۔ ۔ کہیں اِس کا اِستعمال کرۂ ہوائی کے معنی میں ہوا ہے تو کہیں بالائی کائنات کے معنی میں۔ ۔ ۔ الغرض کرۂ ارضی کی فضائے بسیط سے لے کر عالمِ طبیعی کی آخری حدوں تک وسیع و عریض کائنات کے تمام گوشوں پر لفظِ سمآء کا اِطلاق ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں جن مقامات پر یہ لفظ اِستعمال ہوا ہے وہاں سیاقِ کلام اُس کا مفہوم واضح کرتا ہے اور ہم آیات کے تسلسل پر غور و فکر کے بعد ہی اُس کے حقیقی معانی اور اﷲ ربُّ العزت کی غایتِ کلام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

قرآن مجید میں سمآء اور سمٰوٰت کا لفظ 310 مرتبہ آیا ہے جن میں سے بیشتر مقامات پر اُس کا اِطلاق لغتِ اُردو میں استعمال ہونے والے لفظ 'آسمان' کی بجائے بارِش، بادل اور سماوِی طبقات وغیرہ پر ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں لفظ سماء کا سب سے پہلا اِستعمال بادل کے معنی میں ہوا ہے۔

اﷲ ربّ العزت کا فرمان ہے :

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ.

(البقره، 2 : 19)

یا اُن کی مثال بادل سے برسنے والی بارش کی سی ہے، جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے۔

کسی مخصوص خطۂ ارضی کو اپنے دامن میں لپیٹ لینے والی کالی گھٹاؤں سے جب موسمِ گرما کی دوپہریں بھی نصف شب کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں تو اُن بادلوں سے پیدا ہونے والی گرج اور چمک سے لوگوں میں بارِش کی خوشی کے باوُجود بجلی کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی موقع کی منظرنگاری قرآنِ مجید میں اِس مقام پر کی گئی ہے۔ جب لوگ موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ آیتِ کریمہ میں قرآنِ مجید میں وارِد ہونے والا لفظِ 'سمآء' اُردو کے معروف لفظ 'آسمان' کی بجائے 'بادل' کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔

لفظِ 'سمآء' کے مختلف قرآنی معانی پر غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ 'سمآء' کا معنی ہر جگہ ایسے ٹھوس غلاف نہیں ہیں جنہوں نے اربوں کھربوں نوری سال کی مسافتوں میں بکھری کہکشاؤں کے گروہوں (clusters) کو اپنے دامن میں لپیٹ رکھا ہے اور وہ تمام مادّی عالم کو محیط ہیں۔ بلکہ قرآنِ مجید لغتِ عرب کی وُسعت کے پیشِ نظر اِس لفظ کا اِستعمال جا بجا اور بھی بہت سے معانی کے لئے کرتا ہے۔

قرآنی لفظ سمآء کے معانی

قرآنِ مجید میں لفظ 'سمآء' مروّجہ سات آسمانوں کے علاوہ اِن معانی کے لئے بھی اِستعمال ہوا ہے :

  1. بادل
  2. کرۂ ہوائی
  3. بادلوں کی فضا
  4. گھر کی چھت
  5. بارش
  6. سماوِی کائنات

1۔ بادل

قرآنِ مجید میں بہت سے مواقع پر لفظ سمآء بادلوں کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ بارِش بادلوں سے برستی ہے، جو ہماری زمین ہی کی فضا میں معلّق ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں بارِش کا ذِکر آیا ہے وہاں لفظ سمآء کا اِستعمال بارِش ہی کے معنی میں ہوا ہے۔

سورۂ حجر میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً.

(الحجر، 15 : 22)

اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں، پھر ہم بادلوں سے پانی اُتارتے ہیں۔

اِس آیتِ مبارکہ میں پانی سے بھرے بادلوں کو 'سمآء' کہا گیا ہے، جن سے پانی برسا کر اﷲ ربُّ العزت پیاسی زمینوں کو سیراب فرماتا ہے۔ وہ تمام آیات جن میں ''یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً'' (آسمان سے پانی (بارِش) اُتارتا ہے) کا بیان آیا ہے وہاں سمآء سے مراد بارش ہی ہو گی۔

2۔ بادلوں کی فضا

بادل کے علاوہ بعض مقامات پر لفظ سمآء کا ذِکر کرۂ ہوائی کی اُن مخصوص تہوں کے لئے بھی ہوا ہے جن میں بادل تیرتے رہتے ہیں۔

سورۂ نور میں اﷲ ربّ العزت نے فرمایا :

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ.

(النور، 24 : 43)

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ ہی بادل کو (پہلے) آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اُس (کے مختلف ٹکڑوں) کو آپس میں ملا دیتا ہے، پھر اُسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اُس کے درمیان خالی جگہوں سے بارش نکل کر برستی ہے۔ اور وہ اُسی فضا سے برفانی پہاڑوں کی طرح (دِکھائی دینے والے) بادلوں میں سے اولے برساتا ہے۔

سورۂ نور کی اِس آیتِ کریمہ میں لفظِ 'سمآء' کا اِستعمال زمین کے کرۂ ہوائی (atmosphere) کی اُن تہوں کے لئے ہوا ہے جن میں بادل معلّق ہوتے ہیں۔ نیز بادلوں کی بناوَٹ اور اُن کی مختلف تہوں کا ذِکر بھی کیا گیا ہے، جو سمندروں سے چل کر خشکی پر برستے ہیں اور زمینی حیات کی سیرابی کا باعث بنتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ میں یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ کے الفاظ میں واضح طور پر بادلوں کی فضا کو سماء کہا گیا ہے۔ یہ اور اِس قبیل کی دُوسری بہت سی آیات جملہ اہلِ ایمان کو حصولِ علمِ موسمیات (meteorology) کی ترغیب دیتی دکھائی دیتی ہیں۔

لفظِ سمآء کا بادلوں کی فضا کے معنی میں ایک اور مقام پر یوں اِستعمال ہوا ہے :

اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ.

(الروم، 30 : 48)

اﷲ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے اُسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے۔

3۔ بارِش

بارِش چونکہ بادلوں سے ہی پیدا ہوتی ہے اِس لئے بادل اور بادلوں کی فضا کے علاوہ کبھی لفظِ سمآء کا اِستعمال براہِ راست بارِش ہی کے معنی میں بھی ہوا ہے۔

اِرشاد فرمایا گیا :

وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ.

(انعام، 6 : 6)

اور ہم نے اُن پر لگاتار برسنے والی بارِش بھیجی اور ہم نے اُن (کے مکانات و محلّات) کے نیچے سے نہریں بہائیں۔

اِس آیتِ کریمہ میں بارِش کو سمآء کہا گیا ہے۔ یہاں سمآء کے مروّجہ معنی 'آسمان' کسی صورت میں بھی مراد نہیں لئے جا سکتے کیونکہ آسمان تو کبھی نہیں برستا، ہمیشہ بارِش ہی برستی ہے۔ اِس آیت میں اُوپر سے برسنے والی بارِش اور زمین کے اندر بہنے والی نہروں کا متوازِی ذِکر کیا گیا ہے۔

ایک اور آیتِ مبارکہ میں یہی مضمون اِس انداز میں وارِد ہوا ہے :

يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا.

(هود، 11 : 52)

وہ تم پر مُوسلادھار بارِش بھیجے گا۔

اِس آیتِ کریمہ میں بھی بارِش کو سمآء کہا گیا ہے۔

4۔ کرۂ ہوائی

قرآنِ مجید میں لفظِ سمآء کا اِستعمال زمین کے گِرد لپٹے کرۂ ہوائی کے لئے بھی ہوا ہے۔ پرندے زمین کی فضا میں اُس کی سطح سے کُچھ بلندی پر اُڑتے ہیں، زمینی فضا کی وہ بلندی جہاں پرندوں کی عام پرواز ہوتی ہے قرآنِ مجید میں اُسے بھی سمآء کہا گیا ہے۔

اِرشادِ ربانی ہے :

أَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلاَّ اللّهُ.

(النحل، 16 : 79)

کیا اُنہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اُڑتے رہتے) ہیں۔ اُنہیں اﷲ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔

اِس آیتِ مبارکہ میں فضا یا کرۂ ہوائی کو سمآء کہا گیا ہے، جہاں پرندے اُڑتے ہیں۔

5۔ گھر کی چھت

سورۂ حج میں ایک مقام پر مطلق بلندی اور گھر کی چھت کے معنی میں بھی لفظِ سمآء کا اِستعمال ہوا ہے :

اِرشادِ ربِّ جلیل ہے :

فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ.

(الحج، 22 : 15)

اُسے چاہیئے کہ (گھر کی) چھت سے ایک رسی باندھ کر لٹک جائے۔

اِس آیتِ کریمہ میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں نیک گمان نہ رکھنے والے منافقوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھر کی چھت سے رسا باندھ کر اُس سے لٹک جائیں اور خودکشی کر لیں۔ یہاں گھر کی چھت کے لئے سمآء کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔

6۔ سماوِی کائنات

لفظِ سمآء کو اﷲ ربُّ العزت نے اپنے کلامِ مجید میں کروڑوں اربوں نوری سال کی مسافت میں بکھری ناقابلِ اِحصاء و شمار کہکشاؤں کے سلسلوں پر مشتمل تمام کائنات کے لئے بھی اِستعمال کیا ہے۔ تخلیقِ کائنات کے وقت ہر طرف جو دُخانی کیفیت (gaseous state) موجود تھی، اُس کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا :

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ . . . فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ.

(فصلت، 41 : 11، 12)

پھر وہ (اﷲ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دُھواں (سا) تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اُنہیں سات آسمان بنا دیا۔

اِس آیتِ مبارکہ میں 'بالائی کائنات' کو سمآء کہا گیا ہے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اِس مقام پر بات اُس وقت کی ہو رہی ہے جب ابھی سبع سماوات نہیں بنے تھے۔ گویا یہاں جس شے کو سمآء کہا گیا ہے وہ سبع سماوات کی تخلیق سے پہلے بھی موجود تھی۔ گویا جس حالت سے سات آسمانوں کی تخلیق عمل میں آئی اُسے بھی قرآن نے سمآء سے تعبیر کیا ہے۔

ایک اور مقام پر اﷲ ربُّ العزت نے لفظِ سمآء کو جملہ سماوِی کائنات کے معنی میں اِستعمال کرتے ہوئے فرمایا :

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًاO

(الفرقان، 25 : 61)

وُہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوِی کروں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اُس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُسی کی ضوء سے) چمکنے والا چاند بنایاo

قرآنِ مجید سے آسمان کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ یہ کوئی ایسا ٹھوس اور جامد جسم نہیں جس کے آرپار جانا ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ قدیم فلاسفہ کا خیال تھا اور اُن کے زیرِ اثر ہمارے بعض علماء نے بھی یہی تصور کر لیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ. . . فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ.

(حم السجده، 41 : 11 - 12)

پھر وہ (اﷲ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دُھواں (سا) تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان اوپر کے طبقات کو دو ادوار میں مکمل سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اسی سے متعلق احکام بھیجے اور ہم نے سب سے نچلے آسمان کو ستاروں سے آراستہ کیا۔

اِن آیاتِ کریمہ اور ان کے سیاق وسباق سے درج ذیل اُمور سامنے آتے ہیں :

1۔ عالمِ سماء اِبتداء ً دُھواں (cloud of hot gases) تھا۔

2۔ اِس عالمِ سماء کو سات محکم طبقات میں تقسیم کیا گیا، جیساکہ اِرشادِ اِلٰہی ہے :

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا.

(الملک، 67 : 3)

(بابرکت ہے وہ اﷲ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے بنائے۔

سات کا عدد خاص بھی ہو سکتا ہے اور لُغتِ عرب کے قاعدے کے مطابق اِس سے محض عددی کثرت بھی مُراد ہو سکتی ہے۔

3۔ تمام ستارے اور سیارے مثلاً چاند، سورج اور دِیگر اَجرامِ فلکی جو عالمِ اَفلاک میں چراغوں کی مانند چمک رہے ہیں، پہلے طبقۂ آسمانی میں موجود ہیں۔ اُن کا مدار آسمانِ دُنیا کے نیچے ہی ہے۔ کوئی ستارہ یا سیارہ پہلے آسمان سے اُوپر نہیں۔ یہ تمام سیارگانِ فلکی باری تعالیٰ کے حکم اور اُس کی تدبیر کے مطابق محوِ گردش ہیں۔ جیسا کہ اِرشاد ہے :

وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ.

(الاعراف، 7 : 54)

اور سورج چاند اور ستارے (سب) اُسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔

اِسی طرح ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا :

كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَO

(الانبياء، 21 : 33)

تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیںo

4۔ کائنات کی حدُود اِس نوعیت کی نہیں ہیں کہ اُنہیں چُھوا نہ جا سکے یا اُن کے آرپار آنا جانا نا ممکن ہو۔ قرآن و حدیث سے یہ اَمر ہرگز ثابت نہیں کہ اِنسان آسمانوں کے پار نہیں جا سکتا، بلکہ اِس کا عقلی و شرعی اِمکان خود قرآن سے یوں ثابت ہے۔

اﷲ ربُّ العزت نے جنوں کے ساتھ اِنسانوں کو بھی مخاطب کیا اور فرمایا :

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍO

(الرحمن، 55 : 33)

اے گروہِ جن و اِنسان! اگر تم میں سماوِی کائنات کی قطاروں اور زمین (کی حدود) سے باہر نکلنے کی اِستطاعت رکھتے ہو تو (ضرور) نکل دیکھو، طاقت (و صلاحیّت) کے بغیر تم (یقینا) نہیں نکل سکتےo

اِسی آیتِ کریمہ کے مفہوم کا ایک مفاد یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان کے کناروں سے تو باہر نکل سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کی حدُود سے نہیں نکل سکتا۔ سائنس تخلیقِ سماوِی کے باب میں بھی قرآن کے اَحکامات کی تصدیق کرتی ہے۔

لفظِ سمآء کے مختلف قرآنی اِستعمالات کے بعد اَب ہم سات آسمانوں سے متعلق کچھ جدید سائنسی نظریات پیش کرتے ہیں تاکہ قرآنی بیانات کی صحت و صداقت جدید ذِہن پر آشکار ہو سکے اور وہ اُس کے کلامِ الہٰی ہونے پر یقینِ کامل پا سکے۔

سات آسمانوں کی سائنسی تعبیر

قرآنِ مجید سات آسمانوں کی موجودگی اور اُن کے مابین ہم آہنگی کا تصوّر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اِن آیات میں واضح کی گئی ہے :

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا.

(الملک، 67 : 3)

(بابرکت ہے وہ اﷲ) جس نے سات (یا متعدّد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے۔

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO

(البقره، 2 : 29)

پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے اُنہیں درُست کر کے اُن کے سات آسمانی طبقات بنا دیئے، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہےo

أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًاO

(نوح، 71 : 15)

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے کس طرح سات آسمانی طبقات اُوپر تلے پیدا کر رکھے ہیںo

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَO

(المؤمنون، 23 : 17)

اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرّۂ ارضی کے گِرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مِقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھےo

اگرچہ سات آسمانوں کے کچھ رُوحانی معانی اور توجیہات بھی بہت سی تفاسیر میں پیش کئے گئے ہیں۔ ۔ ۔ اور ہم اُن کی تائید کرتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر اُس کے ساتھ ساتھ طبیعی کائنات، اُس کے خلائی طبقات، اَجسامِ سماوِی اور خلاء اور کائنات سے متعلقہ کچھ سائنسی اور فلکیاتی توضیحات بھی ہمارے علم میں آئی ہیں۔ یہ طبیعی موجودات رُوحانی اور مابعد الطبیعی موجودات کے عینی شواہد بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اِن دونوں میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے۔

پہلی وضاحت۔ ۔ ۔ سات آسمانوں کا کائناتی تصوّر

قرآنِ حکیم نے اپنی بہت سی آیات میں سات آسمانوں کا ذِکر کیا ہے۔ گزشتہ 200 سال سے کائنات سے متعلق ہونے والی انتھک تحقیقات کے باوُجود ہم ابھی اِس بارے میں سائنسی بنیادوں پر حتمی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ صرف حالیہ چند عشروں (decades) میں فلکی طبیعیات کے سلسلے میں چند اِنتہائی دِلچسپ دریافتیں ہوئی ہیں اور اُن سے معجزۂ قرآن کی حقانیت ثابت ہو گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات کے ذریعے اِنسان نے جو کچھ بھی دریافت کیا ہے وہ سمندر میں سے فقط ایک قطرہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن پھر بھی اُس نے کم از کم اپنی پچھلی دو صدیوں کی خطاؤں کو تسلیم کرنا شروع کر دِیا ہے۔

ترکی کے نامور محقّق ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق کائنات متنوّع مقناطیسی تہوں کی عکاسی کرتی ہے۔ پہلی اور مرکزی تہ بے شمار ستاروں سے بننے والی کہکشاؤں اور اُن کے گروہوں پر مشتمل ہے۔ اُس کے اُوپر واقع دُوسری تہ بہت سی مِقناطیسی خصوصیات کی حامل ہے، جو قواسرز (quasars) پر مشتمل ہے، جنہیں ہم ستاروں کے بیج بھی کہہ سکتے ہیں۔ قواسرز کائنات کے قدیم ترین اَجرام ہیں جو بہت زیادہ ریڈشفٹ چھوڑتے ہیں۔ اُس کے گِرد تیسری مِقناطیسی پٹی ہے جو کائنات کے سِفلی مقامات کو اپنے حلقے میں لئے ہوئے ہے۔

سب سے اندرونی دائرہ اور خاص طور پر ہمارا اپنا نظامِ شمسی اپنے تمام سیاروں کے خاندان سمیت ہمارے لئے زمین پر رہتے ہوئے سب سے آسان قابلِ مُشاہدہ علاقہ ہے۔ اس نظام کی اندرونی ساخت تین الگ الگ مِقناطیسی میدانوں پر مُشتمل ہے۔

سب سے پہلے تو ہر سیارہ ایک مِقناطیسی میدان کا مالک ہے، جو اُس سیارے سے اِردگرد واقع ہوتا ہے۔ پھر اُس کے بعد نظامِ شمسی کے اِمتزاج سے تمام سیارے ایک دُوسری مقناطیسی پٹی تشکیل دیتے ہیں۔ مزید برآں ہر نظامِ شمسی اپنی کہکشاں کے ساتھ ایک الگ وسیع و عریض مِقناطیسی علاقے کی بنیاد رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ کم از کم ایک کھرب ستارے یا سورج تو صرف ہماری کہکشاں (Milky Way) میں شامل ہیں۔ مزید اعلیٰ سطح پر آس پاس واقع کہکشائیں کلسٹرز (کہکشاؤں کے گروہ) کے ایک اور مِقناطیسی میدان کا باعث بن جاتی ہیں۔ تبھی تو جب ہم زمین سے آسمان کی طرف نظر کرتے ہیں تو سات ایسی مِقناطیسی پٹیوں میں گِھرے ہوئے ہوتے ہیں جو خلاء کی بیکرانی میں پسپائی اِختیار کر چکی ہوں۔ اگر ہم زمین سے کائنات کی وُسعتوں کی طرف نظر دَوڑائیں تو سات آسمان اِس ترتیب سے واقع ہیں :

  1. پہلا آسمان : وہ خلائی میدان، جس کی بنیاد ہم اپنے نظامِ شمسی کے ساتھ مل کر رکھتے ہیں۔
  2. دُوسرا آسمان : ہماری کہکشاں کا خلائی میدان ہے۔ یہ وہ مِقناطیسی میدان ہے جسے مِلکی وے کا مرکز تشکیل دیتا ہے۔
  3. تیسرا آسمان : ہمارے مقامی کلسٹر (کہکشاؤں کے گروہ) کا خلائی میدان ہے۔
  4. چوتھا آسمان : کائنات کا مرکزی مِقناطیسی میدان ہے، جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے۔
  5. پانچواں آسمان : اُس کائناتی پٹی پر مشتمل ہے جو قواسرز (quasars) بناتے ہیں۔
  6. چھٹا آسمان : پھیلتی ہوئی کائنات کا میدان ہے، جسے رِجعتِ قہقری کی حامل (پیچھے ہٹتی ہوئی) کہکشائیں بناتی ہیں۔
  7. ساتواں آسمان : سب سے بیرونی میدان ہے، جو کہکشاؤں کی لامحدود بیکرانی سے تشکیل پاتا ہے۔

اِن سات تہ در تہ آسمانوں کا ذِکر قرآنِ مجید نے آج سے 14 صدیاں پہلے واشگاف اَنداز میں کر دِیا تھا۔ (سات آسمانوں سے متعلقہ آیاتِ مبارکہ سابقہ صفحات میں گزر چکی ہیں)۔

دُوسری وضاحت۔ ۔ ۔ سات فلکیاتی تہیں

سات آسمانوں کے تصوّر کو ذرا واضح انداز میں سمجھنے کے لئے ہم فلکی طبیعیات سے متعلقہ چند مزید معلومات کا مختصر ذِکر کریں گے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ مذکورہ بالا آسمانی تہوں کے درمیان ناقابلِ تصوّر فاصلے حائل ہیں۔

  1. پہلی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ کم و بیش 65 کھرب کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔
  2. دُوسری آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو ہماری کہکشاں کا قطر بھی ہے۔ ۔ ۔ ایک لاکھ 30 ہزار نوری سال وسیع ہے۔
  3. تیسری آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو ہمارا مقامی کلسٹر ہے۔ ۔ ۔ 20 لاکھ نوری سال کی حدُود میں پھیلی ہوئی ہے۔
  4. چوتھی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کا مجموعہ ہے، اور کائنات کا مرکز تشکیل دیتی ہے۔ ۔ ۔ 10 کروڑ نوری سال قطر پر محیط ہے۔
  5. پانچویں آسمانی تہ۔ ۔ ۔ ایک ارب نوری سال کی مسافت پر واقع ہے۔
  6. چھٹی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ 20 ارب نوری سال دُور ہے۔
  7. ساتویں آسمانی تہ۔ ۔ ۔ اُس سے بھی کئی گنا آگے ہے، جس کا اَندازہ کرنا محال ہے۔

ایک آسمان سے دُوسرے آسمان تک کا جسمانی سفر ناممکن ہے، جس کا پہلا سبب روشنی سے کئی گنا زیادہ بے تحاشا رفتار کا عدم حصول ہے اور اُس کا دُوسرا سبب کائنات میں ہر سُو بکھری مِقناطیسی قوّتوں پر نوعِ اِنسانی کا حاوِی نہ ہو سکنا ہے۔ ان آسمانوں کی حدُود سے گزرنے کے لئے ضروری ہے کہ رَوشنی سے زیادہ رفتار حاصل کی جائے، روشنی کی رفتار کا حصول چونکہ مادّی اَجسام کے لئے قطعاً ناممکن ہے اِس لئے اِس کا دُوسرا مطلب یہ ہوا کہ 'مادّے کی دُنیا سے نجات' حاصل کی جائے۔ ایسا عظیم سفر مادّی اَجسام سے تو ممکن نہیں البتہ رُوح اپنے اِرتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد ایسا کرنے پر قادِر ہو سکتی ہے۔

تیسری وضاحت۔ ۔ ۔ لامُتناہی اَبعاد

سات آسمانوں کے بارے میں لامُتناہی اَبعاد کا تصوّر بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مختلف آسمانوں میں موجود عالمِ مکاں مختلف اَبعاد کا حامل ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے سات آسمانوں کا تصوّر سات جدا جدا خلائی تسلسلوں کے تصوّر کو بھی شامل ہے۔ چونکہ ہم ابھی تک وقت سمیت چار سے زیادہ اَبعاد کو محسوس نہیں کر سکتے لہٰذا ہمارے لئے فی الحال اِن لامتناہی اَبعاد کو کاملاً سمجھ سکنا ممکن نہیں۔

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Re: ))))Vu & Company(((( حضرت محمّد ﷺ کی ہستی سیرت اور کردار میں دنیا بھر کے لئے بہترین نمونہ

Nice.

On 26 Jan 2016 3:02 pm, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:

دنیا بھر کے تھنک ٹینک اور شماریاتی اداروں کی تحقیق کے مطابق آج کی دنیا کو اس وقت جن چیلنجز یا خطرات کا سامنا ہے ان کی لسٹ کم و بیش دس مسائل کے گرد گھومتی ہے اس وقت دنیا کا سب سے بڑ ے مسائل میں سے ماحولیاتی آلودگی ، قدرتی وسائل وتوانائی کے ذرائع کی کمی ، دنیا بھر میں مختلف ممالک میں دولت کی غیرمساوی تقسیم ، مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سپر پاورز حکومتوں پر ضرورت سے زیادہ اثراندازی ، نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوڑ اور بین الاقوامی جنگیں ، آبادی کی مسائل ، نسل پرستی و امتیاز ی سلوک، مختلف تنازعات کے مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے جنگوں کی خواہش و دہشت گردی ، مذہبی بنیاد پرستی وتنگ نظری ، اورمختلف قوم پرستوں یا مذاہب کا پوری دنیاکے نظام پر قبضہ کرنے کی خواہش شامل ہیں
جس ذات بابرکات ﷺ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خاتم النبین ﷺ کا تاج پہنا کر اس دنیا میں بھیجا اور جنہیں دنیا بھر کے لیے بہترین نمونہ کہاکیا ان کی تعلیمات میں دنیا بھر کے مسائل کا حل پوشیدہ ہے یا نہیں ؟ تو جواب ہے یقیناموجود ہے کیونکہ تاریخ عالم میں ایسی ایک ہی ہستی ہے جس کے اندر سارے کمالات بدرجہ اتم موجود ہیں کہ وہ ہر شعبہ زندگی کے لیے نمونہ ثابت ہو اور وہ بلاشبہ ہمارے پیارے نبی مکرم ﷺ کی ذات بابرکات ہے
حضورنبی کریم ﷺ کی ذات وہ ہے جس نے اپنی سیرت وکردار سے دنیا بھر کو ایک اچھے انسان کی تعریف وضع کر کے دی اور دنیا اگر ترقی کے ساتویں آسمان پر پہنچ جائے تو بھی ایک اچھے انسان کی ان خصوصیات کا انکار نہیں کر سکتی مثلا ً آپ ﷺ نے اصول وضع کیا کہ اچھا انسان سچا ہوتا ہے ، امین ہوتا ہے، وعدوں کی پاسداری کرنے والا،نرم مزاج، انتقام لینے کی بجائے درگزر اورمعاف کرنے والا ہوتا ہے، دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والا ، اچھے اخلاق والا ، اچھی گفتاروالا ، یتیموں غریبوں اور کمزوروں کا سہارا بننے والا ہوتا ہے دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا فلسفی ان خصوصیات کو ایک اچھے انسان کی خوبیوں میں سے نہیں نکال سکتا 
آپ ﷺ نے اچھے انسانوں کی اطوارکا بھی تعین کر دیا اور دنیا بھر کو مینرز سمجھائے مثلاً آپ نے اپنے کردارسے دنیا کو بتایا کہ اچھی انسان کی خصوصیات میں سے پہلی شرط اس کی صفائی ستھرائی ہے دن میں کم از کم دو دفعہ دانتوں کو صاف کرنے کا اصول ، خوش لباسی کا اصول ، صاف ستھرے کپڑے پہنے کا اصول ، بالوں میں کنگی کرکے انہیں سنوارنے کا اصول ، خوشبو سے محبت کرنے کا اصول ، پرفیوم استعمال کرنے کا اصول یہ سب اصول آپ ﷺ نے اس وقت دنیا میں روشناس کرائے جب میڈیکل سائنس اور عام انسان ان کی اہمیت سے واقف بھی نہیں تھے
آپ ﷺ نے اخلاقیات کا بھی اصول دنیا بھر میں متعارف کرایا اخلاق کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان کے چہرے پر مسکراہٹ اورتبسم یعنی سمائیل ہو وہ جب کسی سے گفتگو کرے تو اچھے الفاظ کا استعمال کرے دھیمے لہجے میں گفتگو کرے ، اس کی گفتگو میں التفات ہواس میں دوسرو ں کی بات سننے کا حوصلہ ہو، جب ماحول مزاح کا ہو تو اخلاقا ً دلجوئی کا ماحول پیدا کردے اور جب کوئی جذباتی بات سنے تو آبدیدہ ہو جائے 
آپ ﷺ نے معذوروں کے حقوق کے بارے پوری دنیا کو ایک نمونہ سمجھا دیاکہ کسی کی معذوری پر ہنسنا نہیں بلکہ اس کی مدد کرنی ہے اسے برے ناموں سے نہیں پکارنا، ایک دفعہ حضورکریم ﷺ بازار سے جارہے تھے کہ دیکھا ایک اندھی عورت ٹھوکر کھا کر گرپڑی بازار کے لوگ اس کو گرتے دیکھ کر ہنسنے لگے لیکن آپ ﷺ یہ دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے فورا ً آگے بڑھ کر اس عورت کو اٹھایا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکے گھر تک پہنچا دیا مدینہ منورہ میں ایک پاگل عورت رہتی تھی ایک دفعہ آپ ﷺ کے پاس آئی اور آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر کہا "اے محمد مجھے آپ سے کام ہے میرے ساتھ چلیں " آپﷺ نے جواب دیا ہاں کیوں نہیں جہاں کہو گی چلو ں گا وہ ہاتھ پکڑ کر آپ ﷺ کو گلی میں لیکر چلتی رہی اور آپ ﷺ پیکر رحمت و الفت بن کر اس کے ساتھ چلتے رہے ، وہ ایک گلی میں جا کر بیٹھ گئی تو آپ ﷺ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے (صحیح مسلم ) 
آپ ﷺ نے برداشت کا اصول بھی دنیا کو دیا عبداللہ بن ابئی منافق تھا ساری عمر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا رہا واقعہ افک میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگانے والوںمیں سے تھا حضور نبی کریم ﷺ کو اس کی ساری حرکتوں کا علم تھا لیکن ہمیشہ درگزر فرما یا حتی ٰ کہ اس کی موت پر نمازہ جنازہ بھی پڑھی کفار مکہ تیرہ سال تک سروردوعالم ﷺکے نام لیواﺅں کو ستاتے رہے ظلم وہ ستم کا کوئی ایسا پہاڑنہیں تھا جو آپ ﷺ پر اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیم پر نہیں توڑا گیاحتی ٰ کہ آپ ﷺ کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور پھر مدینہ منور میں بھی آٹھ سال تک مکہ والوں نے سکون کا سانس نہیں لینے دیا لیکن اس کے باوجود جب سن آٹھ ہجری کو مکہ فتح ہوا تو ایسی مثال دنیا کے کسی فاتح کی نہیں ملتی جس نے اپنے بدترین اور ازلی دشمن کےلئے عام معافی کا اعلان کیا ہو
آپ ﷺ نے نباتات و حیوانات کے ساتھ سلوک کے اصول واضع کئے آپ ﷺنے فرمایا کہ "زندہ جانوروں کے اعضا نہ کاٹو ، جانوروں کو باندھ کر ان پر نشانہ نہ لگاﺅجانوروں کو آپس میں لڑانے سے باز رہو ، جانوروں کو بھوکا پیاسا کبھی نہ رکھو، جانوروں کے منہ پر نہ مارو ان کے جسم پر داغ نہ لگاﺅ ،جس بیل کو کھیتی باڑی کے لیے استعمال کرواس کو سواری کے لیے استعمال نہ کرو
آپ ﷺ نے اس وقت مزدور کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا جب دنیا ابھی صنعتی ترقی سے آشنا نہیں تھی آپ ﷺ نے ایک دفعہ لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا "اللہ تعالی ٰ کا ارشاد ہے تین قسم کے انسان ہیں جن سے میں قیامت کے دن جھگڑا کروں گا اور ان کو مغلوب و مقہور کرکے چھوڑوں گا ان میں سے ایک وہ شخص ہوگا جو مزدور سے کام تو پوری طرح لیتا ہے مگر اس کے مطابق اس کو اجرت نہ دیتا ہو آپ ﷺ نے دنیا کو مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دینے کا اصول متعارف کرایا " 
اب جاننے کی کوشش کرتے ہیں‌کہ دور جدید کے مسائل سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں‌ ہمیں‌کہاں نظر آتا ہے ،آج کا ترقی یافتہ دور اپنی سائنسی ترقی سے اگر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ دنیا بھر کے مسائل میں سب سے پہلا مسئلہ ماحولیاتی آلودگی ہے تو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اس دور میں شجر کاری کا حکم دیااور گلیوں بازاروں کو کوڑا کرکٹ او ر نجاست سے پاک رکھنے کا حکم اس وقت دیا جب یہ مسائل دنیا کی ہٹ لسٹ پر ایک خطرہ کے طور پر موجود نہیں تھے آج اگرماہرین پانی جیسے قدرتی وسائل کی بچت کا سبق دیتے نظر آتے ہیں تو ہمیں حضور نبی کریم ﷺ پانی کے ضیاع کو وضو جیسی عبادت میں بھی منع فرماتے نظر آتے ہیں آج جب دنیا بھر کی کمپنیاں فوڈ ضائع نہ کرنے کا سبق دیتی ہیں تو وہ کون سی ذات ہے جو روٹی کا ٹکڑا زمین پر گر جانے کے بعد بھی اسے ضائع نہ کرنے کی سبق دیتی نظر آتی ہے اور اصراف سے منع کرتے نظر آتے ہیںدنیا بھر میں دولت کی غیر مساوی تقسیم ، کیپٹل ازم کے ستائے ہوئے تیسری دنیا کے ممالک اور مسائل کو جنگوں کی ذریعے حل کرنے والی سپر پاورز ذرا جا کر میثاق مدینہ کا مطالعہ کریں کہ کسی طرح آپ ﷺ کی لیڈرانہ فہم و فراست نے لوگوں کے دلوں کو جوڑ دیا اور انہیں آپس میں بھائی بھائی بنا دیا ، جو لوگ آج مذہبی انتہا پسندی اور تنگ نظری کودنیا بھر کے خطرات میںہٹ لسٹ میں بتاتے نظر آتے ہیں وہ ذرا جا کر ریاست مدینہ کی تاریخ کا نظارہ کر یں کہ کس طرح آپ ﷺ کی ذات نے مختلف مذاہب کے لوگوں کو لکم دینکم و لی دین کے زریں اصول کے تحت ایک معاہدہ میں جوڑ دیا جو لوگ ریس ازم یا نسل پرستی و قوم پرستی کو دنیا کے بڑے خطرات میں شامل کرتے ہیں انہیں شاید خطبہ حجتہ الوداع کا مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا جس میں آپ نے ایک واضع اصول پوری دنیا کوسمجھا دیا کہ نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت ہے اور نہ ہی کسی عجمی کوکسی عربی پر نہ کوئی گورا کسی کالے سے افضل ہے اور نہ ہی کوئی کالا کسی گورے سے زیادہ بزرگی او ر فضیلت والا ہے " اس طرح رحمت للعالمین نے پوری دنیاکو ایک بلند ترین نظریہ دے دیا اور نسلی امتیازات میں ہچکولے کھاتی ہوئی دنیا کے قدیم و جدید فلسفیوں کو ان دو مختصر سے جملوں میں اسلام کا جامع پیغام دے دیا کہ انسان رنگ ، نسل ، وطن ، زبان ، معیشیت اور سیاست کی غیر عقلی تقسیم و تفریق سے بچ جائے 

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Re: ))))Vu & Company(((( اَجرامِ فلکی کی بابت اِسلامی تعلیمات (پارٹ 2)

Nice

On 28 Jan 2016 12:46 pm, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:


قرآنِ مجید میں دُمدار تاروں کو ''اَلْخُنَّس'' اور ''اَلْجَوَارُ الْکُنَّس'' کے لفظوں میں اِس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ کبھی ظاہر ہوتے ہیں اور پھر عرصۂ دراز کے لئے چھپ جاتے ہے۔

صاحبِ قاموس المحیط لکھتے ہیں :

الکنّس : هی الخنّس، لأنّها تکنس في المغيبِ.

(القاموس المحيط، 2 : 256)

''الکنس'' کا معنی چھپنا اور گم ہو جانا ہے۔ وجہِ تسمیہ اُس کی یہ ہے کہ وہ comet (طویل عرصے کے لئے) کسی نادِیدہ مقام میں کھو جاتا ہے۔

سورج (The Sun)

سورج۔ ۔ ۔ جو ہماری زمین کے لئے روشنی اور حرارت کا سب سے بڑا منبع ہے اور جس کے بغیر کرۂ ارضی پر نباتاتی، حیوانی یا اِنسانی کسی قسم کی زِندگی کا کوئی تصوّر ممکن ہی نہ تھا۔ ۔ ۔ دراصل وہ معمولی درجے کا ایک ستارہ ہے۔ سورج چونکہ باقی ستاروں کی نسبت ہم سے بہت زیادہ قریب واقع ہے اِس لئے وہ ہمیں بہت بڑا اور گرم دِکھائی دیتا ہے اور دِن کو اُس کی کرۂ ارضی پر چھا جانے والی روشنی میں دُور دراز کے ستارے نظر آنا بالکل بند کر دیتے ہیں۔

سورج کی روشنی ہمارے لئے زِندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اِرشادِ باری تعالی ہے :

هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً.

(يونس، 10 : 5)

وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا۔

ایک اور مقام پر فرمایا :

وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًاO

(نوح، 71 : 16)

اور سورج کو (ایک روشن) چراغ بنایا ہےo

سورج کی روشنی کا باعث اُس کے اندر ہونے والے شدید ایٹمی دھماکے ہیں۔ سورج عام طور پر ہائیڈروجن اور ہیلئم پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں نہایت لطیف گیسیں ہیں۔ سورج کے مرکز میں ایک بڑا نیو کلیائی ری ایکٹر ہے جس کا درجۂ حرارت کم از کم 1,40,00,000 سینٹی گریڈ (2,50,00,000 فارن ہائیٹ) ہے۔ سورج نیوکلیئرفیوژن کے ذریعے توانائی کا یہ عظیم ذخیرہ پیدا کرتا ہے۔ اُس نیوکلیائی عمل کے دوران اُس میں موجود ہائیڈروجن ہیلئم میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی ہے، جس سے روشنی اور حرارت کی صورت میں شدید توانائی کا اِخراج عمل میں آتا ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے نیوکلیئرفیوژن کے ذریعے پیدا ہونے والی اُس شدید حرارت کا ذِکر یوں فرمایا ہے :

وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًاO

(النباء، 78 : 13)

اور ہم نے (سورج کو) روشنی اور حرارت کا (زبردست) منبع بنایاo

اِتنے عظیم درجۂ حرارت کو برقرار رکھنے کے لئے سورج 40,00,000 ٹن فی سیکنڈ کی شرح سے توانائی کی صورت میں اپنی کمیّت کا اِخراج کر رہا ہے۔

گردشِ آفتاب

اِنسانی زندگی کی قدیم تاریخ میں سورج کو بالعموم زمین کے گرد محوِگردش خیال کیا جاتا تھا۔ فیثا غورث نے تاریخِ علوم میں پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین سورج کے گرد گردِش کرتی ہے۔ بعد ازاں کوپر نیکس سے پہلے ایک نامور مسلمان سائنسدان 'زرقالی' نے بھی 1080ء میں زمین کی سورج کے گرد گردِش کا نظریہ پیش کیا۔ سورج اور زمین کی گردِش کے بارے میں مختلف نظریات الگ باب ''سائنسی طریقِ کار اور اِقدام و خطاء کا تصوّر'' میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ سائنسی علوم کی تاریخ میں یہ جھگڑا ہمیشہ سے برقرار رہا ہے کہ سورج ساکن ہے اور زمین سورج کے گرد گردِش کرتی ہے یا زمین ساکن ہے اور سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد محوِ گردش ہے اور سورج بھی ساکن نہیں ہے جیسا کہ قدیم نظریات میں خیال کیا جاتا تھا۔

ہماری کہکشاں ملکی وے (Milky Way) دراصل ایک چکردار کہکشاں ہے۔ اُس کے چار بازو ہیں جن میں واقع کروڑوں ستارے کہکشاں کے مرکز کے گرد گردِش کر رہے ہیں۔ سورج بھی اپنے ساتھی ستاروں کی طرح کہکشاں کے مرکز سے 30,000 نوری سال کے فاصلے پر ''اورِین آرم'' (Orion Arm) میں واقع ہے اور کہکشاں کے مرکز کے گرد 22,00,00,000 سال میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔

سورج کی اِس گردِش کو اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے، فرمایا :

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِO

(يسين، 36 : 38)

اور سورج اپنے لئے مقرر کردہ راستے پر چلتا ہے، یہ (راستہ) غالب علم والے (اللہ) کا مقرر کردہ ہےo

شمسی تقوِیم (Solar calendar)

سورج ہمارے لئے وقت کی پیمائش کا ایک قدرتی ذریعہ ہے۔ دِنوں اور سالوں کا تعین و شمار کرنا اُسی کے ذرِیعے ممکن ہے۔ زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر 365 دن، 5 گھنٹے، 48 منٹ اور 47.4624 سیکنڈ میں پورا کرتی ہے۔ شمسی سال کی اصل طوالت بعینہ یہی ہے۔ عام سال چونکہ 365 دِنوں کا ہوتا ہے اِس لئے بچ رہنے والے گھنٹوں کو پورا کرنے کے لئے ہر چوتھے سال کو لیپ کا سال قرار دے کر اُس میں ایک دِن کا اِضافہ کر کے 366 دِن بنا لئے جاتے ہیں، جس سے 'معیاری سال' میں چند منٹوں کا اِضافہ ہو جاتا ہے جسے کامل دِنوں کی صورت میں پورا کرنے کے لئے 4,000 سال بعد تک بھی دِنوں میں کمی و بیشی کرنا پڑے گی۔ سال کی صورت میں وقت کی پیمائش کا ایک ہی بہترین ذرِیعہ 'سورج' ہے، جو ایک طرف ماہرینِ فلکیات کے لئے اَجرامِ فلکی کے ظہور و خفا کا تعین کرنے میں مُمِد ہوتا ہے تو دُوسری طرف ایک گنوار کسان کو موسموں کے تغیر و تبدل اور فصلوں کی بوائی و کٹائی کے موزوں وقت سے بھی آگاہ کرتا ہے۔

سورج کی طرح چاند بھی قمری تقوِیم کے تعین اور مہینوں کے شمار کا سادہ اور فطری ذریعہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے سورج اور چاند دونوں کو وقت کی پیمائش کا ذرِیعہ بنایا۔

اِس سلسلے میں اِرشادِ ایزدی ہے :

الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍO

(الرحمن، 55 : 5)

سورج اور چاند معلوم اور مقررّہ (فلکیاتی) حسابات کے مطابق (محوِ حرکت) ہیںo

سورج سمیت تمام ستاروں میں ہائیڈروجن اور ہیلئم کی ایک بڑی مقدار موجود ہے، جو جلتے ہوئے روشنی اور حرارت خارِج کرتی ہے۔ کسی ستارے کا اِیندھن جل کر ختم ہو جاتا ہے تو وہ 'سرخ ضخام' (red giant) کی صورت میں پھول جاتا ہے، جس کے بعد وہ بتدرِیج سُکڑنے اور ٹھنڈا ہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ مکمل بے نور ہو جاتا ہے۔ سورج کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گا۔ سورج ستاروں کے جس قبیل سے تعلق رکھتا ہے اُس حساب سے اُس کی کل عمر 9 ارب سال کے لگ بھگ ہے، جس میں سے ساڑھے چار ارب سال وہ گزار چکا ہے، گویا وہ عہدِ شباب میں ہے۔ آج سے ساڑھے چار ارب سال بعد جب اُس کا اِیندھن جل جل کر مکمل طور پر ختم ہو جائے گا تو وہ بھی دُوسرے ستاروں کی طرح بُجھ کر بے نور ہو جائے گا۔

اَحوالِ قیامت کے ضمن میں سورج کے بُجھ کر بے نور ہو جانے کے بارے میں اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں فرمایا :

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْO

(التکوير، 81 : 1)

جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گاo

سورۂ تکویر میں علاماتِ قیامت کے ضمن میں سب سے پہلی علامت سورج ہی کے بے نور ہونے کو قرار دِیا گیا۔ کتنی بڑی سائنسی صداقت جس تک پہنچنے میں آج کے اِنسانی علوم کے پیچھے صدیوں کا شعور کارفرما ہے، قرآنِ مجید نے ایک ہی جملے میں بیان کر دی۔

سیارے (Planets)

کائنات کی اوّلین تشکیل کے وقت 'بگ بینگ' (Big Bang) کے بعد اِبتدائی مادّہ جو بالعموم گیسی صورت میں تھا، ہر سُو بکھر گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا درجۂ حرارت کم ہوتا چلا گیا اور اربوں نوری سال کی مسافت میں بکھرنے والا وہ مادّہ کروڑوں اربوں مرکزوں پر مجتمع ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ہر بڑے مرکز کے اندر بے شمار چھوٹے مراکز اور اُن چھوٹے مراکز کے قرب و جوار میں اُن سے بھی چھوٹے مرکزے نمو پانے لگے۔ بڑے مراکز کہکشائیں قرار پائیں اور اُن کے اندر واقع چھوٹے مراکز کا مادّہ سُکڑ کر آہستہ آہستہ ستاروں کی شکل اِختیار کرتا چلا گیا۔ یونہی اُس کے آس پاس موجود مادّے کے معمولی حصے اُن 'نیم ستاروں' (protostars) کے گرد گھومتے ہوئے سُکڑنے اور سیارے بننے لگے اور وقت کے ساتھ ساتھ اکثر ستاروں کے گرد اُن کے اپنے 'نظام ہائے شمسی' وُجود میں آ گئے۔ ہمارا سورج بھی دراصل اُنہی میں سے ایک ستارہ ہے۔ کائنات میں اِس جیسے بے شمار ستارے موجود ہیں، جن کے گرد اُن کے اپنے سیاروں کے نظام واقع ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اُن میں سے کچھ میں زِندگی بھی پائی جاتی ہو مگر اُن کی بے پناہ دُوری کی وجہ سے ابھی کچھ کہنا قبل اَز وقت ہو گا۔

نظامِ شمسی سورج سمیت بہت سے ایسے اَجسام پر مشتمل ہے جو اُس کی کششِ ثقل کے پابند ہو کر اُس کے ساتھ ایک مربوط نظام کی صورت میں بندھے ہوئے اُس کے گرد محوِ گردش ہیں۔ نظامِ شمسی کی اِبتدائی تخلیق کے وقت دِیگر ستاروں کی طرح سورج کے گرد گردِش کرنے والے 9 بڑے اور ہزاروں چھوٹے گیسی مرغولے اوّلیں عناصر کے دباؤ کے تحت مائع (یعنی لاوا) کی شکل اِختیار کرتے چلے گئے، جن سے بعد میں 9 سیارے اور کروڑوں اربوں سیارچے وُجود میں آئے۔

ہمارا نظامِ شمسی ایک سورج، 9 سیاروں، 61 چاندوں اور بے شمار دُمدار تاروں اور سیارچوں پر مشتمل ہے۔ سیاروں میں مشتری، زُحل، یورینس اور نیپچون بہت بڑے ہیں، باقی سیارے اُن سے بہت چھوٹے ہیں۔ ہماری زمین بھی اُنہی میں سے ایک ہے۔ تمام سیارے سورج کے گرد ایک ہی رُخ میں بیضوِی مدار میں سفر کر رہے ہیں۔ سورج سے فاصلے کی بنیاد پر اُن کی ترتیب یوں ہے :

  1. عطارُد (Mercury)
  2. زُہرہ (Venus)
  3. زمین (Earth)
  4. مِرّیخ (Mars)
  5. مُشتری (Jupiter)
  6. زُحل (Saturn)
  7. یورینس (Uranus)
  8. نیپچون (Neptune)
  9. پلوٹو (Pluto)

اللہ ربّ العزت نے نظامِ شمسی کے لئے قرآنِ مجید میں ''سماء الدنیا'' کا لفظ اِستعمال کیا ہے، اِرشاد ہوتا ہے :

إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِO

(الصافات، 37 : 6)

بیشک ہم نے آسمانِ دُنیا کو سیاروں کی زینت سے آراستہ کیاo

اِس آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے سورج کے گرد محوِ گردِش سیاروں کا ذِکر کرتے ہوئے نظامِ شمسی کو آسمانِ دُنیا (یعنی زمین سے قریب ترین آسمان) قرار دیا ہے۔ 'سات آسمانوں کا قرآنی تصوّر' متعلقہ باب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

تمام سیاروں کے اپنے مدار میں محوِ گردش ہونے کے بارے میں اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں اِرشاد فرمایا :

إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَO

(يٰسين، 36 : 40)

اور تمام (اَجرامِ فلکی) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیںo

یہ آفتاب و ماہتاب اور یہ سیارگانِ فلکی کی ریل پیل ہمارے آسمان کو کتنا دِلکش و دِلنشیں بناتی ہے مگر یہ سب آرائش عارضی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کی طرح نظامِ شمسی کے سیاروں کو بھی ایک روز فنا ہونا ہو گا۔ سورج کی موت اُنہیں بھی موت سے ہمکنار کر دے گی۔ اُن میں سے بعض قریبی سیارے سورج میں جا گریں گے تو بیرونی سیارے اِس نظام سے رُوگرداں ہو کر نظامِ شمسی کی حدوں سے اُس پار واقع کھلے آسمان کی وُسعتوں میں بھی کھو سکتے ہیں۔ سیاروں کی سورج کے گرد گردِش کا عارضی اور وقتی ہونا اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں بھی بیان فرمایا ہے۔

اِرشادِ خالقِ کائنات ہے :

كُلٌّ يَجْرِي لِأََجَلٍ مُّسَمًّى.

(الرعد، 13 : 2)

ہر ایک اپنی مقررہ میعاد (میں مسافت مکمل کرنے) کے لئے (اپنے مدار میں) چلتا ہے۔

تمام سیارے اور ستارے، اِس کائناتِ ارض و سما کی ہر شے اور تمام اَجرامِ فلکی و سماوِی ایک معینہ مدّت تک کے لئے زِندگی کی دَوڑ میں محوِگردش ہیں۔ ہر سیارے ہر ستارے کی اپنی ایک پیدائش ہے، زِندگی ہے اور پھر موت بھی ہے۔ کسی سیارے کی موت ہی اُس کی قیامت قرار پاتی ہے اور تمام ستاروں اور سیاروں کی اِجتماعی موت جو محتاط سائنسی اندازوں کے مطابق 'بگ کرنچ' (Big Crunch) کی صورت میں آج سے کم و بیش 65,00,00,00,000 سال بعد رُونما ہو گی وہ دِن اِس کائنات کی اِجتماعی قیامت کا دِن ہو گا۔

اِس کائناتِ پست و بالا کی اِجتماعی قیامت تمام کہکشاؤں میں واقع ستاروں کے گرد گردِش کرنے والے سیاروں کو اُن کے نظام سے بہکا دے گی اور وہ بھٹک کر اپنے ہی ستارے (جس کے نظام کا وہ حصہ ہیں) یا کسی دُوسرے ستارے سے جا ٹکرائیں گے۔

سیاروں کے اپنے مداروں سے بھٹک نکلنے اور بہک کر کسی دُوسری طرف جا نکلنے کا ذِکر اللہ تعالی نے علاماتِ قیامت کے ضمن میں قرآنِ مجید میں اِن الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے :

وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْO

(الانفطار، 82 : 2)

اور جب سیارے گِر کر بکھر جائیں گےo

سیاروں کے اپنے مداروں سے باہر نکل جانے اور اپنی موت کی طرف چلے جانے کو اللہ ربّ العزت نے کتنے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔

زمین (The Earth)

سیاروں کا نظام جو سورج سمیت اکثر ستاروں کے گرد پایا جاتا ہے، اُس میں واقع کچھ سیاروں میں زِندگی کا اِمکان بھی موجود ہے۔ تاہم ہمارے نظامِ شمسی میں صرف زمین ہی ایک ایسا سیارہ ہے جو متنوّع قسم کی اَنواعِ حیات سے معمور ہے۔ کسی سیارے پر زندگی کے پائے جانے کے لئے اُسے بقائے حیات کے لئے قدرت کی طے کردہ بہت سی کڑی شرائط پر پورا اُترنا پڑتا ہے۔ ہماری زمین اپنے اُوپر بسنے والی لاکھوں کروڑوں اَقسامِ حیات کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، جس کے باعث یہاں زِندگی پنپ سکی ہے۔ اگر یہ ماحول کسی دُوسرے ستارے کے گرد گردِش کرنے والا کوئی سیارہ بھی مہیا کر سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں زندگی کے آثار پیدا نہ ہوں۔

اِس کائنات میں ہماری زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر بھی زندگی واقع ہے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے بنی نوع اِنسان کو شروع دِن سے ہی تجسس میں مبتلا کر رکھا ہے اور موجودہ سائنسی ترقی کے باوُجود ہم اِس سوال کا جواب سائنسی بنیادوں پر دینے سے اُسی طرح قاصر ہیں جیسے آج سے پانچ ہزار سال پہلے کا آدمی، تاہم اِس سائنسی ترقی نے ہمیں اِتنا پختہ فکر ضرور کر دیا ہے کہ ہم زندگی کے وہ سارے لوازمات جو کسی سیارے میں نمو و بقائے حیات کے لئے ضروری ہوتے ہیں اُنہیں جان سکیں۔ نظامِ شمسی کی حد تک تو تمام سیاروں کے بارے میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہاں زِندگی کا کوئی اِمکان موجود نہیں۔ اندرونی سیارے بہت زیادہ گرم ہیں تو بیرونی سیارے بہت زیادہ ٹھنڈے۔ رہ سہ کر ہمسایہ سیارے مِرّیخ سے توقع تھی سو وہ بھی ختم ہو گئی ہے، جب 1976ء میں وائکنگ (Viking) نامی خلائی جہاز (probes) اُس کی سطح پر اُترے۔ اُن کی بھیجی گئی تصاویر اور رپورٹس نے تمام اُمیدوں کو ختم کر دیا اور یہ بات طے پا گئی کہ 'سرخ سیارہ' بھی نظامِ شمسی کے دِیگر سیاروں کی طرح زِندگی سے خالی ہے۔ مِرّیخ کی سطح پر کچھ آڑے ترچھے خطوط نظر آتے ہیں، جنہیں سولہویں صدی عیسوی کے اِنسانی شعور نے وہاں بسنے والی مخلوق کی کھودی ہوئی نہریں اور دریا قرار دیا، مگر وائکنگ (Viking) اور اُس جیسی دُوسری مہمّات نے یہ بات واضح کر دِی کہ نظامِ شمسی کے دِیگر سیّاروں کی طرح وہاں بھی زِندگی کا کوئی اِمکان نہیں۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ آج سے کم و بیش ایک ارب سال پہلے وہاں پانی موجود تھا۔ اب صرف قطبین پر تھوڑی برف جمی رہتی ہے۔ مِرّیخ کی سطح پر کچھ ہوا بھی موجود ہے، جس میں 'کاربن ڈائی آکسائیڈ'، 'آکسیجن' اور 'نائٹروجن' گیسیں شامل ہیں، جو زِندگی کے لئے ضروری ہیں، لیکن وہ زندگی کے بے شمار ایسے لوازمات سے عاری ہے جن کے بغیر کسی سیارے پر زِندگی پروان نہیں چڑھ سکتی۔

زمین اللہ ربّ العزت کی تخلیق کا ایک ایسا شاہکار ہے جس میں اُس کی اربوں نعمتیں وافر مقدار میں بکھری ہوئی ہیں۔ یہاں زِندگی کے لئے ضروری گیسیں ایک خاص تناسب کے ساتھ موجود ہیں اور پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ زمین لاکھوں سالوں سے اپنے سینے پر کاروانِ حیات کو لئے سورج کے گرد محوِ سفر ہے۔ زمین پر زِندگی کے لئے سازگار ماحول میں اُس کی کمیّت، سورج سے فاصلہ، درجۂ حرارت اور ہوا کے دباؤ کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ یہ اور اِس جیسے بے شمار دُوسرے لوازمات مل کر زمین کو اِس قابل بناتے ہیں کہ ہم یہاں سانس لے سکیں۔ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں جا بجا کرۂ ارضی کو عطا کردہ اپنی نعمتوں کا ذِکر کرتے ہوئے اِنسان کو اپنا شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے۔ سورۂ رحمن تذکرۂ نِعم سے بھری پڑی ہے۔ ان میں وہ نعمتیں بھی شامل ہیں جن سے ہم آگاہ ہیں اور روزانہ مُستفید ہوتے ہیں اور ایسی نعمتیں بھی شامل ہیں جن سے ہم آگاہ نہیں۔ جوں جوں سائنسی ترقی اِرتقاء کی منازِل طے کر رہی ہے خالقِ کائنات کے بے پایاں اِحسان و کرم کے راز بنی نوع اِنسان پر عیاں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

کرۂ ارضی پر اللہ ربّ العزت کی عام عطا کردہ نعمتیں بے شمار ہیں۔ ایک مقام پر چند نعمتوں کا ذِکر یوں آیا ہے :

قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّاقَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّاقَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّافَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّاO

(المؤمنون، 23 : 19 - 22)

پھر ہم نے تمہارے لئے اُس سے درجہ بدرجہ (یعنی پہلے اِبتدائی نباتات، پھر بڑے پودے، پھر درخت وُجود میں لاتے ہوئے) کھجور اور انگور کے باغات بنا دیئے، (مزید برآں) تمہارے لئے زمین میں (اور بھی) بہت سے پھل اور میوے (پیدا کئے) اور (اب) تم اُن میں سے کھایا کرتے ہوo اور یہ درخت (زیتون بھی ہم نے پیدا کیا ہے) جو طورِ سینا سے نکلتا ہے، جو تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن لے کر اُگتا ہےo اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں (بھی) غور طلب پہلو ہیں، جو کچھ اُن کے شِکموں میں ہوتا ہے ہم تمہیں اُس میں سے (بعض اَجزاء کو دُودھ بنا کر) پلاتے ہیں اور تمہارے لئے اُن میں (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں اور تم اُن میں سے (بعض کو) کھاتے (بھی) ہوo اور اُن پر اور کشتیوں پر تم سوار (بھی) کئے جاتے ہوo

آسٹرانومی کے نکتۂ نظر سے کرۂ ارضی پر جو نعمتیں موجود ہیں، اُن میں سورج سے مناسب فاصلہ (تاکہ زندگی کے لئے اوسط درجۂ حرارت اِعتدال سے تجاوُز نہ کر سکے) اور خلا کی عمیق وُسعتوں سے زمین کی طرف آنے والی مختلف اَقسام کی شعاع ریزی سے بچانے کو زمین کے اُوپر چڑھے اوزون (ozone) جیسے غلاف بھی نہایت اہم ہیں۔ یہ اللہ ربّ العزت کا خصوصی فضل ہے کہ اُس نے کرۂ ارضی کے گرد ہوا کا ایک خول چڑھا رکھا ہے، جس میں ہم سانس لیتے ہیں اور اُس خول کے اُوپر کچھ ایسی فضائی تہیں موجود ہیں جو زندگی کے لئے مُضِر اثرات کی حامِل شعاع ریزی کو سطح زمین تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں۔ اگر اوزون جیسے منطقے زمین کو چاروں اور سے گھیرے نہ ہوتے تو نہ صرف بیرونی خلا سے آنے والی شعاع ریزی بلکہ نظامِ شمسی میں اُڑنے پھرنے والے زمین کے آس پاس واقع لاکھوں آوارہ شہابیئے بھی بھٹک کر زمین کی طرف آ جاتے اور سطحِ زمین پر تباہی پھیلاتے۔

زمین کی بالائی فضا کی جانب اللہ ربّ العزت نے اہلِ زمین کے تحفّظ کے لئے جو سات تہیں بنائی ہیں اُن کا ذِکر قرآنِ مجید میں اِس طرح آیا ہے :

وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًاO

(النباء، 78 : 12)

اور (خلائی کائنات میں بھی غور کرو،) ہم نے تمہارے اُوپر سات مضبوط (طبقات) بنائے۔

اِسی طرح ایک اور مقام پر اپنی حکمتِ تخلیق کو عیاں کرنے کے لئے یہی بات اِن الفاظ میں بھی فرمائی :

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَO

(المؤمنون، 23 : 17)

اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرۂ ارضی کے گِرد فضائے بسیط میں اُس کی حفاظت کے لئے) سات (محفوظ) راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھےo

یہ اُس ربِّ ذُوالجلال ہی کی حکمتِ تدبیر ہے کہ اُس نے مخلوق کی حفاظت کے لئے اُسے اِتنے پردوں میں محفوظ مقام پر رکھا۔ خالقِ کائنات کے خلیفہ ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کے ہبوطِ ارضی کے لئے اربوں نوری سال کی وُسعتوں میں بِکھری کائنات کا کوئی سا بھی سیارہ چنا جا سکتا تھا، اللہ ربّ العزت نے اس کے لئے زمین کو چنا اور اُس کا ماحول ہر اِعتبار سے محفوظ و مامون کر دیا۔

سورۂ ملک میں کرۂ ارضی پر چڑھے حفاظتی غلافوں کا ذِکر کر کے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع اِنسان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اُس کی تخلیق کردہ حفاظتی پٹیوں میں نقص نکالے۔ اِرشادِ ایزدی ہے :

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَّا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِن فُطُورٍثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِأً وَهُوَ حَسِيرٌO

(الملک، 67 : 3 - 4)

(بابرکت ہے وہ اللہ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے بنائے، تو رحمن کی تخلیق میں کہیں تفاوُت نہیں دیکھے گا۔ دوبارہ نظر ڈال کیا کوئی فطور نظر آیاo (اے رحمن کی خدائی میں نقص کے متلاشی!) پھر دُہرا کر بار بار دیکھ لے تیری نگاہ تیری طرف ذلیل و عاجز ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گیo

زمین گیند کی طرح مکمل گول نہیں بلکہ ذرا سی پچکی ہوئی ہے۔ اُس کا قطبی قطر اِستوائی قطر کی نسبت چند کلومیٹر کم ہے۔ ایسا اُس کی محورِی گردِش میں تیزرفتاری کی وجہ سے ہے۔ زمین کا قطبی قطر 12,714 کلومیٹر جبکہ اِستوائی قطر 12,742 سے 12,756 کلومیٹر تک چلا گیا ہے۔ زمین کی شکل یوں دب کر خربوزے کی سی ہو گئی ہے۔ زمین کی کروِی حالت اور پھر اُس کا مکمل گول ہونے کی بجائے بیضوِی شکل میں ہونا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بھی بیان کیا ہے۔

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَاO

(النازعات، 79 : 30)

اور زمین کو اُس کے بعد بیضوِی شکل دے دیo

آج سے صدیوں قبل جب بالعموم دُنیا جہالت کے اٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھی، اور جہاں کہیں علم کی روشنی تھی بھی تو دُھندلائی ہوئی یونانی تحقیقات سائنسی بنیادوں پر سوچ کے تمام دروازوں کو مقفّل کر دیتی تھیں، ایسے میں پیغمبرِآخرُالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرآنِ مجید کی صورت میں اِتنے عظیم سائنسی حقائق کا اِعلان کرنا بجائے خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچا نبی اور اِسلام کے سچا دِین ہونے پر بہترین دلیل ہے۔

نظامِ شمسی کی اِبتدائی تخلیق کے وقت سورج کے گرد گردِش کرنے والے 9 بڑے اور ہزاروں چھوٹے گیسی مرغولے اوّلین عناصر کے دباؤ کے تحت مائع (یعنی لاوا) کی شکل اِختیار کرنے لگے، جن سے بعد میں 9 سیارے، اُن کے چاند اور بے شمار سیارچے وُجود میں آئے۔ زمین بھی اپنی اوّلین تخلیق کے وقت گیسی حالت میں سورج کے گرد محوِ گردش تھی اور وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مائع حالت اِختیار کرتی چلی گئی۔ مائع اور گیسی حالت پر مشتمل اِبتدائی زمین کے بھاری عناصر اُس کے مرکز کی طرف سمٹ کر اِکٹھے ہونے لگے اور ہلکے گیسی عناصر لاوے کے اُوپر غلاف کی صورت میں چڑھ گئے۔ رفتہ رفتہ لاوے کے اُوپر جھاگ نما تہ چڑھنے لگی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سخت ہوتی چلی گئی۔ اُس ٹھوس تہ کے نیچے گرم لاوا اُسی طرح مائع حالت میں رہا۔

لاوے کے اُوپر ٹھوس سطح کو وُجود مل جانے کے باوُجود زمین کی سطح اِس قابل نہ تھی کہ زِندگی اُس پر کسی بھی صورت میں پروان چڑھ سکتی۔ ابھی اُس کا ٹمپریچر بے اِنتہا شدید تھا اور وہ پانی کی نعمت سے بھی محروم تھی۔ پھر اُس کے بعد کرۂ ہوائی میں موجود گیسی عناصر میں کیمیائی تعامل ہوا جس کے نتیجے میں پانی نے جنم لیا اور یوں پورے کرۂ ارضی پر تاریخ کی پہلی اور طوِیل ترین مُوسلادھار بارِش ہوئی۔ یہ بارِش سالہا سال جاری رہی جس سے شدید گرم زمین پر ہر طرف جل تھل ہو گیا اور اُس کا درجۂ حرارت بھی نسبتاً کم ہونے لگا۔

لاوے اور گیسی غلاف کے درمیان موجود ٹھوس تہ، جو کافی سخت ہو چکی تھی، جن مقامات سے باریک (یعنی گہری) تھی بارش کا پانی اُن سمتوں میں بہ کر اِکٹھا ہونے لگا۔ یوں وسیع و عریض سمندر پیدا ہو گئے اور اُنہوں نے زمین کا بیشتر حصہ ڈھانپ لیا۔ اُس ٹھوس غلاف کے جو مقامات موٹے (یعنی بلند) تھے اُن کے اُوپر پانی نہ ٹھہر سکا اور وہ بتدرِیج براعظم اور سلسلہ ہائے کوہ بن گئے۔

زمین کو پیدا ہوئے 4,50,00,00,000 سال کا عرصہ گزر چکا مگر اُس کے باوُجود اُس کا مرکز اُسی لاوے پر مشتمل ہے اور شدید گرم ہے۔ 71 فیصد سطحِ ارضی پر پھیلے ہوئے سمندروں نے اُس کی حدّت کو کنٹرول کر کے ٹھوس خلاف کے اُوپر کے ماحول کا درجۂ حرارت اوسطاً 15 ڈگری سینٹی گریڈ کر رکھا ہے، جس سے وہ زندگی کے لئے سازگار ہوتا چلا گیا۔ آج بھی اگر کسی کیمیائی تعامل کے نتیجے میں سمندروں کا پانی ختم ہو جائے تو نہ صرف پانی کی قلت کی وجہ سے بلکہ اندرونی لاوے کی حدّت کے سبب بھی ہر طرح کی اَنواعِ حیات اِس طبقِ ارضی سے مفقود ہو جائیں۔

طوِیل ترین بارشوں کے نتیجے میں زمین کو قابلِ زندگی بنانے کے سلسلے میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے :

وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَO

(المؤمنون، 23 : 18)

اور ہم ایک مقررّہ مقدار میں (عرصۂ دراز تک) بادلوں سے پانی برساتے رہے، پھر (جب زمین ٹھنڈی ہو گئی تو) ہم نے اُس پانی کو زمین (کی نشیبی جگہوں) میں ٹھہرا دیا (جس سے اِبتدائی سمندر وُجود میں آئے) اور بیشک ہم اُسے (بخارات بنا کر) اُڑا دینے پر بھی قدرت رکھتے ہیںo

سائنسی تحقیقات کی پیش رفت اور قرآنی بیانات میں کسی قدر ہم آہنگی ہے۔ ۔ ۔ بالکل یونہی جیسے قرآن آج کے دَور کی کتاب ہو۔ ۔ ۔ اور واقعی قرآن آج کے دَور کی کتاب ہے، قرآن ہر اُس دَور کی کتاب ہے جو علم و فن اور شعور و آگہی سے ہم آہنگ ہے۔ سائنس جوں جوں تخلیقِ کائنات کے رازوں سے پردہ اُٹھاتی جائے گی ہمیشہ قرانِ مجید کو اپنے سے آگے اور آگے جاتا محسوس کرے گی اور یہ حقیقت علمی دُنیا کے فرزندوں کو ایک نہ ایک دِن ماننا پڑے گی کہ قرآن ہی صداقت کا آخری معیار ہے جسے خالقِ کائنات نے اپنے آخری نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا اور اُسی میں بنی نوعِ اِنسان کے جملہ مسائل کا حل ہے اور اُس کی تعلیمات سے مطابقت ہی صحیح معنوں میں آئیڈیل علمی معاشرے کے قیام کا باعث بن سکتی ہے۔

چاند (The Moon)

قرآنِ مجید میں چاند کا ذِکر دیگر اَجرامِ سماوِی سے کہیں زیادہ ہے۔ اﷲ ربّ العزت نے چاند کی بہت سی خصوصیات کی بناء پر قرآنِ مجید میں قسم کھا کر اُس کا ذِکر فرمایا :

كَلَّا وَالْقَمَرِO

(القمر، 74 : 32)

سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کیo

جس طرح زمین اور نظامِ شمسی کے دِیگر ستارے سورج کے گرد محوِ گردِش ہیں اور جس طرح سورج کہکشاؤں کے لاکھوں ستاروں سمیت کہکشاں کے وسط میں واقع عظیم بلیک ہول کے گرد محوِ گردِش ہے بالکل اُسی طرح چاند ہماری زمین کے گرد گردِش میں ہے۔ نظام شمسی میں واقع اکثر سیاروں کے گرد اُن کے اپنے چاند موجود ہیں، اور اکثر کے چاند متعدّد ہیں۔ زمین کا صرف ایک ہی چاند ہے جو زمین سے اَوسطاً 4,00,000 کلومیٹر کی دُوری پر زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اپنی گردِش کا ایک چکر 27.321661 زمینی دِنوں میں طے کرتا ہے۔ چاند کا قطر 3,475 کلومیٹر ہے اور یہ نظامِ شمسی کے آخری سیارے پلوٹو سے بڑا ہے۔ دورانِ گردش وہ اپنا ایک ہی رُخ زمین کی طرف رکھتا ہے۔ اُس کی محورِی اور سالانہ دونوں گردشوں کا دورانیہ برابر ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اُس کا ایک دن اور ایک سال دونوں برابر ہوتے ہیں۔ جوں جوں اُس کا محور گردِش کرتا ہے اُس کے ساتھ ساتھ وہ زمین کے گرد بھی اُسی تناسب سے گھومتا چلا جاتا ہے اور یوں وہ زمین کی طرف اپنا ایک ہی رُخ رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔

قمری تقوِیم (Lunar calendar)

قمری تقوِیم میں چاند کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سورج سے وقت کی پیمائش کے لئے اِنسان کو اپنے علمی سفر کی اِبتدا میں سخت دُشواریوں سے گزرنا پڑا اور ابھی تک یہ سلسلہ تھم نہیں سکا۔ کبھی مہینے کم و بیش ہوتے آئے اور کبھی اُن کے دن، یہی حالت سال کے دِنوں کی بھی ہے۔ شمسی تقوِیم میں جا بجا ترمیمات ہوتی آئی ہیں مگر اُس کے باوُجود ماہرین اُس کی موجودہ صورت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ موجودہ عیسوی کیلنڈر بار بار کی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد 1582ء میں موجودہ حالت میں تشکیل پایا، جب 4 اکتوبر سے اگلا دِن 15 اکتوبر شمار کرتے ہوئے دس دن غائب کر دیئے گئے۔ پوپ گریگوری کے حکم پر ہونے والی اِس تشکیلِ نو کے بعد اُسے 'گریگورین کیلنڈر' کہا جانے لگا۔

دُوسری طرف قمری تقوِیم میں خودساختہ لیپ کا تصوّر ہی موجود نہیں۔ سارا کیلنڈر فطری طریقوں پر منحصر ہے۔ قدرتی طور پر کبھی چاند 29 دِن بعد اور کبھی 30دِن بعد نظر آتا ہے، جس سے خودبخود مہینہ 29 اور 30 دِن کا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح سال میں بھی کبھی دِنوں کو بڑھانے یا کم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

چاند زمین کے گرد مدار میں اپنا 360 درجے کا ایک چکر 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی مدّت میں مکمل کرتا ہے اور واپس اُسی جگہ پر آ جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات قابلِ توجہ ہے کہ زمین بھی چونکہ اُسی سمت میں سورج کے گرد محوِ گردِش ہے اور وہ مذکورہ وقت میں سورج کے گرد اپنے مدار کا 27 درجے فاصلہ طے کر جاتی ہے لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ 27 درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر 360 درجے ہی کا ہوتا ہے مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں 27 درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لئے 387 درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 27 درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی بجائے 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ 29 دن اور 12 گھنٹے کی وجہ سے چاند 29 یا 30 دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل 30 دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّوبدل نہیں کرنا پڑتا۔

ہم نے دیکھا کہ شمسی تقوِیم کی طرح قمری تقوِیم میں بھی گوناگوں پیچیدگیاں موجود ہیں۔ اُنہیں سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں مگر اُن پیمائشوں میں پڑنے کی عام آدمی کو ضرورت ہی نہیں۔ چاند خود بخود فیصلہ کر دیتا ہے۔ شمسی تقوِیم کے برعکس اللہ ربّ العزت نے چاند کو تعینِ اَوقات کی ایسی ذِمہ داری سونپ دی ہے کہ فطری طریقے سے تقوِیم وضع ہونے لگتی ہے۔ یہ تقوِیم علم و فن سے عاری معاشروں کے لئے بھی وقت کے شمار کا بہترین ذریعہ ہے اور آج کا پڑھا لکھا اِنسان بھی اُس سے خوب متمتع ہو سکتا ہے۔

چاند کو سونپے گئے فطری طریقِ تقوِیم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں فرمایا :

وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَO

(يونس، 10 : 5)

اور اُس (چاند) کے لئے (کم و بیش دِکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اَوقات کا) حساب معلوم کر سکو اور اللہ نے یہ (سب کچھ) درُست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے۔ وہ (اِن کائناتی حقیقتوں کے ذرِیعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں علم رکھنے والوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہےo

ہر اگلی رات چاند کی شکل تبدیل ہو کر ظاہر ہوتی ہے۔ ایسا سورج اور زمین کے حساب سے اُس کے زاویئے میں تبدیلی کے باعث ہوتا ہے۔ پہلی تاریخ کو وہ باریک ناخن کی طرح مغربی اُفق پر ظاہر ہوتا ہے اور جلد ہی غروب ہو جاتا ہے۔ اُس کے بعد ہر اگلے دِن پہلے سے بڑا ہوتا ہے اور زیادہ دیر تک اُفق پر رہتا ہے۔ ساتویں تاریخ کو وہ وسط آسمان میں ظاہر ہوتا ہے اور چودھویں کو مکمل چاند کی صورت میں مشرق سے باقاعدہ طور پر طلوع ہوتا دِکھائی دیتا ہے اور صبح طلوعِ شمس سے پہلے غروب ہو جاتا ہے۔ اُس کے بعد کے دِنوں میں اُس کی روشن سطح بتدرِیج کم ہونے لگتی ہے اور وہ رات کو دیر سے طلوع ہوتا ہے۔ آخری تارِیخوں میں وہ صبح کے وقت طلوع ہوتا ہے۔ اُن دنوں اُس کی حالت بہت باریک ہو جاتی ہے۔ چاند کی اُس حالت کو اللہ تعالیٰ نے عرجونِ قدیم (پرانی بوسیدہ شاخ) سے تشبیہ دی ہے۔

اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے :

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِO

(يسين، 36 : 39)

اور ہم نے چاند کی منازِل طے کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ (اپنی پہلی حالت کو) پلٹ کر (کھجور کی) پرانی بوسیدہ ٹہنی جیسا ہو جاتا ہےo

چاند کی روشنی جو چاندنی راتوں میں اِنتہائی دِلفریب حُسن رکھتی ہے اُس کی اپنی نہیں ہوتی۔ چاند تو محض سورج کی طرف سے آنے والی روشنی کو منعکس کر کے چمکتا دِکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سے زاویہ بدلنے پر اُس کی شکلیں بھی بدلنے لگتی ہیں۔ اگر ہم چاند پر جا کر زمین کی طرف دیکھیں تو زمین بھی ہمیں چاند ہی کی طرح روشنی منعکس کر کے چمکتی دِکھائی دے گی اور چاند ہی کی طرح شکلیں بدلتی بھی نظر آئے گی۔ فرق صرف اِتنا ہو گا کہ چاند شکلیں بدلنے کے ساتھ ساتھ زمین پر طلوع و غروب ہوتا بھی دِکھائی دیتا ہے مگر زمین چاند پر سے ایک ہی جگہ کھڑی نظر آئے گی اور وہیں کھڑے کھڑے شکلیں بدلتی رہے گی۔

چاند کی روشنی سورج کا مرہونِ منت ہے۔ جس طرح زمین سورج کی دُھوپ سے تمازت پاتی اور روشن ہوتی ہے اُسی طرح چاند بھی سورج ہی کی دُھوپ سے منوّر ہوتا ہے۔ یہ بات قدیم یونانی نظریات سے مطابقت نہیں رکھتی، مگر قرآنی صداقت اِس سے عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم و عرفان سے عاری دَور کے متداول نظریات کے خلاف قرآنِ مجید میں سورج کے لئے ''روشنی دینے والا'' اور چاند کے لئے ''روشن کیا جانے والا'' کے الفاظ فرمائے۔

سورۂ یونس میں فرمایا :

هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا.

(يونس، 10 : 5)

وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اُس سے) روشن (کیا)۔

اِسی طرح سورۂ نوح میں فرمایا :

وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًاO

(نوح، 71 : 16)

اور اُن میں سے چاند کو چمکنے والا اور سورج کو (ایک روشن) چراغ (روشنی دینے والا) بنایا ہےo

سورۂ فرقان میں اِسی حقیقت کو اِن الفاظ میں بے نقاب کیا :

وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًاO

(الفرقان، 25 : 61)

اور اُس میں سورج کو (روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُسی کی ضوء سے نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایاo

سورج کے ازخود روشن ہونے اور چاند کے مُستعار روشنی سے منوّر ہونے کی حقیقت اللہ ربّ العزت نے آج سے چودہ صدیاں پہلے قرآنِ مجید میں بیان کر دی تھی۔ یہ وہ دَور تھا جب دُنیا بھر کے علمی حلقوں میں فقط یونانی نظریات کا طوطی بولتا تھا۔ ایسے ماحول میں آج کے دَور کی سائنس کے نظریات کا کماحقہ پیش کرنا فقط اللہ ربّ العزت ہی کی قدرت سے ممکن ہے۔ کلامِ الٰہی کے برحق ہونے اور پیغمبرِآخرُالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوّت کے ثبوت میں یہ اور اِس جیسی بے شمار آیات قرآنِ مجید میں موجود ہیں، جن کے مطالعہ سے سلیمُ العقل اِنسان اِس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اِسلام ہی دینِ حق ہے، جو آج کا بھی دین ہے اور آنے والے کل کا بھی، کہ اُسے روزِ قیامت تک کے لئے مکمل دین بنا کر بھیجا گیا ہے۔

تسخیرِ ماہتاب

سماوِی کائنات کی حتیٰ المقدُور تسخیر اور اُس تسخیر کے ضمن میں اَسباب بہم پہنچانے کا حکم اللہ ربّ العزت نے اپنی دونوں مکلف مخلوقات بنی نوع اِنسان اور جنوں کو قرآنِ مجید میں دیا ہے۔

اِرشادِ ربانی ہے :

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍO

(الرحمن، 55 : 33)

اے گروہِ جنات و اِنسان! اگر تم سماوِی کائنات کی قطاروں اور زمین (کی حدُود) سے باہر نکلنے کی اِستطاعت رکھتے ہو تو (ضرور) نکل دیکھو، طاقت (و صلاحیت) کے بغیر تم (یقینا) نہیں نکل سکتےo

چاند جس کی چاندنی اِنتہائی دِلفریب ہوتی ہے اور شاعر مزاج دلوں کو پگھلا کر موم کر دیتی ہے، 1969ء میں تین امریکی خلابازوں کے قدموں نے اُسے سر کر لیا اور اِنسان کا جذبۂ تسخیر کرۂ ارضی پر واقع بڑے بڑے سلسلہ ہائے کوہ سے بڑھ کر پہلی بار کسی دُوسرے سیارے تک جا پہنچا۔ خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے 'ناسا' (National Aeronautic Space Agency) کی طرف سے تسخیرِماہتاب کی اُس مہم میں 'نیل آرمسٹرانگ' (Neil Armstrong)، 'ایڈوِن بز' (Edwin Buzz) اور 'کولنز' (Collins) وہ پہلے اِنسان تھے جو 20 جولائی 1969ء کے تاریخی دِن Apollo-11 میں سوار ہو کر چاند تک پہنچے۔ اُس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں واقع زمینی مرکز KSC (کینیڈی سپیس سنٹر) میں موجود سائنسدان اُنہیں براہِ راست ہدایات بھی دیتے رہے اور دو دِن کے مختصر سفر کے بعد یہ مہم جُو قافلہ ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چند پتھروں کے نمونے وغیرہ لے کر زمین کی طرف واپس پلٹ آیا۔ اُس مہم کے دَوران پورے خطۂ ارضی پر واقع اکثر ٹی وی اور ریڈیو سٹیشنز نے پل پل کی خبر دُنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے اِنسانوں تک پہنچائی۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک عظیم تاریخی واقعہ تھا جو چاند کی تسخیر کے سلسلے میں رُونما ہوا۔

تسخیرِ ماہتاب کے ضمن میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے :

وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَلَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍO فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَO

(الانشقاق، 84 : 18 - 20)

اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دِکھائی دیتا ہےo تم یقینا طبق دَر طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گےo تو اُنہیں کیا ہو گیا کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےo

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.