Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Tuesday 28 February 2017

))))Vu & Company(((( Chor doctor...

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Thursday 23 February 2017

Re: ))))Vu & Company(((( اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ((الحجرات۴۹: ۱۲) ’’)

shukria 

2017-02-23 15:24 GMT+05:00 Sweet Poison <mc090410137@gmail.com>:
Post ap ki tarah nice ha 

On 22 Feb 2017 5:26 p.m., "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
بد گمانی عربی کے لفظ 'الظن 'کا ترجمہ ہے ۔ عربی کا 'ظن 'اچھے اور برے دونوں معنی میں آتا ہے۔ جس طرح اردو میں گمان دونوں معنی میں آتا ہے۔قرآن مجید میں جہاں بدگمانی سے روکا گیا ہے ، وہاں 'سوء الظن 'کے بجائے صرف 'ظن 'ہی کا لفظ استعمال ہواہے۔قرآن مجید کا فرمان ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ، اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ...(الحجرات۴۹: ۱۲)
''اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں...''

اصل حکم

اوپر مذکور آیت سے یہ واضح ہے کہ قرآن مجید نے محض بدگمانی سے نہیں روکا، بلکہ اس نے کثرت گمان سے روکا ہے۔ یعنی قرآن مجید نے ہمیں اس بات سے روکا ہے کہ ہم خواہ مخواہ دوسروں کے بارے میں ظنون تراشتے رہیں۔ یہاں سیاق کلام سے یہ بات بالکل متعین ہے کہ یہاں جن گمانوں کی بات ہورہی ہے ، وہ لوگوں ہی سے متعلق ہیں۔یعنی اخلاقی دائرے میں آنے والے گمان۔ انھی کی کثرت بری چیزہے۔چونکہ یہ اخلاقیات سے متعلق ہے۔ اس لیے اخلاقیات میں ہر خرابی اسلام کے نزدیک برائی ہے،ا ور وہ ایک قابل مواخذہ جرم ہے۔
گویا لوگوں کے بارے میں ہمیں اصل میں ان ہی کے عمل و نظریہ کی بنیاد پر رائے بنانی چاہیے۔ ان کے بارے میں ہماری رائے نہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہونی چاہیے اور نہ ہمارے بے بنیاد خیالات پر، جوبلا دلیل ہمارے دل میں پیدا ہو گئے ہوں۔ہمارے وہ خیالات جن کی بنیاد محض ہمارا گمان ہو ، درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تابیر نخل میں اپنی ایک رائے کے بارے میں فرمایا تھا:

فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُم، وَإِنَّ الظَّنَ یُخْطِئُ وَ یُصِیْبُ.(ابن ماجہ، رقم ۲۵۶۴)
''بھئی میں بھی تمھارے جیسا انسان ہوں، وہ میرا ایک خیال(گمان ) تھا، اور خیالات صحیح بھی ہوجاتے ہیں اور غلط بھی۔''

گمانوں کی کثرت سے اسی لیے روکا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں خطا کا امکان ہے۔اگر ہمارا گمان صحیح بھی ہے تب بھی اس میں یہ خرابی ضرور موجود ہے کہ وہ ہمارا گمان ہے ، کسی ٹھوس شاہد و دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ بندۂ مومن کو اپنی آرا کو حتی الامکان ٹھوس چیزوں پر مبنی کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے:

وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ، اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلًا.(بنی اسرائیل۱۷: ۳۶)
''اور جس چیز کا تمھیں علم نہیں، اس کے درپے نہ ہو کیونکہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر چیز سے پرسش ہونی ہے۔''

قرآن کی رو سے اس ضمن میں اصلاً مطلوب یہی ہے کہ ہم لوگوں کے بارے میں کسی قسم کی ایسی آرا نہ بنائیں، جن کی ہمارے پاس ٹھوس بنیاد (علم)موجود نہ ہو۔

گمانوں پر مواخذہ

قرآن مجید نے گمانوں کو قابل مواخذہ قراردیا ہے۔ گمان کئی پہلووں سے قابل مواخذہ ہو سکتے ہیں۔ ہم ذیل میں چند اہم چیزوں کی طرف اشارہ کریں گے، جو ہمارے گمانوں کی وجہ سے انجانے میں ہم سے سرزد ہو جاتی ہیں، اور یہی وہ چیزیں ہیں جو گمان کو گناہ بنا دیتی ہیں:

بے بنیاد خیال

بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا آیت میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ ایسی آرا بنانے پر ہماری پرسش ہو گی، جن کے پیچھے کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہو گی،بلکہ وہ محض ہمارے خیال اور گمان پر مبنی ہو گی۔قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ ہماری پرسش آنکھ، کان اور دلوں سے بھی ہو گی(۱۷:۳۶)۔ جس آنکھ نے غلط دیکھا، اور جس کان نے غلط سنا، اور جس دل نے غلط سوچاوہ مجرم ہے وہ پکڑا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غلط اور بے بنیاد آرا پر ہماری پکڑ ہو گی۔ اس لیے کہ بغیر کسی دلیل کے کسی کے بارے میں برا سوچنا ایک غلطی ہے۔ اس لیے اس غلطی پر بھی باز پرس ہوگی۔
چونکہ ہمارے گمان بے بنیاد ہوتے ہیں، اس لیے ہم یہ نہیں جا ن سکتے کہ کون سا گمان گناہ والا ہے اور کون سا نہیں۔ یعنی جب ہمیں حقیقت کا علم ہو گا تو تبھی پتا چلے گا کہ ہم غلط سوچ رہے تھے یا ٹھیک۔اس لیے حقیقت کے سامنے آنے تک ہم یہ نہیں جان سکتے کہ ہم غلط سوچ رہے ہیں یا صحیح ۔ اسی لیے قرآن مجید نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ بدگمانی کو ترک کرو، بلکہ اس نے کہا کہ بہت گمان نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ ان میں سے اکثر غلط ہی ہوں گے۔
بعض شارحین نے یہ بات کہی ہے کہ جو گمان اتہام اور بہتان کی شکل اختیار کر جائے وہ گمان گناہ ہے۔ لیکن قرآن نے یہ بات نہیں کہی۔ قرآن نے تو گمانوں میں سے بہت سے گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے۔ محض اس لیے کہ وہ بلا دلیل بنائے گئے ہیں۔

نا انصافی

گمانوں کے مواخذہ کی بڑی وجہ ان کے ہمارے رویوں پر اثرات ہیں۔ اسی طرح گمانوں کی وجہ سے ہم ایسے عمل کرڈالتے ہیں جو برے ہوتے ہے۔ ان اعمال میں سب سے بڑاعمل ناانصافی ہے۔قرآن مجید کا وہ حکم جو سورۂ بنی اسرائیل میں آیا ہے ،اس سے معلوم ہو تا ہے کہ گمان اور خیالات ہمارے دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ شیطانی وسوسے اور ادھر ادھر کے خیالات دل میں آتے رہتے ہیں۔اگر ہم انھی خیالات پر جم گئے اور گمانوں پر ہی اپنے کسی بھائی کے بارے میں بری رائے بنا لی تو وہ گناہ کا باعث ہے۔ لیکن اگر وہ گمان ہمارے دل میں آیا، اور ہم اس میں مبتلا ہونے کے بجائے اس سے نکل گئے اوراس کو رد کردیا تو ہم گناہ سے بچ گئے۔اس لیے کہ کسی کے بارے میں بری یا محض غلط رائے بنا لینا اس کے ساتھ ناانصافی ہے۔مثلاً آپ نیک نیتی سے کوئی عمل کریں،تو اس پر کوئی آدمی د ل ہی دل میں یہ رائے بنا لے کہ آپ ریا کار ہیں تو کیا یہ آپ کے ساتھ انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ انصاف نہیں ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے یہ گمان گناہ بن جاتے ہیں۔
تعلقات پر برے اثرات
گمانوں سے ہونے والا دوسرا بڑا عمل ہمارے تعلقات میں خرابی ہے۔ہمارے تعلقا ت میں اہم چیز ہماری رائے ہوتی ہے ۔یعنی اگر کسی کے بارے میں ہماری رائے اچھی ہوگی تو ہم اس کو اچھے طریقے سے ملیں گے اور اگر ہماری رائے اس کے بارے میں اچھی نہیں ہو گی ۔ تو ہم اچھے طریقے سے نہیں مل سکیں گے ۔اس طرح سے ہمارے گمان ہمارے رویوں کو خراب کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے گمان ہی کی بنا پر دوسرے سے معاملات کرنے لگ جاتے ہیں ۔ جس سے وہ گناہ کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔
یعنی اگر ایک آدمی نے برائی نہیں کی، مگر ہم نے گمان ہی گمان میں اس کو مجرم بنا لیا ہے تو اب اس کے ساتھ ہمارا رویہ بگڑ جائے گا، جو بلاوجہ ہوگا۔ برے رویے کی بنا پر ہم گناہ مول لے لیتے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو محض گمان بھی دراصل ان گناہوں میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ تمھیں شعور بھی نہیں ہوتا، مگر وہ تمھارے اعمال کو ہڑپ کرجاتے ہیں(الحجرات۴۹:۲)۔

نیتوں کا تعین

گمان بالعموم نیت کا تعین بن جاتے ہیں۔ ہمارے تمام گمان جن کو ہم بدگمانی کہہ سکتے ہیں، ان کی نوعیت بالعموم یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے بھائی کی نیت کا تعین کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ مجھے تنگ کرنا چاہتا تھا، وہ سب کے سامنے مجھے ذلیل کرنا چاہتا تھاوغیرہ۔
نیتوں کے بارے میں ہم جان ہی نہیں سکتے۔اس لیے اس کا تعین ایک غلطی ہے۔ جو غلطی اخلاقی دائرے میں ہوتی ہے، وہ گناہ ہے ۔اس پر قیامت کے دن مواخذہ ہو گا۔
اس کی بہت عمدہ مثال وہ واقعہ ہے جو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیش آیاجب انھوں نے ایک جنگ میں کسی آدمی کو کلمہ پڑھنے کے باوجود مار ڈالا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ چنانچہ جب ان سے بات ہوئی تو آپ نے فرمایا:' أقال لا الٰہ الا اللّٰہ وقتلتہ' ،''کیا اس نے لاالٰہ پڑھا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کرڈالا''؟
حضرت اسامہ نے عرض کی: 'یا رسول اللّٰہ انما قالہا خوفا من السلاح'،''اس نے ایسا صرف اسلحہ کے ڈر سے کہا تھا۔''
آپ نے فرمایا: 'افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم اقالہا ام لا '،''تم نے اس کا سینہ چیر لیا ہوتا کہ تم جان لیتے کہ اس نے کلمۂ اسلام دل سے کہا یا نہیں!''
حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ آپ باربار یہ جملہ دہراتے رہے ، اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا اور یہ غلطی مجھ سے صادر نہ ہوئی ہوتی۔(مسلم، رقم۹۶)
یہ حضرت اسامہ کا ایک گمان تھا، نا معلوم صحیح تھا یا غلط؟ لیکن انھوں نے اس کی غلط نیت طے کی اور اس کے خلاف جان لینے تک کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ نیت کا تعین بھی ایک برائی ہے۔ جو ہمیں بہت سنگین عمل تک لے جاسکتی ہے۔

گمان جھوٹ ہوتا ہے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ گمانوں سے بچو اس لیے کہ گمان 'اکذب الحدیث' ہوتے ہیں۔ یعنی بے بنیاد اور جھوٹی بات ۔ اس سے بھی اس کے' اثم 'ہونے کی طرف اشارہ نکلتا ہے، یعنی چونکہ یہ جھوٹی بات ہے، جو انسان دل ہی دل میں سوچ لیتا ہے۔ اور یہ واضح سی بات ہے کہ جھوٹی بات پر قیام بندۂ مومن کے لیے صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ گناہ اور برائی ہے۔

غلطی میں اضافہ

ہم اپنے گمانوں کی مدد سے کبھی تو بے گناہ کو گناہ گار بنا رہے ہوتے ہیں، اور کبھی کم خطا وار کو زیادہ بڑی غلطی کا مجرم ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک آدمی سے غلطی محض بے احتیاطی کی وجہ سے ہوئی ہو، مگر ہم اسے یہ خیال کرکے کہ اس نے ہماری دشمنی میں ایسا کیا ہے۔ اس کے جرم کی سنگینی میں اضافہ کردیتے ہیں۔
چنانچہ بعض اوقات اپنی ہی چیز اٹھانے والے کو ہم چور سمجھ لیتے ہیں۔غلطی سے برائی کرجانے والے کو مجرم بناڈالتے ہیں۔

سچا گمان غیر ثابت شدہ حقیقت

کوئی شخص یہاں یہ سوال اٹھا سکتاہے کہ اگرآدمی گمان کرے، اور وہ غلط نہ ہو، تو وہ تو گناہ گارنہیں ہو گا۔ تو کیا یہ ضروری ہے کہ کثرت گمان پر پھر بھی گناہ ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ گمان سچا بھی ہوتب بھی وہ گمان ہے۔ وہ کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے۔اس لیے اس پرقائم رہنا، یا اس کے مطابق عمل کرنا دراصل غیر ثابت شدہ باتوں پر عمل کرنا ہے۔ اس میں اور سنی سنائی باتوں میں پھرفرق کیا رہ گیا؟
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو تو اس گمان کے سچاہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ آپ تو محض گمان پر کھڑے ہیں۔ جو ایک کمزور اور غلط جگہ ہے۔ ایک گمان کے سچا اور جھوٹا ہونے کے برابر امکانات ہوتے ہیں۔ اس لیے گمان کرنا اور اسے دل میں پالنا ہر صورت میں ایک غلط کام ہے۔

دوبارہ نظر

ہم نے اوپر کی بحث میں یہ بات جانی ہے کہ کثرت گمان سے قرآن مجید نے روکا ہے۔اس لیے کہ گمان ایک بے بنیاد اور جھوٹی بات ہے۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ہو بھی تو وہ ثابت شدہ نہیں ہے۔
کسی کے بارے میں گمان کرنا اخلاق سے گرا ہوا عمل ہے۔ دین اسلام میں اخلاقی خرابی کو گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یعنی اس پر مواخذہ ہوگا۔ 'ظن 'دراصل جھوٹ، ناانصافی اورنیتوں کے تعین وغیرہ کا نام ہے۔ یہ برے اخلاق کو جنم دیتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک واضح برائی ہے۔
گمانوں کی کثرت بذات خود ناپسندیدہ چیز ہے۔ اس لیے کہ بندۂ مومن گمانوں اور خیالات پر نہیں جیتا،بلکہ اس کی زندگی ٹھوس حقائق پر استوار ہونی چاہیے اور لوگوں کے بارے میں اسے سیدھی اور ثابت شدہ بات پر قائم ہونا چاہیے۔

حسن ظن کا حکم

ہم مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ اپنے بہن بھائیوں، ہم سایوں ، دوستوں اور ارد گرد رہنے والوں کے بارے میں حسن ظن رکھیں۔سورۂ نور کی آیت افک سے ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ ہماری عمومی رائے دوسروں کے بارے میں اچھی ہونی چاہیے، جب تک کہ وہ ٹھوس دلائل سے بدل نہ جائے۔اچھی رائے سے ہماری مراد یہ ہے کہ جب بھی کوئی برائی کسی آدمی سے متعلق آپ کے علم میں آئے تو فوراً :
۱۔اس کو اچھے پہلوسے دیکھیں۔
۲۔ اس کے اچھے اسباب اور وجوہ پر نظر رکھیں۔
۳۔جس پر الزام لگایا جارہا ہے، اس پر الزام لگانے سے گریز کریں اور کہیں کہ ہم نے ایسا کرتے اسے نہیں دیکھا، بخدا ہماری نظر میں پاک صاف ہے۔
حسن ظن کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم اس کے بارے میں کوئی بہت اچھی رائے قائم کریں۔ بلکہ یہ ہیں کہ اس کے عمل کو بری نظر اور بری توجیہ کر کے نہ دیکھیں، اور نہ محض سن کر یااپنے گمانوں کی وجہ سے اس پربرائی کا الزام لگائیں۔کسی کی برائی سن کر فوراًبرأت کا اظہار کرنا چاہیے ۔ چنانچہ جب سیدہ عائشہ پر الزام لگا تو قرآن مجید نے مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ ان پر لازم تھا کہ وہ سیدہ عائشہ کی برأت اور پاک دامنی کا اعلان کرتے اس لیے کہ ان میں سے کسی نے بھی انھیں کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ چاہیے یہ تھا کہ سب یک زبان کہتے کہ حاشا وہ پا ک دامن اور معصوم ہیں۔ ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ قرآن مجید میں یہ بات یوں آئی ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وْا بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ، لَاتَحْسَبُوْہٗ شَرًّا لَّکُمْ، بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، لِکُلِّ امْرِیئ مِّنْہُمْ مَا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ، وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا، وَّقَالُوا: ہَذَٓا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ.(النور۲۴: ۱۱،۱۲)
''جو لوگ یہ اتہام گھڑ کر لائے، وہ تم ہی میں سے ہیں۔ تم اس چیز کو اپنے لیے برا خیال نہ کرو، یہ تمھارے لیے اچھی ہے۔ان میں سے ہر ایک نے جو گناہ کمایا وہ اس کے حساب میں پڑا، اور جو اس فتنہ کا بڑا حصہ دار ہے ، اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔ اے مسلمانو،ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی تو مومن عورتیں اور مرد ایک دوسرے کی بابت اچھا گمان کرتے، اور کہتے کہ یہ تو ایک سیدھا سیدھا بہتان ہے۔''

اس آیت میں مسلمانوں سے یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ ایسی سنگین صورت میں بھی ہمارا کام یہی ہونا چاہیے کہ جب ایک پورا گروہ یہ کہہ رہا ہو کہ فلاں شخص نے ایسا کیا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے اپنے بھائی اور بہن کے بارے میں اچھا گمان رکھیں اور اسے ایک بہتان سمجھیں۔
یہاں اس واقعۂ افک کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں جب غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر بعض منافقین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت دھری۔ بظاہر سیدہ کے پیچھے رہ جانے کے باوصف ایک ایسا قرینہ پیدا ہو گیا تھا کہ تہمت میں سچ کا گمان ہوتا تھا۔ لیکن ایسے قرائن بھی قرآن کے نزدیک بے معنی ہیں۔ اس لیے کہ پیچھے رہ جانے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہو تا کہ یقیناًایسا ہوا ہو گا جیسی ان پر تہمت لگائی جارہی تھی۔

ہمارا باہمی رشتہ اور بدگمانی

اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے بھائی بھائی بن کر رہیں۔ اس کے لیے اس نے ہمارے تین رشتے بتائے ہیں:

ایک خدا کی مخلوق

ہمارا آپس میں پہلا رشتہ یہ ہے کہ ہم سب کو مختلف خداؤں نے نہیں، بلکہ ایک ہی خدا نے بنایاہے۔ہم اس اعتبارسے خدا شریک بھائی ہیں۔اس نظریہ سے ہمارے رشتے میں برابری کا ایک تصور آتا ہے۔ اگر مجھے کسی اور خدا نے بنایا ہو اور آپ کو کسی اور نے تو ہوسکتا ہے میرے اور آپ میں تفاوت ہو۔اگر میرا خدا کمزور ہو اور آپ کا قوی تو میں آپ کے مقابلے میں حقیر ٹھہروں گا۔ لیکن اگر میرا اور آپ کا خدا ایک ہے۔ تو مجھ میں اور آپ میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔
۱۔ اس تفاوت کے نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ میرااور آپ کا منبع و ماخذ ایک ہے۔جس جگہ سے آپ آئے ہیں میں بھی وہیں سے آیا ہوں۔ جس خدا نے آپ کو بنایا ہے اسی نے مجھ کو ۔ آپ کو مجھ پر اور مجھے آپ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔
۲۔میر ی اور آپ کی فطرت ایک ہی خدا نے بنائی ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ میری سرشت میں تو برائی رکھ دی گئی ہو ، اور آپ کی سرشت میں نیکی۔ میرے اندر بھی ضمیر اور نفس کی کش مکش لگی ہے اور آپ کے اندر بھی۔اس لیے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ہمیشہ برائی پر آمادہ رہوں اور آپ ہمیشہ نیکی پر۔ جس طرح آپ کی نیت صحیح ہوتی ہے، اسی طرح میری بھی صحیح ہوتی ہے۔ جس طرح آپ کبھی نفس کا شکار ہوجاتے ہیں اسی طرح میں بھی ہو جاتا ہوں۔یہ سب ہمارے خدا نے اس لیے بنایا ہے کہ وہ ہمیں آزمائے۔
۳۔ میری اور آپ کی عزت یکساں ہے۔میں جس جل جلالہ کی تخلیق ہوں آپ بھی اسی کی تخلیق ہیں ۔فلاں اور فلاں کو بھی اسی نے بنایا ہے۔جو آپ کا مقام ہے ،وہی میرا ہے وہی سب کا ہے۔کسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
۴۔ اس تفاوت کے نہ ہونے کے معنی یہ بھی ہیں کہ میرا اور آپ کا خدا ایک ہے۔ وہی میرا نگہبان اور آپ کا بھی۔ میں بھی اسی کے سامنے جواب دہ ہوں اور آپ بھی۔ اگر آپ مجھ پر ظلم کریں گے تو وہ چونکہ میرا بھی رب ہے اس لیے وہ میرے اوپر ہونے والے ظلم کے تدارک کے لیے آپ کو پوچھے گا۔ اگر میں نے آپ پر ظلم کیا تو وہ آپ کی داد رسی کے لیے مجھ سے پوچھے گا۔ کسی کا یارا نہیں ہے کہ وہاں وہ خدا کی مخلوق پر ظلم کرے ، اور کوئی دوسرا (خدا)آکر چھڑا لے جائے۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا اتناہی طاقت ور خدا موجود ہو۔

ایک ماں باپ کی اولاد

دوسرا رشتہ قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ دنیا میں بسنے والے سب لوگ آدم و حوا کی اولاد ہیں، اور ان دونوں کو بھی اللہ تعالی نے نفس واحدہ سے پیدا کیا ہے۔اس اعتبار سے ہم ایک ہی نفس واحدہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ ہم آپس میں نسبی اور رحمی تعلق رکھتے ہیں، اگرچہ اب یہ تعلق دور کا تعلق ہے ،لیکن ہماری رگوں میں اب بھی آدم و حو اہی کا خون دوڑتا ہے:

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآءً.(النساء ۴: ۱)
''اے لوگو، اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم سب کو پیدا کیا ایک ہی جان سے ، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور پھر ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔''

اس تعلق سے کچھ نتائج نکلتے ہیں:
ایک یہ کہ ہم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ، اس لیے نسلی اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ ذاتیں،قبائل اور اقوام محض پہچان اور تعارف کی چیز ہے۔ ان میں بہتراور کہتر ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
تیسرے یہ کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں۔

ملت واحدہ

اسلام میں داخل ہونے والوں کا باہم ایک رشتہ اور بڑھ جاتا ہے، وہ یہ کہ ہم سب دینی لحاظ سے بھی بھائی بھائی ہیں۔'ان المومنون اخوۃ '(سب مسلمان بھائی بھائی ہیں) کی تعلیم اسی تعلق کی طرف اشارہ ہے۔
نتیجہ
یہ تینوں تعلق ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم باہم خلوص ومحبت، عزت و احترام، ہم دردی و مرحمت، شفقت و عنایت، مدد و نصرت اور باہمی اصلاح و خیر خواہی کے تعلق کے ساتھ برکتوں والاگھر بسا کر اور ایک خیر و امن والامعاشرہ بنا کررہیں۔ قرآن مجید نے ہمیں اس پہلو سے بہت سی تعلیمات دی ہیں۔ اسی تعلق سے امت مسلمہ میں اتحاد و یگانگت پیدا ہوتی ہے، اسی سے یک جہتی اور اپنائیت وجود میں آتی ہے۔اسی سے فرقے مکاتب فکر میں تبدیل ہو کر محض علمی اختلاف تک محدود ہو جاتے ہیں۔اسی صورت میں حدیث کے مطابق اختلاف اللہ کی رحمت بنتا ہے ۔
اس ہمہ جہت محبت و یگانگت کے اس تعلق کو قرآن فروغ دینا چاہتا ہے،تاکہ مسلمانوں کا معاشرہ ایک تعلق و ارتباط اور محبت و مرحمت کی بنا پر وجود پزیر ہو۔اور وہ چاہتا ہے کہ مسلمان ان چیزوں سے بچے رہیں ، جو اس تعلق کو توڑتی اور باہم تفریق پیدا کرتی ہیں۔ ایسی چیزوں کا قرآن مجید نے سورۂ الحجرات میں بالخصوص ذکر کیا ہے۔جس میں مذاق اڑانا ، چغلی و غیبت کرنا، تجسس کرنا، برے نام رکھنا، الزام تراشنا، ذات پات کی تفریق کرنا جیسے اخلاق رذیلہ کا ذکر کیا گیا ہے۔انھی میں ایک چیز گمانوں کی کثرت کا حکم ہے ۔ یہ سب چیزیں ہمارے اندر تفریق اور جدائی پیدا کرتی ہیں۔ یہ ہمیں ایک دوسرے سے کاٹتی ہیں۔ دلوں میں کدورتیں اور نفرتیں پیدا کرتی ہیں۔ جس معاشرے میں یہ چیزیں عام ہو جائیں وہاں سے بھائی چارہ،اخوت و محبت اور بالآخر قومی و ملی یک جہتی دم توڑ جاتی ہے۔ آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ گمانوں کی کثرت سے نقصانات کیوں کر وجود میں آتے ہیں۔
گمان کے نقصانات
جب ہمیں کسی کے کسی قول و فعل کی حقیقت جانے بغیر اپنے گمانوں کی بنا پر کچھ بے بنیاد خیالات بناتے ہیں، تو ہم اصل میں اپنی رائے اس کے بارے میں تبدیل کرتے ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہم اپنی رائے کو اس کے بارے میں خراب کرلیتے ہیں ۔جس سے کچھ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جن میں سے چند اہم چیزوں کاہم ذیل میں ذکر کریں گے۔
دل میں میل آنا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس آکردوسروں کی برائی کرنے والوں کو یہ کہہ کر برائی کرنے سے منع کر دیا کہ :

لا یبلغنی احد من اصحابی عن احد شیئا فانی احب ان اخرج الیکم وانا سلیم الصدر.(ابوداؤد، رقم ۴۸۶۲)
''مجھے میرے ساتھیوں میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی بات نہ پہنچائے اس لیے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں تم لوگوں میں آؤں تو میرا دل تم لوگوں کے بارے میں صاف ہو''

دوسروں کی برائی سے جس طرح دل میں میل آتا ہے ، اسی طرح اپنے خیالات سے بھی دل میں میل آتا ہے۔ اس میل کے آنے سے ہمارے رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔ کسی خیال سے دل میں غصہ پیدا ہو گا ،کسی سے نفرت ،کسی سے بے جا اور غیر متوازن محبت۔ یہ سب چیزیں خرابی پیدا کرتی ہیں۔ اچھے رویے کے اظہار کے لیے سب سے پہلی چیز ہی یہ ہے کہ ہمارا دل دوسروں کے بارے میں صاف ہو، ہم اسی صورت میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرسکیں گے۔گمانوں کا یہ نتیجہ بھی جیسا کہ ہم اوپر بیان کرآئے ہیں، گمانوں کو قابل مواخذہ بنا دیتا ہے۔ گمانوں سے آنے والا میل دل میں کدورتوں کو وجود بخشتا ہے، جس سے درج ذیل تعلقات میں تعطل اور خرابی آتی ہے:
۱۔ محبت
ایک دوسرے کے بارے میں گمانوں کی کثرت سے دل دوسروں کے بارے میں صاف نہیں رہتے، جس سے باہم فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے باہمی محبت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ باہمی تعلق اتنا کمزور پڑ جاتا ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوناتو درکنار ان کے ساتھ محض وہ تعلق بھی نہیں رہتا جو ایک اجنبی انسان کا دوسرے اجنبی انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔
دل میں دوسروں کے بارے میں خرابی تعلقات کے کاٹنے کے لیے ایک کلہاڑا ہے ۔ اگر آپ کسی کے بارے میں رائے بگاڑتے چلے جائیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کے دل میں اس کی محبت باقی رہے۔ اگر آپ دل کی صفائی کا اہتمام نہیں کرتے ، تو یاد رکھیے کہ ماں باپ جیسے عزیز اور بیوی بچوں جیسے قریبی تعلق میں بھی دراڑیں آجاتی ہیں اور بسا اوقات نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ محبت کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے خیالات کو دوسروں کے بارے میں بینات اور واضح حقائق پر استوار کریں۔
میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ بعض ایسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی کہ جو محض خدا کے بارے میں اپنے خیالات ہی کی وجہ سے اللہ سے نالاں اور اس کے منکر تھے۔ ایسے ہی لوگوں سے ملاقات کے بعد میں نے ''ہم پر مشکلیں کیوں آتی ہیں ''نامی کتاب لکھی۔ تاکہ ایسے بہت سے لوگوں کے دل میں خدا کے بارے خلجان دور ہو۔ اس لیے کہ یہ چیزخدا کے ساتھ محبت کو برباد کرنے والی ہے۔اور خدا کے بارے میں محبت اور اپنائیت سے محرومی کفر و زندیقی اور الحاد تک پہنچ جاتی ہے۔
میری مراد یہ ہے کہ محبت کا یہ تعلق انسانوں کے ساتھ تو گمانوں کی وجہ سے ٹوٹتا ہی ہے ، خدا کے ساتھ ہمارا تعلق بھی برے گمانوں سے ختم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے حسن ظن کی نصیحت کیا کرتے تھے۔
۲۔بھائی چارہ
یہ انسان کا انسان سے وہ رشتہ ہے جو اولاد آدم ہونے کی بنا پر وجود میں آتا ہے اگر ہم محبت سے محروم ہو چکے ہوں تو ہمارا یہ رشتہ رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا۔ ہم ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے۔ ہماری باہمی کدورتیں اور باہمی عناد ہمیں دوسروں کی مدد کرنے ، ان کے کام آنے ، ان کی غم و خوشی میں پوری طرح شریک ہونے سے روکے گا۔ ہم ایک ہی محلے اور معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، مگر تعلقات میں محبت نہ ہونے اور دلوں میں فاصلوں کی وجہ سے کسی کے نہایت مشکل اور نازک موقعے پر بھی اس کے پاس سے بے پروائی سے گزر جاتے ہیں۔اس لیے کہ ہم گمانوں کی وجہ سے اس مجبور اور بے کس کے خلاف اپنی رائے خراب کر چکے ہوتے ہیں۔
۳۔مرحمت(ہم دردی)
باہمی محبت کی یہ کمی ہمارے اندر سے ہم دردی کا عنصر بھی ختم کردیتی ہے ۔ ہمارے جیسا انسان ہی بھوکا ہوتا ، مرض سے کراہ رہا ہوتا ہے، مگر ہمارے دل میں کوئی خیال تک نہیں رینگتا کہ ہم اس کے کام آئیں، اس کی مدد کریں۔ یہ محض اسی موقع پر ہو گا جب ہماری اس کے بارے میں رائے خراب ہو گی۔دوسروں سے ہم دردی نہ صرف ہمارا اخلاقی وجود تقاضا کرتا ہے،بلکہ ہمارا دینی وجودبھی اس کا تقاضا کرتا ہے۔قرآن مجید کے مطابق یہ ہمارا دوسروں پر اور دوسروں کا ہم پر حق ہے:

أَلَمْ نَجْعَلْ لَّہُ عَیْنَیْنِ. وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ. وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ. فَلَا اقْتَحَمَ العَقَبَۃَ. وَمَآ أَدْرَاکَ مَا العَقَبَۃُ: فَکُّ رَقَبَۃٍ. أَوْاِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ. یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ. أوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبۃٍ. ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ.(البلد۹۰: ۸۔۱۷)
''ہم نے کیااس کو دو آنکھیں نہیں دیں(کہ محتاجوں کو دیکھتا)،اور زبان اور ہونٹ نہیں دیے (کہ ان کی مدد کی ترغیب دیتا)، اور دونوں راستے نہیں سجھائے (کہ اچھے برے کو سمجھتا؟پر اس نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا)اور وہ گھاٹی پر نہیں چڑھا، اور تم کیا سمجھے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ (یہی کہ)گردن چھڑائی جائے، اور بھوک کے دن کسی قریبی یتیم یا کسی بے حال مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ پھر آدمی ان میں سے ہوجو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو ثابت قدمی کی اور دوسروں سے ہم دردی کی نصیحت کی۔''

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے ۔ غربیوں ، ناداروں اور رشتہ دار ضرورت مندوں کے کام آنا، ان پر اپنے مال میں سے خرچ کرناکتنا ضرور ی ہے۔ مگر بہت ساری وجوہات ہمیں اس سے روک دیتی ہیں۔ ان وجوہات میں سے ایک بدگمانی بھی ہے جو ہمیں اس سے روکے رکھتی ہے۔
۴۔اجتماعی یا قومی و ملی وجود
اوپر کے تینوں پہلو، معاشرے میں ساتھ ساتھ رہنے والے لوگوں کے گھرکی سطح پر یا محض انسان ہونے کے تعلق کے لحاظ سے تھے۔اب ہم گھر سے باہر اجتماعی اور سماجی سطح پر اس کا جائزہ لیں گے کہ گمانوں کی ستم گریاں کیا ہیں ۔
اگر ہماری تربیت گھر کے اندر گمانوں کی کثرت میں جینے کی ہوئی ہواور ہم اسی کے عادی ہوں ، تویہی چیز ہماری معاشرت میں بھی نظر آئے گی۔ دفتر، تنظیم ، معاشرہ اور ریاست ہر سطح پر یہ چیز اپنے اثرات ڈالے گی۔کہیں کوئی اپنے سربراہ کے بارے میں برے خیالات بن رہا ہو گااور کہیں کوئی اپنے ساتھی کے کسی رویے پر کڑھ رہا ہو گا ، اور کہیں کوئی انتقامی کارروائی کا سوچ رہا ہوگا۔ کوئی انھی خیالات سے ڈیپریش اور فرسٹریشن کا شکار ہو گا اور کسی کا موڈ بن رہا ہوگا۔ کوئی بات بات پر گرم ہو جاتا ہو گا اور کوئی کھانے کو آتا ہو گا۔اس سب کچھ کی وجوہات میں ایک وجہ وہ آرااور تجزیے ہیں جن کی بنیاد محض گمان ہوتے ہیں۔
جس قوم کے گھر اور دفتر میں یہ حالات ہوں، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ صحت مند طریقے کے ساتھ دنیا میں چل سکے۔ وہ ہر قدم پر فسادکا شکارہوگی۔اس کا اتحاد ہر وقت معرض خطر میں ہو گا۔ اس کی سیاست، مذہب اور معاشرت میں اتفاق و اتحاد کی ہزار کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔ اس لیے کہ اتحاد کے لیے سب سے پہلی چیز ایک دوسرے پر اعتماد اور ان کی غلطیوں کو محض غلطی مان کر ساتھ چلناہے۔
۵۔ تکریم
عزت و تکریم کے معنی محض یہ نہیں ہیں کہ ہم بڑوں کی عزت کریں، بلکہ انسان کی تکریم یہ ہے کہ اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے ، ا س کے انسان ہونے کے ناطے اس کی عزت کی جائے۔ سوء ظن کی عادت اس تکریم آدمیت سے روکتی ہے۔ سوء ظن خطا کار کو شیطان کا روپ دے دیتی ہے ، جس سے غلطی کرنے والا ہماری نظروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گر جاتا ہے۔یہی عمل ہم اپنے سوء ظن کی بنا پر دوسروں سے کر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے ہمارے ساتھ۔
جس معاشرے کے افراد میں گمان کرنے کا وصف ہوگا، اس میں ایک دوسرے کی تکریم ، احترام ، عزت اور بالآخر لحاظ اور پاس خاطر جاتا رہے گا۔ چنانچہ کسی شخص کو اس کا جائز مقام نہ مل سکے گا۔ بہو بیٹیاں اورساس اسی اژدھے کی ڈسی ہوئی ہیں ۔ افسر و ماتحت اسی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سب کی نگاہوں میں سب ذلیل ہیں۔ عزت صرف دکھاوے کی رہ گئی ہے

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Re: ))))Vu & Company(((( اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ((الحجرات۴۹: ۱۲) ’’)

Post ap ki tarah nice ha 

On 22 Feb 2017 5:26 p.m., "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
بد گمانی عربی کے لفظ 'الظن 'کا ترجمہ ہے ۔ عربی کا 'ظن 'اچھے اور برے دونوں معنی میں آتا ہے۔ جس طرح اردو میں گمان دونوں معنی میں آتا ہے۔قرآن مجید میں جہاں بدگمانی سے روکا گیا ہے ، وہاں 'سوء الظن 'کے بجائے صرف 'ظن 'ہی کا لفظ استعمال ہواہے۔قرآن مجید کا فرمان ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ، اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ...(الحجرات۴۹: ۱۲)
''اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں...''

اصل حکم

اوپر مذکور آیت سے یہ واضح ہے کہ قرآن مجید نے محض بدگمانی سے نہیں روکا، بلکہ اس نے کثرت گمان سے روکا ہے۔ یعنی قرآن مجید نے ہمیں اس بات سے روکا ہے کہ ہم خواہ مخواہ دوسروں کے بارے میں ظنون تراشتے رہیں۔ یہاں سیاق کلام سے یہ بات بالکل متعین ہے کہ یہاں جن گمانوں کی بات ہورہی ہے ، وہ لوگوں ہی سے متعلق ہیں۔یعنی اخلاقی دائرے میں آنے والے گمان۔ انھی کی کثرت بری چیزہے۔چونکہ یہ اخلاقیات سے متعلق ہے۔ اس لیے اخلاقیات میں ہر خرابی اسلام کے نزدیک برائی ہے،ا ور وہ ایک قابل مواخذہ جرم ہے۔
گویا لوگوں کے بارے میں ہمیں اصل میں ان ہی کے عمل و نظریہ کی بنیاد پر رائے بنانی چاہیے۔ ان کے بارے میں ہماری رائے نہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہونی چاہیے اور نہ ہمارے بے بنیاد خیالات پر، جوبلا دلیل ہمارے دل میں پیدا ہو گئے ہوں۔ہمارے وہ خیالات جن کی بنیاد محض ہمارا گمان ہو ، درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تابیر نخل میں اپنی ایک رائے کے بارے میں فرمایا تھا:

فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُم، وَإِنَّ الظَّنَ یُخْطِئُ وَ یُصِیْبُ.(ابن ماجہ، رقم ۲۵۶۴)
''بھئی میں بھی تمھارے جیسا انسان ہوں، وہ میرا ایک خیال(گمان ) تھا، اور خیالات صحیح بھی ہوجاتے ہیں اور غلط بھی۔''

گمانوں کی کثرت سے اسی لیے روکا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں خطا کا امکان ہے۔اگر ہمارا گمان صحیح بھی ہے تب بھی اس میں یہ خرابی ضرور موجود ہے کہ وہ ہمارا گمان ہے ، کسی ٹھوس شاہد و دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ بندۂ مومن کو اپنی آرا کو حتی الامکان ٹھوس چیزوں پر مبنی کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے:

وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ، اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلًا.(بنی اسرائیل۱۷: ۳۶)
''اور جس چیز کا تمھیں علم نہیں، اس کے درپے نہ ہو کیونکہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر چیز سے پرسش ہونی ہے۔''

قرآن کی رو سے اس ضمن میں اصلاً مطلوب یہی ہے کہ ہم لوگوں کے بارے میں کسی قسم کی ایسی آرا نہ بنائیں، جن کی ہمارے پاس ٹھوس بنیاد (علم)موجود نہ ہو۔

گمانوں پر مواخذہ

قرآن مجید نے گمانوں کو قابل مواخذہ قراردیا ہے۔ گمان کئی پہلووں سے قابل مواخذہ ہو سکتے ہیں۔ ہم ذیل میں چند اہم چیزوں کی طرف اشارہ کریں گے، جو ہمارے گمانوں کی وجہ سے انجانے میں ہم سے سرزد ہو جاتی ہیں، اور یہی وہ چیزیں ہیں جو گمان کو گناہ بنا دیتی ہیں:

بے بنیاد خیال

بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا آیت میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ ایسی آرا بنانے پر ہماری پرسش ہو گی، جن کے پیچھے کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہو گی،بلکہ وہ محض ہمارے خیال اور گمان پر مبنی ہو گی۔قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ ہماری پرسش آنکھ، کان اور دلوں سے بھی ہو گی(۱۷:۳۶)۔ جس آنکھ نے غلط دیکھا، اور جس کان نے غلط سنا، اور جس دل نے غلط سوچاوہ مجرم ہے وہ پکڑا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غلط اور بے بنیاد آرا پر ہماری پکڑ ہو گی۔ اس لیے کہ بغیر کسی دلیل کے کسی کے بارے میں برا سوچنا ایک غلطی ہے۔ اس لیے اس غلطی پر بھی باز پرس ہوگی۔
چونکہ ہمارے گمان بے بنیاد ہوتے ہیں، اس لیے ہم یہ نہیں جا ن سکتے کہ کون سا گمان گناہ والا ہے اور کون سا نہیں۔ یعنی جب ہمیں حقیقت کا علم ہو گا تو تبھی پتا چلے گا کہ ہم غلط سوچ رہے تھے یا ٹھیک۔اس لیے حقیقت کے سامنے آنے تک ہم یہ نہیں جان سکتے کہ ہم غلط سوچ رہے ہیں یا صحیح ۔ اسی لیے قرآن مجید نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ بدگمانی کو ترک کرو، بلکہ اس نے کہا کہ بہت گمان نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ ان میں سے اکثر غلط ہی ہوں گے۔
بعض شارحین نے یہ بات کہی ہے کہ جو گمان اتہام اور بہتان کی شکل اختیار کر جائے وہ گمان گناہ ہے۔ لیکن قرآن نے یہ بات نہیں کہی۔ قرآن نے تو گمانوں میں سے بہت سے گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے۔ محض اس لیے کہ وہ بلا دلیل بنائے گئے ہیں۔

نا انصافی

گمانوں کے مواخذہ کی بڑی وجہ ان کے ہمارے رویوں پر اثرات ہیں۔ اسی طرح گمانوں کی وجہ سے ہم ایسے عمل کرڈالتے ہیں جو برے ہوتے ہے۔ ان اعمال میں سب سے بڑاعمل ناانصافی ہے۔قرآن مجید کا وہ حکم جو سورۂ بنی اسرائیل میں آیا ہے ،اس سے معلوم ہو تا ہے کہ گمان اور خیالات ہمارے دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ شیطانی وسوسے اور ادھر ادھر کے خیالات دل میں آتے رہتے ہیں۔اگر ہم انھی خیالات پر جم گئے اور گمانوں پر ہی اپنے کسی بھائی کے بارے میں بری رائے بنا لی تو وہ گناہ کا باعث ہے۔ لیکن اگر وہ گمان ہمارے دل میں آیا، اور ہم اس میں مبتلا ہونے کے بجائے اس سے نکل گئے اوراس کو رد کردیا تو ہم گناہ سے بچ گئے۔اس لیے کہ کسی کے بارے میں بری یا محض غلط رائے بنا لینا اس کے ساتھ ناانصافی ہے۔مثلاً آپ نیک نیتی سے کوئی عمل کریں،تو اس پر کوئی آدمی د ل ہی دل میں یہ رائے بنا لے کہ آپ ریا کار ہیں تو کیا یہ آپ کے ساتھ انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ انصاف نہیں ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے یہ گمان گناہ بن جاتے ہیں۔
تعلقات پر برے اثرات
گمانوں سے ہونے والا دوسرا بڑا عمل ہمارے تعلقات میں خرابی ہے۔ہمارے تعلقا ت میں اہم چیز ہماری رائے ہوتی ہے ۔یعنی اگر کسی کے بارے میں ہماری رائے اچھی ہوگی تو ہم اس کو اچھے طریقے سے ملیں گے اور اگر ہماری رائے اس کے بارے میں اچھی نہیں ہو گی ۔ تو ہم اچھے طریقے سے نہیں مل سکیں گے ۔اس طرح سے ہمارے گمان ہمارے رویوں کو خراب کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے گمان ہی کی بنا پر دوسرے سے معاملات کرنے لگ جاتے ہیں ۔ جس سے وہ گناہ کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔
یعنی اگر ایک آدمی نے برائی نہیں کی، مگر ہم نے گمان ہی گمان میں اس کو مجرم بنا لیا ہے تو اب اس کے ساتھ ہمارا رویہ بگڑ جائے گا، جو بلاوجہ ہوگا۔ برے رویے کی بنا پر ہم گناہ مول لے لیتے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو محض گمان بھی دراصل ان گناہوں میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ تمھیں شعور بھی نہیں ہوتا، مگر وہ تمھارے اعمال کو ہڑپ کرجاتے ہیں(الحجرات۴۹:۲)۔

نیتوں کا تعین

گمان بالعموم نیت کا تعین بن جاتے ہیں۔ ہمارے تمام گمان جن کو ہم بدگمانی کہہ سکتے ہیں، ان کی نوعیت بالعموم یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے بھائی کی نیت کا تعین کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ مجھے تنگ کرنا چاہتا تھا، وہ سب کے سامنے مجھے ذلیل کرنا چاہتا تھاوغیرہ۔
نیتوں کے بارے میں ہم جان ہی نہیں سکتے۔اس لیے اس کا تعین ایک غلطی ہے۔ جو غلطی اخلاقی دائرے میں ہوتی ہے، وہ گناہ ہے ۔اس پر قیامت کے دن مواخذہ ہو گا۔
اس کی بہت عمدہ مثال وہ واقعہ ہے جو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیش آیاجب انھوں نے ایک جنگ میں کسی آدمی کو کلمہ پڑھنے کے باوجود مار ڈالا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ چنانچہ جب ان سے بات ہوئی تو آپ نے فرمایا:' أقال لا الٰہ الا اللّٰہ وقتلتہ' ،''کیا اس نے لاالٰہ پڑھا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کرڈالا''؟
حضرت اسامہ نے عرض کی: 'یا رسول اللّٰہ انما قالہا خوفا من السلاح'،''اس نے ایسا صرف اسلحہ کے ڈر سے کہا تھا۔''
آپ نے فرمایا: 'افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم اقالہا ام لا '،''تم نے اس کا سینہ چیر لیا ہوتا کہ تم جان لیتے کہ اس نے کلمۂ اسلام دل سے کہا یا نہیں!''
حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ آپ باربار یہ جملہ دہراتے رہے ، اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا اور یہ غلطی مجھ سے صادر نہ ہوئی ہوتی۔(مسلم، رقم۹۶)
یہ حضرت اسامہ کا ایک گمان تھا، نا معلوم صحیح تھا یا غلط؟ لیکن انھوں نے اس کی غلط نیت طے کی اور اس کے خلاف جان لینے تک کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ نیت کا تعین بھی ایک برائی ہے۔ جو ہمیں بہت سنگین عمل تک لے جاسکتی ہے۔

گمان جھوٹ ہوتا ہے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ گمانوں سے بچو اس لیے کہ گمان 'اکذب الحدیث' ہوتے ہیں۔ یعنی بے بنیاد اور جھوٹی بات ۔ اس سے بھی اس کے' اثم 'ہونے کی طرف اشارہ نکلتا ہے، یعنی چونکہ یہ جھوٹی بات ہے، جو انسان دل ہی دل میں سوچ لیتا ہے۔ اور یہ واضح سی بات ہے کہ جھوٹی بات پر قیام بندۂ مومن کے لیے صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ گناہ اور برائی ہے۔

غلطی میں اضافہ

ہم اپنے گمانوں کی مدد سے کبھی تو بے گناہ کو گناہ گار بنا رہے ہوتے ہیں، اور کبھی کم خطا وار کو زیادہ بڑی غلطی کا مجرم ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک آدمی سے غلطی محض بے احتیاطی کی وجہ سے ہوئی ہو، مگر ہم اسے یہ خیال کرکے کہ اس نے ہماری دشمنی میں ایسا کیا ہے۔ اس کے جرم کی سنگینی میں اضافہ کردیتے ہیں۔
چنانچہ بعض اوقات اپنی ہی چیز اٹھانے والے کو ہم چور سمجھ لیتے ہیں۔غلطی سے برائی کرجانے والے کو مجرم بناڈالتے ہیں۔

سچا گمان غیر ثابت شدہ حقیقت

کوئی شخص یہاں یہ سوال اٹھا سکتاہے کہ اگرآدمی گمان کرے، اور وہ غلط نہ ہو، تو وہ تو گناہ گارنہیں ہو گا۔ تو کیا یہ ضروری ہے کہ کثرت گمان پر پھر بھی گناہ ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ گمان سچا بھی ہوتب بھی وہ گمان ہے۔ وہ کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے۔اس لیے اس پرقائم رہنا، یا اس کے مطابق عمل کرنا دراصل غیر ثابت شدہ باتوں پر عمل کرنا ہے۔ اس میں اور سنی سنائی باتوں میں پھرفرق کیا رہ گیا؟
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو تو اس گمان کے سچاہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ آپ تو محض گمان پر کھڑے ہیں۔ جو ایک کمزور اور غلط جگہ ہے۔ ایک گمان کے سچا اور جھوٹا ہونے کے برابر امکانات ہوتے ہیں۔ اس لیے گمان کرنا اور اسے دل میں پالنا ہر صورت میں ایک غلط کام ہے۔

دوبارہ نظر

ہم نے اوپر کی بحث میں یہ بات جانی ہے کہ کثرت گمان سے قرآن مجید نے روکا ہے۔اس لیے کہ گمان ایک بے بنیاد اور جھوٹی بات ہے۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ہو بھی تو وہ ثابت شدہ نہیں ہے۔
کسی کے بارے میں گمان کرنا اخلاق سے گرا ہوا عمل ہے۔ دین اسلام میں اخلاقی خرابی کو گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یعنی اس پر مواخذہ ہوگا۔ 'ظن 'دراصل جھوٹ، ناانصافی اورنیتوں کے تعین وغیرہ کا نام ہے۔ یہ برے اخلاق کو جنم دیتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک واضح برائی ہے۔
گمانوں کی کثرت بذات خود ناپسندیدہ چیز ہے۔ اس لیے کہ بندۂ مومن گمانوں اور خیالات پر نہیں جیتا،بلکہ اس کی زندگی ٹھوس حقائق پر استوار ہونی چاہیے اور لوگوں کے بارے میں اسے سیدھی اور ثابت شدہ بات پر قائم ہونا چاہیے۔

حسن ظن کا حکم

ہم مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ اپنے بہن بھائیوں، ہم سایوں ، دوستوں اور ارد گرد رہنے والوں کے بارے میں حسن ظن رکھیں۔سورۂ نور کی آیت افک سے ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ ہماری عمومی رائے دوسروں کے بارے میں اچھی ہونی چاہیے، جب تک کہ وہ ٹھوس دلائل سے بدل نہ جائے۔اچھی رائے سے ہماری مراد یہ ہے کہ جب بھی کوئی برائی کسی آدمی سے متعلق آپ کے علم میں آئے تو فوراً :
۱۔اس کو اچھے پہلوسے دیکھیں۔
۲۔ اس کے اچھے اسباب اور وجوہ پر نظر رکھیں۔
۳۔جس پر الزام لگایا جارہا ہے، اس پر الزام لگانے سے گریز کریں اور کہیں کہ ہم نے ایسا کرتے اسے نہیں دیکھا، بخدا ہماری نظر میں پاک صاف ہے۔
حسن ظن کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم اس کے بارے میں کوئی بہت اچھی رائے قائم کریں۔ بلکہ یہ ہیں کہ اس کے عمل کو بری نظر اور بری توجیہ کر کے نہ دیکھیں، اور نہ محض سن کر یااپنے گمانوں کی وجہ سے اس پربرائی کا الزام لگائیں۔کسی کی برائی سن کر فوراًبرأت کا اظہار کرنا چاہیے ۔ چنانچہ جب سیدہ عائشہ پر الزام لگا تو قرآن مجید نے مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ ان پر لازم تھا کہ وہ سیدہ عائشہ کی برأت اور پاک دامنی کا اعلان کرتے اس لیے کہ ان میں سے کسی نے بھی انھیں کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ چاہیے یہ تھا کہ سب یک زبان کہتے کہ حاشا وہ پا ک دامن اور معصوم ہیں۔ ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ قرآن مجید میں یہ بات یوں آئی ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وْا بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ، لَاتَحْسَبُوْہٗ شَرًّا لَّکُمْ، بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، لِکُلِّ امْرِیئ مِّنْہُمْ مَا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ، وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا، وَّقَالُوا: ہَذَٓا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ.(النور۲۴: ۱۱،۱۲)
''جو لوگ یہ اتہام گھڑ کر لائے، وہ تم ہی میں سے ہیں۔ تم اس چیز کو اپنے لیے برا خیال نہ کرو، یہ تمھارے لیے اچھی ہے۔ان میں سے ہر ایک نے جو گناہ کمایا وہ اس کے حساب میں پڑا، اور جو اس فتنہ کا بڑا حصہ دار ہے ، اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔ اے مسلمانو،ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی تو مومن عورتیں اور مرد ایک دوسرے کی بابت اچھا گمان کرتے، اور کہتے کہ یہ تو ایک سیدھا سیدھا بہتان ہے۔''

اس آیت میں مسلمانوں سے یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ ایسی سنگین صورت میں بھی ہمارا کام یہی ہونا چاہیے کہ جب ایک پورا گروہ یہ کہہ رہا ہو کہ فلاں شخص نے ایسا کیا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے اپنے بھائی اور بہن کے بارے میں اچھا گمان رکھیں اور اسے ایک بہتان سمجھیں۔
یہاں اس واقعۂ افک کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں جب غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر بعض منافقین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت دھری۔ بظاہر سیدہ کے پیچھے رہ جانے کے باوصف ایک ایسا قرینہ پیدا ہو گیا تھا کہ تہمت میں سچ کا گمان ہوتا تھا۔ لیکن ایسے قرائن بھی قرآن کے نزدیک بے معنی ہیں۔ اس لیے کہ پیچھے رہ جانے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہو تا کہ یقیناًایسا ہوا ہو گا جیسی ان پر تہمت لگائی جارہی تھی۔

ہمارا باہمی رشتہ اور بدگمانی

اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے بھائی بھائی بن کر رہیں۔ اس کے لیے اس نے ہمارے تین رشتے بتائے ہیں:

ایک خدا کی مخلوق

ہمارا آپس میں پہلا رشتہ یہ ہے کہ ہم سب کو مختلف خداؤں نے نہیں، بلکہ ایک ہی خدا نے بنایاہے۔ہم اس اعتبارسے خدا شریک بھائی ہیں۔اس نظریہ سے ہمارے رشتے میں برابری کا ایک تصور آتا ہے۔ اگر مجھے کسی اور خدا نے بنایا ہو اور آپ کو کسی اور نے تو ہوسکتا ہے میرے اور آپ میں تفاوت ہو۔اگر میرا خدا کمزور ہو اور آپ کا قوی تو میں آپ کے مقابلے میں حقیر ٹھہروں گا۔ لیکن اگر میرا اور آپ کا خدا ایک ہے۔ تو مجھ میں اور آپ میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔
۱۔ اس تفاوت کے نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ میرااور آپ کا منبع و ماخذ ایک ہے۔جس جگہ سے آپ آئے ہیں میں بھی وہیں سے آیا ہوں۔ جس خدا نے آپ کو بنایا ہے اسی نے مجھ کو ۔ آپ کو مجھ پر اور مجھے آپ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔
۲۔میر ی اور آپ کی فطرت ایک ہی خدا نے بنائی ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ میری سرشت میں تو برائی رکھ دی گئی ہو ، اور آپ کی سرشت میں نیکی۔ میرے اندر بھی ضمیر اور نفس کی کش مکش لگی ہے اور آپ کے اندر بھی۔اس لیے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ہمیشہ برائی پر آمادہ رہوں اور آپ ہمیشہ نیکی پر۔ جس طرح آپ کی نیت صحیح ہوتی ہے، اسی طرح میری بھی صحیح ہوتی ہے۔ جس طرح آپ کبھی نفس کا شکار ہوجاتے ہیں اسی طرح میں بھی ہو جاتا ہوں۔یہ سب ہمارے خدا نے اس لیے بنایا ہے کہ وہ ہمیں آزمائے۔
۳۔ میری اور آپ کی عزت یکساں ہے۔میں جس جل جلالہ کی تخلیق ہوں آپ بھی اسی کی تخلیق ہیں ۔فلاں اور فلاں کو بھی اسی نے بنایا ہے۔جو آپ کا مقام ہے ،وہی میرا ہے وہی سب کا ہے۔کسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
۴۔ اس تفاوت کے نہ ہونے کے معنی یہ بھی ہیں کہ میرا اور آپ کا خدا ایک ہے۔ وہی میرا نگہبان اور آپ کا بھی۔ میں بھی اسی کے سامنے جواب دہ ہوں اور آپ بھی۔ اگر آپ مجھ پر ظلم کریں گے تو وہ چونکہ میرا بھی رب ہے اس لیے وہ میرے اوپر ہونے والے ظلم کے تدارک کے لیے آپ کو پوچھے گا۔ اگر میں نے آپ پر ظلم کیا تو وہ آپ کی داد رسی کے لیے مجھ سے پوچھے گا۔ کسی کا یارا نہیں ہے کہ وہاں وہ خدا کی مخلوق پر ظلم کرے ، اور کوئی دوسرا (خدا)آکر چھڑا لے جائے۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا اتناہی طاقت ور خدا موجود ہو۔

ایک ماں باپ کی اولاد

دوسرا رشتہ قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ دنیا میں بسنے والے سب لوگ آدم و حوا کی اولاد ہیں، اور ان دونوں کو بھی اللہ تعالی نے نفس واحدہ سے پیدا کیا ہے۔اس اعتبار سے ہم ایک ہی نفس واحدہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ ہم آپس میں نسبی اور رحمی تعلق رکھتے ہیں، اگرچہ اب یہ تعلق دور کا تعلق ہے ،لیکن ہماری رگوں میں اب بھی آدم و حو اہی کا خون دوڑتا ہے:

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآءً.(النساء ۴: ۱)
''اے لوگو، اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم سب کو پیدا کیا ایک ہی جان سے ، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور پھر ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔''

اس تعلق سے کچھ نتائج نکلتے ہیں:
ایک یہ کہ ہم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ، اس لیے نسلی اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ ذاتیں،قبائل اور اقوام محض پہچان اور تعارف کی چیز ہے۔ ان میں بہتراور کہتر ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
تیسرے یہ کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں۔

ملت واحدہ

اسلام میں داخل ہونے والوں کا باہم ایک رشتہ اور بڑھ جاتا ہے، وہ یہ کہ ہم سب دینی لحاظ سے بھی بھائی بھائی ہیں۔'ان المومنون اخوۃ '(سب مسلمان بھائی بھائی ہیں) کی تعلیم اسی تعلق کی طرف اشارہ ہے۔
نتیجہ
یہ تینوں تعلق ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم باہم خلوص ومحبت، عزت و احترام، ہم دردی و مرحمت، شفقت و عنایت، مدد و نصرت اور باہمی اصلاح و خیر خواہی کے تعلق کے ساتھ برکتوں والاگھر بسا کر اور ایک خیر و امن والامعاشرہ بنا کررہیں۔ قرآن مجید نے ہمیں اس پہلو سے بہت سی تعلیمات دی ہیں۔ اسی تعلق سے امت مسلمہ میں اتحاد و یگانگت پیدا ہوتی ہے، اسی سے یک جہتی اور اپنائیت وجود میں آتی ہے۔اسی سے فرقے مکاتب فکر میں تبدیل ہو کر محض علمی اختلاف تک محدود ہو جاتے ہیں۔اسی صورت میں حدیث کے مطابق اختلاف اللہ کی رحمت بنتا ہے ۔
اس ہمہ جہت محبت و یگانگت کے اس تعلق کو قرآن فروغ دینا چاہتا ہے،تاکہ مسلمانوں کا معاشرہ ایک تعلق و ارتباط اور محبت و مرحمت کی بنا پر وجود پزیر ہو۔اور وہ چاہتا ہے کہ مسلمان ان چیزوں سے بچے رہیں ، جو اس تعلق کو توڑتی اور باہم تفریق پیدا کرتی ہیں۔ ایسی چیزوں کا قرآن مجید نے سورۂ الحجرات میں بالخصوص ذکر کیا ہے۔جس میں مذاق اڑانا ، چغلی و غیبت کرنا، تجسس کرنا، برے نام رکھنا، الزام تراشنا، ذات پات کی تفریق کرنا جیسے اخلاق رذیلہ کا ذکر کیا گیا ہے۔انھی میں ایک چیز گمانوں کی کثرت کا حکم ہے ۔ یہ سب چیزیں ہمارے اندر تفریق اور جدائی پیدا کرتی ہیں۔ یہ ہمیں ایک دوسرے سے کاٹتی ہیں۔ دلوں میں کدورتیں اور نفرتیں پیدا کرتی ہیں۔ جس معاشرے میں یہ چیزیں عام ہو جائیں وہاں سے بھائی چارہ،اخوت و محبت اور بالآخر قومی و ملی یک جہتی دم توڑ جاتی ہے۔ آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ گمانوں کی کثرت سے نقصانات کیوں کر وجود میں آتے ہیں۔
گمان کے نقصانات
جب ہمیں کسی کے کسی قول و فعل کی حقیقت جانے بغیر اپنے گمانوں کی بنا پر کچھ بے بنیاد خیالات بناتے ہیں، تو ہم اصل میں اپنی رائے اس کے بارے میں تبدیل کرتے ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہم اپنی رائے کو اس کے بارے میں خراب کرلیتے ہیں ۔جس سے کچھ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جن میں سے چند اہم چیزوں کاہم ذیل میں ذکر کریں گے۔
دل میں میل آنا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس آکردوسروں کی برائی کرنے والوں کو یہ کہہ کر برائی کرنے سے منع کر دیا کہ :

لا یبلغنی احد من اصحابی عن احد شیئا فانی احب ان اخرج الیکم وانا سلیم الصدر.(ابوداؤد، رقم ۴۸۶۲)
''مجھے میرے ساتھیوں میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی بات نہ پہنچائے اس لیے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں تم لوگوں میں آؤں تو میرا دل تم لوگوں کے بارے میں صاف ہو''

دوسروں کی برائی سے جس طرح دل میں میل آتا ہے ، اسی طرح اپنے خیالات سے بھی دل میں میل آتا ہے۔ اس میل کے آنے سے ہمارے رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔ کسی خیال سے دل میں غصہ پیدا ہو گا ،کسی سے نفرت ،کسی سے بے جا اور غیر متوازن محبت۔ یہ سب چیزیں خرابی پیدا کرتی ہیں۔ اچھے رویے کے اظہار کے لیے سب سے پہلی چیز ہی یہ ہے کہ ہمارا دل دوسروں کے بارے میں صاف ہو، ہم اسی صورت میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرسکیں گے۔گمانوں کا یہ نتیجہ بھی جیسا کہ ہم اوپر بیان کرآئے ہیں، گمانوں کو قابل مواخذہ بنا دیتا ہے۔ گمانوں سے آنے والا میل دل میں کدورتوں کو وجود بخشتا ہے، جس سے درج ذیل تعلقات میں تعطل اور خرابی آتی ہے:
۱۔ محبت
ایک دوسرے کے بارے میں گمانوں کی کثرت سے دل دوسروں کے بارے میں صاف نہیں رہتے، جس سے باہم فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے باہمی محبت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ باہمی تعلق اتنا کمزور پڑ جاتا ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوناتو درکنار ان کے ساتھ محض وہ تعلق بھی نہیں رہتا جو ایک اجنبی انسان کا دوسرے اجنبی انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔
دل میں دوسروں کے بارے میں خرابی تعلقات کے کاٹنے کے لیے ایک کلہاڑا ہے ۔ اگر آپ کسی کے بارے میں رائے بگاڑتے چلے جائیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کے دل میں اس کی محبت باقی رہے۔ اگر آپ دل کی صفائی کا اہتمام نہیں کرتے ، تو یاد رکھیے کہ ماں باپ جیسے عزیز اور بیوی بچوں جیسے قریبی تعلق میں بھی دراڑیں آجاتی ہیں اور بسا اوقات نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ محبت کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے خیالات کو دوسروں کے بارے میں بینات اور واضح حقائق پر استوار کریں۔
میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ بعض ایسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی کہ جو محض خدا کے بارے میں اپنے خیالات ہی کی وجہ سے اللہ سے نالاں اور اس کے منکر تھے۔ ایسے ہی لوگوں سے ملاقات کے بعد میں نے ''ہم پر مشکلیں کیوں آتی ہیں ''نامی کتاب لکھی۔ تاکہ ایسے بہت سے لوگوں کے دل میں خدا کے بارے خلجان دور ہو۔ اس لیے کہ یہ چیزخدا کے ساتھ محبت کو برباد کرنے والی ہے۔اور خدا کے بارے میں محبت اور اپنائیت سے محرومی کفر و زندیقی اور الحاد تک پہنچ جاتی ہے۔
میری مراد یہ ہے کہ محبت کا یہ تعلق انسانوں کے ساتھ تو گمانوں کی وجہ سے ٹوٹتا ہی ہے ، خدا کے ساتھ ہمارا تعلق بھی برے گمانوں سے ختم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے حسن ظن کی نصیحت کیا کرتے تھے۔
۲۔بھائی چارہ
یہ انسان کا انسان سے وہ رشتہ ہے جو اولاد آدم ہونے کی بنا پر وجود میں آتا ہے اگر ہم محبت سے محروم ہو چکے ہوں تو ہمارا یہ رشتہ رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا۔ ہم ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے۔ ہماری باہمی کدورتیں اور باہمی عناد ہمیں دوسروں کی مدد کرنے ، ان کے کام آنے ، ان کی غم و خوشی میں پوری طرح شریک ہونے سے روکے گا۔ ہم ایک ہی محلے اور معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، مگر تعلقات میں محبت نہ ہونے اور دلوں میں فاصلوں کی وجہ سے کسی کے نہایت مشکل اور نازک موقعے پر بھی اس کے پاس سے بے پروائی سے گزر جاتے ہیں۔اس لیے کہ ہم گمانوں کی وجہ سے اس مجبور اور بے کس کے خلاف اپنی رائے خراب کر چکے ہوتے ہیں۔
۳۔مرحمت(ہم دردی)
باہمی محبت کی یہ کمی ہمارے اندر سے ہم دردی کا عنصر بھی ختم کردیتی ہے ۔ ہمارے جیسا انسان ہی بھوکا ہوتا ، مرض سے کراہ رہا ہوتا ہے، مگر ہمارے دل میں کوئی خیال تک نہیں رینگتا کہ ہم اس کے کام آئیں، اس کی مدد کریں۔ یہ محض اسی موقع پر ہو گا جب ہماری اس کے بارے میں رائے خراب ہو گی۔دوسروں سے ہم دردی نہ صرف ہمارا اخلاقی وجود تقاضا کرتا ہے،بلکہ ہمارا دینی وجودبھی اس کا تقاضا کرتا ہے۔قرآن مجید کے مطابق یہ ہمارا دوسروں پر اور دوسروں کا ہم پر حق ہے:

أَلَمْ نَجْعَلْ لَّہُ عَیْنَیْنِ. وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ. وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ. فَلَا اقْتَحَمَ العَقَبَۃَ. وَمَآ أَدْرَاکَ مَا العَقَبَۃُ: فَکُّ رَقَبَۃٍ. أَوْاِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ. یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ. أوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبۃٍ. ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ.(البلد۹۰: ۸۔۱۷)
''ہم نے کیااس کو دو آنکھیں نہیں دیں(کہ محتاجوں کو دیکھتا)،اور زبان اور ہونٹ نہیں دیے (کہ ان کی مدد کی ترغیب دیتا)، اور دونوں راستے نہیں سجھائے (کہ اچھے برے کو سمجھتا؟پر اس نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا)اور وہ گھاٹی پر نہیں چڑھا، اور تم کیا سمجھے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ (یہی کہ)گردن چھڑائی جائے، اور بھوک کے دن کسی قریبی یتیم یا کسی بے حال مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ پھر آدمی ان میں سے ہوجو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو ثابت قدمی کی اور دوسروں سے ہم دردی کی نصیحت کی۔''

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے ۔ غربیوں ، ناداروں اور رشتہ دار ضرورت مندوں کے کام آنا، ان پر اپنے مال میں سے خرچ کرناکتنا ضرور ی ہے۔ مگر بہت ساری وجوہات ہمیں اس سے روک دیتی ہیں۔ ان وجوہات میں سے ایک بدگمانی بھی ہے جو ہمیں اس سے روکے رکھتی ہے۔
۴۔اجتماعی یا قومی و ملی وجود
اوپر کے تینوں پہلو، معاشرے میں ساتھ ساتھ رہنے والے لوگوں کے گھرکی سطح پر یا محض انسان ہونے کے تعلق کے لحاظ سے تھے۔اب ہم گھر سے باہر اجتماعی اور سماجی سطح پر اس کا جائزہ لیں گے کہ گمانوں کی ستم گریاں کیا ہیں ۔
اگر ہماری تربیت گھر کے اندر گمانوں کی کثرت میں جینے کی ہوئی ہواور ہم اسی کے عادی ہوں ، تویہی چیز ہماری معاشرت میں بھی نظر آئے گی۔ دفتر، تنظیم ، معاشرہ اور ریاست ہر سطح پر یہ چیز اپنے اثرات ڈالے گی۔کہیں کوئی اپنے سربراہ کے بارے میں برے خیالات بن رہا ہو گااور کہیں کوئی اپنے ساتھی کے کسی رویے پر کڑھ رہا ہو گا ، اور کہیں کوئی انتقامی کارروائی کا سوچ رہا ہوگا۔ کوئی انھی خیالات سے ڈیپریش اور فرسٹریشن کا شکار ہو گا اور کسی کا موڈ بن رہا ہوگا۔ کوئی بات بات پر گرم ہو جاتا ہو گا اور کوئی کھانے کو آتا ہو گا۔اس سب کچھ کی وجوہات میں ایک وجہ وہ آرااور تجزیے ہیں جن کی بنیاد محض گمان ہوتے ہیں۔
جس قوم کے گھر اور دفتر میں یہ حالات ہوں، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ صحت مند طریقے کے ساتھ دنیا میں چل سکے۔ وہ ہر قدم پر فسادکا شکارہوگی۔اس کا اتحاد ہر وقت معرض خطر میں ہو گا۔ اس کی سیاست، مذہب اور معاشرت میں اتفاق و اتحاد کی ہزار کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔ اس لیے کہ اتحاد کے لیے سب سے پہلی چیز ایک دوسرے پر اعتماد اور ان کی غلطیوں کو محض غلطی مان کر ساتھ چلناہے۔
۵۔ تکریم
عزت و تکریم کے معنی محض یہ نہیں ہیں کہ ہم بڑوں کی عزت کریں، بلکہ انسان کی تکریم یہ ہے کہ اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے ، ا س کے انسان ہونے کے ناطے اس کی عزت کی جائے۔ سوء ظن کی عادت اس تکریم آدمیت سے روکتی ہے۔ سوء ظن خطا کار کو شیطان کا روپ دے دیتی ہے ، جس سے غلطی کرنے والا ہماری نظروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گر جاتا ہے۔یہی عمل ہم اپنے سوء ظن کی بنا پر دوسروں سے کر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے ہمارے ساتھ۔
جس معاشرے کے افراد میں گمان کرنے کا وصف ہوگا، اس میں ایک دوسرے کی تکریم ، احترام ، عزت اور بالآخر لحاظ اور پاس خاطر جاتا رہے گا۔ چنانچہ کسی شخص کو اس کا جائز مقام نہ مل سکے گا۔ بہو بیٹیاں اورساس اسی اژدھے کی ڈسی ہوئی ہیں ۔ افسر و ماتحت اسی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سب کی نگاہوں میں سب ذلیل ہیں۔ عزت صرف دکھاوے کی رہ گئی ہے

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Wednesday 22 February 2017

))))Vu & Company(((( اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ((الحجرات۴۹: ۱۲) ’’)

بد گمانی عربی کے لفظ 'الظن 'کا ترجمہ ہے ۔ عربی کا 'ظن 'اچھے اور برے دونوں معنی میں آتا ہے۔ جس طرح اردو میں گمان دونوں معنی میں آتا ہے۔قرآن مجید میں جہاں بدگمانی سے روکا گیا ہے ، وہاں 'سوء الظن 'کے بجائے صرف 'ظن 'ہی کا لفظ استعمال ہواہے۔قرآن مجید کا فرمان ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ، اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ...(الحجرات۴۹: ۱۲)
''اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں...''

اصل حکم

اوپر مذکور آیت سے یہ واضح ہے کہ قرآن مجید نے محض بدگمانی سے نہیں روکا، بلکہ اس نے کثرت گمان سے روکا ہے۔ یعنی قرآن مجید نے ہمیں اس بات سے روکا ہے کہ ہم خواہ مخواہ دوسروں کے بارے میں ظنون تراشتے رہیں۔ یہاں سیاق کلام سے یہ بات بالکل متعین ہے کہ یہاں جن گمانوں کی بات ہورہی ہے ، وہ لوگوں ہی سے متعلق ہیں۔یعنی اخلاقی دائرے میں آنے والے گمان۔ انھی کی کثرت بری چیزہے۔چونکہ یہ اخلاقیات سے متعلق ہے۔ اس لیے اخلاقیات میں ہر خرابی اسلام کے نزدیک برائی ہے،ا ور وہ ایک قابل مواخذہ جرم ہے۔
گویا لوگوں کے بارے میں ہمیں اصل میں ان ہی کے عمل و نظریہ کی بنیاد پر رائے بنانی چاہیے۔ ان کے بارے میں ہماری رائے نہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہونی چاہیے اور نہ ہمارے بے بنیاد خیالات پر، جوبلا دلیل ہمارے دل میں پیدا ہو گئے ہوں۔ہمارے وہ خیالات جن کی بنیاد محض ہمارا گمان ہو ، درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تابیر نخل میں اپنی ایک رائے کے بارے میں فرمایا تھا:

فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُم، وَإِنَّ الظَّنَ یُخْطِئُ وَ یُصِیْبُ.(ابن ماجہ، رقم ۲۵۶۴)
''بھئی میں بھی تمھارے جیسا انسان ہوں، وہ میرا ایک خیال(گمان ) تھا، اور خیالات صحیح بھی ہوجاتے ہیں اور غلط بھی۔''

گمانوں کی کثرت سے اسی لیے روکا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں خطا کا امکان ہے۔اگر ہمارا گمان صحیح بھی ہے تب بھی اس میں یہ خرابی ضرور موجود ہے کہ وہ ہمارا گمان ہے ، کسی ٹھوس شاہد و دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ بندۂ مومن کو اپنی آرا کو حتی الامکان ٹھوس چیزوں پر مبنی کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے:

وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ، اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلًا.(بنی اسرائیل۱۷: ۳۶)
''اور جس چیز کا تمھیں علم نہیں، اس کے درپے نہ ہو کیونکہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر چیز سے پرسش ہونی ہے۔''

قرآن کی رو سے اس ضمن میں اصلاً مطلوب یہی ہے کہ ہم لوگوں کے بارے میں کسی قسم کی ایسی آرا نہ بنائیں، جن کی ہمارے پاس ٹھوس بنیاد (علم)موجود نہ ہو۔

گمانوں پر مواخذہ

قرآن مجید نے گمانوں کو قابل مواخذہ قراردیا ہے۔ گمان کئی پہلووں سے قابل مواخذہ ہو سکتے ہیں۔ ہم ذیل میں چند اہم چیزوں کی طرف اشارہ کریں گے، جو ہمارے گمانوں کی وجہ سے انجانے میں ہم سے سرزد ہو جاتی ہیں، اور یہی وہ چیزیں ہیں جو گمان کو گناہ بنا دیتی ہیں:

بے بنیاد خیال

بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا آیت میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ ایسی آرا بنانے پر ہماری پرسش ہو گی، جن کے پیچھے کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہو گی،بلکہ وہ محض ہمارے خیال اور گمان پر مبنی ہو گی۔قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ ہماری پرسش آنکھ، کان اور دلوں سے بھی ہو گی(۱۷:۳۶)۔ جس آنکھ نے غلط دیکھا، اور جس کان نے غلط سنا، اور جس دل نے غلط سوچاوہ مجرم ہے وہ پکڑا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غلط اور بے بنیاد آرا پر ہماری پکڑ ہو گی۔ اس لیے کہ بغیر کسی دلیل کے کسی کے بارے میں برا سوچنا ایک غلطی ہے۔ اس لیے اس غلطی پر بھی باز پرس ہوگی۔
چونکہ ہمارے گمان بے بنیاد ہوتے ہیں، اس لیے ہم یہ نہیں جا ن سکتے کہ کون سا گمان گناہ والا ہے اور کون سا نہیں۔ یعنی جب ہمیں حقیقت کا علم ہو گا تو تبھی پتا چلے گا کہ ہم غلط سوچ رہے تھے یا ٹھیک۔اس لیے حقیقت کے سامنے آنے تک ہم یہ نہیں جان سکتے کہ ہم غلط سوچ رہے ہیں یا صحیح ۔ اسی لیے قرآن مجید نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ بدگمانی کو ترک کرو، بلکہ اس نے کہا کہ بہت گمان نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ ان میں سے اکثر غلط ہی ہوں گے۔
بعض شارحین نے یہ بات کہی ہے کہ جو گمان اتہام اور بہتان کی شکل اختیار کر جائے وہ گمان گناہ ہے۔ لیکن قرآن نے یہ بات نہیں کہی۔ قرآن نے تو گمانوں میں سے بہت سے گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے۔ محض اس لیے کہ وہ بلا دلیل بنائے گئے ہیں۔

نا انصافی

گمانوں کے مواخذہ کی بڑی وجہ ان کے ہمارے رویوں پر اثرات ہیں۔ اسی طرح گمانوں کی وجہ سے ہم ایسے عمل کرڈالتے ہیں جو برے ہوتے ہے۔ ان اعمال میں سب سے بڑاعمل ناانصافی ہے۔قرآن مجید کا وہ حکم جو سورۂ بنی اسرائیل میں آیا ہے ،اس سے معلوم ہو تا ہے کہ گمان اور خیالات ہمارے دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ شیطانی وسوسے اور ادھر ادھر کے خیالات دل میں آتے رہتے ہیں۔اگر ہم انھی خیالات پر جم گئے اور گمانوں پر ہی اپنے کسی بھائی کے بارے میں بری رائے بنا لی تو وہ گناہ کا باعث ہے۔ لیکن اگر وہ گمان ہمارے دل میں آیا، اور ہم اس میں مبتلا ہونے کے بجائے اس سے نکل گئے اوراس کو رد کردیا تو ہم گناہ سے بچ گئے۔اس لیے کہ کسی کے بارے میں بری یا محض غلط رائے بنا لینا اس کے ساتھ ناانصافی ہے۔مثلاً آپ نیک نیتی سے کوئی عمل کریں،تو اس پر کوئی آدمی د ل ہی دل میں یہ رائے بنا لے کہ آپ ریا کار ہیں تو کیا یہ آپ کے ساتھ انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ انصاف نہیں ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے یہ گمان گناہ بن جاتے ہیں۔
تعلقات پر برے اثرات
گمانوں سے ہونے والا دوسرا بڑا عمل ہمارے تعلقات میں خرابی ہے۔ہمارے تعلقا ت میں اہم چیز ہماری رائے ہوتی ہے ۔یعنی اگر کسی کے بارے میں ہماری رائے اچھی ہوگی تو ہم اس کو اچھے طریقے سے ملیں گے اور اگر ہماری رائے اس کے بارے میں اچھی نہیں ہو گی ۔ تو ہم اچھے طریقے سے نہیں مل سکیں گے ۔اس طرح سے ہمارے گمان ہمارے رویوں کو خراب کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے گمان ہی کی بنا پر دوسرے سے معاملات کرنے لگ جاتے ہیں ۔ جس سے وہ گناہ کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔
یعنی اگر ایک آدمی نے برائی نہیں کی، مگر ہم نے گمان ہی گمان میں اس کو مجرم بنا لیا ہے تو اب اس کے ساتھ ہمارا رویہ بگڑ جائے گا، جو بلاوجہ ہوگا۔ برے رویے کی بنا پر ہم گناہ مول لے لیتے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو محض گمان بھی دراصل ان گناہوں میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ تمھیں شعور بھی نہیں ہوتا، مگر وہ تمھارے اعمال کو ہڑپ کرجاتے ہیں(الحجرات۴۹:۲)۔

نیتوں کا تعین

گمان بالعموم نیت کا تعین بن جاتے ہیں۔ ہمارے تمام گمان جن کو ہم بدگمانی کہہ سکتے ہیں، ان کی نوعیت بالعموم یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے بھائی کی نیت کا تعین کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ مجھے تنگ کرنا چاہتا تھا، وہ سب کے سامنے مجھے ذلیل کرنا چاہتا تھاوغیرہ۔
نیتوں کے بارے میں ہم جان ہی نہیں سکتے۔اس لیے اس کا تعین ایک غلطی ہے۔ جو غلطی اخلاقی دائرے میں ہوتی ہے، وہ گناہ ہے ۔اس پر قیامت کے دن مواخذہ ہو گا۔
اس کی بہت عمدہ مثال وہ واقعہ ہے جو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیش آیاجب انھوں نے ایک جنگ میں کسی آدمی کو کلمہ پڑھنے کے باوجود مار ڈالا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ چنانچہ جب ان سے بات ہوئی تو آپ نے فرمایا:' أقال لا الٰہ الا اللّٰہ وقتلتہ' ،''کیا اس نے لاالٰہ پڑھا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کرڈالا''؟
حضرت اسامہ نے عرض کی: 'یا رسول اللّٰہ انما قالہا خوفا من السلاح'،''اس نے ایسا صرف اسلحہ کے ڈر سے کہا تھا۔''
آپ نے فرمایا: 'افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم اقالہا ام لا '،''تم نے اس کا سینہ چیر لیا ہوتا کہ تم جان لیتے کہ اس نے کلمۂ اسلام دل سے کہا یا نہیں!''
حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ آپ باربار یہ جملہ دہراتے رہے ، اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا اور یہ غلطی مجھ سے صادر نہ ہوئی ہوتی۔(مسلم، رقم۹۶)
یہ حضرت اسامہ کا ایک گمان تھا، نا معلوم صحیح تھا یا غلط؟ لیکن انھوں نے اس کی غلط نیت طے کی اور اس کے خلاف جان لینے تک کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ نیت کا تعین بھی ایک برائی ہے۔ جو ہمیں بہت سنگین عمل تک لے جاسکتی ہے۔

گمان جھوٹ ہوتا ہے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ گمانوں سے بچو اس لیے کہ گمان 'اکذب الحدیث' ہوتے ہیں۔ یعنی بے بنیاد اور جھوٹی بات ۔ اس سے بھی اس کے' اثم 'ہونے کی طرف اشارہ نکلتا ہے، یعنی چونکہ یہ جھوٹی بات ہے، جو انسان دل ہی دل میں سوچ لیتا ہے۔ اور یہ واضح سی بات ہے کہ جھوٹی بات پر قیام بندۂ مومن کے لیے صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ گناہ اور برائی ہے۔

غلطی میں اضافہ

ہم اپنے گمانوں کی مدد سے کبھی تو بے گناہ کو گناہ گار بنا رہے ہوتے ہیں، اور کبھی کم خطا وار کو زیادہ بڑی غلطی کا مجرم ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک آدمی سے غلطی محض بے احتیاطی کی وجہ سے ہوئی ہو، مگر ہم اسے یہ خیال کرکے کہ اس نے ہماری دشمنی میں ایسا کیا ہے۔ اس کے جرم کی سنگینی میں اضافہ کردیتے ہیں۔
چنانچہ بعض اوقات اپنی ہی چیز اٹھانے والے کو ہم چور سمجھ لیتے ہیں۔غلطی سے برائی کرجانے والے کو مجرم بناڈالتے ہیں۔

سچا گمان غیر ثابت شدہ حقیقت

کوئی شخص یہاں یہ سوال اٹھا سکتاہے کہ اگرآدمی گمان کرے، اور وہ غلط نہ ہو، تو وہ تو گناہ گارنہیں ہو گا۔ تو کیا یہ ضروری ہے کہ کثرت گمان پر پھر بھی گناہ ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ گمان سچا بھی ہوتب بھی وہ گمان ہے۔ وہ کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے۔اس لیے اس پرقائم رہنا، یا اس کے مطابق عمل کرنا دراصل غیر ثابت شدہ باتوں پر عمل کرنا ہے۔ اس میں اور سنی سنائی باتوں میں پھرفرق کیا رہ گیا؟
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو تو اس گمان کے سچاہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ آپ تو محض گمان پر کھڑے ہیں۔ جو ایک کمزور اور غلط جگہ ہے۔ ایک گمان کے سچا اور جھوٹا ہونے کے برابر امکانات ہوتے ہیں۔ اس لیے گمان کرنا اور اسے دل میں پالنا ہر صورت میں ایک غلط کام ہے۔

دوبارہ نظر

ہم نے اوپر کی بحث میں یہ بات جانی ہے کہ کثرت گمان سے قرآن مجید نے روکا ہے۔اس لیے کہ گمان ایک بے بنیاد اور جھوٹی بات ہے۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ہو بھی تو وہ ثابت شدہ نہیں ہے۔
کسی کے بارے میں گمان کرنا اخلاق سے گرا ہوا عمل ہے۔ دین اسلام میں اخلاقی خرابی کو گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یعنی اس پر مواخذہ ہوگا۔ 'ظن 'دراصل جھوٹ، ناانصافی اورنیتوں کے تعین وغیرہ کا نام ہے۔ یہ برے اخلاق کو جنم دیتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک واضح برائی ہے۔
گمانوں کی کثرت بذات خود ناپسندیدہ چیز ہے۔ اس لیے کہ بندۂ مومن گمانوں اور خیالات پر نہیں جیتا،بلکہ اس کی زندگی ٹھوس حقائق پر استوار ہونی چاہیے اور لوگوں کے بارے میں اسے سیدھی اور ثابت شدہ بات پر قائم ہونا چاہیے۔

حسن ظن کا حکم

ہم مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ اپنے بہن بھائیوں، ہم سایوں ، دوستوں اور ارد گرد رہنے والوں کے بارے میں حسن ظن رکھیں۔سورۂ نور کی آیت افک سے ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ ہماری عمومی رائے دوسروں کے بارے میں اچھی ہونی چاہیے، جب تک کہ وہ ٹھوس دلائل سے بدل نہ جائے۔اچھی رائے سے ہماری مراد یہ ہے کہ جب بھی کوئی برائی کسی آدمی سے متعلق آپ کے علم میں آئے تو فوراً :
۱۔اس کو اچھے پہلوسے دیکھیں۔
۲۔ اس کے اچھے اسباب اور وجوہ پر نظر رکھیں۔
۳۔جس پر الزام لگایا جارہا ہے، اس پر الزام لگانے سے گریز کریں اور کہیں کہ ہم نے ایسا کرتے اسے نہیں دیکھا، بخدا ہماری نظر میں پاک صاف ہے۔
حسن ظن کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم اس کے بارے میں کوئی بہت اچھی رائے قائم کریں۔ بلکہ یہ ہیں کہ اس کے عمل کو بری نظر اور بری توجیہ کر کے نہ دیکھیں، اور نہ محض سن کر یااپنے گمانوں کی وجہ سے اس پربرائی کا الزام لگائیں۔کسی کی برائی سن کر فوراًبرأت کا اظہار کرنا چاہیے ۔ چنانچہ جب سیدہ عائشہ پر الزام لگا تو قرآن مجید نے مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ ان پر لازم تھا کہ وہ سیدہ عائشہ کی برأت اور پاک دامنی کا اعلان کرتے اس لیے کہ ان میں سے کسی نے بھی انھیں کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ چاہیے یہ تھا کہ سب یک زبان کہتے کہ حاشا وہ پا ک دامن اور معصوم ہیں۔ ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ قرآن مجید میں یہ بات یوں آئی ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وْا بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ، لَاتَحْسَبُوْہٗ شَرًّا لَّکُمْ، بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، لِکُلِّ امْرِیئ مِّنْہُمْ مَا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ، وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا، وَّقَالُوا: ہَذَٓا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ.(النور۲۴: ۱۱،۱۲)
''جو لوگ یہ اتہام گھڑ کر لائے، وہ تم ہی میں سے ہیں۔ تم اس چیز کو اپنے لیے برا خیال نہ کرو، یہ تمھارے لیے اچھی ہے۔ان میں سے ہر ایک نے جو گناہ کمایا وہ اس کے حساب میں پڑا، اور جو اس فتنہ کا بڑا حصہ دار ہے ، اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔ اے مسلمانو،ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی تو مومن عورتیں اور مرد ایک دوسرے کی بابت اچھا گمان کرتے، اور کہتے کہ یہ تو ایک سیدھا سیدھا بہتان ہے۔''

اس آیت میں مسلمانوں سے یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ ایسی سنگین صورت میں بھی ہمارا کام یہی ہونا چاہیے کہ جب ایک پورا گروہ یہ کہہ رہا ہو کہ فلاں شخص نے ایسا کیا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے اپنے بھائی اور بہن کے بارے میں اچھا گمان رکھیں اور اسے ایک بہتان سمجھیں۔
یہاں اس واقعۂ افک کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں جب غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر بعض منافقین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت دھری۔ بظاہر سیدہ کے پیچھے رہ جانے کے باوصف ایک ایسا قرینہ پیدا ہو گیا تھا کہ تہمت میں سچ کا گمان ہوتا تھا۔ لیکن ایسے قرائن بھی قرآن کے نزدیک بے معنی ہیں۔ اس لیے کہ پیچھے رہ جانے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہو تا کہ یقیناًایسا ہوا ہو گا جیسی ان پر تہمت لگائی جارہی تھی۔

ہمارا باہمی رشتہ اور بدگمانی

اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے بھائی بھائی بن کر رہیں۔ اس کے لیے اس نے ہمارے تین رشتے بتائے ہیں:

ایک خدا کی مخلوق

ہمارا آپس میں پہلا رشتہ یہ ہے کہ ہم سب کو مختلف خداؤں نے نہیں، بلکہ ایک ہی خدا نے بنایاہے۔ہم اس اعتبارسے خدا شریک بھائی ہیں۔اس نظریہ سے ہمارے رشتے میں برابری کا ایک تصور آتا ہے۔ اگر مجھے کسی اور خدا نے بنایا ہو اور آپ کو کسی اور نے تو ہوسکتا ہے میرے اور آپ میں تفاوت ہو۔اگر میرا خدا کمزور ہو اور آپ کا قوی تو میں آپ کے مقابلے میں حقیر ٹھہروں گا۔ لیکن اگر میرا اور آپ کا خدا ایک ہے۔ تو مجھ میں اور آپ میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔
۱۔ اس تفاوت کے نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ میرااور آپ کا منبع و ماخذ ایک ہے۔جس جگہ سے آپ آئے ہیں میں بھی وہیں سے آیا ہوں۔ جس خدا نے آپ کو بنایا ہے اسی نے مجھ کو ۔ آپ کو مجھ پر اور مجھے آپ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔
۲۔میر ی اور آپ کی فطرت ایک ہی خدا نے بنائی ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ میری سرشت میں تو برائی رکھ دی گئی ہو ، اور آپ کی سرشت میں نیکی۔ میرے اندر بھی ضمیر اور نفس کی کش مکش لگی ہے اور آپ کے اندر بھی۔اس لیے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ہمیشہ برائی پر آمادہ رہوں اور آپ ہمیشہ نیکی پر۔ جس طرح آپ کی نیت صحیح ہوتی ہے، اسی طرح میری بھی صحیح ہوتی ہے۔ جس طرح آپ کبھی نفس کا شکار ہوجاتے ہیں اسی طرح میں بھی ہو جاتا ہوں۔یہ سب ہمارے خدا نے اس لیے بنایا ہے کہ وہ ہمیں آزمائے۔
۳۔ میری اور آپ کی عزت یکساں ہے۔میں جس جل جلالہ کی تخلیق ہوں آپ بھی اسی کی تخلیق ہیں ۔فلاں اور فلاں کو بھی اسی نے بنایا ہے۔جو آپ کا مقام ہے ،وہی میرا ہے وہی سب کا ہے۔کسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
۴۔ اس تفاوت کے نہ ہونے کے معنی یہ بھی ہیں کہ میرا اور آپ کا خدا ایک ہے۔ وہی میرا نگہبان اور آپ کا بھی۔ میں بھی اسی کے سامنے جواب دہ ہوں اور آپ بھی۔ اگر آپ مجھ پر ظلم کریں گے تو وہ چونکہ میرا بھی رب ہے اس لیے وہ میرے اوپر ہونے والے ظلم کے تدارک کے لیے آپ کو پوچھے گا۔ اگر میں نے آپ پر ظلم کیا تو وہ آپ کی داد رسی کے لیے مجھ سے پوچھے گا۔ کسی کا یارا نہیں ہے کہ وہاں وہ خدا کی مخلوق پر ظلم کرے ، اور کوئی دوسرا (خدا)آکر چھڑا لے جائے۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا اتناہی طاقت ور خدا موجود ہو۔

ایک ماں باپ کی اولاد

دوسرا رشتہ قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ دنیا میں بسنے والے سب لوگ آدم و حوا کی اولاد ہیں، اور ان دونوں کو بھی اللہ تعالی نے نفس واحدہ سے پیدا کیا ہے۔اس اعتبار سے ہم ایک ہی نفس واحدہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ ہم آپس میں نسبی اور رحمی تعلق رکھتے ہیں، اگرچہ اب یہ تعلق دور کا تعلق ہے ،لیکن ہماری رگوں میں اب بھی آدم و حو اہی کا خون دوڑتا ہے:

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآءً.(النساء ۴: ۱)
''اے لوگو، اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم سب کو پیدا کیا ایک ہی جان سے ، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور پھر ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔''

اس تعلق سے کچھ نتائج نکلتے ہیں:
ایک یہ کہ ہم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ، اس لیے نسلی اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ ذاتیں،قبائل اور اقوام محض پہچان اور تعارف کی چیز ہے۔ ان میں بہتراور کہتر ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
تیسرے یہ کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں۔

ملت واحدہ

اسلام میں داخل ہونے والوں کا باہم ایک رشتہ اور بڑھ جاتا ہے، وہ یہ کہ ہم سب دینی لحاظ سے بھی بھائی بھائی ہیں۔'ان المومنون اخوۃ '(سب مسلمان بھائی بھائی ہیں) کی تعلیم اسی تعلق کی طرف اشارہ ہے۔
نتیجہ
یہ تینوں تعلق ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم باہم خلوص ومحبت، عزت و احترام، ہم دردی و مرحمت، شفقت و عنایت، مدد و نصرت اور باہمی اصلاح و خیر خواہی کے تعلق کے ساتھ برکتوں والاگھر بسا کر اور ایک خیر و امن والامعاشرہ بنا کررہیں۔ قرآن مجید نے ہمیں اس پہلو سے بہت سی تعلیمات دی ہیں۔ اسی تعلق سے امت مسلمہ میں اتحاد و یگانگت پیدا ہوتی ہے، اسی سے یک جہتی اور اپنائیت وجود میں آتی ہے۔اسی سے فرقے مکاتب فکر میں تبدیل ہو کر محض علمی اختلاف تک محدود ہو جاتے ہیں۔اسی صورت میں حدیث کے مطابق اختلاف اللہ کی رحمت بنتا ہے ۔
اس ہمہ جہت محبت و یگانگت کے اس تعلق کو قرآن فروغ دینا چاہتا ہے،تاکہ مسلمانوں کا معاشرہ ایک تعلق و ارتباط اور محبت و مرحمت کی بنا پر وجود پزیر ہو۔اور وہ چاہتا ہے کہ مسلمان ان چیزوں سے بچے رہیں ، جو اس تعلق کو توڑتی اور باہم تفریق پیدا کرتی ہیں۔ ایسی چیزوں کا قرآن مجید نے سورۂ الحجرات میں بالخصوص ذکر کیا ہے۔جس میں مذاق اڑانا ، چغلی و غیبت کرنا، تجسس کرنا، برے نام رکھنا، الزام تراشنا، ذات پات کی تفریق کرنا جیسے اخلاق رذیلہ کا ذکر کیا گیا ہے۔انھی میں ایک چیز گمانوں کی کثرت کا حکم ہے ۔ یہ سب چیزیں ہمارے اندر تفریق اور جدائی پیدا کرتی ہیں۔ یہ ہمیں ایک دوسرے سے کاٹتی ہیں۔ دلوں میں کدورتیں اور نفرتیں پیدا کرتی ہیں۔ جس معاشرے میں یہ چیزیں عام ہو جائیں وہاں سے بھائی چارہ،اخوت و محبت اور بالآخر قومی و ملی یک جہتی دم توڑ جاتی ہے۔ آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ گمانوں کی کثرت سے نقصانات کیوں کر وجود میں آتے ہیں۔
گمان کے نقصانات
جب ہمیں کسی کے کسی قول و فعل کی حقیقت جانے بغیر اپنے گمانوں کی بنا پر کچھ بے بنیاد خیالات بناتے ہیں، تو ہم اصل میں اپنی رائے اس کے بارے میں تبدیل کرتے ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہم اپنی رائے کو اس کے بارے میں خراب کرلیتے ہیں ۔جس سے کچھ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جن میں سے چند اہم چیزوں کاہم ذیل میں ذکر کریں گے۔
دل میں میل آنا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس آکردوسروں کی برائی کرنے والوں کو یہ کہہ کر برائی کرنے سے منع کر دیا کہ :

لا یبلغنی احد من اصحابی عن احد شیئا فانی احب ان اخرج الیکم وانا سلیم الصدر.(ابوداؤد، رقم ۴۸۶۲)
''مجھے میرے ساتھیوں میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی بات نہ پہنچائے اس لیے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں تم لوگوں میں آؤں تو میرا دل تم لوگوں کے بارے میں صاف ہو''

دوسروں کی برائی سے جس طرح دل میں میل آتا ہے ، اسی طرح اپنے خیالات سے بھی دل میں میل آتا ہے۔ اس میل کے آنے سے ہمارے رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔ کسی خیال سے دل میں غصہ پیدا ہو گا ،کسی سے نفرت ،کسی سے بے جا اور غیر متوازن محبت۔ یہ سب چیزیں خرابی پیدا کرتی ہیں۔ اچھے رویے کے اظہار کے لیے سب سے پہلی چیز ہی یہ ہے کہ ہمارا دل دوسروں کے بارے میں صاف ہو، ہم اسی صورت میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرسکیں گے۔گمانوں کا یہ نتیجہ بھی جیسا کہ ہم اوپر بیان کرآئے ہیں، گمانوں کو قابل مواخذہ بنا دیتا ہے۔ گمانوں سے آنے والا میل دل میں کدورتوں کو وجود بخشتا ہے، جس سے درج ذیل تعلقات میں تعطل اور خرابی آتی ہے:
۱۔ محبت
ایک دوسرے کے بارے میں گمانوں کی کثرت سے دل دوسروں کے بارے میں صاف نہیں رہتے، جس سے باہم فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے باہمی محبت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ باہمی تعلق اتنا کمزور پڑ جاتا ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوناتو درکنار ان کے ساتھ محض وہ تعلق بھی نہیں رہتا جو ایک اجنبی انسان کا دوسرے اجنبی انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔
دل میں دوسروں کے بارے میں خرابی تعلقات کے کاٹنے کے لیے ایک کلہاڑا ہے ۔ اگر آپ کسی کے بارے میں رائے بگاڑتے چلے جائیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کے دل میں اس کی محبت باقی رہے۔ اگر آپ دل کی صفائی کا اہتمام نہیں کرتے ، تو یاد رکھیے کہ ماں باپ جیسے عزیز اور بیوی بچوں جیسے قریبی تعلق میں بھی دراڑیں آجاتی ہیں اور بسا اوقات نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ محبت کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے خیالات کو دوسروں کے بارے میں بینات اور واضح حقائق پر استوار کریں۔
میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ بعض ایسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی کہ جو محض خدا کے بارے میں اپنے خیالات ہی کی وجہ سے اللہ سے نالاں اور اس کے منکر تھے۔ ایسے ہی لوگوں سے ملاقات کے بعد میں نے ''ہم پر مشکلیں کیوں آتی ہیں ''نامی کتاب لکھی۔ تاکہ ایسے بہت سے لوگوں کے دل میں خدا کے بارے خلجان دور ہو۔ اس لیے کہ یہ چیزخدا کے ساتھ محبت کو برباد کرنے والی ہے۔اور خدا کے بارے میں محبت اور اپنائیت سے محرومی کفر و زندیقی اور الحاد تک پہنچ جاتی ہے۔
میری مراد یہ ہے کہ محبت کا یہ تعلق انسانوں کے ساتھ تو گمانوں کی وجہ سے ٹوٹتا ہی ہے ، خدا کے ساتھ ہمارا تعلق بھی برے گمانوں سے ختم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے حسن ظن کی نصیحت کیا کرتے تھے۔
۲۔بھائی چارہ
یہ انسان کا انسان سے وہ رشتہ ہے جو اولاد آدم ہونے کی بنا پر وجود میں آتا ہے اگر ہم محبت سے محروم ہو چکے ہوں تو ہمارا یہ رشتہ رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا۔ ہم ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے۔ ہماری باہمی کدورتیں اور باہمی عناد ہمیں دوسروں کی مدد کرنے ، ان کے کام آنے ، ان کی غم و خوشی میں پوری طرح شریک ہونے سے روکے گا۔ ہم ایک ہی محلے اور معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، مگر تعلقات میں محبت نہ ہونے اور دلوں میں فاصلوں کی وجہ سے کسی کے نہایت مشکل اور نازک موقعے پر بھی اس کے پاس سے بے پروائی سے گزر جاتے ہیں۔اس لیے کہ ہم گمانوں کی وجہ سے اس مجبور اور بے کس کے خلاف اپنی رائے خراب کر چکے ہوتے ہیں۔
۳۔مرحمت(ہم دردی)
باہمی محبت کی یہ کمی ہمارے اندر سے ہم دردی کا عنصر بھی ختم کردیتی ہے ۔ ہمارے جیسا انسان ہی بھوکا ہوتا ، مرض سے کراہ رہا ہوتا ہے، مگر ہمارے دل میں کوئی خیال تک نہیں رینگتا کہ ہم اس کے کام آئیں، اس کی مدد کریں۔ یہ محض اسی موقع پر ہو گا جب ہماری اس کے بارے میں رائے خراب ہو گی۔دوسروں سے ہم دردی نہ صرف ہمارا اخلاقی وجود تقاضا کرتا ہے،بلکہ ہمارا دینی وجودبھی اس کا تقاضا کرتا ہے۔قرآن مجید کے مطابق یہ ہمارا دوسروں پر اور دوسروں کا ہم پر حق ہے:

أَلَمْ نَجْعَلْ لَّہُ عَیْنَیْنِ. وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ. وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ. فَلَا اقْتَحَمَ العَقَبَۃَ. وَمَآ أَدْرَاکَ مَا العَقَبَۃُ: فَکُّ رَقَبَۃٍ. أَوْاِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ. یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ. أوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبۃٍ. ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ.(البلد۹۰: ۸۔۱۷)
''ہم نے کیااس کو دو آنکھیں نہیں دیں(کہ محتاجوں کو دیکھتا)،اور زبان اور ہونٹ نہیں دیے (کہ ان کی مدد کی ترغیب دیتا)، اور دونوں راستے نہیں سجھائے (کہ اچھے برے کو سمجھتا؟پر اس نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا)اور وہ گھاٹی پر نہیں چڑھا، اور تم کیا سمجھے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ (یہی کہ)گردن چھڑائی جائے، اور بھوک کے دن کسی قریبی یتیم یا کسی بے حال مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ پھر آدمی ان میں سے ہوجو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو ثابت قدمی کی اور دوسروں سے ہم دردی کی نصیحت کی۔''

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے ۔ غربیوں ، ناداروں اور رشتہ دار ضرورت مندوں کے کام آنا، ان پر اپنے مال میں سے خرچ کرناکتنا ضرور ی ہے۔ مگر بہت ساری وجوہات ہمیں اس سے روک دیتی ہیں۔ ان وجوہات میں سے ایک بدگمانی بھی ہے جو ہمیں اس سے روکے رکھتی ہے۔
۴۔اجتماعی یا قومی و ملی وجود
اوپر کے تینوں پہلو، معاشرے میں ساتھ ساتھ رہنے والے لوگوں کے گھرکی سطح پر یا محض انسان ہونے کے تعلق کے لحاظ سے تھے۔اب ہم گھر سے باہر اجتماعی اور سماجی سطح پر اس کا جائزہ لیں گے کہ گمانوں کی ستم گریاں کیا ہیں ۔
اگر ہماری تربیت گھر کے اندر گمانوں کی کثرت میں جینے کی ہوئی ہواور ہم اسی کے عادی ہوں ، تویہی چیز ہماری معاشرت میں بھی نظر آئے گی۔ دفتر، تنظیم ، معاشرہ اور ریاست ہر سطح پر یہ چیز اپنے اثرات ڈالے گی۔کہیں کوئی اپنے سربراہ کے بارے میں برے خیالات بن رہا ہو گااور کہیں کوئی اپنے ساتھی کے کسی رویے پر کڑھ رہا ہو گا ، اور کہیں کوئی انتقامی کارروائی کا سوچ رہا ہوگا۔ کوئی انھی خیالات سے ڈیپریش اور فرسٹریشن کا شکار ہو گا اور کسی کا موڈ بن رہا ہوگا۔ کوئی بات بات پر گرم ہو جاتا ہو گا اور کوئی کھانے کو آتا ہو گا۔اس سب کچھ کی وجوہات میں ایک وجہ وہ آرااور تجزیے ہیں جن کی بنیاد محض گمان ہوتے ہیں۔
جس قوم کے گھر اور دفتر میں یہ حالات ہوں، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ صحت مند طریقے کے ساتھ دنیا میں چل سکے۔ وہ ہر قدم پر فسادکا شکارہوگی۔اس کا اتحاد ہر وقت معرض خطر میں ہو گا۔ اس کی سیاست، مذہب اور معاشرت میں اتفاق و اتحاد کی ہزار کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔ اس لیے کہ اتحاد کے لیے سب سے پہلی چیز ایک دوسرے پر اعتماد اور ان کی غلطیوں کو محض غلطی مان کر ساتھ چلناہے۔
۵۔ تکریم
عزت و تکریم کے معنی محض یہ نہیں ہیں کہ ہم بڑوں کی عزت کریں، بلکہ انسان کی تکریم یہ ہے کہ اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے ، ا س کے انسان ہونے کے ناطے اس کی عزت کی جائے۔ سوء ظن کی عادت اس تکریم آدمیت سے روکتی ہے۔ سوء ظن خطا کار کو شیطان کا روپ دے دیتی ہے ، جس سے غلطی کرنے والا ہماری نظروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گر جاتا ہے۔یہی عمل ہم اپنے سوء ظن کی بنا پر دوسروں سے کر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے ہمارے ساتھ۔
جس معاشرے کے افراد میں گمان کرنے کا وصف ہوگا، اس میں ایک دوسرے کی تکریم ، احترام ، عزت اور بالآخر لحاظ اور پاس خاطر جاتا رہے گا۔ چنانچہ کسی شخص کو اس کا جائز مقام نہ مل سکے گا۔ بہو بیٹیاں اورساس اسی اژدھے کی ڈسی ہوئی ہیں ۔ افسر و ماتحت اسی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سب کی نگاہوں میں سب ذلیل ہیں۔ عزت صرف دکھاوے کی رہ گئی ہے

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.