اُمید پرست بننا سیکھیں
ایک محفل میں ایک صاحب زمانے کی ناقدری کا رونا رونے شروع ہوئے، تو بولتے ہی چلے گئے۔ حتیٰ کہ انھوں نے زمانے کو بھی کھری کھری سنا دیں، حالانکہ ہماری کتاب مقدس میں حکم دیا گیا ہے کہ زمانے کو برا مت کہو، یہ تو انسان ہے جو اپنے عمل سے وقت کو نیک یا بد بناتا ہے۔ بہرحال ہر معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو صرف منفی عینک ہی سے زندگی کو دیکھتے ہیں۔ انھیں اردگرد بکھری نیکیاں اور اچھائیاں نظر نہیں آتیں۔
اس کے برعکس رجائیت پسند بھی موجود ہیں۔ وہ بدی کے واقعات سے بھی خیر کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ ایک ایسا ہی رجائیت پسند انگریز سائنسی ادیب، میٹ ریڈلی بھی ہے۔ا س کا کہنا ہے ''آج دنیا کی حالت جتنی اچھی ہے، وہ انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں رہی اور مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں حالات مزید اچھے ہوں گے۔''
آج دنیا جنگ و جدل، غربت، مہنگائی اور امراض کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ تقریباً ہر انسان کسی نہ کسی مسئلے کا شکار ہے۔ ایسے میں میٹ ریڈلی کی باتیں عجوبہ ہی لگیں گی۔ اسی لیے امریکا و یورپ میں میٹ کے ناقد اُسے ''احمق''، ''پاگل'' اور ''جھوٹا'' کہہ کر پکارتے ہیں۔ تاہم کڑی نکتہ چینی کے باوجود وہ دل برداشتہ نہیں ہوا بلکہ اس نے اپنے دل پسند موضوع پر پوری کتاب ''دی ریشنل آپٹیمسٹ: ہائو پراسپیرٹی ایوولوز لکھ ڈالی۔
کتاب میں میٹ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آج دنیا میں زندگی گزارنا اتنا بھی برُا نہیں جتنا عام لوگ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتا ہے ''میں سمجھتا ہوں کہ ایک روشن مستقبل بنی نوع انسان اور کرہ ارض کا منتظر ہے اور ایسا سوچنا ہرگز دیوانگی نہیں۔''
میٹ ریڈلی کی زندگی بھی خاصی گہماگہمی میں گزری۔ وہ ایک اخبار میں صحافی رہا، پھر ماہرِحیوانیات بنا، پھر معاشیات دان اور ماہر مالیات رہا اور اب سائنسی ادیب ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے بتاتا ہے ''میرے ناقدوں کا دعوی ہے کہ تم چغد ہو، کہتے پھرتے ہو کہ دنیا بہترین کی سمت گامزن ہے۔ لیکن میں یہی بات بار بار کہتے نہیں تھکتا۔'' اپنا دعویٰ برحق کرنے کی خاطر کتاب میں ریڈلی نے ۱۶ دلائل دیے ہیں۔ انھیں پڑھیے اور فیصلہ کیجیے کہ وہ چغد ہے یا نہیں۔
ہماری حالت پہلے سے بہتر ہے
۵۰ سال قبل کی نسبت آج فرد ۳ گنا زیادہ کماتا، تقریباً ۷۵ فیصد حرارے زیادہ کھاتا، کم بچے دفناتا اور کئی برس زیادہ جیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ۵۰ برس کے دوران دنیا کے ہر حصے میں ترقی ہوئی اور وہ ماضی کے مقابلے میں بہتر ہوگیا حالانکہ اسی عرصے میں دنیا کی آبادی تقریباً دگنی ہوگئی۔
شہر میں رہنا اچھا ہے
شہروں کے باسی کم جگہ گھیرتے، کم توانائی استعمال کرتے اور دیہاتیوں کے مقابلے میں فطری ماحول پر کم منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ آج دنیا کے شہروں میں عالمی آبادی کا ۵۰ فیصد حصہ مقیم ہے، لیکن انھوں نے صرف ۳ فیصد جغرافیائی جگہ گھیر رکھی ہے۔ ماحولیات دانوں کو شہروں کا پھیلائو اور بڑھتی آبادی پسند نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دیہات میں رہنا کرۂ ارض کے لیے کوئی سب سے مفید اَمر نہیں۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم بلند و بالا عمارات تعمیر کریں۔
غربت میں کمی کا رجحان
درست ہے کہ امیر پہلے سے زیادہ دولت مند ہو گئے، لیکن لاکھوں کروڑوں غریبوں نے بھی غربت سے جان چھڑا لی۔ مثلاً سائنسی تحقیق افشا کرتی ہے کہ ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۰ء کے درمیان غریبوں کی غذا دُگنی ہو گئی۔ اسی طرح ۵۰ برس کی نسبت آج چینی ۱۰ گنا زیادہ امیر اور تقریباً ۲۵ سال زیادہ جیتے ہیں۔اسی طرح نائیجرین دوگنے امیر ہوچکے اور ۹ سال زیادہ جیتے ہیں۔ مزید برآں انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے لوگوں کی تعداد بھی اس عرصے میں آدھی ہو چکی۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ پچھلے ۵۰ برس میں غربت جتنی کم ہوئی ہے، اتنی ۵۰۰ سال کے دوران بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔
اہم اشیا سستی ہو گئیں
ہم ماضی کی نسبت زیادہ امیر، صحت مند، طویل قامت، ذہین، لمبی عمر پانے والے اور آزاد اس لیے بھی ہیں کہ ہماری ۴ بنیادی ضرورتیں… غذا، لباس، ایندھن اور رہائش سستی ہوگئیں۔ مثال کے طور پر ۱۸۰۰ء میں ایک عام آدمی ۶ گھنٹے محنت کرکے اتنا کماتا تھا کہ ایک گھنٹے والی موم بتی خرید سکے۔
ء۱۸۸۰ء میں ایک عام آدمی ۲۰ منٹ کام کرکے اتنی رقم کمانے لگا کہ ایک گھنٹہ چلنے والا مٹی کا تیل خرید لے۔ آج یہ عرصہ (بیشتر ممالک میں) صرف آدھا سیکنڈ ہوچکا۔ گویا حساب کی رو سے ہم ۱۸۰۰ء کی نسبت آج ''۲۰۰،۴۳'' گنا زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ہیں۔
ماحولیات زیادہ بہتر ہوئی
پچھلے کئی برس سے ہمارا ماحول مجموعی طور پر صاف ہو رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اب دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں اور کارخانے عنقا ہیں۔ پھر جدید گاڑیاں ماضی کی نسبت کم آلودہ گیسیں خارج کرتی ہیں۔
خرید و فروخت نے ایجادات کوجنم دیا
یہ سچ ہے کہ اب بھی لاکھوں انسان شدید غربت میں گرفتار ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری نسل کو پچھلی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ حرارے، واٹ، ہارس پاور، گیگابائٹس، میگا ہرٹز، مربع گز، ہوائی میل، غذا فی ایکڑ، کلومیٹر فی لیٹر اور ظاہر ہے، زیادہ پیسے میسر ہیں۔ بنی نوع انسان جب تک نت نئی اشیا بناتا رہا، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
زیادہ کھیت زیادہ جنگل
ء ۱۹۰۰ء سے عالمی آبادی میں ۴ گنا اضافہ ہوچکا، لیکن دیگر متعلقہ چیزیں بھی بڑھی ہیں مثلاً کھیتوں کا رقبہ ۳۰ فیصد بڑھا جبکہ فصلوں کی مقدار ۶۰۰ فیصد بڑھ گئی۔ اسی دوران کاشتکار ۲ ارب ایکڑ رقبہ چھوڑ کر شہر چلے گئے۔ چنانچہ یہ رقبہ اب جنگلوں میں ڈھل رہا ہے۔ یہاں اب خوب حیاتی تنوع ملتا ہے۔ اس صدی میں دنیا والوں کو مناسب غذا دستیاب ہوگی جبکہ نئے کھیت بھی وجود میں نہیں آئیں گے۔
پٹرول کا خاتمہ قریب نہیں
۱۹۷۰ء میں پٹرول کے مستند ذخائر کی مقدار ۵۰۰ ارب بیرل تھی… آنے والے ۲۰ برسوں میں دنیا والے ۶۰۰ ارب بیرل تیل پی گئے۔ لہٰذا ۱۹۹۰ء تک پٹرول ختم ہوجانا چاہیے تھا مگر اس سال پٹرول کے محفوظ ذخائر ۹۰۰ ارب بیرل تک پہنچ چکے تھے۔
درج بالا اعدادوشمار میں تارمٹی اور آئل شیل میں محفوظ پٹرول شامل نہیں، اس کی مقدار کئی ہزار ارب بیرل بتائی جاتی ہے۔ اس مثال سے عیاں ہے کہ تیل، کوئلہ اور گیس ابھی کئی عشروں تک انسانوں کے کام آئیں گے۔ ایندھن کے یہ تینوں ذرائع محدود ہیں مگر خاتمے سے پہلے ہی انسان ان کا متبادل دریافت کر لے گا۔
عالمی معاشی بحران عارضی ہے
۱۹۳۰ء میں امریکا کے معاشی بحران نے پوری دنیا کو متاثر کیا لیکن وہ ایک عارضی واقعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۳۹ء تک بحران سے شدید متاثر دونوں ممالک امریکا اور جرمنی ۱۰ سال قبل کی نسبت خوشحال ہو چکے تھے۔ اس دوران ہر قسم کی صنعتوں اور مصنوعات نے جنم لیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ حکومتیں بُری پالیسیاں نہ بنائیں، تو ترقی جاری رہتی ہے۔ آج بھی کہیں نہ کہیں پہلا موجد نیا سافٹ وئیر بنانے میں محو ہے، دوسرا نئے مواد پر تحقیق کر رہا ہے اور تیسرا ایسی شے بنانے لگا ہے جو زندگی گزارنا آسان بنا دے گی۔
آبادی میں اضافہ خطرہ نہیں
گو دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے، تاہم پچھلے ۵۰ برس سے شرح اوسط میں کمی کا رجحان ہے۔ چنانچہ تمام ممالک میں ۱۹۶۰ء کی نسبت شرح پیدائش کم ہے۔ خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں شرح پیدائش تقریباً آدھی کم ہو چکی۔ اب لوگ زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں اور اموات اطفال میں بھی کمی آ چکی، پھر بھی آبادی میں اضافہ پہلے جیسا تیزرفتار نہیں رہا۔اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۷۵ء تک کرۂ ارض پر ۹ ارب ۲۰ کروڑ افراد آباد ہوں گے۔ تب آبادی میں کمی آنے لگے گی۔ گویا امکان یہی ہے کہ سبھی لوگوں کا پیٹ بھرتا رہے گا۔ آج بھی دنیا میں ۷ ارب انسان آباد ہیں اور بہرحال انھیں پیٹ بھر کر کھانا مل جاتا ہے۔
ہم خوش قسمت ترین نسل ہیں
تاریخ انسان کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ دورِحاضر کی نسل ہی کو سب سے زیادہ امن، آزادی، فارغ وقت، تعلیم، ادویہ اور سیرو سفر نصیب ہوا۔ افسوس کہ وہ دستیاب نعمتوں پر شکرگزار نہیں مثلاً خریدار اس امر پر خوش نہیں ہوتے کہ انھیں خریدنے کے لیے ڈھیر ساری اشیا دستیاب ہیں۔ الٹا وہ چیزوں کو کوسنے لگتے ہیں کہ انھیں انتخاب کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ حالانکہ اشیا کے تنوع سے خرابی پیدا نہیں ہوئی بلکہ کوئی شے منتخب کرنا آسان ہوگیا۔
ماضی ہمیشہ عمدہ نہیں ہوتا
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گئے زمانے میں زیادہ سکون، سادگی، ملنساری اور روحانیت تھی جو اب عنقا ہوچکی۔ یہ نظریہ دراصل صرف سفید پوش طبقے اور اشرافیہ تک محدود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں ہمہ اقسام کی آفتیں زیادہ تھیں جو اب خاصی کم ہو چکیں۔
عظیم خیالات و نظریات کا جنم
انسان کی سوچ لامحدود ہے، اسی لیے پوری دنیا میں روزانہ نت نئے نظریے جنم لیتے ہیں۔ دورِ جدید کی خصوصیت یہ ہے کہ اب پوری دنیا میں دانشور، سائنسدان، موجد وغیرہ ایک دوسرے سے خیالات و نظریوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ نت نئی ایجادات ہوتی اور نظریے وجود میں آتے ہیں۔ مزید برآں کچھ بھی ہو جائے، انسان کو نظریات، دریافتوں اور ایجادات کی فراہمی جاری رہے گی۔
سمندری طوفان زیادہ نہیں ہوئے
پچھلی صدی میں کرۂ ارض کا درجہ حرارت بے شک تھوڑا سا بڑھ گیا، لیکن سمندری طوفانوں کی شرح میں کمی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۲۰ء سے اب تک سمندری طوفانوں کے باعث چل بسنے والے انسانوں کی تعداد میں ۹۹ فیصد کمی آئی ہے۔ دراصل سمندری طوفانوں سے پھیلنے والی تباہی کا انحصار تیز ہوائوں سے زیادہ دولت پر ہے مثلاً ۲۰۰۷ء میں میکسیکن شہر، یکٹان سے سمندری طوفان ٹکرایا چونکہ حکومت نے بھرپور تیاری کر رکھی تھی لہٰذا ۴۰ افراد ہی لقمۂ اجل بنے۔ اگلے سال اتنی ہی شدت کا سمندری طوفان برما کے ساحلی شہروں سے ٹکرایا اور ایک لاکھ لوگ مار ڈالے۔ قدرتی آفتوں سے بچائو کا بہترین طریقہ ترقی و خوشحالی ہے۔
ہم تمام مسائل حل کر سکتے ہیں
اگر آپ لوگوں کو بتائیں کہ دنیا بہتر ہو رہی ہے، تو لوگ آپ کو دیوانہ سمجھیں گے۔ لیکن آپ یہ شور مچائیں کہ تباہی آئی کہ آئی، تو ممکن ہے آپ کو نوبل انعام مل جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت آنے کی پیشین گوئیوں والی کتابوں سے دکانیں بھری پڑی ہیں۔ نام نہاد دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ دنیا تباہ ہونے میں بس کچھ ہی دیر ہے۔
بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر معاشی ترقی رک جائے، تو بنی نوع انسان کی بقا ممکن ہے۔ لیکن اب معاشی ترقی کا رکنا مشکل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسانی نسل مسائل حل کرنے والی مشین بن چکی ہے۔ وہ نت نئی راہیں ڈھونڈ کر اپنے تمام مسئلے ختم کر ڈالتی ہے۔ اُسے حقیقی خطرہ اس بات سے ہے کہ کہیں معاشی ترقی سست نہ ہوجائے۔
اُمید پرست بننا سیکھیں
پچھلے ۲۰۰ برس سے قنوطی ہی شہ سرخیوں میں چھائے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اس دوران اُمید پرستوں کی زیادہ پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ دراصل قنوطیت سے بیشتر لوگوں کے مفادات وابستہ ہیں۔مثال کے طور پر ہر این جی او یہی واویلا مچا کر چندہ جمع کرتی ہے کہ دنیا مصائب و آفات کا نشانہ بن چکی ہے۔ آج تک ایسے صحافی کو صفحۂ اول پر جگہ نہیں ملی جو ٹل جانے والی آفت پر تحریر لکھے۔ اخبار و رسائل بھی اسی وقت چلتے ہیں جب وہ زیادہ سے زیادہ ماردھاڑ کی خبریں و تحریریں شائع کریں۔ چنانچہ پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہوں اور امید پرست بننے کی سعی کریں۔