Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Tuesday 22 September 2015

Re: ))))Vu & Company(((( زندگی کے امتحان بھی تو ایسے ہی ہوتے ہیں

Mohbat ki..

On 22 Sep 2015 18:34, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
sobo bhai ap  kis cartagey main ho ?

2015-09-22 18:19 GMT+05:00 Sweet Poison <mc090410137@gmail.com>:

Nice..

On 22 Sep 2015 17:37, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:

کسی سکول میں ایک استاد ہوتا تھا۔ بہت ہی لائق اور محنتی، پڑھانے کو فرض سمجھنے اور پڑھائی کے پیشے کا حق ادا کرنے والا۔
ایک بار سہ ماہی امتحانات کے دن قریب آنے پر اُسے امتحان لینے کا ایک نیا طریقہ سوجھا۔
روایتی تحریری یا زبانی امتحانات جیسے طریقوں سے سےہٹ کر ایک مختلف اور اچھوتا طریقہ۔

امتحان والے دن اُس نے طلباء سے کہا وہ اپنے ساتھ تین مختلف قسم کے پرچے بنا کر لایا ہے۔
جو ہر قسم کی ذہنی صلاحیتوں والے طلباء کے لئے مناسب اور موزوں ہیں۔
پہلی قسم کے پرچے اُن طلباء کیلئے ہیں جنہیں اپنی ذہانت، اپنی محنت اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے۔ ان پرچوں میں مشکل سوالات دیئے گئے ہیں۔
دوسرے قسم کے پرچوں میں درمیانہ قسم کے طلباء کیلئے عام قسم کے سوالات ہیں۔ درمیانہ ذہانت کے طلباء سے مراد ایسے طالبعلم جو پڑھتے تو ہیں مگر پڑھائی پر اضافی توجہ دینے اور سخت محنت سے کتراتے ہوئے۔ صرف پاس ہوجانا ہی اُن کا مطمع نظر ہوتا ہے۔
اور تیسری قسم کے پرچے ایسے طلباء کیلئے ہیں جو پڑھائی کے معاملے میں انتہائی کمزور ہیں۔ اپنی لا پروائی یا دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ مصروفیت کی وجہ سے وہ تعلیم کو وقت ہی نہیں دے پاتے اور نا ہی وہ کسی قسم کے سخت امتحانات یا مشکل قسم کے سوالات کیلئے ذہنی طور تیار ہیں۔

طالبعلموں نے اپنے اُستاد کی بات کو بہت ہی تعجب سے سنا۔ امتحان کیلئے اس قسم کے پرچے بنائے جانا اُن کیلئے ایک ایسا انوکھا تجربہ تھا جس سے انہیں اپنی ساری تعلیمی زندگی میں کبھی بھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ پرچہ شروع ہونے کی گھنٹی بجتے ہی سب طلباء اپنی اپنی پسند کے پرچے اُٹھانے کیلئے لپکے تو صورتحال کچھ اس طرح کی سامنے آئی کہ:
چند ایک طالبعلم ہی ایسے تھے جنہوں نے مشکل سوالات والے پرچے اُٹھانا پسند کیئے تھے۔ اور جتنے ایک طلباء نے مشکل پرچے اُٹھائے تھے اُن سے تھوڑے زیادہ طلباء نے درمیانی قسم کے پرچے لیئے تھے۔ جبکہ طلباء کی اکثریت نے آسان سوالات والے پرچے لینا ہی پسند کیئے تھے۔

میں اپنی یہ کہانی پوری سنانے سے پہلے آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ بھی ان طلباء میں شامل ہوتے تو آپ کس قسم کا پرچہ اُٹھانا پسند کرتے؟

امتحان شروع ہوا تو کئی ایک حیرت انگیز باتیں طلباء کے انتظار میں تھیں۔ جن طلباء نے مشکل سوالات والے پرچے اُٹھائے تھے وہ یہ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے سوالات تو اتنے مشکل ہرگز نہیں تھے جتنے مشکل کے وہ توقع کر رہے تھے۔
جن طلباء نے درمیانی قسم کے پرچے اُٹھائے تھے انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اکثر سوالوں کے جوابات حل کر سکتے ہیں۔ دل میں تو یہ سوچ رہے تھے کہ کاش اُنہوں نے مشکل سوالوں والے اُٹھائے ہوتے تو بھی وہ کئی سوالات حل کر ہی ڈالتے۔
حقیقی معنوں میں صدمہ اُن طلباء کو پہنچا تھا جو آسان سوالوں والے پرچے اُٹھا لائے تھے مگر حقیقت میں وہ سوالات اتنے آسان بھی نہیں جتنے آسان کی وہ توقع کر رہے تھے۔

استاد خاموشی سے سب طلباء کو پرچے اُٹھا کر جاتے اور حل کرتے وقت اُن کے چہروں پر آئے ہوئے تأثرات کو دیکھتا رہا۔ امتحان کا مقرر ہ وقت ختم ہونے پر اُس نے سب سے پرچے اور جوابی کاپیاں جمع کر کے اپنے سامنے رکھیں اور طلباء سے کہا کہ وہ ان پرچوں کے نمبر لگا کر ابھی سب کو نتیجہ سنا دے گا۔

طالبعلموں کو یہ بات تو کچھ زیادہ ہی عجیب لگی۔ چھٹی ہونے میں تھوڑی سی دیر رہتے وقت میں اُستاد زیادہ سے سے زیادہ دو یا چار پرچے چیک کر سکتا تھا ، ساری جماعت کے پرچے چیک کرنا تو ناممکن ہی تھا۔

مزید حیرت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب اُستاد ہر طالبعلم کا حل کیا ہوا پرچہ اُٹھاتا اور اُسے بغیر دیکھے اور پڑھے ، اُس طالبعلم کے اختیار کردہ پہلی ، دوسری یا تیسری قسم کے سوالات والے پرچے کے مطابق مخصوص نمبر لگا کر واپس رکھ دیتا۔ طالبعلم اِس ساری صورتحال کو خاموشی مگر نہایت ہی حیرت سے دیکھ رہے تھے مگر اُن کی یہ حیرت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔

استاد جیسے ہی نمبر لگانے سے فارغ ہوا تو اُس نے طلباء کو کئی ایک غیر متوقع باتیں بتائیں۔ استاد نے اس اچھوتی قسم کے امتحان سے راز اُٹھاتے ہوئےجو پہلی بات بتائی وہ یہ تھی کہ:
تینوں قسم کے پرچے حقیقت میں ایک جیسے ہی تھے، کسی میں بھی کوئی مختلف سوال نہیں تھا۔
دوسرا راز یہ تھا کہ جن طلباء نے مشکل سوال سمجھ کر پرچے اُٹھائے تھے اُس نے اُن طلباء کو اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تھا۔
جن طلباء نے دوسری قسم کے عام سوالات والے پرچے اُٹھائے تھے اُن کو درمیانہ قسم کے ہی نمبر دیئے گئے تھے۔
اور جن طلباء نے سوالوں کو آسان سمجھ کر اُٹھایا تھا ان کو سب سے کمتر اور کمزور درجہ سے پاس کیا گیا تھا۔

اُستاد کی یہ باتیں سُن کر طالبعلموں کے منہ بن کر رہ گئے، اُنکے زیر لب شکوے اب صرف بڑبڑاہٹ ہی نہیں بلکہ آواز بن کر اُستاد تک پہنچ رہے تھے۔ خاص طور پر وہ طلباء جنہوں نے درمیانی قسم یا آسان سوالات والے پرچے لیئے تھے اُن سے یہ بات ہضم نہیں ہو پا رہی تھی۔ انہوں نے تو باقاعدہ اُستاد سے اس بات کی وضاحت ہی مانگ لی۔

اُستاد نے اپنے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ:
اُس نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا۔
اُس نے سب کو نمبر اُن کی اپنی اختیار کردہ حیثیت کے مطابق ہی تو دیئے ہیں۔
جو طالبعلم اپنی محنت پر بھروسہ اور صلاحیتوں پریقین رکھتا تھا اور اُس نے مشکل سوالات والا پرچہ اُٹھایا تھا، اُس کا حق بنتا تھا کہ اُسے اُس کی محنت کا حق اعلیٰ درجے سے دیا جائے۔
جسے اپنی قابلیت پر شک اور اپنی صلاحیت کا اندازہ تھا کہ اُس نے نا تو دل لگا کر پڑھا اور نا ہی سنجیدگی سے محنت کی ہوئی تھی، اُس نے درمیانہ قسم کے پرچے اُٹھائے اور اُسے اُس کی قدرات کے مطابق ہی درمیانہ نمبر دے دیئے گئے تھے۔
اور وہ کمزور طلباء جنہیں بخوبی پتہ تھا کہ وہ پڑھنے کے معاملے میں نکمے ہیں، اپنے اسباق یاد کرنا تو دور کی بات، انہوں نے تو اپنا وقت پڑھائی سے دور بھاگنے، کام چوری ، سستی اور لا پروائی میں گزارا ہوا تھا۔ تو ایسے طلباء کو تو اُن کی صلاحیت کے مطابق ہی ضعیف ترین نمبروں سے پاس کیا گیا تھا۔

جی ہاں۔ ہماری زندگی بھی تو بالکل اسی طرح ہی ہے!
جس طرح ان طلباء نے اپنے لئے اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق راستوں کا اختیار کیا، اُسی طرح
آپ کو بھی یہ جان لینا چاہیئے کہ یہ زندگی ہر شخص کو اس کی اپنی تیاری اور اُسکی قدرت و استطاعت کے مطابق ہی درجے، ترقیاں، اور اجرت و معاوضہ دیا کرتی ہے۔

اسی طرح ہی دوسرے لوگ، خواہ وہ آپ کے اساتذہ ہوں یا آپکے اداروں کے سربراہان و مالکان، حتیٰ کہ آپ کے دوست اور آپکے جاننے والے عزیز بھی، ان میں سے کوئی بھی آپ کو آپ کے حق سے زیادہ نہیں دے گا۔

اگر آپ زندگی کی دوڑ میں اعلیٰ مراتب اور بلند درجوں کے خواہشمند ہیں، تو پھر آپ کو بلا خوف اور پورے اعتماد کے ساتھ سخت امتحانات کو اختیار کرنا پڑے گا۔

اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپکو سب سے کمتر اور ضعیف درجے کی کامیابی چاہیئے یا کہ اعلٰی درجوں والی؟

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at http://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at http://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at http://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at http://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment