Wah janab
On 30 Jan 2017 2:07 p.m., "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
--میں کہتی تھی مجھے ٹُوٹے ستارے آزماتے ہیںوہ کہتا تھا نہیں اکثر سہارے آزماتے ہیںمیں کہتی تھی کوئی صحرا سُلگتا ہے میرے اندروہ کہتا تھا کوئی دریا بِلکتا ہے میرے اندرمیں کہتی تھی مجھے دریا کنارے یاد رہتے ہیںوہ کہتا تھا مجھے سُلگتے شرارے یاد رہتے ہیںمیں کہتی تھی چلو رشتوں کی گرہ کھول دیتے ہیںوہ کہتا تھا چلو آنکھوں میں دریا گھول دیتے ہیںمیں کہتی تھی کہانی میں کوئی کردار باقی ہے؟وہ کہتا تھا محض اک خواب کا انگار باقی ہےمیں کہتی تھی میں خوابوں کا بھلا عنوان کیا رکھوں؟وہ کہتا تھا اِسے تم ذات کا زندان کہہ دینامیں کہتی تھی کہ میرے بعد سانس کیسے لیتے ہووہ بولا خار سا سینے کو چُھو کر ٹوٹ جاتا ہےمیں کہتی تھی مجھے کچھ پَل تو خود میں سانس لینے دووہ بولا تھا کہ جاناں اِس حصارِ ذات سے نکلومیں کہتی تھی کہ کیا ہوگا اگر یہ وقت تھم جائےوہ بولا کچھ نہیں بس یہ لمحے صدیاں رقم ہوں گےمیں بولی تم نے میری آنکھوں میں حسرت کوئی دیکھی؟وہ بولا ہاں سُلگتے زخم کی نسبت کوئی دیکھیمیں بولی میں کہوں کہ میں نے دیکھا کیا اِن آنکھوں میںبہت ہی درد سے بولا، بُھلا دو جو ہے آنکھوں میںمیں کہتی تھی میرے ساحر کی آنکھیں بولتی کیوں تھیں؟وہ کہتا ہے تمہیں خاموشیاں پڑھنے کی عادت تھیمیں کہتی تھی میرے لہجے کی شدت بھول جاؤ گے؟وہ میری بات پر چونکا مگر کُچھ بھی نہیں بولامیں کہتی، بُت کدوں میں کس طرح دن رات کرتے ہو؟وہ بولا، بت شکن ہوں میں سو خود کو توڑ دیتا ہوںمیں کہتی تھی کہ ہم تم خاک ٹھہریں گے محبت میںوہ بولا ہاں یہی سچ ہے نہ میں پارس نہ تُو سونامیں کہتی تھی کہ آنکھوں سے کُہر کب جائے گی آخر؟وہ بولا جس لمحے سینے سے آخر سانس جائے گیمیں کہتی تھی سُلگتی ہیں جبینوں میں کیوں تقدیریں؟وہ بولا آستانوں میں دیے جلتے ہی رہتے ہیںمیں کہتی تھی کہ کب صحرا سے گزرے گا وہ بنجارہوہ بولا جب اُسے رشتوں سے کٹ کر ہارنا ہوگامیں کہتی تھی درختوں کے لِبادے زرد کیوں ٹھہرے؟وہ بولا کہ خزاں ہونا ہر اِک جنگل کی قسمت ہےمیں کہتی تھی کہ چہروں میں کوئی اپنا نہیں ملتاوہ بولا کہ کئی چہرے مگر اپنوں میں ملتے ہیںمیں کہتی تھی کناروں پر دِیے اب کیوں نہیں جلتے؟وہ بولا کہ کناروں نے ہوا سے دوستی کرلیمیں کہتی تھی ہوا کے ہاتھ میں کیا ہے بھلا رکھا؟وہ بولا جگمگاتے سب دیوں کا فیصلہ رکھامیں کہتی تھی کہ دریا کی اُداسی سے کہوں گی کیا؟وہ بولا بس میری آنکھیں اُنہیں پڑھ کر سُنا دینامیں کہتی تھی میرے آنگن میں کوئی پیڑ جلتا ہےوہ بولا غور سے دیکھو کہیں نہ ذات ہو میریمیں کہتی تھی کہ زِنداں میں صبا شب بھر نہیں آتیوہ بولا اور یہاں تو سانس اکثر نہیں آتیمیں کہتی تھی میرے سینے میں سانسیں کم ہیں تیری یاد زیادہ ہےوہ بولا گر یہی سچ ہے تو تُو برباد زیادہ ہےمیں کہتی تھی تیری سانسوں میں میرا دل دھڑکتا ہےوہ بولا ہاں میرا دل زَد پہ طوفانوں کی رہتا ہےمیں کہتی تھی کہ آنکھوں میں تیری یہ روشنی کیسی؟بہت بے ساختہ بولا کہ تیری روح تک میں خود کو پایا ہےمیں کہتی تھی میری آنکھیں تبھی محروم مدھم ہےوہ تھوڑے وقف سے بولا میرے اندر بسی ہو تممیں کہتی تھی بھلا کیا پاؤ گے مجھ سے جدا ہوکےوہ بولا گُم تھا تیرے ساتھ مجھے اب خود سے ملنا ہےمیں کہتی تھی چلو اُنگلی پہ اپنے درد کو گِن لیںوہ بولا درد کی شِدّت سے شریانیں نہ کٹ جائیںمیں کہتی تھی سناؤ حال اُس شب کا جب ہم بچھڑے تھےوہ بولا، تھی وہ ایسی شب میں اُس شب ٹوٹ کے رویامیں کہتی یاد ہے اُس دن تیرے کاندھے پہ روئی میںوہ بولا آج تک شانے تیرے آنسو سے گھائل ہیںسُنو پھر تم پہ کیا گزری وہ خوابِ زندگی کھو کرکہا کل اپنی آنکھوں کو بہت بے جان دیکھا ہےکہو اُس عشق کی بابت بھلا کیا حَد رہی ہوگیکہا وہ عشق جیسے رُوح کا سرطان دیکھا ہےکہو پھر سے بچھڑنے کی تمہیں منظور یہ ہوگا؟!کہا جینے کی خواہش کو کبھی قربان دیکھا ہےمیں کہتی تیرے نقشِ پا میرے رستوں پہ اب بھی ہیںوہ بولا میرے رستوں پہ بھی یہ دُکھ درد حائل ہیںمیں کہتی تھی کہ ذرّوں میں بھی کوئی حُسن دیکھا ہے؟وہ بولا ایک ذرّے میں کئی ماہتاب دیکھے تھےکہا میں نے کہ کب یہ زندگی خوشبو لگی تم کو؟وہ بولا بے خیالی میں تجھے جب چھو لیا میں نےمیں کہتی تھی کہ تم نے ڈوبتا سورج کبھی دیکھا؟وہ بولا ہاں تیری آنکھوں کو اکثر ڈوبتے دیکھامیں کہتی تھی کوئی چہرہ جو تجھ کو یاد ہو اب تک؟وہ بولا اِک کنول رخ پر بہت ساحر سی آنکھیں تھیںمیں کہتی خواب کے مقتل کو کیسے جانتے ہو تموہ بولا یوں کہ تیری آنکھوں میں اِک شام کاٹی ہےمیں کہتی تھی اذّیت کے کسی لمحے سے واقف ہو؟وہ بولا جس لمحے جاناں تُو مجھ سے دور ہوتا ہےمیں کہتی تھی بھلا اب داؤ پہ کیا کچھ لگایا ہے؟وہ بولا کچھ نہیں تھا پاس، میں خود کو ہار آیا ہوںمیں کہتی کب سمندر چپ تیری دھڑکن کو سنتا ہے؟وہ بولا جب بکھرتا ہے کنارا تیرے لہجے پرمیں کہتی تھی مجھے دن کے کنارے بوجھ لگتے ہیںوہ بولا ہاں مجھے بھی شام سے اب خوف آتا ہےمیں کہتی خوابوں کی دہلیز پہ کیوں اب بھی جاتے ہو؟وہ بولا اس لئے کہ نیند کا دَر وا نہیں ملتامیں کہتی تھی کہ خوابوں کا بدن کیوں کانچ جیسا ہے؟وہ بولا اس لئے جاناں کہ حسرت کا لہو جھلکےمیں کہتی تھی کبھی ایسا ہوا کہ نیند ٹوٹی ہو؟وہ بولا ہاں اُسی لمحے، مجھے جب یاد کرتی ہوکہا میں نے کہ میری جاں، تیری یادیں مُسلسل ہیںوہ بولا کہ اسی باعث یہ رَتجگے مُسلسل ہیںمیں کہتی تھی کہ آنکھوں سے تمہیں آواز دیتی ہوںوہ بولا ہاں مجھے آنسو بکھرنے کی کوئی آواز آتی ہےمیں کہتی رات کے سینے پہ میں سر رکھ کے روتی ہوںوہ بولا ہاں سُنا ہے چاند پچھلی شب کو رویا ہےمیں کہتی تیرے ماتھے پر دُعائیں لکھتی رہتی ہوںوہ بولا ہاں مجھے سانسیں تیری محسوس ہوتی ہیںمیں کہتی تھی کہ دھڑکن کا ہے دل سے فاصلہ کتنا؟وہ کچھ پل سوچ کے بولا خدا اور اِک دُعا جتنامیں کہتی تھی لگاؤ اور دُعا کا رابطہ کیا ہے؟وہ بولا بس وہی جو روحوں کا جسموں سے ناطہ ہےمیں کہتی روح کو اور جسم کو کیا جانتے ہو تم؟کہا اُس نے جدائی جسم کی قسمت، محبت روح کی قسمتمیں کہتی تھی، سُنو ساحر مجھے تم سے محبت ہےوہ بولا جان لے لے گی لگاؤ میں جو شدّت ہےمیں کہتی تھی چلو کاتِب سے کہہ کر مانگ لوں تم کووہ میری بات پر چونکا مگر کچھ بھی نہیں بولامیں کہتی تھی دریچوں پر ہَوا کو کب بلاؤ گے؟وہ بولا جس لمحے اُمید کی شمعیں جلاؤں گامیں کہتی تھی کہ میرا شاہِ من اب کیوں نہیں ملتاوہ کہتا تھا کہ اب دربار دل کا جو نہیں سجتامیں کہتی تھی تیری آنکھیں بھلا کیوں کانچ جیسی ہیںوہ بولا اِس لئے جاناں کہ پہلو میں تیرے اتریںمیں کہتی تھی میں شب بھر چاند کے ہمراہ چلتی ہوںوہ بولا رات بھر تارے تبھی جلتے ہیں بجھتے ہیںمیں کہتی تھی ملے جب ہم وہی قِصّہ تو دوہراؤوہ آنکھیں مُوند کر بولا بڑی لمبی کہانی ہےمیں کہتی تھی کہانی کو بھلا کس موڑ پر چھوڑیں گے؟وہ بولا جب یہ دو کردار رشتہ سانس کا توڑیں گےمیں کہتی تھی کہ ہر لمحہ یہ دل میں وسوسہ کیوں ہے؟وہ بولا تھا پرندوں سے بھی نازک دل تمہارا ہےمیں کہتی تھی کہ اپنے آپ اُداسی کا میں گوشہ ہوںوہ بولا غم زدہ ہوں میں مجھے گوشہ نشیں کر دومیں کہتی تھی تیرے لہجے کی رم جِھم کا سبب کیا ہے؟وہ بولا اِس لئے کہ جَل ترنگ دل جھیل میں بکھرےمیں کہتی تھی عقیدت کیا؟ عبادت کس کو کہتے ہیں؟کہا جُھکتی جبینوں کو، اُٹھے ہاتھوں کو کہتے ہیںمیں کہتی تھی جبین و ہاتھ کا تعلق بھلا کیا ہے عبادت میں؟وہ کہتا تھا کہ لکھی جاچکی دونوں پہ تقدیریںمیں کہتی ہاتھ دو اپنا، جبیں رکھ دوں ہتھیلی پروہ کہتا تھا عقیدت یہ عبادت ہی نہ بن جائےمیں کہتی تھی سُنو ساحر میری حسرت تیری آنکھیںوہ کہتا تھا میں لکھتا ہوں تیری تقدیر یہ آنکھیںمیں کہتی کیا تیرے سینے میں اب بھی زخم جلتے ہیں؟وہ بولا ہاں کبھی بوجھل کبھی مدھم سے جلتے ہیںمیں کہتی تھی سُنو ساحر یہ سارے غم مجھے دے دووہ بولا پھر کہو گی آنکھوں کے سب نَم مجھے دے دومیں کہتی ہاں اِن آنکھوں میں ہو نَم اچھا نہیں لگتاکہا سینے سے دُکھ ہوں کم مجھے اچھا نہیں لگتامیں کہتی تھی جُنوں اور انتہا اچھے نہیں ہوتےوہ بولا اِن کے بن جذبے کبھی سچے نہیں ہوتےمیں کہتی تھی چلو اِتنا کہو دُکھ میرے بانٹو گے؟بہت حیرت سے تب بولا، تمہیں کس بات کے دُکھ ہیں؟میں کہتی بے پناہ یادیں تیری دُکھ درد ہیں میراوہ بولا راہ چلتی یادوں کو کیوں گھر بُلاتے تھے؟میں کہتی تھی تمہاری آنکھوں کو لکھنے کی چاہت تھیوہ بولا تھا یہ افسانے کتابوں میں ہی سجتے ہیںمیں کہتی تیری چاہت کی فِضا میں پنکھ بھروں کیسے؟وہ بولا تھا کہ پنکھڑی کُونج کے ٹوٹے ہوئے پَر سےمیں کہتی تھی سمندر میں خوشی کے کس طرح اتروں؟کہا بے آب ماہی کا سا پیراہن پہن دیکھومیں کہتی تھی کہ نَس نَس میں لہو کا زہر پھیلا ہےکہا اِس زہر کا تریاق ہے بس موت کے بس میںمیں کہتی تھی چلو اتنا تو ہوگا درد کی زنجیر ٹوٹے گیوہ بولا خوابِ زیست کی تیرے تعبیر ٹوٹے گیمیں کہتی تھی تو کیا یہ طے ہے میرے خواب جھوٹے تھے؟وہ بولا ہاں یہی طے ہے تُہارے لفظ جھوٹے تھےمیں کہتی تھی سَرابی ہم تھے یا دنیا ہی دھوکہ تھی؟وہ بولا بات ہے اتنی تمہاری پیاس زیادہ تھیمیں کہتی پیاس ایسی ہے کہ دریا خود پُکارے گاوہ بولا ہار جاؤگی سُنو واپس پلٹ جاؤمیں کہتی تھی کہ میرے بعد تم تنہا نہ رہ جاؤ؟وہ بولا حلقہء یاراں بہت ہے ساتھ دینے کومیں کہتی تھی بہت ممکن یہ دُکھ جان لے جائےوہ کہتا تھا تمہیں کتنا ہے دُکھ میں آزماؤں گامیں کہتی تھی کہو اتنا کہاں تک آزماؤگے؟وہ بولا بس وہاں تک، جب تم اپنی جاں سے جاؤگےپھر اُس کے بعد کِتنی دیر تک میں کُچھ نہیں بولی
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com .
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company .
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout .
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment