رنج ایسا ہے کہ دل گیر ہوا چاہتا ہے
پھیل کے روح میں تعزیر ہوا چاہتا ہے
درد آنکھوں میں جو تحریر ہوا چاہتا ہے
چہرہ بھی غم کی ہی تفسیر ہوا چاہتا ہے
دکھ تسّلی سے کچھ اور بڑھے جاتے ہیں
معاملہ اور بھی گھمبیر ہوا چاہتا ہے
حل تو ہوتا ہی نہیں ذات کی الجھن کاسوال
مسئلہ گویا کہ کشمیر ہوا چاہتا ہے
روک لیتا ہے کبھی خوف بیابانی بھی
فاصلہ پاؤں کی زنجیر ہوا چاہتا ہے
غرق اب خود میں ہر زخم کو کرلیتا ہے
ظرف ایسا ہی ہمہ گیر ہواچاہتا ہے
بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے
شکوہ بھی بڑھ کر تقریر ہواچاہتا ہے
کس طرح درد کو دنیا سے چھپایا جاۓ
وہ تصور سے جو تصویر ہوا چاہتا ہے
کیا تسلسل ہے تمناؤں کی بت سازی میں
ایک گرتا ہے تو اک تعمیر ہواچاہتا ہے
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at http://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment