Very nice info
On 27 Oct 2015 10:43, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:----"قرآن کئی مقامات پر یہ بیان کرتا ہے کہ زمین و آسمان چھ دنوں میں پیدا کیئے گئے۔ لیکن سورۃ فُصلت ( حم السجدہ) میں کہا گیا کہ زمین و آسمان 8 آٹھ دنوں میں بنائے گئے ہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں ؟ اسی آیت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی اور پھر اس کے بعد آسمان 2 دنوں میں پیدا کیئے گئے۔ یہ بات بگ بینگ Big Bang یا عظیم دھماکے کے نظریے کے منافی ہے۔ جس کے مطابق زمین و آسمان بیک وقت پیدا ہوئے۔"
قرآن کے مطابق آسمان اور زمین 6 دنوں، یعنی 6 ادوار میں پیدا کئے گئے، اس کا ذکر حس ذیل سورتوں میں آیا ہے۔:
سورۃ الاعراف کی آیت 54
سورۃ یونس کی آیت 3
سورۃ ہود کی آیت 7
سورۃ فرقان کی آیت 59
سورۃ سجدہ کی آیت 4
سورۃ ق کی آیت 38
سورۃ الحدید کی آیت 4
وہ آیات قرآنی جو آپ کے خیال میں یہ کہتی ہیں کہ آسمان و زمین آٹھ دنوں میں پیدا کیئے گئے۔ وہ 41 ویں سورۃ فصلت ( حم السجدہ ) کی آیات : 9 تا 12 ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الأرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (٩)وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (١٠)ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلأرْضِ اِئْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (١١)فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
(١٢)
( اے نبی! ) آن سے کہیئے: کیا تم واقعی اس ذات کا انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کے شریک ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا؟ وہ تو سارے جہانوں کارب کا ، اس نے اس ( زمین ) میں اس کے اوپر پہاڑ جما دیئے ، اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس میں غذاؤں کا (ٹھیک ) اندازہ رکھا ، یہ ( کام ) چار دنوں میں ہوا، پوچھنے والوں کے لیے ٹھیک (جواب) ہے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا، اس نے اس (آسمان) سے اور زمین سے کہا: وجود میں آجاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو۔ دونو نے کہا : ہم آگئے ، فرمانبردار ہوکر۔ تب اس نے دو دنوں کے اندر انہیں سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اس کا کام الہام کردیا۔ اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں ( ستاروں ) سے آراستہ کیا اور اسے خوب محظوظ کردیا۔ یہ سب ایک بہت زبردست، خوب جاننے والے کی تدبیر ہے۔
(حم السجدہ 41 آیات 9 تا 12)
- قرآن کریم کی ان آیات سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ آسمان اور زمین 8 دنوں میں پیدا کیئے گئے ہیں۔
اللہ تعالی اس آیت کے شروع ہی میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو عبارت کے اس ٹکڑے میں موجود معلومات کو اس کی صداقت کے بارے میں شبھات پیدا کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرتے ہیں، درحقیقت وہ کفر پھیلانے میں دلچسپی رکھتے اور اس کی توحید کے منکر ہیں۔ اللہ تعالی اس کےساتھ ہی ہمیں بتا رہا ہے کہ بعض کفار ایسے بھی ہوں گے جو اس ظاہری تضاد کو غلط طور پر استعمال کریں گے۔
- ثُم سے مراد " مزید برآں"
اگر آپ توجہ اور احتیاط کے ساتھ ان آیات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں زمین و آسمان کی دو مختلف تخلیقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہاڑوں کو چھوڑ کر زمین دو دنوں میں پیدا کی گئی، اور 4 دنوں میں پہاڑؤں کو زمین پر مضبوطی سے کھڑا کیا گیا۔ اور زمین برکتیں رکھ دی گئیں اور نپے تلے انداز کے مطابق اس میں رزق مہیا کردیا گیا۔ لہذا آیات 9 اور 10 کے مطابق پہاڑوں سمیت زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی، آیات 11 اور 12 کہتی ہیں کہ مزید برآں دو دنوں میں آسمان پیدا کیئے گئے، گیارہویں آیت کے آغاز میں عربی کا لفظ ( ثُم) استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب پھر یا مزید برآں ہے قرآن کریم کے بعض تراجم میں ثُم کا مطلب پھر لکھا گیا ہے۔ اور اس کے بعد ازاں مراد لیا گیا ہے۔ اگر ثُم کا ترجمہ غلط طور پر " پھر " کیا جائے تو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے کل ایام آٹھ قرار پائیں گے اور یہ بات دوسری قرآنی آیات سے متصادم ہوگی جو یہ بتاتی ہیں کہ آسمان و زمین چھ دنوں میں پیدا کیئے گئے ، علاوہ ازیں اس صورت میں یہ آیت قرآن کریم کی سورۃ الانبیاء کی 30 ویں آیت سے بھی متصادم ہوگی۔ جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ زمین و آسمان بیک وقت پیدا کیے گئے تھے۔
لہذا اس آیت میں لفظ (ثُم) کا ترجمہ " مزید برآں " یا "اس کے ساتھ ساتھ ہونگا" علامہ عبداللہ یوسف علی نے صحیح طور پر لفظ (ثم) کا ترجمہ "مزید برآں"(Moreover) کیا ہے
- مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر "تیسیر القرآن" میں اس ایت کے تحت رقم طراز ہے۔
زمین و آسمان کا ملا جلا ملغوبہ :۔ اس آیت میں ثم کا لفظ زمانی ترتیب کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ زمین و آسمان کی تخلیق کے ایک پہلو سے ہے۔ بالفاظ دیگر یہ زمین کی تخلیق کے بعد کا واقعہ نہیں ہے بلکہ پہلے کا ہے۔ جسے بعد میں بیان کیا گیا ہے اور اس کی واضح دلیل یہ آیت ہے۔ ( اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا 30) 21- الأنبياء:30) یعنی زمین و آسمان پہلے ملے جلے اور گڈ مڈتھے؟ تو ہم نے انہیں جدا جدا بنا دیا۔ اور یہاں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اس وقت فضائے بسیط میں صرف دھواں ہی دھواں یامرکب قسم کی گیسیں تھیں ۔ یعنی کائنات کا ابتدائی ہیولیٰ بھی گیسوں کا مجموعہ تھا۔ اس گیس کے مجموعے سے ہی اللہ تعالیٰ نے زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے سب کچھ بنا دیئے۔ کائنات کے جس نقشہ کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ زمین فلاں مقام پر اور اتنی جسامت کی ہونی چاہئے۔ آسمان ایسے ہونا چاہئیں سورج فلاں مقام پر اور زمین سے اتنے فاصلہ پر اور اتنی جسامت کا ہونا چاہئے۔ ستارے اور کہکشائیں چاند اور ستارے ایسے اور ایسے ہونے چاہئیں ۔ غرض اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق گیسوں کے اس ہیولیٰ سے یہ سب چیزیں بنتی چلی گئیں اور اس طرح کائنات کی تخلیق پر چھ یوم (ادوار) صرف ہوئے۔ان گزارشات سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب پہاڑوں وغیرہ سمیت زمین چھہ دنوں میں پیدا کی گئی تو بیک وقت اس کے ساتھ ہی دو دنوں میں آسمان بھی پیدا کئے گئے تھے چنانچہ کل ایام تخلیق آٹھ نہیں چھہ ہے۔فرض کیجئے ایک معمار یہ کہتا ہے کہ وہ 10 منزلہ عمارت اور اس کے گرد چاردیواری 6 ماہ میں تعمیر کردے گا اور اس منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عمارت کا تہ خانہ 2 ماہ میں تعمیر کیا گیا اور دس منزلوں کی تعمیر نے 4 مہینے لیے اور جب بلڈنگ اور تہ خانہ بیک وت تعمیر کیے جارہے تھے تو اس نے ان کے ساتھ ساتھ عمارت کی چار دیواری کی بھی تعمیر کردی جس میں دو ماہ لگے۔ اس میں پہلا اور دوسرا بیان باہم متصادم نہیں لیکن دوسرے بیان سے تعمیر کا تفصیلی حال معلوم ہوجاتا ہے۔
- آسمان و زمین کی بیک وقت تخلیق
قرآن کریم میں کئی مقامات پر تخلیق کائنات کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض جگہ السموات و الأرض ( آسمان اور زمین ) کہا گیا ہے جبکہ بعض دوسرے مقامات پر الأرض و السموات ( زمین اور آسمان ) کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سلسلے میں سورۃ الانبیاء میں عظیم دھامکے BingBang) (کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آسمان اور زمین بیک وقت پیدا کئے گئے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلا يُؤْمِنُونَ
(سورۃ الانبیاء 21 آیت 30)
" کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین باہم ملے جلے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کردیا، اور ہمنے ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی، کیا پھر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے؟"
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ()
" وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہرچیز کو خوب جانتا ہے "
(سورۃ البقرہ 2 آیت 29)
یہاں بھی اگر آپ (ثُم) کا ترجمہ غلط طور پر " پھر" کریں گے تویہ آیت قرآن کی بعض دوسری آیات اور بگ بینگ کے نظریئے سے متصادم ہوگی۔ لہذا لفظ ( ثُم) کا صحیح ترجمہ " مزید برآں " " بیک وقت " یا " اس کے ساتھ ساتھ " ہے۔
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at http://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at http://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at http://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment