Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Monday 4 January 2016

))))Vu & Company(((( "انسانی جانوں کی عظمت و حرمت اسلام کی نظر میں"​


فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹرعلی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 21 محرم الحرام 1436 کا خطبہ جمعہ بعنوان "انسانی جانوں کی عظمت و حرمت اسلام کی نظر میں" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے شرک کے بعد قتل کو سنگین ترین جرم قرار دیا، اور بتلایا کہ اسلام نے خود کشی کی سخت سزا رکھی ہے تو دوسروں کو قتل کرنے کی سزا اس سے بھی بھیانک ہے، اور اسلام مسلم ہو یا غیر مسلم تمام انسانوں کی جان کی حفاظت کا ضامن ہے، اور اسلام نے حیوانوں کو بھی زندہ رہنے کا مکمل حق دیا ، یہ بھی کہا کہ : کسی مسلمان کیلئے غیر مسلم کا انفرادی قتل کرنا بالکل جائز نہیں ہے۔

پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اسکے سارے اسماء و صفات پاکیزہ ہیں، اسی کی شان اعلی و ارفع ہے، اسی کی گفتگو کامل ہے، میں اپنے رب کی بے شمار نعمتوں پر حمد خوانی و شکر بجا لاتا ہوں، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا ہے ، اسکی وحدانیت کے دلائل روشن اور عظیم ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپکے معجزات بہت زیادہ اور اخلاق و خوبیاں عظیم الشان ہیں، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، آپکی اولاد اور صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔حمد و صلاۃ کے بعد:

کما حقہ تقوی الہی اختیار کرو ، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو تھام لو؛ جو تقوی الہی اختیار کریگا اسے اللہ تعالی برائی و ہلاکت سے بچا لے گا، اور جو خواہش پرستی میں لگ کر اپنے پروردگار کی نافرمانی اور اسکے ساتھ کفر کریگا اسے بدبختی اپنے پنجوں میں دبوچ کر تباہ و برباد کر دے گی ۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی نے نیکیاں مقرر فرما کر انکی درجہ بندی فرمائی ہے، اور ناجائز و مہلک گناہوں کو حرام قرار دیا، اور ان کی خرابیاں ، ضرر، اور مفاسد بھی بیان فرمائے، اسی طرح گناہوں میں بھی درجہ بندی فرمائی۔چنانچہ عظیم ترین اور بد ترین گناہ : اللہ کیساتھ شرک ہے، جو کہ عبادت، دعا، فریاد رسی، توکل، حاجت روائی، اور مشکل کشائی میں اللہ تعالی کیساتھ کسی اور کو شامل کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ ایسا گناہ ہے جسے اللہ تعالی توبہ کے بغیر کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔

شرک کے بعد سنگین ترین جرم ناحق قتل ہے، چنانچہ کسی کو قتل کرنا باعثِ عار، خسارہ، اور دائمی جہنمی بننے کا سبب ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا} 
اور جو کوئی بھی کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اسکا بدلہ دائمی جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالی کا غضب اور لعنت ہوگی، اور اس کیلئے عظیم عذاب تیار ہے۔[النساء : 93]

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: "اللہ کے رسول! سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (تم اللہ کیساتھ کسی کو شریک بناؤ، حالانکہ وہی تمہارا خالق ہے) میں نے عرض کیا اس کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا: (اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے) میں نے عرض کیا اس کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا: (اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو) بخاری ومسلم

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام گناہوں میں سے قبیح ترین گناہ کا ذکر فرمایا، اور اس کی تصدیق اللہ تعالی کے فرمان میں بھی ہے:

{وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (69) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا } 
اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے، اور نہ ہی کسی کو ناحق قتل کرتے ہیں، اور نہ ہی زنا کرتے ہیں، اور جو کوئی بھی یہ کام کریگا، وہ گناہ پائے گا، [68] قیامت کے دن اسے بڑھا چڑھا کر عذاب دیا جائے گا، اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا [69] الّا کہ کوئی توبہ کر لے، اور نیک صالح عمل کرے [الفرقان : 68 – 70]

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( کبیرہ ترین گناہ: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا، اور جھوٹ بولنا ہے) بخاری و مسلم

کسی کو قتل کرنا انسانیت پر زیادتی، قاتل و مقتول کیلئے ظلم اور زمین میں فساد کا باعث ہے، اس سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے، اور آبادیوں کی آبادیاں تباہ، اور زندگی اجیرن ہو جاتی ہے، قتل کی وجہ سے قاتل کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی درد ناک عذاب سے دو چار ہونا پڑتا ہے، قتل کے باعث مقتول کے ورثاء اور دیگر افراد کے حقوق تلف ہو جاتے ہیں، اسی کی وجہ سے امن و امان داؤ پر لگ جاتا ہے، یہ قاتل کے دل میں دنیاوی اور اخروی ، دائمی و سرمدی ندامت کا باعث ہے، قاتل کا ضمیر کبھی بھی سکون و چین کے ساتھ نہیں رہتا، اور زندگی بد مزہ ہوجاتی ہے، قتل بدترین جرم، اور قاتل بد ترین مجرم ہے، قتل جانی و مالی تباہی کا باعث ہے، اسی کی وجہ سے زمین پر بے برکتی پیدا ہوتی ہے، آفتیں نازل ہوتی ہیں، اور دین و دنیا کیساتھ ساتھ آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مؤمن اس وقت تک دینی کشادگی میں رہتا ہے، جب تک ناحق قتل نہ کرے) بخاری

اور عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کے ہاں ایک مسلمان کا قتل دنیا کے زائل ہونے سے بھی گراں ہے)ترمذی، یہ روایت صحیح ہے۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر آسمان و زمین والے ایک مؤمن کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ تعالی ان سب کو جہنم میں اوندھے منہ ڈالے گا) یہ حدیث صحیح ہے، ترمذی نے اسے روایت کیا ہے۔خون مسلم کی اہمیت کے باعث اللہ تعالی سب سے پہلے انہی کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا، چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کےد ن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا) بخاری و مسلم

قتل کی سنگینی کے باعث اسلام نے اسلحہ کے ذریعے مذاق ، اور اسلحہ کیساتھ کسی معصوم کی طرف اشارے سے بھی منع فرما دیا، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی بھی اپنے بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ مت کرے، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ شیطان اسکے ہاتھ کو چوک لگا دے، اور وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے) بخاری و مسلم


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ: (جو شخص اپنے کسی بھائی کی طرف خنجر سے بھی اشارہ کرے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں، چاہے وہ اسکا سگا بھائی کیوں نہ ہو) مسلم، ترمذی


بلکہ اللہ اور اسکے رسول نے خود کشی کو بھی بڑی سختی کیساتھ حرام قرار دیا، اسی لئے خود کشی کرنے والے کو جہنمی قرار دیا چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو، اور وہ خود کشی کیلئے خنجر، زہر، یا خود کش جیکٹ ، بارود سے بھری گاڑی، دھماکہ خیز مواد، یا بم کچھ بھی استعمال کرے سب کا یہی حکم ہے، فرمانِ الہی ہے:

{ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (29) وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا } 
اپنی جانوں کا قتل مت کرو، بیشک اللہ تعالی تم پر نہایت رحم کرنے والا ہے، اور جو کوئی ظلم و زیادتی کرتے ہوئے ایسا کرگا، ہم اسے آگ میں ڈالیں گے، اور یہ اللہ تعالی کیلئے نہایت آسان ہے۔[النساء : 29 – 30

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے پہاڑ سے گر کر اپنا خاتمہ کر لیا، تو وہ جہنم میں ہمیشہ گرتا ہی رہے گا، اور جس شخص نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم میں ہمیشہ زہر پیتا رہے گا، اور جس شخص نے خنجر سے خود کشی کی تو وہ بھی جہنم میں ہمیشہ اپنے پیٹ پر خنجر زنی کرتا رہے گا) بخاری و مسلم

یہ سخت ترین عذاب اس شخص کیلئے ہے جس نے خود کشی کی، تو دوسروں کو قتل کرنے والے کو کتنا سخت عذاب ملے گا؟! کیونکہ انسانی جان کسی کی اپنی ملکیت نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالی کی ملکیت ہے، اس لئے شریعتِ الہی کے مطابق ہی انسان اس میں تغیر و تبدّل کر سکتا ہے۔

پر امن زندگی ہر انسان کا حق ہے، اللہ تعالی نے یہ زندگی زمین کو آباد کرنے کیلئے دی ہے، بلکہ پر امن زندگی جانوروں کا بھی حق ہے، اس لئے جانوروں کو بھی انسانیت کے فائدے کیلئے ہی قتل کیا جائے گا، چنانچہ جانوروں کا فضول قتل بھی جرم ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما چند نوعمر لڑکوں کے پاس سے گزرے تو وہ مرغی پر نشانہ بازی کر رہے تھے، تو انہوں نے سب کو سخت ڈانٹ پلائی اور سب کو وہاں سے بھگا کر فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں پر نشانہ بازی سے منع فرمایا ہے"

اور عمرو بن شرید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:(جس شخص نے کسی چڑیا کو بھی فضول میں قتل کیا تو وہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں فریاد کرے گی: یا اللہ! مجھے فلاں شخص نے بے فائدہ اور فضول میں قتل کیا تھا ) احمد، نسائی

کیونکہ ایک چڑیا کو بھی زندہ رہنے کا پورا حق ہے، اور اللہ تعالی ہی عدل و انصاف کرنے والا معبود ہے، وہ کسی پر ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اسی لئے ظلم و زیادتی کو پسند بھی نہیں فرماتا۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمام مخلوقات کو ایک دوسرے سے قصاص لے کر دیا جائے گا، حتی کہ بے سینگ والی بکری کا سینگ والی بکری سے، اور چیونٹی کا چیونٹی سے بدلہ لیا جائے گا) یہ حدیث صحیح ہے، احمد نے اسے روایت کیا ہے۔

کونسی تعلیمات اسلامی تعلیمات سے بلند، مُشفق، منصف، اور محکم ہو سکتی ہیں!؟اللہ اور اسکے رسول نے جن لوگوں کا قتل حرام قرار دیا اور ناحق قتل کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی ان میں تمام مسلمان، اور ایسے غیر مسلم شامل ہیں جو ذمی یا معاہد یا پناہ گزین ہوں۔عصر حاضر کی اصطلاحات کے مطابق : غیر مسلم ہم وطن، یا حکومتی ذمہ داروں کی طرف سے رہائشی اجازت نامے کا حامل شخص ، یا کسی مسلمان ملک میں پاسپورٹ کے ذریعے آنے والا شخص، یا رزق کی تلاش میں آنے والے افراد ان میں شامل ہونگے

۔غیر مسلموں کے معاملات اور احکامات ملکی حکمرانوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، کسی کو انفرادی طور پر غیر مسلموں کے امور میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے۔

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے ذمی افراد میں سے کسی کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا، اور اسکی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے) یہ حدیث صحیح ہے، احمد، نسائی

اور کوئی مسلمان کسی غیر مسلم علاقے میں سکونت اختیار کرے، یا صرف رزق کی تلاش میں پاسپورٹ کے ذریعے سفر کر کے جائے تو اس کیلئے شرعی طور پر وہاں کسی کا خون بہانا جائز نہیں ہے، وہ کسی کی اشیاء چوری یا ڈاکہ کے ذریعے نہیں ہتھیا سکتا، اور نہ ہی انکی املاک کو نقصان پہنچا سکتا ہے، عوامی جگہوں پر دھماکے نہیں کر سکتا، اسی طرح کسی کی عزت بھی پامال نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ یہ دھوکہ اور خیانت کیساتھ بڑی نافرمانی بھی ہے، اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ} 
بیشک اللہ تعالی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔[الأنفال : 58]

جبکہ جہاد کے دلائل اور ٹھوس احکامات نہایت عادلانہ، مشفقانہ ، اور بابرکت ہیں، جو کبھی بدل نہیں سکتے، اور جہاد کی اجازت شرعی حکمران کے ہاتھ میں ہے، کیونکہ امت کا وہی ذمہ دار ہے، اور وہی اسکا اہتمام کر سکتا ہے، اسی کی حالات پر کامل گرفت ہوتی ہے۔

قتل و غارت دشمنوں میں یا مسلمانوں کے درمیان بھی ہو سکتا ہے، اور بسا اوقات قتل و غارت کا بازار ایسے پُر فتن اور غیر واضح حالات میں گرم ہو جاتا ہے کہ لوگوں کو اسکی اصل حقیقت کا علم ہی نہیں ہوتا۔اور اکثر اوقات قتل و غارت بد امنی، تشویشناک صورت حال، سرِ عام گناہوں، شہوت پرستی ، لاقانونیت، دنیاوی فتنوں ، اور دینی تشخص کمزور ہونے کی وجہ سے نمودار ہوتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ}
آپ ان سے کہہ دیں کہ : اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ وہ تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں تلے سے کوئی عذاب مسلط کردے، یا تمہیں تتر بتر کر کے ایک دوسرے سے لڑا دے، دیکھو! ہم انہیں سمجھانے کیلئے کس طرح مختلف طریقوں سے آیات بیان کرتے ہیں۔ [الأنعام : 65]

حالات جتنے بھی بگڑ جائیں جانوں کی حفاظت ضروری ہے، قیمتی جانوں کا قتل جائز نہیں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا} 
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو قاتل یا فسادی [ثابت کئے بغیر] قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کی زندگی بچائی۔[المائدة : 32] 

اور سابقہ شریعت اگر منسوخ نہ ہو تو ہمارے لئے بھی مؤثر شرعی حیثیت رکھتی ہیں ۔اور کسی کی غلطی اسلام کے نام پر دھبہ نہیں بن سکتی، کسی کے جرم کو اسلام کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا، اسلام ہر مجرم کے جرم اور ظلم سے بالکل بری ہے، اہل علم ہی شرعی نصوص کی صحیح تشریح و توضیح کر سکتے ہیں۔اور جو کچھ مسلم ممالک میں فتنے اور لڑائیاں پیدا ہوئیں ہیں جہاں ان کی وجہ سے خونریزی ہوئی، اموال لوٹے گئے، املاک کو تباہ کیا گیا، گھروں کو گرایا گیا، عزتوں کو تار تار کیا گیا، اور ان کی وجہ سے خوف و ہراس پھیل گیا، بھوک و افلاس نے گھر کر لیا، اہل علاقہ جلا وطن ہو گئے، ان تمام علاقوں کے دانشوروں، اور با اثر شخصیات پر ضروری ہے کہ اپنے اپنے علاقے کی ترقی میں کردار ادا کریں، اختلافات کو بھلا کر مفاد عامہ کا تحفظ یقینی بنائیں، قیمتی جانوں کو محفوظ بنائیں، لوگوں کے مال کی حفاظت کریں، بیواؤں، بوڑھوں، اور بچوں سمیت تمام کمزوروں پر شفقت کریں، اور سب سے پہلے اللہ سے مدد مانگیں اور پھر مقتدر بیرونی قوتوں سے داخلی انتشار بجھانے کیلئے مدد طلب کریں۔اور اگر حالات مقتدر قومی دست و بازو سے باہر ہو جائیں تو ہر مسلمان کو اپنی زبان اور ہاتھ کو دوسرے مسلمانوں سے روکے رکھنا ضروری ہے۔

تمام مسلمان مرد و خواتین اللہ تعالی سے توبہ کریں، اور ہمیشہ اللہ تعالی سے مشکل کشائی اور سزاؤں کا باعث بننے والے اسباب کے خاتمے کیلئے دعائیں کریں، ہمارا پروردگار نہایت مہربان ہے، وہ گڑگڑانے والوں اور توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

ہمیں جو کچھ نظر آ رہا ہے یا سن رہے ہیں، یہ قیامت کی نشانیاں ہیں، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک علم اٹھا نہ لیا جائے گا، کثرت سے زلزلے آئیں گے، وقت تیزی سے گزرے گا، فتنے پھوٹ پڑیں گے، اور قتل و غارت زیادہ ہو جائے گا)بخاریاور ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب دو مسلمان آپس میں تلوار لے کر آمنے سامنے ہو جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے)میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! قاتل کے بارے میں تو واضح ہے، مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ تو آپ نے فرمایا: (وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا) بخاری و مسلم

اور جو کوئی بھی ہمارے ملک میں شرعی حکمران کے خلاف بغاوت کرے، یا اجتماعیت کو مخدوش کرے تو حکمرانوں کیلئے اس کی دست درازی روکنا ضروری ہے، تا کہ معاشرے کو اس کے شر سے محفوظ رکھا جائے، اور امن و امان برقرار رہے، اور اسکی فتنہ انگیزی مٹا ئی جا سکے۔سکیورٹی فورسز کے جوانوں کو اپنے دین اور وطن کی خاطر ذمہ داری نبھاتے ہوئے اجر و ثواب بھی ملے گا، اور اپنے فریضہ کی ادائیگی پر تمام نوجوان قابل ستائش و تحسین بھی ہیں، اللہ تعالی سب جوانوں کی حفاظت فرمائے۔ہم نوجوانوں کو فتنہ پرور لوگوں کے پیچھے لگنے سے خبر دار کرتے ہیں، کیونکہ فتنہ پرور لوگ اپنی تعداد زیادہ کرنے کے بعد ہی مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور جب تمہیں کسی معاملے کے بارے میں شکوک و شبہات ہوں تو اہل علم سے رجوع کریں، آپ کے تمام معاملات سدھر جائیں گے۔تمام مسلمانوں پر ضروری ہے کہ مسلسل شرعی نقطہ نظر سے اصلاح کرتے رہیں، تاکہ فتنہ انگیز لوگوں کے مقاصد خاک میں مل جائیں، لہذا کسی دنیا پرست کا آلہ کار مت بنیں۔اللہ تعالی نے فرمایا:

{وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (104) وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (105) يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (106) وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ} [آل عمران : 104 - 107]

تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں [104] تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے[105] اس دن کچھ چہرے سفید روشن ہونگے اور کچھ سیاہ، چنانچہ جن کے چہرے سیاہ ہونگے [ان سے کہا جائے گا] کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کر لیا تھا؟! اب اپنے کفر کی وجہ سے عذاب چکھو [106] اور جن لوگوں کے چہرے سفید ہونگے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ [آل عمران : 104 - 107]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کواسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو بیشک وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفات اللہ کیلئے ہیں جو اطاعت گزاروں اور متقی افراد کو عزت بخشنے والا ہے، اور احکامات کی مخالفت اور نافرمانی کرنے والے کو ذلیل کر دیتا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اسکے چنیدہ و برگزیدہ بندے اور رسول ہیں ، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، تمام صحابہ کرام ، آل اور ان سے دوستی رکھنے والوں پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت آئے تو اسلام کی حالت میں۔اللہ کے بندو!حقیقی خوش حالی اور کامیابی یہ ہے کہ مسلمان عقیدہ توحید ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے، اور صرف اللہ کی عبادت کرتے ہوئے کسی کو اسکا شریک نہ بنائے، اور مسلمانوں کے خون ، مال و عزت سے اپنے ہاتھوں کو مت رنگے، تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی کی طرف سے پہلے ہی اچھا بدلہ ہے۔اور انسان کیلئے دینداری میں آنے والی کمی ناقابل تلافی نقصان ہے، جس سے جزوی یا کلی طور پر دینداری ختم ہوجاتی ہے، اور جس وقت انسان دنیاداری میں پھنس کر آخرت بھول جائے تو بسا اوقات انسان کا دل لاشعوری طور پر مردہ بھی ہو جاتا ہے، اور انسان کیلئے فتنے دنیا و آخرت میں انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} 
اور تم ایسے عذاب سے بچو! کہ جو تم میں سے صرف گناہ کرنے والوں کو ہی نہیں ملے گا، اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ [الأنفال : 25]

یعنی عذاب کے اسباب سے بچو، جن کی وجہ سے سزا ملتی ہے۔

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں داخل کیا، اور فرمایا: (عبد اللہ ! تم اس وقت کیا کرو گے جب صرف کمینے لوگ باقی رہ جائیں جن میں وفائے عہد اور امانت داری نہ ہو گی، اور آپس میں لڑ بھڑ کر [ان انگلیوں ] کی طرح ہوجائیں؟!) عبد اللہ نے کہا: "اللہ کے رسول! تو پھر اس وقت میں کیا کروں؟" آپ نے فرمایا: ( اچھی بات لے لینا، اور برائی ترک کر دینا، اپنی فکر کرنا، اور لوگوں کو انکے حال پر چھوڑ دینا) بخاری

اللہ کے بندو!

}إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا{ 
یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]، 

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد. وسلم تسليما كثيرا۔
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی ،انہوں نے حق کے ذریعے عدل و انصاف کیا، اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، فضل، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل فرما دے، یا رب العالمین !
یا اللہ! تمام معاملات میں ہمارا انجام بہتر فرما، اور ہمیں دنیا کی رسوائی ، اور آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہمارے دین کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے دین کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے دین کی حفاظت فرما، 
یا اللہ! دنیا میں ہمیں عافیت نصیب فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! دنیا میں ہمیں عافیت نصیب فرما، 
یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہمیں دنیا میں اور ہمارے مال میں عافیت نصیب فرما۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، یا رب العالمین! یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں ، اور جنوں سے محفوظ رکھ، بیشک تو ہی ہر شریر کے شر سے پناہ دینے والا ہے، بیشک تو ہی ہر چیز پر قادر ہے،
یا اللہ! تمام مسلمانوں اور انکی اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، یا رب العالمین!
یا اللہ ! جادو گروں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ ! جادو گروں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! کسی بھی جادو گر کو کامیاب نہ ہونے دے، یا اللہ! انکی تمام مکاریاں خاک میں ملا دے، یا اللہ! انکی تمام مکاریاں خاک میں ملا دے، یا اللہ! انکی چالبازیوں کو انہی کے خلاف کر دے، یا رب العالمین!یا اللہ! کسی بھی جادو گر کو مسلط نہ فرما، یا اللہ! کسی بھی جادو گر کو مسلط نہ فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! تمام فوت شدگان کو معاف فرما دے، یا اللہ! تمام فوت شدگان کو معاف فرما دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہم تیری مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں ، اور ہمارا تیری رحمت کے بغیر کوئی چارہ نہیں، یا اللہ! ہمارا تیری رحمت کے بغیر کوئی چارہ نہیں، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! موسلا دھار بارش عطا فرما، 
یا اللہ! عذاب و تباہی سے خالی بارش اپنی رحمت کے صدقے عطا فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! تو ہی ہمارا اور کائنات کی ہر چیز کا رب ہے۔یا اللہ! ہم تجھ سے جنت کا اور جنت کے قریب کرنے والے اعمال کا سوال کرتے ہیں، اور ہم جہنم اور جہنم کے قریب کرنے والے ہر عمل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم گمراہ کن فتنوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں، 
یا اللہ! ہمارے دلوں میں الفت ڈال دے، یا اللہ! جو آپس میں لڑے ہوئے ہیں انکی صلح کروا دے، یا اللہ! ہمارے دلوں میں الفت ڈال دے، یا اللہ! جو آپس میں لڑے ہوئے ہیں انکی صلح کروا دے، یا اللہ! مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا فرما،
یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے سب مسلمانوں کو حق بات پر جمع فرما دے، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے گمراہ کن فتنوں سے تمام مسلمانوں کو اور ہمیں محفوظ فرما، 
یا ارحم الراحمین!یا اللہ! ہمیں ہمارے علاقوں میں امن و امان عطا فرما، اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔
یا اللہ! اپنے بندے خادم الحرمین الشریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُسکی تیری مرضی کے مطابق راہنمائی فرما اور اسلام و مسلمانوں کیلئے سود مند کام کرنے کی توفیق دے ، اور اپنی رحمت کے صدقے اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا اللہ! ہر اچھے نیکی کے کام کی انہیں توفیق دے، یا اللہ! اسکے دونوں ولی عہد کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور انکی اپنی مرضی کے مطابق راہنمائی فرما،بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہم ابتدا سے انتہا تک ظاہری و باطنی ہر قسم کی بھلائی کا سوال تجھ سے کرتے ہیں، اور ہم ہر شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال، اچانک عذاب، عافیت کے خاتمے، اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ چاہتے ہیں، یا ذا الجلال والاکرام!
یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔یا اللہ! ہمیں اپنے نفس اور برے اعمال کے شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما، یا ارحم الراحمین!
}إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ{ 
اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔ [النحل: 90، 91]
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اسے اللہ تعالی جانتا ہے ۔

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment