Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Saturday, 17 December 2016

Re: ))))Vu & Company(((( سندھ کے صحرا میں اسلام قبول کرنے والی ایک ہندو لڑکی کی درد ناک داستان (حصّہ سوم)

Sir result bata dain bus ;p

On 17 Dec 2016 10:36 a.m., "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:

ہسپتال میں بھی چادر کا استقبال پسند و نا پسند کے ملے جلے جذبات سے ہوا کیونکہ اسٹاف مسلمان و ہندو ملا جلا تھا۔
عشاء کی نماز کے لیے مسلمان اسٹاف تیاری کر رہا تھا (کھانا اور نماز کا ٹائم مقرر تھا وضو ک بعد جائے نماز جو یہیں رکھے رہتے تھے ڈھونڈنے سے معلوم ہوا وہ دوسرے وارڈ کی اٹینڈینٹ آئی تھی اپنے وزیٹرس کے لیے لے گئی ہے اب کیا ہوا؟)
ائم بھی کم رہ گیا ہے کسی کا برقعہ کسی کی چادر بیرونی چھینٹوں کی وجہ سے مشکوک جانی گئیں اچانک سے اسٹاف فیروزہ کو میری چادر یاد آگئی۔
اسٹاف فیروزہ: چلو یہ چادر بالکل نئی ہے اس کو بچھا کر پڑھ لیتے ہیں۔ کیوں بھگوانی تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں؟
میں ہونق بنی قدرت کے اس اعزاز پہ گنگ، زبان سے ادائیگی کے لیے کچھ پاس نہ تھا میرے مالک! میرے دم ساز! صبح سے یہ اعزاز کی بارش اور میں صحرا کی ریت…
اسٹاف: بھئی بھگوانی بولو نہ… نہیں پسند توچھوڑو۔
میں چادر لیکر اسٹاف کے آگے جھک گئی۔
بھگوانی: میری چادر یہ میرے مالک کی عبادت! میں صدقے میں واری دل و جان سے۔ بھگوانی کے یہ بھاگ… چادر دیکر میں کرسی پر یبٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگی پورا اسٹاف میرے اس عمل سے آبدیدہ ہوگیا۔نماز کے بعد چادر مجھے واپس مل گئی۔ چادر میں نے اس وقت اپنے آپ کو ایسے لپیٹ لی کہ جانو کویء میرے مالک کوچھین کر نہ لے جائے۔ میں اس کے نام لیوا جگہ کو مضبوطی سے تھام لوں۔
کبھی انکو دیکھتے ہیں کبھی خود کو دیکھتے ہیں
دوسرے دن گھر آئی تو ابو بھی دکان بند کر کے کھانے کے لیے آچکے تھے ابو نے مجھے چادر میں دیکھا تو ٹھٹکے، تھوڑی دیر خاموشی سے دیکھتے رہے پھر گویا ہوئے۔
ابو: تم بیٹا! تم اور یہ چادر؟
بھگوانی: ابو میں نے اپنی دوست کے لیے منگوائی تھی لیکن اسے یہ رنگ پسند نہیں آیا لہٰذا اب اسے میں نے اوڑھ لیا یہ مجھے بہت اچھی بھی لگ رہی ہے اس کے اوڑھنے سے پورا جسم ڈھک جاتا ہے باہر نکلنے پر خراب نظروں سے انسان بچ جاتا ہے۔ عجیب تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ ابو پج میں بہت پر اعمتاد گھر لوٹی ہوں ورنہ تو ہر وقت دوپٹہ صحیح کرتی اور قمیض صحیح کرتی رہتی تھی۔ 
ابو: ہاں یہ تو ہے لیکن ہماری پہچان تو یہ نہیں۔
بھگوانی: ہاں ہماری پہچان تو بالش بھر کا بلائوز اور ساڑھی کا گھونگھٹ ہے؟ ابو امی دونوں خاموش ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
اپنے کمرے میںآکر میں نے چادر اتار کر تہہ کی اپنے ہی خیالوں میں گم چادر کو ہی تکتے گئی۔ تصور ہی تصور میں مالک کے دئیے ہوئے تحفہ کو اور خود کو دیکھتی جاتی۔ خوبشدار پھول دار بے خوشبو کے پھول میں دن اور رات کافرق ہوتا ہے۔ محض چادر اور عبادت کی خوشبودار چادر میں، میں یہی فرق تھا میرے لیے۔ جو میرے من میں ہے
میں پوری اس کی لپیٹ میں ہوں ان احساسات نے پوری رات سونے نہ دیا متبرک چادر میرے ہاتھوں میں میرے سینے پہ رہی۔ شاید ایک دو گھنٹہ کے لیے میری نکھ لگ گئی ورنہ اس خواب کی معنی چہ وارد۔
اسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آٹھ یا دس سالہ خوبصورت بچہ ہے جو سفید لباس اور سفید پٹکا (عمامہ ) باندھے ہوئے ہے۔ میرے سامنے دوزانوں بیٹھا ہوا ہے۔ میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھتا جارہا ہے اور آہستہ آہستہ گردن کو ہلا رہا ہے۔ اس کی مسکراہٹ مجھے یہ باور کرارہی ہے کہ تمہاری سوچ کے دھارے صحیح سمت جارہے ہیں اس وقت مین اس کی مسکراہٹ کے یہی معنی سمجھ رہی ہوں۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے اوپر کی طرف نکھوں سے اشارے بھی کر رہا ہے لیکن مسکراتے ہوئے۔
اب اکثر مجھے خواب میں وہ بچہ نظر نے لگا کبھی مسجد میں بیٹھی ہوں، کبھی نماز پڑھ رہی ہوں اور وہ بچہ مجھے دیکھ دیکھ کر مسکرارہا ہے۔
صبح اٹھ کر میں اس بچہ کو یاد کرتی رہتی تصور میں اس بچے کو ہسنتے مسکراتے دیکھتی کبھی کبھی تو یوں ہوتا کہ تنہائی میں مسکراہٹ یاد کر کے میں خود بھی تصور ہی تصور میں مسکرانے لگتی۔ 
قارئین میری ان باتوں کو کسی دیوانے کی بڑ نہ سمجھئے گا میں واقعی ان ہی حالات سے گزر رہی تھی اب سوچتی ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے مجھے ہدایت پر لانے کے لیے ایک مخصوص سسٹم مقرر کیا تھا جس کے تحت میں چل رہی تھی۔ 
مندر میں جانے کی غفلت ہونے لگی امی کے یاد دلانے پر چلی جاتی لیکن جاتے ہی طبیعت میں بے قرار سی جاتی جلد سے جلد نکلنے کی راہ میں ہوتی ایسا محسوس ہوتا کہ کچھ ہونے والا ہے یا میرے جانے سے مندر میں کچھ ہوکر رہے گا کیا ہوگا یہ مجھے جلد ہی معلوم ہوگیا۔
ایک دفعہ میں امی کی تنبیہ پہ مندر میں گئی۔ کافی دنوں کے بعد ان کو غور سے دیکھنے لگینہ جانے کتنے ہاتھ کتنے پیر ہیں طبیعت بوجھل ہونے لگی نہ جانے کتنے ہاتھ کتنے پیر ہیں طبیعت بوجھل ہونے لگی سوچا تھا کہ اپنے دوپٹے کے پلو سے ان کی مٹی جھاڑوں لیکن اس سے پہلے ہی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مورتی ہل رہی ہے۔
میڈیکل سے تعلق کی وجہ سے اپنے پ کو ناساز جانا کہ شاید مجھے چکر آرہے ہیں، نیچے بیٹھ گئی اور دل ہی دل میں درود شریف پڑھنے لگی۔ آپ یقین کریں مورتی کے ہٹنے کو میں نے خودروکا کہ کہیں یہ مجھ پہ نہ گرجائے۔ جلدی سے باہر ئی اور اپنے پ کو ڈھارس دینے لگی کہ کسی نے مورتی کو صاف کرنے کے لیے اٹھاکر صحیح طریقہ سے نہیں رکھا شاید اس لئے وہ متوازن نہیں۔ امی سے میں نے ذکر کیا کہ مورتیوں کو کون صاف کرتا ہے صحیح طریقہ سے جماکر نہیں رکھتے یہ تو کسی پر گرجائیں گی۔
امی: (بے بی) ! صاف تو تم ہی کرتی ہو ج میں نے تمہیں بھیجا ہی اس لیے تھا کہ مٹی دیکھو گی تو صاف ضرور کروگی۔ لڑکیاں تو کافی دنوں سے مندر میں نہیں گئیں میں صبح میں جلدی میں ہوتی ہوں اس لیے صاف کا کیا سوال؟
اس بات کو میں نے اتنی اہمیت تو نہ دی لیکن مورتی کے ہلنے کا انداز بار بار نظر میں کھوجاتا۔
لاشعوری طور پر میں خواب میں نے والے بچے کی منتظر رہنے لگی رات کو سونے سے پہلے وضو کر کے درود شریف اور اللہ تعالیٰ کے ٩٩ ناموں کا ورد کر کے سوتی تھی اس رات بھی پڑھتے پڑھتے اچانک خواب والے بچہ کا تصور گیا جس کو کافی دن سے نہیں دیکھا تھا طیبعت کچھ بے چین سی ہوگئی ایسا محسوس ہوا کہ میرا رہبر وہ بچہ کھڑا مسکرا رہا ہے اور کچھ بولنے کے لیے میرے قریب آگیا مجھے کہا کہ :
بچہ: ''تمہارے ابوکا نام محمد ہے'' اور امی کا نام بھی بڑا پیارا سا بتایا لیکن میں فوراً جاگ گئی ٹائم دیکھا تو رات کے تین بجے تھے۔ کوشش کے باوجود بھی امی کا نام یاد نہ رہا۔ جلدی سے اٹھ کر وضو کیا اور صاف کپڑا بچھا کر اپنے رب سے ہمکلام ہوئی۔
مالک! مجھے راہ تو دکھائی ہے اب ہمت و توفیق بھی عطا کر۔ اپنی محبت کو والدین کی محبت پر غالب کردے۔ ماں باپ کی محبت تو تونے بن مانگے دیدی میں اب تجھ سے تیری محبت مانگ رہی ہوں۔
من کی بات !!! ''بن مانگے میں تیرے دل میں ہوں''۔
الحمد اللہ لیکن مالک مجھے ہمت و توفیق عطا فرما آمین۔ تیری محبت بہت سی دنیاوی قربانیاں مانگتی ہیں مجھ پہ پل صراط آسان فرما۔ یہ رونا تیری محبت میں آئے۔ آمین
صرف اور صرف والدین کی غربت و مسائل آڑے آرہے ہیں۔ تو سبب الاسباب ہے میرے لیے آسانی فرما۔
رات والے خواب (تمہارے ابو کا نام محمد ہے) سے اتنی تقویت ملی تھی کہ میں سمجھ رہی تھی کہ صبح ہی صبح ابواعلان کردیں گے کہ مسلمان ہوگیا ہوں اور میرا نام محمد ہے۔ ان لاشعوری بشارتوں نے آگے بڑھنے کا مجھے حوصلہ دیا تھا۔
میرے ماضی کے گزرے دنوں میں کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن کو یاد کر کے مجھے خود بھی حیرت ہوتی ہے کہ یہ سب میرے ہی ساتھ ہورہا ہے یا دنیا میں کوئی اور بھی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے اپنے رازوانداز ہیں جو ہر بندے پر شاید اس کی نیت کے مطابق کھلتے ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ     
اے محیطِ کل تیری شانیں ہیں خارج از گمان
بحرِ عظمت پر تیرے اک بلبلا ہے آسمان
میں اس کی عظمت کے بحر مین ڈوب تو جاؤں گی لیکن سمجھ نہ سکوں گی اور اس واقعہ کو بھی نہ سمجھ پاؤں گی جو مندر میں میرے ساتھ ہوا۔ اس دن پھر امی نے مندر کی طرف توجہ دلائی تو مجبوراً آگئی۔ صاف کرنے کے لیے کپڑا لانا بھول گئی یہی سوچا کہ تھوڑی دیر بیٹھ کر باہر جاؤں تو کپڑے لے آؤں گی۔
مورتیوں کی شکلین دیکھ کر دل دھڑکنے لگا رُخ موڑ کر دررود شریف پڑھنے میں محو رہی کہ اچانک سے پشت پہ کوئی چیز آکر ٹکرائی فورا مڑکے دیکھا تو ایک مورتی ٹوٹ کر گرپڑی اسی کا ٹکڑا میری پشت پر آکر لگا۔ حیرت سے یہ منظر دیکھ ہی رہی تھی کہ دوسری مورتی اس کے پاس والی گرکر ٹوٹ گئی۔ باہر کی طرف بھاگی کہ شاید زلزلہ آگیا ہے جو مجھے محسوس نہین ہورہا باہر سب کچھ ویسا تھا جیسا چھوڑ کر گئی تھی کہین سے کوئی ارتعاش نہ تھا امی کو مندر میں لے گئی کہ امی بھی دیکھ لے یہ کیا ہورہا ہے امی کود حیران پریشان کہنے لگیں بے بی ایسا تو کبھی نہیں ہوا ہم پر ضرور کوئی آفت آنے والی ہے یہ اچھا شگون نہین ہے تم ایسا کرو بھگوان کی پراتھنا کرنے بیٹھ جاؤ۔ نہیں ! اب میں مزید زخمی نہیں ہونا چاہتی۔
اس قسم کے واقعات نے پھر سے جستجو کے دروا کردیئے اب پھر میں اٹھتے بیٹھتے اپنے آپ کو تلاش کرنے لگی کہ اگر میری روح میں واقعی سچائی ہے تو پھر اب میرا وجود میرا جسم کس درجہ پہ ہے۔ میں کیا ہوں کون ہوں کیا کر رہی ہوں کیا کرنا چاہیے کیوں میں شعور میں آنے کے بعد ابھر ابھر کر ڈوبتی ہوں، ڈوب ڈوب کر ابھرتی ہوں مجھے کیا کرنا چاہئے۔ کیا ابھی تک میں کچھ بھی نہ کر پائی؟
نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن
مجھے اپنے آپ کو تلاشتے اور اپنے آپ سے لڑتے کتنے سال بیت گئے ہیں۔ میرے وجود کو وہ روح کب ملے گی جو اس اذیت سے مبرا ہو۔ ہے کوئی صلح کرانے والا جو میری یہ قلب و جان کی جنگ کو ختم کرادے۔ میرے آقا میرے مولا بلکہ ان بھگوانوں کے بھی آقا مجھے سیدھا راستہ دکھا اپنا وہ جلوہ دکھا جس کی مین تمنائی ہوں تیرے پاس آنے میں جو رکاوٹ ہے وہ آشکارہ کردے کیوں میں دوکشتیوں کی سوار بن گئی ہوں۔
بجائے مندر جاکر دعامانگنے کے تسبیح لیکر بیٹھ گئی۔ جانو۔ اللہ سے اپنے آپ کو ڈھونڈ کر رہوں گی۔
تسبیح پڑھتے پڑھتے اونگھ آگئی ایک تختہ پر بہت سے بلب جل اٹھے ہر بلب کے ساتھ گول دائروں میں عربی میں بہت سے نام ہر بلب کے ساتھ جگمگارہے ہیں ہجے کر کے پڑھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ کوئی جل جلالہ، کوئی المنان کوئی الخبیر، کوئی رحمان تو کوئی رحیم، البصیر تو کوئی الجبار تو کوئی الستار مطلب یہ کہ ہر نام کے اپنے مطلب، اپنی تاثیر۔ خواب ہی میں مجھے ان کو گننے کا خیال آیا آہستہ آہستہ میں نے گنا تو 99 اب اس پر بھی نہ جانوں تو میں بدنصیب۔ مالک کا ہر نام اپنا مطلب سمجھارہا ہے۔ خود انہی ناموں کی تاثیروں سے ہی سب کے پاس آیا ہے۔ کیا عام انسان ہوں، کیا پیغمبر۔
ایک لڑکی(صنف نازک) ہونے کی صورت میں مسلمان ہونے کے خیال ہی سے نظریں چرارہی تھی کیونکہ مسلمان ہونا تو آسان تھا اور تقریبا ہوچکی تھی لیکن اعلانِ ھق راہِ وفا کی کاردار پگڈنڈیوں جن سے میرے والدین کو بھی گذرنا تھا ڈرا رہا تھا۔یا پھر شاید میں لفظ قربانی کے معنی سے نا آشنا تھی۔ آہستہ آہستہ ہجے کر کے میں نے وہ نام یاد کرلیے اور دل ہی دل میں دھراتی رہی۔ بہنیں بہت چھیڑتی رہتیں کہ دیدی منہ منہ میں نہ جانے کیا بولتی رہتی ہے۔ چھوٹی تو یہاں تک کہتی اسے کہتے ہیں بڑ بڑانا۔
2006ء میں، میں نے اپنی نرسنگ ٹریننگ کا امتحان دیا اور میں پاس ہوگئی سارے گھر والے خود میں بھی بہت خوش ہوئی کہ ابو کا ہاتھ مزید اچھی طرح بٹاؤں گی۔ اللہ کرے کمیشن کے امتحان کا اخبار میں ایڈ آجائے اور مجھے مقابلہ کے امتحان میں بیٹھنے کاموقع مل جائے اس سے گورنمنٹ کی جاب لگ جائے گی تھوڑے سے ابو کے حالات اور بھی صحیح ہوجائیں گے۔ بھائی اور بہنوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا ان کی شادیاں بھی آرام سے ہوجائیں گی۔ یہی سوچتی ہوئی شام کو گھر میں داخل ہوئی۔
منہ ہاتھ دھوکر فریش ہوگئی بہنوں نے کھانا لاکر سامنے رکھا۔ بسم اللہ رحمن الرحیم کھانا شروع کیا۔ امیلا، ریکھا، وملا اور ریٹا !! دھپ سے نیچے میرے پاس بیٹھ گئیں۔ دیدی یہ کیا کہا اپ نے ؟ یہ تو بلقیس کی امی کھانا کھاتے ہوئے بولتی ہے۔ میں سنبھل گئی۔
بھگوانی: ہاں تو اس میں برا کیا ہے؟ اللہ کا نام ہے ۔ اللہ کے نام سے سب کام کرنے چاہئیں۔ شکر کرو تو الحمدللہ کہا کرو۔ اس مین بھی اللہ کا شکر کرنا ہوتا ہے۔ کوئی کام شروع کرو تو کہو انشاء اللہ اس میں بھی اللہ کا نام تو وہ کام بھی احسن طریقے سے ہوجائے گا۔ کوئی چیز اچھی لگے تو کہو ماشاء اللہ تو اللہ نظر بد سے بچاتا ہے یعنی اپنے ہر کام میں اللہ کو شامل رکھوں گی تو کبھی پریشانی نہیں ہوگی۔
وملا:  ارے دیدی آپ نے تو لفظ اللہ کا جال بنادیا۔ اب سمجھ میں بھی تو آئے کہ لفظ اللہ کے کتنے لام ہیں۔
نوالہ میرے ہاتھ سے گرگیا۔ ٹپ ٹپ آنسو میرے سالن میں۔
بہنیں یک زبان: کیا ہوا دیدی؟ کیا ہوا ہم سے کوئی غلطی ہوئی؟ ہمیں معاف کردیں۔
بھگوانی: کچھ نہیں یہ کھانا اٹھاکر لے جاؤ مجھے بھوک نہیں ہے۔ ایک بہن نے جاکر امی کو بتادیا کہ دیدی رورہی ہے۔ امی بھاگ آئیں۔
امی: بیٹا کیا بات ہے تم ایسی تو نہ تھی بچپن میں اب تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ میں تمہارے لیے پریشان رہتی ہوں میری شہزادی مجھے بتاؤ تمہیں کیا دکھ ہے؟ میں واری مین صدقے امی بلائیں لینے لگیں اب تو میرا رونا ہچکیوں میں تبدیل ہوگیا مجھے خود بھی معلوم نہ ہوا کہ اللہ کے نام پر اتنی حساس کیسے ہوگئی ایسا محسوس ہوا میرا دل کسی نے مٹھی میں لیکر نچوڑدیا ایسا نہ ہوکہ میرے مالک کا گھر تنگ ہوجائے میرا امن اس کا گھر ہے میرے دل کو من کو کوئی نہ چھیڑے۔
بھگوانی: کچھ نہیں امی کچھ نہیں آپ آرام کریں جاکر۔
امی: نہیں بھگوانی! یہ تم نے کیسا روگ پال لیا ہے مجھے بتاؤ تمہیں کیا دکھ ہے۔ میں تمہاری ماں ہوں تمہارے ابوکو بھی تمہاری پریشانی ہے مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں بے بی کو ( بچپن کا نام) کیا دکھ ہے بات بات پہ روتی ہے۔ بہنوں کو بھی تلقین کر رہے تھے بہن کو کچھ نہ کہا کرو۔ منیت تمہارے بھائی کو تو ڈانٹ رہے تھے کہ بہن کا خیال نہیں کرتے تم۔
بھگوانی: نہین امی منیت کو کچھ نہ کہو ہمارا یہ بھائی بڑی منتوں مرادوں سے اللہ نے ہمیں دیا ہے !! پھر وہی کیفیت لفظ اللہ ...... جلدی سے سینہ پکڑ کر نیچے کو جھکتی چلی گئی۔ امی نے گود مین سلادیا اور بال سہلانے لگی۔
امی : میری بچی مجھے اس کا نام بتاؤ جس نے تمہاری یہ حالت بنائی ہے میں اس کے پیر پکڑ کر دھائی دوں گی میری بچی کو خوشیاں لوٹادے بتا تجھے کون پسند ہے بتا! بتا مجھے ...... امی پر ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی۔ ماں کی محبت جوش میں آگئی اور میرے دل میں اللہ کا جلال جوش میں آگیا۔ 
بھگوانی : ماں ! ماں! بتادو ''اللہ '' جلدی سے اپنا ہاتھ منہ پر رکھ کر اٹھ کر بھاگتی ہوئی دوسرے کمرے میں جاکر ہانپنے لگی۔ آنسوؤں کے سوتے خشک ہوگئے سر میں شدید قسم کا درد اٹھا سرپہ دوپٹہ باندھ ہی رہی تھی کہ امی بہنیں سب کی سب کمرے میں داخل ہوئیں۔
بھگوانی : مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے میرے سرمیں سخت درد ہے میں سونا چاہتی ہوں۔
پلنگ پر لیٹ کر چادر اوڑھ کر سوتی بن گئی۔
میری والدہ اور بہنیں ایک ایک کر کے کمرے سے نکل گئیں۔ میں آپ کو یقین سے کہتی ہوں کہ بشارتوں کے خواب، نہ دن دیکھیں نہ رات۔ میں ان خوابوں کو دیکھ چکی ہوں جنہوں نے میری رہنمائی کی۔ اس دن بھی سر میں درد کی وجہ سے دیر سے سوسکی لیکن سپنا بڑا پیارا دیکھا، دیکھ رہی ہوں مٹھی میں میرپورخاص کے لیے اے سی والی کوچ میں بیٹھی ہوں۔ بس میں میری سیٹ کے سامنے ونڈ اسکرین پر بہت بڑی سائز میں ''اللہ'' لکھا وہا ہے مین اسے پڑھنے کی کوشش کر رہی ہوں میں اس کی ہجے کر رہی ہوں کہ الف لام لام حالانکہ مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ تشدید کے کیا معنی ہیں۔ یہ دوسری بار خواب میں ہجے کرنے کا اشارہ تھا اب میں نے سنجیدگی سے اس ہجے پر سوچنا شروع کردیا یہی سمجھ پائی کہ مجھے قرآن شریف پڑھنا چاہیے لیکن کیسے ؟ پہلے کود کو یقین تو دلاؤں کہ میں واقعی مسلمان ہوں۔
2008ء میں میرا کمیشن کا امتحان ہوا اور میں اس میں پاس ہوگئی نوکری کے آرڈر لیٹر بھی ابو 500روپے کھلا پلا کر لے آئے 6جنوری 2009ء کو مٹھی میں میری گورنمنٹ ہسپتال میں نوکری لگ گئی۔ اب میں مٹھی سے میر پور خاص آؤٹ بیک کرتی تھی سفر کا سارا وقت میں درود شریف پڑھ کر گزاراکرتی تھی۔ 
مٹھی ہسپتال میں غریب لوگ علاج کے لیے بہت آتے تھے ان کی غربت دیکھ کر پانی غربت بھول جاتی تھی اور اپنے مالک کی شکر گزار ہوتی کہ اس نے مجھے لاکھوں سے اچھا رکھا ہے لیکن یہ سب اتنے غریب کیوں ہیں یہی سوچتی تھی کہ جب اللہ میاں سے ملوں گی تو سب سے پہلے یہی پوچھوں گی کہ امیری غریبی کیوں؟ انسان انسان کا محتاج کیوں ہے؟ کیوں غریب فیس کے لیے محتاج ہے۔ کیوں ڈاکٹر اتنی زیادہ فیس لیتے ہیں کہ غریب دے نہیں سکتا۔ میں خود جا کر ڈاکٹر صاحبان کی منت سماجت کر کے بہت سے غریبوں کی فیس کم کروایا کرتی تھی جس سے غریب مریض مجھے دعائیں دیتے تھے کہتے تھے بھگوانی تم واقعی بھگوان ہو۔
مسلمان ہونا ہے
جس دن سے خواب میں، میں نے ''اللہ'' کے ہجے کی اس دن سے یہ پکا فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اس کے بعد نافرمانوں میں، میں ہ جائوں گی جس اللہ کو سالوں سے دل میں بسائے بیٹھی ہوں کیا وہ صرف دل میں رہنے سے خوش ہوگا کیوں میں اس کا کہنا نہیں مانتی کیا میں محبت کا حق ادا کر رہی ہوں بچپن سے محبت کا دعویٰ۔ اظہار سے انکاری، احکامات سے انکاری۔ تو پھر میں یونہی ٹوئیاں مارتی مارتی ہوئی ناکام و نا مراد اس کے روبرو پیش ہو جائوں گی اور جواب طلبی میں میرے پاس سوائے پشیمانی کے کچھ نہ ہوگا۔ پھر نہ رام ہوگا نہ رادھا۔ نہ باپ اور نہ ماں یہ مجھے اس وقت تو محبت دے رہے ہیں لیکن آخرت میں اپنے ساتھ مجھے بھی لے ڈوبیں گے لیکن یہ تو ہوسکتا ہے کہ میرے ساتھ یہ بھی تیر جائیں؟ ان باتوں کو سوچتے وقت میری ہیجانی کیفیت کم ہو گئی کبھی ایس نہیں ہوا تھا۔ جب بھی سوچتی تھی طبیعت بڑی گرم ہو جاتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب ایسا ہونے لگا کہ ہر وقت درود شریف میرے لبوں پر رہنے لگا اور کلمٔہ طیبہ اٹھتے بیٹھتے الحمدللہ، سبحان اللہ، اللہ اکبر یہ میری وہ معزز سیکیورٹی تھی جن کے حصار میں میں تھی، مٹھی کا پورا اسٹاف میری عزت کرتا تھا۔ مسلمان میرے اسلامی اعمات سے متاثر تھے اور ہندو میری طبیعت سے متاثر تھے۔
اب سمجھ میں آیا تھا کہ مسلمان ہونے کے بعد کے حالات کا شعوری خوف اظہار سے روکتا ہے۔ ماں باپ بھائی بہنوں کی محبت میں فرق کا احساس لاشعوری طور پر خوفزدہ کیے دے رہا تھا۔ لیکن جس کی دل میں محبت پرورش پا رہی ہے اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ کسی عمارت کی بنیادی اینٹ تو نکال سکتے ہیں میرے دل سے اللہ کا نام نکالنے کے لیے میری لاش بھی کافی نہیں اس بھگوانی کو مار توس کتے ہیں لیکن وہ اللہ کا نام اپنے ساتھ ہی لیکر جائے گی جس نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔
ابھی اگر میں ماں باپ سے فرمائش کروں کہ میرے مرنے کے بعد میرے ساتھ چلیں تو وہ مجھے ہی پاگل قراردے دیں گے پھر ایس ینا پائیدار محبت کو کیوں ترجیح دوں۔ ٹھیک ہے ان کی دنیاوی محبت کا میں بھی جواب محبت سے دونگی لیکن ناطہ مجھے پائیدار محبوب سے جوڑنا چاہئے۔
انہی سوچوں میں گم رہتے ہوئے مجھے 6ماہ اور گزر گئے والدین اور دیگر گھر کے افراد کو اب پختہ شک تھا کہ بھگوانی کچھ کرے گی کیا کرے گی وہاں تک پہنچ نہیں پا رہے تھے لیکن اب انہوں نے میری شادی کا ذکر چھیڑ دیا، چھوٹی بہن کا رشتہ بھی طے ہوگیا تھا۔ میری منگنی بہن کے دیور کے ساتھ ہو چکی تھی اب بہن کو پیغام دیے جا رہے تھے کہ ہم تیار ہیں آپ تیاری کرلیں۔
جوں جوں شادی کا ذکر گھر میں بڑھنے لگا! انجانے وساوس وخوف میں گھری رہنے لگی۔ منگیتر موبائل پربات کرنے کا خواہاں اور میں ہوں ہاں میں جواب دیکر ٹال جاتی۔ وہ شادی کا ذکر چھیڑنا چاہتا میں مصروفیت کا بہانا کر کے موبائل بند کر دیتی لیکن کب تک، ایک دن منگیتر نے شکوہ کر ڈالا کہ تم مجھ سے بات کرنے سے کیوں کتراتی ہو؟ دو چار دنوں میں بھابھی (میری بہن کویتا) آپ کے پاس آنے والی ہیں، شادی کی شاپنگ کرنے۔ میں چاہتا ہوں تم اپنی پسند سے شاپنگ کرو۔ خاموشی سے منگیتر کی بات سنی اور فون بند کر دیا… 
کیا اب بھی میں اس کی منگیتر ہوں؟
میں اسے کہہ دوں کہ اب ہماری راہیں جدا ہیں، تم میرے لیے اجنبی غیر مسلم ہو تمہارا اور میرا ملن ممکن نہیں جب تک تم مسلمان نہیں ہو جاتے۔
یہ سوچتے ہی میرا دل دھڑکا… تو … تو کیا میں امی ابو سے اس شادی سے انکار کر دوں؟ کیسے انکار کروں؟ چھوٹی بہنکی شادی بھی میرے ساتھ ہونی ہے۔  انکار کرنے کے بعد جو کچھ ہوگا…وہ… اف اس کے بجعد کیا حالات ہونگے کیسے سامنا کروں گی ان سب کا؟ بہن کے سامنے کیسے آئوں گی جو میری وجہ سے بن بیاہی رہ جائے گی۔ جس بہن کے گھر میں بیاہ کر جارہی تھی وہاں کیسا حشر برپا ہوگا؟ کہیں اس کو طلاق دیکر گھر نہ بھجوا دیں۔ اس کو تو دو چھوٹی چھوٹی  بچیاں بھی ہیں؟ یہ میری وجہ سے 3گھر تباہ ہونے۔ اور جو چھوٹی بہنیں ہیں ان کے رشے بھی خدا معلوم ہونگے کہ نہیں اف… میرے مولا میری مدد کر… یا اللہ اپنے حبیب یکے صدقے میں میری رہنمائی فرما… بے شک یہ آزمئش کی گھڑی ہے جو بڑی کٹھن ہے۔ خوف کے مارے پورا جسم کانپنے لگا زمین پہ بیٹھتی چلی گئی نہ کوئی ہمراز، نہ دمساز۔ کیا کروں… کس سے کہوں کیا کروں عجیب کشمکش اور گھبراہٹ نے دل و دماغ مائوف کر رکھا تھا۔ 
سرجھکائے! والدین کی متوقع آہ و زاری کے مناظر بہنوں کی مظلومیت کی ایک فلم سی چلنے لگی۔ آزمائش کے ممکنہ نقصان اور ڈرائوں نے ہمت توڑ کر رکھ دی۔ اپنی گذشتہ زندگی میں ان پر جان نچھاور کرنے والی بھگوانی ٹوٹتی چلی گئی۔ بیچ منجدھار میں ڈوبنے لگی۔ پہلی دفعہ کھل کر احساس ہوا کہ ان سب کا ناخدا توڑ چلی ہوں۔ اپنے انہیں خیالوں میں غلطاں پیماں تھی کہ
اللہ اکبر اللہ اکبر
اشھد ان لا الہ الا اللہ
کی صدا گونجی! جلدی سے سر پر دوپٹہ رکھ لیا۔ ''اسکی گواہی پر اب کس کی رضا چاہیے''
یہی سمجھ پائی کہ دنیا کی محبت سے اللہ نہیں ملتا۔
للہ کی محبت سے دنیا اور آخرت دونوں مل جاتے ہیں۔ سینے کی جلن کو ہاتھ سے مسلا، ٹھنڈے پانی کا گلاس پیا اور سب کچھ اسی پہ چھوڑ دیا جو کمرے میں تو کیا ا پنے جسم و جان سے بھی قریب ترین تھا، عزیز و اقارب تو کمرے سے باہر تھے۔
یہی سمجھ میں آیا کہ قریب ترین سے تو پہقے مدد مانگوں ہوسکتا ہے کہ دور تک کی بھی راہ آسان ہوجائے۔
فی الحان تو شادی میں دن پڑے ہیں میں ابھی سے پریشان ہو کر گھر والوںکو مشکوک کرودوں گی ایسا نہ ہو کہ کل کی شادی آج کردیں یا والدین کوئی ایسا قدم اٹھالیں کہ میں کچھ نہ کرسکوں۔
بڑی ہلکی پھلکی ہو کر ہسپتال چلی گئی۔ لیکن ذہن میں یہ تو پختہ یقین ہوگیا کہ چاہے کچھ ہو جائے شادی ہندو سے نہیں کرنی اب میں مسلمان ہوں ہندو سے شادی حرام اور باعث کراہت محسوس ہوئی لیکن شادی کو روکنا کیسے ہے کیا کرنا ہے یہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اس کے باوجود بھی دل مطمئن تھا۔ ایک گھنٹہ پہلے جو میری کیفیت تھی اس کیفیت سے مجھے کس نے نکالا؟ اس وقت میں کیوں مطمئن ہوں۔ کوئی ایسی غیبی طاقت ہے جو میری رہنمائی کر رہی ہے، بس اس خیال کے آتے ہی میں نے اپنے آ پکو تنہا نہ پایا تو توکل بھی خود ہی کوئی راہ نکل آئے گی منجدھار میں دین کا تختہ جس کا رخ بھی بہے بہنے دو… خود  ہی کنارے لگ جائوں گی۔
بہن کویتا اپن دو بچیوں سمیت دو تین دن کے بعد آگئی، بڑی خوش خوش امی کو اپنے سسرات کی باتیں بتا رہی تھی کہ ساس سسر نیپ یسے دئیے بھگوانی کے منگیتر نے بھی پییس دیے کہ بھگوانی کی پسند سے شاپنگ کرنا وغیرہ میں یہ سب کچھ سن رہی تھی اور خاموش ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی اور خوشی کا اظہار کر رہی تھی تاکہ کوئی مشکوک نہ ہو دوسرے دن مجھے بہن بازار لے گئی کہ چلو اپنی پسند کی شادی کی ساڑھی خرید لو…
اب شادی کے جوڑے میں میری کیا دلچسپی…
بھگوانی: دیدی خود ہی خرید لو! جو آپ خریدیں گی مجھے پسند ہوگی۔
کویتا: نہیں!… نہیں بھئی تمہارے منگیتر کی شدید خواہش ہے کہ تم ہی پسند کرو۔ اس کے پوچھنے پر میں کیا جواب دوں گی؟
کویتا نے بازار میں بھی کافی تنگ کیا یہ لے لو وہ وہ لے لومیں بجائے جوڑے کے دکان کی دیوار پر ٹنگی آیتةالکرسی کو دیکھ رہی تھی۔
کویتا: یہ تم کیا دیکھ رہی ہو، شاپنگ کرنے آئی ہو یا دیواروں کو دیکھنے آئی ہو؟ صحیح طرح سے میرے ساتھ شاپنگ کرو مجھے تنگ نہ کرو۔
بھگوانی: دیدی آپ خرید لیں میرا دل گھبرا رہا ہے میں باہر جا کر کھڑی ہو جاتی ہوں۔
کویتا بڑبڑاتی رہی اور میں باہر جا کر کھڑی ہوگئی۔
گھر آکر اس نے امی سے شکایت بھی کی لیکن گھر والوں نے مجھے کچھ نہ کہا۔ میری طبیعت واقف تھے۔ یہی ان کے لیے حیرت تھی کہ میں ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی، دل میں خاموش و پرسکون لہروں کا سمندر!! نہ طغیانی نہ ہیجان، منتظر رحمان کا کہ کب اس کی رحمت جوش میں آئے، بھگوانی کا توکل جِلا پائے۔ (اللہ اکبر)
اِک تو شۂ امید کرم لے کے چلا ہوں
کچھ اس کے سوا پاس نہیں زادِ سفر اور
زادِ سفر کا تو سوچا ہی نہ تھا لیکن نہال خانوں میں بھی کچھ نہ تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ عملی قدم کیسے اور کب اٹھائوں۔ میراکیا بنے گا۔ کویتا تو شاپنگ کرتی جاتی اور رات کو مجھے سہانے سپنے دکھاتی جاتی کہ میری دیورانی بن کر میرے گھر آئو گی اور پھر دونوں ساتھ رہاکرینگے بڑا مزا آئے گا دونوں مل کر راج کیا کریں گی وغیرہ۔ اس وقت میں اپنے ناپائیدار خواب سن کر کویتا کی ہاں میں ہاں ملاتی تھی لیکن اپنے دل کو ٹٹولتی تو وہاں کچھ بھی محسوس نہ ہوتا کفر کے خالی گھر میں اللہ کی مسجد
شادی کے کارڈ
کویتا کے جانے کے بعد امی نے شاپنگ کا سلسلہ شروع کر دیا اور ایک دفعہ کہنے لگیں:
امی: بھگوانی بیٹا چلو حیدر آباد شاپنگ کے لیے تمہاری اور بہن کے لیے تھوڑی بہت شاپنگ حیدر آباد سے کرلیتے ہیں۔
بھگوانی: امی چلیں آج میری چھٹی ہے شام تک واپس آجائینگے۔
شام تک ہم شاپنگ کر کے مغرب کے بعد گھر پہنچے کافی تھکن ہو گئی لیکن ابو نے کہا بیٹا اب تم کارڈ بنوانے کا آرڈر بھی دیدو۔ اب 20سے 25دن رہ گئے ہیں شادی میں، اپنی پسند کے کارڈ بنوا لو۔
بھگوانی: اچھا ابو صبح دیکھیں گے۔ یا اللہ! میرے دل کا یہ راز کب آشکار ہوگا زمانے پر! میرے ابو کو نہیں معلوم کہ میرے دل میں تو ہی تو ہے۔
ہم تم ہی بس آگاہ ہیں اس ربطِ خفی سے
معلوم کسی اور کو یہ رازنہیں ہے
اور تو ہر جگہ موجود۔ میں ایک نقطۂ راز…
میرے وجود کے اس نقطے کو روشنی عطا کرتا کہ اور تاریک نقطے روشن ہوں۔ اس گھر میں مجھے اپنے اظہار کا سبب بنا مجھے ان تاریک راہوں کا تاریک نقطہ نہ بنانا آمین ثم آمین۔ یہ دعا مانگنے سے بڑی تقویت ملی کہ ایسا کچھ نہ ہوگا کہ مایوس ہو جائوں لیکن کیا ہوگا؟ سونی پگڈنڈیوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
شادی کی تاریخ
درود شریف اور اللہ تعالی کے ناموں کا ورد کرتی ہوئی اپنے محافظ کی حفاظت (نیند) میں چلی گئی۔
صبح سویرے اذان پر میری آنکھ کھلی۔ خاموشی سے اللہ کی دعوت کو سنتی رہی ایک سرور اس آواوز کا بار بار دل کی دھڑکن تزی کیے دے رہے تھے جانو! دل کے دریچہ کھولنے کے لیے بے تاب؟؟؟
ناشتے کے لیے سب کے ساتھ بیٹھی تھی کہ والد صاحب گویا ہوئے…
ابو: اری بھاگوان (بھگوان کی ماں) کویتا کا رات فون آیا تھا 6 فروری شادی کی تاریخ پکی کر دی ہے اور ہم نے بھی ان کو یہی تاریخ دی تھی چلو اچھاہوا یہی تاریخ پکی کر دی انہوں نے، اب جلدی  جلدی سب تیاریاں کرلیں اور ہاں بھگوانی بیٹا تم بھی چھٹیاں لے لو! ہسپتال سے منظور ہونے میں بھی دن لگیں گے۔
ارے آج کارڈوں کا بھی آرڈر دینا ہے چلو جلدی سے ناشتہ کرلو اور میرے ساتھ چلو ڈیزائن پسند کرلو۔
بھگوانی: اچھا ابو!!! ایسا معلوم ہوا کوئی چیز اندر ٹوٹ گئی، کرچیوں کی چبھن آنکھوں کو سرخ کر گئی۔ سر جھکائے دل کے پھڑکتے پنچھی کو کنٹرول کرنے لگی لیکن درد کا احساس اس پنچھی کو نچوڑے دے رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اپنے پر کنٹرول کیا مبادا مشکوک ہو جائوں…
ہم تم ہی ہیں بس آگاہ اس ربطِ خفی سے
میرے مالک مجھے ہمت دے حوصے دے کوئی راہ پیدا کر دے (آمین)
کارڈ کا ڈیزائن میں نے پسند کیا اور پروگرام کی فہرست ابو نے پریس والوں کو سمجھائی۔
جب گھر واپس آئے تو مجھے کچھ اچھا نہ لگ رہا تھا اب آہستہ آہستہ یہ احاس ہو رہا کہ جب میں مسلمان ہوں تو یہ میں کیا کر رہی ہوں؟ ہندو سے شادی کیسے کر رہی ہوں اپنے لیے یہ دلدل کیوں بنا رہی ہوں جس میں پھنس کر زندگی بھر نہیں نکل سکتی ابھی تو صرف والدین اور بھائی بہنوں کے مسئلے ہیں پھر شوہر اور اولاد کے مسئلے بھی جمع ہو جائیں گے۔ ابھی کوئی قدم اٹھاتے قدم نہیں اٹھتے پھر تو قدموں میں زنجیر اولاد کی بھی ہوگی۔ اور اس دلدل میں روز جیوں گی روز مروں گی۔
 نا معلوم ضعیفی نے نڈھال سا کر دیا منہ لپیٹ کر سوتی ب گئی۔ بہنوں نے آکر کھانے کا پوچھا…
بھگوانی: آں… ہاں… کیا… مجھے کھانا کھاناہے؟؟
ارمیلا: دیدی!! کھانے کھانے کے لیے اتنی بے خبر کیوں؟
بھگوانی: خدا کے واسطے ارمیلا اس وقت یہاں سے جائو۔
ارمیلا: بھگوان کا واسطہ دو یہ خدا خدا…
بھگوانی: جاآآآئو!! بے خودی میں آپے سے باہر ہوگئی۔
فورا سینہ پکڑ کر ہانپنے لگی۔ ارمیلا نے باہر جا کر کیا کہا خدا معلوم! لیکن شام کو پورا گھر مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ کہا کچھ  نہیں۔ ابو کی پریشانی دیدنی تھی۔ ماں کی پراتھنا زوروں پہ تھی کہ جلدی سے دن گزر جائیں خیریت سے اور 6فروری آجائے بھگوانی اپنے گھر چلی جائے تاکہ روز روز کی اذیت سے جان چھوٹ جائے۔ بہن الگ اپنے بھگوان کو پکار رہی تھی کہ اے بھگوان میری بھی شادی بھگوانی کے ساتھ خیریت سے ہو جائے۔ ایک خدا! وسرا بھگوان! ٹکرائو تو ہونا تھا۔ اللہ تعالی کو ہدایت دینے والوں کو سایۂ رحمت بھی رکھنا تھا۔ اور کفر کول مبی رسی بھی دینی تھی ورنہ مسلمان ہوتے نہ کافر۔ اسی سلسلے کا سبب ہی وجود دنیا ہے۔ یں بھی اس ربِ بے نیاز سے آس لگائے بیٹھی تھی کہ
مجھ کو میریر رب کی نصرت پہ
تمہیں ناز ہے وسائل پر
نصر خواب میں
12جنوری  2010 تک  دفعہ پھر کویتا آئی۔ جب بھی آتی کوئی نہ کوئی پھلجڑی، خبر، شگوفہ کھلا جاتی۔ میری پریشانیوں میں اضافہ کر جاتی،میری دعائوں کی ساعتیں بڑھا جاتی۔ 
13جنوری 2010ء کو میں نے عجیب خواب دیکھا میری سونی پگڈنڈیوں میں روشنی پھیل گئی ایک جھلک ہی دیکھ پائی کہ غائب ہو گئی معلوم ہوا کسی نے دروازہ کھول کر جلتا بلب دکھایا۔ کچھ سمجھ نہ پائی۔
سراغِ رہبر
مسافر استقامت کی
میں اپنے آپ کو اپنے ہی گھر میں مسافر سمجھنے لگی۔ مہمان تھی میں اس گھر کی جس میں، میں نے جنم لیا۔ پیار کے ہنڈولے جھولے۔ ماں کی گود میں سوئی، باپ کے کندھوں پہ کھیلی۔ بہنوں پہ راج کیا، بھائی کا مان لیا۔
خود کو اس گھر کی میت سمجھ لیا۔ جیسے مردہ اپنوں سے منہ پھیرتا ہے اور اپنے روتے رہ جاتے ہیں لیکن میت کے کان پہ جوں نہیں رینگتی اسے صرف اپنی لگی ہوتی ہے۔ قدرت کے اس قانون کو میں نے زندگی میں اپنا لیا

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment