محترم پرویز خٹک صاحب!
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، آپ کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ باب پشاور فلائی اوور کا افتتاح کرتے ہوئے دیکھا، دل کو خوشی ہوئی کہ آپ نے بھی ملک و قوم کی ترقی میں انفراسٹرکچر کی اہمیت کو تسلیم کیا ،ویسے اس اہمیت کا تسلیم کیاجانا توپاک چین راہداری کے حوالے سے آپ کے ملک بھر میں آگ لگا دینے جیسے بیانات سے بھی ثابت ہے ، بہرحال چھوڑیں اس ذکر کو کہ اس خط کا مقصد آپ کوبے مقصد دھرنوں او ر اس دوران ہونے والے نقصان پر شرمندہ کرنا نہیں بلکہ آپ اور آپ کے قائدکی طرف سے محیر العقول اعلان پر رہنمائی لینا ہے۔ عمران خان صاحب نے ایک ،دو روز قبل صوبائی حکومت کی شجر کاری مہم کاجائزہ لیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ آپ درخت اگا رہے ہیں جبکہ پنجاب میں محض میٹروبس اوراورنج ٹرین اگائی جارہی ہے۔ دعویٰ یہ کیا گیاتھا کہ آپ کی شروع کی ہوئی شجر کاری مہم میں اب تک ساڑھے گیارہ کروڑ درخت لگائے جا چکے ہیں اگرچہ برادرم پرویز رشید نے خان صاحب سے سوال پوچھا تھا کہ یہ درخت کب اورکہاں لگے، کوئی میڈیا کوریج ہی دکھا دیں، گویا انہیں آپ کے دعوے پر پوری طرح شک ہے ۔ آپ لوگوں نے مزیددعویٰ کیا کہ اگلے دو، اڑھائی ماہ میں یعنی رواں سال مارچ تک آپ 26کروڑ یعنی مزید ساڑھے 15کروڑ درخت لگا دیں گے۔
خٹک صاحب ! آپ جانتے ہیں کہ مجھے بھی ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا شوق ہے، لاہور کی میٹرو اس کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ خان صاحب نے کہا کہ گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ چھانگا مانگا سمیت پنجاب بھر سے درخت کاٹے جا رہے ہیں تو مجھے یقینی طور پر شدید تشویش لاحق ہوئی۔مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ آپ اگلے انتخابات تک ایک ارب سے بھی زائددرخت لگانا چاہتے ہیں اور میرا خط آج اسی سلسلے میں آپ سے تفصیلات پوچھنے بارے ہے۔ مجھے یاد ہے کہ خان صاحب نے پہلے ایک ارب درخت لگانے کی شیخی ماری تھی اور اب اس میں بیس کروڑ کااضافہ کر دیا ہے۔ میں نے ماہرین سے پوچھا کہ ایک بڑے درخت کو مجموعی طور پر کتنی جگہ درکار ہوتی ہے تو مجھے بتایا گیا کہ ایک بڑے درخت کو دوسرے درخت تک مکمل قدرتی پھیلاو کے حصول کی خاطر اسی، اکاسی فٹ جگہ درکار ہوتی ہے۔ اس میں 40سے 60فٹ تک تو اس درخت کا اپنا پھیلاو ہوتا ہے جبکہ دوسرے درخت تک ایک مناسب فاصلہ بھی درکار ہوتا ہے۔ میں نے ایک ارب درختوں کا ہی حساب لگایا تو پتا چلا کہ اس مبینہ شجر کاری کے لئے ہمیں پاکستان بھر میں80ارب فٹ جگہ چاہیے ہوگی۔ پاکستان کا کل رقبہ 8لاکھ 81ہزار913 مربع کلومیٹر ہے اور رقبے کے اعتبار سے دنیا میں 33 ویں نمبر پر آتا ہے۔ ایک میٹر میں تقریباً تین اعشاریہ تین فٹ ہوتے ہیں لہذا اگر ہم 80ارب فٹ کو میٹروں میں بدلنا چاہیں تو ہمیں اسے تین اعشاریہ تین سے تقسیم کرنا ہوگا،اس کا جواب 24ارب 24کروڑ 24لاکھ242 آتا ہے، کلومیٹروں میںیہ جگہ ایک ہزار سے تقسیم کرتے ہوئے معلوم کی جا سکتی ہے جو 2 کروڑ 42لاکھ 42ہزار424 کلومیٹر بنتی ہے اور یقینی طور پرمجھے یہاں دوبارہ پاکستان کا رقبہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
خٹک صاحب! دنیا میں اس وقت 23ہزار سے زائد اقسام کے درخت موجود ہیں اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اتنے بڑے درخت نہیں لگا رہے جو 80فٹ جگہ مانگتے ہوں،آپ چھوٹے چھوٹے لگا رہے ہیں۔ چلیں ،ہم ماہرین کے تجویز کردہ ایریا کو نصف کرتے ہوئے 40فٹ کر دیتے ہیں تو اس میں بھی ہمیں ایک کروڑ 21لاکھ 21ہزار 212 کلومیٹر جگہ درکار ہوگی۔ آپ مزید ضد کرسکتے ہیں کہ 40فٹ بھی نہیں، آپ کے درخت کو لگنے اور پھلنے پھولنے کے لئے 20فٹ جگہ ہی کافی ہے، ایک درخت صرف 10فٹ پھیلا و کا ہو گا اور دو درختوں کے درمیان فاصلہ بھی دس، دس فٹ سے زیادہ نہیں ہو گا تو بھی آپ کو ایک ارب درختوں کے لئے 60لاکھ ، 60ہزار کلومیٹر سے زائد جگہ چاہئے ہو گی۔ میںآپ کو یاد دلاتا چلوں کہ خیبرپختونخوا کا کل ایریا74ہزار521 کلومیٹر ہے۔اچھا کیا آپ نے اوور ہیڈ برجز اور سڑکیں وغیرہ بنانے کی طرف بھی توجہ دی ورنہ آپ کو علم ہی ہے کہ اپنا رانا ثناء اللہ خان کتنا مخولیا ہے، کہہ رہا تھا کہ اچھا ہوا جماعت اسلامی کے وزیر بلدیات عنائیت اللہ خان نے پشاور میں ایک اوور ہیڈ برج بنا دیا ورنہ پشاور کے لوگ سڑکوں کی بجائے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں مارتے ہوئے اپنے اپنے دفتر پہنچا کرتے۔
چلیں!آپ اور آپ کے بیوروکریٹ ایک اور رہنمائی کر دیں۔ آپ تقریباً ایک برس سے شجر کاری مہم کی باتیں کر رہے ہیں اور اس ایک برس میں آپ اپنے ہی دعوے کے مطابق ساڑھے 11 کروڑ درخت لگاچکے ہیں۔ ہم ایک برس کے دنوں پر ان درختوں کو تقسیم کریں تو آپ کی حکومت نے ایک دن میں 3لاکھ 15ہزار درخت لگائے اور ہر گھنٹے میں لگائے جانے والے درختوں کی تعداد 13ہزار 125 بنتی ہے ، اب آپ 15جنوری کے بعد 31مارچ تک تقریباً 64 دنوں میں 15کروڑ سے بھی زائد درخت لگانا چاہ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے ،کارکردگی میں بڑھوتری کے لئے کیاطریقہ ہوگا کہ جس سے آپ 3لاکھ 15ہزار روزانہ کی بجائے اب ایک دن میں 23 لاکھ 43ہزار 750 اور ایک گھنٹے میں ایک لاکھ کے قریب یعنی 97ہزار650 درخت لگائیں گے۔ کیا یہ بھی مجھے ہی آپ کو بتاناپڑے گا کہ آپ کے صوبے کی ایک اندازے کے مطابق آبادی 2کروڑ 80لاکھ ہے جس میں بچے، بوڑھے اور عورتیں بھی شامل ہیں ، وہ لوگ بھی جو پشاور، مردان، ایبٹ آباد، بنوں اور چارسدہ جیسے شہروں میں رہتے ہیں، وہ لوگ بھی جن کا شجر کاری اور کاشت کاری سے دور ، دور تک کوئی تعلق نہیں لیکن اگر آپ کے ایک ارب 20کروڑ درخت لگانے کی مساعی کودرست مان لیا جائے تو اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمان کے کارکنوں سمیت ہر کسی کو 42سے 43درخت لگانے اور تین سال تک ان کی مسلسل دیکھ بھال کرنا ہوگی تاکہ وہ اس سے پہلے ہی ختم نہ ہوجائیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آپ اپنے دعوے کے ایک چوتھائی پر بھی عمل کرنا چاہیں تو اس کے لئے آپ کو خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ پاکستان کی جغرافیائی حدود سے باہر نکلتے ہوئے بھارتی، ایرانی اور چینی سمندر ی حدودمیں بھی شجر کاری کرنا پڑے گی۔ یہ کام فیس بک پرتو بہت آسانی سے ہو سکتا ہے، اینی میٹڈ ویڈیوز اور گرافکس ہزاروں نہیں لاکھوں لائیکس اور شئیرز لے سکتے ہیں مگر عملی طور پر آپ کے دعوے کے بعد تو صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں پنجاب، بلوچستان اور سندھ کو بھی شہریوں سے خالی کروانا ہوگا، ان کے گھروں ،دفاتر اور کارخانوں کو گرا کرساری جگہ بھی شجر کاری کے لئے مختص کرنا ہوگی۔زعیم قادری بہت ہنس رہا تھا، اسے میں نے بہت دنوں کے بعد ہنستے ہوئے دیکھا، کہہ رہا تھا کہ اس کے بعد ہمیں تو شجر کاری کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں، خان اور خٹک صاحب کے درخت ہی ہمارے لئے کافی ہوں گے۔ میں نے اسے ڈانٹا کہ وہ پٹھانوں کے لطیفے سنانے لگ پڑا تھا، کہنے لگا، خان صاحب کو دعائیں دیں، اگر سکھ نہ ہوتے تو سب سے زیادہ ہمارے انہی دوستوں کے لطیفے مشہور ہوتے۔ میں نے اس بدتمیزی پر ایک ہفتے کے لئے ٹی وی پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی ہے، یقین کریں اس کے لئے اس سے بڑی اور سخت سزاکوئی دوسری ہو ہی نہیں جا سکتی۔
خٹک صاحب! آپس کی بات ہے، خان صاحب کہہ رہے تھے کہ درختوں پر آپ کے صوبے کو سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور امداد ملے گی، میں نے بڑے میاں صاحب سے کہا، اگر درخت لگانے پر اتنی بڑی رقم مل سکتی ہے تو پھریہ لوگ چھیالیس ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری میں اپنا حصہ لینے کے لئے کیوں لڑنے مرنے پر تیار ہو رہے ہیں، خیبرپختونخوا کا راہداری میں شئیر تو سو ارب ڈالر وں کے مقابلے میں محض مونگ پھلی کا دانہ ہوگا۔بڑے میاں صاحب بھی حیران ہوئے تھے۔ امید ہے آپ ہم سب کی حیرانیوں کو جلد دور کریں گے ورنہ مجھے لگ رہا ہے کہ میں نے تو دو سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کر کے اتنی بڑی نہیں چھوڑی تھی جتنی بڑی آپ سب مل کو چھوڑ رہے ہیں۔ والسلام۔ خیر اندیش۔ محمد شہباز شریف۔ خادم اعلیٰ پنجاب
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment