Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Sunday, 24 January 2016

))))Vu & Company(((( اَجرامِ فلکی کی بابت اِسلامی تعلیمات (پارٹ 1)

اِس کائناتِ ہست و بود میں اللہ ربّ العزت کی تخلیق کے مظاہر ناقابلِ شمار ہیں۔ اَجرامِ سماوِی اور ان مجموعہ ہائے نجوم کی ریل پیل کائنات کے حسن کو دوبالا کرتے ہوئے اُسے ایک خاص انداز میں متوازن رکھے ہوئے ہے۔ یہی توازن اِس کائنات کا حقیقی حسن ہے، جس کے باعث مادّہ (matter) اور ضدِمادّہ (antimatter) پر مشتمل کروڑوں اربوں کہکشاؤں کے مجموعے (clusters) بغیر کسی حادثہ کے کائنات کے مرکز کے گرد محوِ گردش ہیں۔ ان کلسٹرز میں کہکشاؤں کا ایک عظیم سلسلہ اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے اپنے اپنے نظام پر مشتمل سیاروں کا ایک گروہ لئے کُنْ فَیَکُوْن کی تفسیر کے طور پر خالقِ کائنات کے اوّلیں حکم کی تعمیل میں محوِ سفر ہیں۔

حرکت اِس کائنات کا سب سے پہلا اُصول ہے۔ حرکت میں برکت ہے اور برکت صرف حرکت میں ہے۔ حرکت کو ہی اِس کائنات میں حقیقی دوام اور ثبات حاصل ہے۔ حرکت زندگی ہے اور سکون موت ہے۔ کائنات کو اِس موجودہ حالت میں آئے 15 ارب سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ آج سے 15 ارب سال پہلے دراصل بگ بینگ (Big Bang) رُونما ہوا تھا جس سے کائنات کا اِبتدائی مادّہ ہر سُو بکھرا اور اُس کے نتیجے میں یہ سلسلۂ اَفلاک و اَجرام سماوِی وُجود میں آیا۔ تخلیقِ کائنات کا وہ عظیم لمحہ جب سے وقت کی دَوڑ شروع ہوئی نہایت عظیم لمحہ تھا۔ کُنْ فَیَکُوْن کا راز تخلیقِ کائنات کے سائنسی راز کے کھلنے پر ہی مُنکشف ہو سکتا ہے۔ مخلوق پر غور و فکر خالق تک رسائی کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے تبھی تو اپنے نیکوکاروں کے اَوصاف کے بیان میں فرمایا کہ میرے محبوب بندے وہ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے ہر حالت میں مجھے یاد کرتے ہیںاور اُس کے ساتھ ساتھ کائناتِ ارض و سماء کی تخلیق میں بھی غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔ کائنات کی تخلیق میں غور و فکر کرنے سے لامحالہ اُنہیں خالقِ کائنات کی عظمت کا اِدراک ہوتا ہے اور بات اِیمان بالغیب سے آگے بڑھ کر اِیقان تک جا پہنچتی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا :

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِOالَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِO

(آل عمران، 3 : 190، 191)

بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںo یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں :) ''اے ہمارے ربّ! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے''o

پہلی آیتِ کریمہ میں حاملینِ عقل و شعور کے لئے تخلیقِ ارض و سماوات اور اِختلافِ لیل و نہار میں بھی اللہ ربّ العزت کی بے شمار نشانیوں کا ذِکر کرنے کے بعد دُوسری آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب بندوں کے اپنے حضور میں روز و شب کی طاعت گزاری اور تقویٰ کا ذِکر کیا اور اُس کے معاً بعد اُن کی دُوسری خوبی یہ بیان کی کہ وہ کائنات کی تخلیق و تشکیل میں غور و فکر کرتے ہیں اور اللہ کی تخلیق کے رازوں پر سے پردہ اُٹھتے ہی اُس کی بارگاہ میں سجدۂ شکر بجا لانے کو پکار اُٹھتے ہیں کہ ''اے ہمارے ربّ! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا''۔

ایک طرف قرآنِ مجید میں تخلیقِ ارض و سماوات کے رازہائے سربستہ سے پردہ اُٹھانے کا اِس قدر واضح حکم اللہ ربّ العزت کے محبوب و مکرم بندوں کے لئے موجود ہے اور دُوسری طرف دورِ حاضر کی جملہ کائناتی تحقیقات کے علمبردار بالعموم مغربی ممالک کے غیرمسلم سائنسدان ہیں۔ رہی بات مسلمانوں کی تو اُن کی علمی پسماندگی اِس نوبت کو جا پہنچی ہے کہ وہ اِس علم سے متعلقہ کوئی خبر بھی سن لیں تو اِس قرآنی علم کو غیروں کا علم قرار دے کر استغفرُاﷲ / نعوذُباللہ پڑھتے ہوئے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت کے محبوب بندوں کی صف میں شامل ہونے کے لئے اپنے ہی اَسلاف کا پروان چڑھایا ہوا علم اَغیار سے سیکھنا اور اُسے دوبارہ سے حرزِ جاں بنانا خالقِ کائنات کی حقیقی معرفت کے حصول کے لئے ایک لابدّی امر ہے۔

سرِدست اِس باب میں ہم چند اہم اَجرامِ سماوِی کا مختصر طور پر سائنسی اور قرآنی حوالوں سے تذکرہ کریں گے تاکہ قارئین پر یہ واضح ہو سکے کہ قرآنِ مجید علمِ فلکیات (astronomy) کے کتنے اہم راز ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے اور ہم سے علمِ فلکیات کے سلسلے میں کیا توقعات رکھتا ہے۔

ستارے (Stars)

بھڑکتی ہوئی ہائیڈروجن (Hydrogen) اور ہیلئم (Helium) کے گولے جو ایک دُوسرے کے مابین لاکھوں کلومیٹر کا فاصلہ چھوڑے پوری کائنات میں ہر سُو بکھرے ہوئے ہیں۔ اُن کے اندر ہونے والی خودکار ایٹمی تابکاری ہر طرف نور بکھیرتی نظر آتی ہے۔ ستارے اپنے اندر جلنے والی گیسوں ہی کی بدولت اِس قدر روشن نظر آتے ہیں۔ جب کائنات کی اوّلین تخلیق عمل میں آئی تو بِگ بینگ کے نتیجے کے طور پر ہر سُو بکھرنے والے مواد سے گیسی مرغولوں نے جنم لیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی کثافت بڑھتی چلی گئی اور وہ نسبتاً کثیف اَجسام کی شکل اِختیار کرتے چلے گئے۔ گیس اور گَرد و غبار کے عظیم بادل کششِ ثقل سے اندرونی سمت سُکڑنا شروع ہو گئے جس سے ستاروں کو وُجود ملا۔ گیسی مرغولوں کے سُکڑنے کے اِس عمل میں ستاروں کے ایٹم باہم ٹکراتے اور رگڑ کھاتے رہے جس سے حرارت اور توانائی کا اِخراج شروع ہو گیا۔ جوں جوں کوئی ستارہ سُکڑتا چلا گیا توانائی کے اِخراج کا عمل اِسی قدر تیز ہوتا چلا گیا۔ مرکزی ایٹم شدید دباؤ کے تحت ایک دُوسرے کے قریب ہونے سے حرارت میں مزید اِضافہ ہوتا چلا گیا، یوں روشن و منوّر ستارے وُجود میں آ گئے۔

قرآنِ مجید میں ستاروں کے لئے ''النُّجُوْم'' اور ''المَصَابِیْح'' کا لفظ اِستعمال ہوا ہے۔ فرمایا :

وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ.

(الاعراف، 7 : 54)

اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اُسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔

سورج، چاند اور ستارے سب اللہ ربّ العزت کے تخلیق کردہ نظامِ فطرت کے یکساں پابند ہیں اور اَحکامِ خداوندی سے سرِمُو سرتابی کی جرات نہیں کرتے۔ نظامِ فطرت ہی کی پابندی سے کائنات میں حسن ہے اور اگر یہ نظم نہ رہے تو کائنات درہم برہم ہو جائے اور قیامت چھا جائے۔ قیامت کا وُقوع بھی فی الحقیقت ایک ایسے ہی اَمر کا متقاضی ہے، جب ستارے باہمی فاصلہ برقرار رکھنے سے مُنحرف ہو جائیں گے اور اپنے مابین طے شدہ فاصلوں کو برقرار رکھنے کی بجائے منہدم ہوکر ایک دُوسرے سے جا ٹکرائیں گے۔ کششِ ثقل کا یہ توازُن جو آج جمیع کائنات کے حسن و نظم کو تھامے ہوئے ہے، بگڑے گا تو سب نیست و نابود (annihilate) ہو جائے گا۔

قرآنِ مجید بھی وُقوعِ قیامت کے ضمن میں ستاروں کی کششِ ثقل کا توازُن بگڑنے اور باہمی تصادُم پیش آنے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :

وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْO

(التکوير، 81 : 2)

اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گِر پڑیں گےo

ستاروں میں موجود اِیندھن کے جل جل کر ختم ہو جانے پر اُن سے توانائی اور حرارت کا اِخراج ختم ہو جائے گا اور وہ بُجھ کر بے نور ہو جائیں گے۔

اِرشادِ ربانی ہے :

فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْO

(المرسلت، 77 : 8)

اور جب ستارے بے نور کر دیئے جائیں گےo

ستاروں کا بے نور ہونا دراصل اُن کی زِندگی کا آخری مرحلہ ہے۔ یہاں ہمیں ایک ستارے کی شروع سے لے کر آخر تک مکمل زِندگی کا سمجھنا ضروری ہے۔ ستارے گیسوں سے مرکب ایسے گولے ہیں جو نیوکلیئر فیوژن سے پیدا شدہ توانائی کا اخراج کرتے ہیں۔ اُن کی پیدائش گرد اور گیس کے اُن بادلوں میں ہوتی ہے جنہیں نیبیولا (nebula) کہا جاتا ہے۔ نیبیولا یعنی سحابیہ دراصل کسی ستارے کی وہ اِبتدائی دُخانی حالت (gaseous stage) ہوتی ہے جس سے وہ تشکیل پاتا ہے۔ سحابیئے میں موجود گیس اور گرد و غبار کششِ باہمی کی وجہ سے آپس میں ٹکرا کر سکڑتے ہوئے پروٹوسٹار کو جنم دیتے ہیں۔ پروٹوسٹار کو ہم نیم ستارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی پروٹوسٹار اندرونی دباؤ کے تحت کثیف اور شدید گرم ہوتے چلے جاتے ہیں، بالآخر وہ اِتنے شدید گرم ہو جاتے ہیں کہ اُن کے اندر خودکار ایٹمی دھماکوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اَب ہم اُنہیں مکمل ستارہ کہہ سکتے ہیں۔

درمیانے درجے کے ایک ستارے کی زِندگی چند ارب سال کے قریب ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہائیڈروجن جل جل کر ہیلئم میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہائیڈروجن سے ہیلئم میں تبدیلی کے عمل کے ساتھ ساتھ ہیلئم بھی شدید درجۂ حرارت کی بناء پر جلنے لگتی ہے اور ہائیڈروجن اور ہیلئم کے جلنے کا یہ دُہرا عمل ستارے کو اور بھی زیادہ گرم کر دیتا ہے۔ ہیلئم کی راکھ (یعنی کاربن) ستارے کے مرکز میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے۔ جب ہیلئم بڑی مِقدار میں کاربن میں تبدیل ہو جاتی ہے تو ستارہ اچانک ایک دھماکے کے ساتھ پھول جاتا ہے، وہ اپنی اصل جسامت سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور اُس کا رنگ بھی سرخ ہو جاتا ہے۔ اِس حالت میں اُسے ''سرخ ضخام'' (red giant) کہتے ہیں۔ اُس کے بعد ستارہ ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے لگتا ہے۔ اگر وہ ستارہ ہمارے سورج سے دس گنا بڑھ ہو تو وہ مرنے سے قبل ایک بار پھر سپرنووا کے دھماکے کے ساتھ پھٹتا ہے مگر یہ مرحلہ کچھ زیادہ دیر باقی نہیں رہتا اور مرتے ہوئے ستارے کی آخری ہچکی ثابت ہوتا ہے۔ اَب وہ ستارہ جلد ہی سیاہ شگاف (black hole) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

سیاہ شگاف (Black hole)

ستارے کی زِندگی کے دوران اُسے جن مراحل سے سابقہ پڑتا ہے اُن میں سب سے پراَسرار سیاہ شگاف (black hole) ہے۔ سیاہ شگاف اِتنی بے پناہ کشش کے حامل ہوتے ہیں کہ روشنی سمیت کوئی شے اُن کی کشش سے بچ نہیں پاتی۔ عام ستاروں کو ہم اِس لئے دیکھ سکتے ہیں کہ وہ روشنی کا اِخراج کرتے ہیں اور 'بلیک ہول' سے روشنی کے ہماری سمت نہ آ سکنے کی وجہ سے وہ ہماری نظروں سے مستقلاً اوجھل ہوتے ہیں۔ اِسی لئے اُنہیں 'سیاہ شگاف' (black hole) کا نام دیا گیا ہے۔ اِس وقت ہماری کائنات کا کافی زیادہ مادّہ پہلے سے اُن سیاہ شگافوں میں کھو چکا ہے۔

'بلیک ہول' بڑے ستاروں کی زِندگی کے خاتمے پر روشن سپرنووا کے پھٹنے کی صورت میں رُونما ہوتے ہیں۔ ایسے ستاروں کا کثیف مرکزہ (dense core) دھماکے کے بعد اپنی ہی کششِ ثقل کے باعث اندرونی اِنہدام کو جاری رکھتا ہے تآنکہ وہ سیاہ شگاف کی صورت میں فنا ہو جاتا ہے اور پھر روشنی بھی اُس سے بچ کر نہیں نکل سکتی۔ عظیم سائنسدان 'سٹیفن ہاکنگ' کے مطابق کچھ ماہرینِ تخلیقیات (cosmologists) کا خیال ہے کہ سیاہ شگاف عظیم منہ بند سوراخ کی طرح اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے ذریعے مادّہ ہماری کائنات سے کسی اور کائنات کی طرف جا نکلتا ہے۔ سیاہ شگاف فزکس کے قوانین پر عمل کرتے دِکھائی نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ اُنہیں سمجھنا نہایت دُشوار ہے۔

اوپن ہائمر (Oppenheimer) کی برس ہا برس کی تحقیقات سے جو چیز سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ''بلیک ہول کا مقناطیسی میدان کسی بھی مکان-زمان میں پائی جانے والی شعاعوں کا راستہ بدل دیتا ہے اور روشنی کی کرنیں سیاہ شگاف کے قریب آہستگی سے اندر کو مڑ جاتی ہیں''۔ سورج گرھن کے دوران دُور واقع ستاروں کی طرف سے آنے والی روشنی کے جھکاؤ میں اِس اَمر کا بخوبی مُشاہدہ کیا گیا ہے۔ جوں جوں مرتا ہوا ستارہ سُکڑتا چلا جاتا ہے اُس کا مِقناطیسی میدان طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں مزید اندر کو جھکنے لگ جاتی ہیں، جس کے باعث روشنی کے لئے اُس سے فرار اِختیار کرنا دُشوار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک مرتا ہوا ستارہ اپنی اصل جسامت سے لاکھوں گنا چھوٹا ہو جاتا ہے مگر اُس کی کمیّت میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اِنتہائی طاقتور ہو جاتا ہیں اور اُس کی قوتِ کشش بے پناہ بڑھ جاتی ہے۔ آخرکار جب ستارہ اپنے کم سے کم ممکنہ رداس کی حد تک سکڑ جاتا ہے تو اُس کی سطح کے مِقناطیسی میدان میں اِتنی طاقت آ جاتی ہے کہ وہ روشنی کے فرار کے تمام راستے مسدُود کر دیتا ہے۔ نظریۂ اِضافیت (Theory of Relativity) کے مطابق کوئی مادّی چیز روشنی سے تیز رفتار کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی۔ اِس لئے روشنی کے سیاہ شگاف سے نہ بچ سکنے کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی شے اُس سے نہیں بچ سکے گی اور اُس کا مِقناطیسی میدان اپنی زد میں آنے والی ہر شے کو اپنی جانب گھسیٹ لیتا ہے۔

ہم زمین پر رہتے ہوئے یہ خیال کرنے سے قاصر ہیں کہ ہم میں سے کوئی اِنسان سیاہ شگاف کے مُشاہدے کے لئے خلائی گاڑی کی مدد سے اُڑ کر اُس کے قریب جائے اور صحیح سلامت بچ کر واپس بھی آ جائے۔ یہی وہ مقام ہے جسے بلیک ہول کہتے ہیں اور یہ وہ مقام ہے جہاں اِس سے قبل کوئی بڑا ستارہ موجود تھا۔

قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے مرے ہوئے ستارے کے اُس مقام کی اہمیت کے پیش نظر اُس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا :

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِوَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌO

(الواقعه، 56 : 75 - 76)

پس میں ستاروں کے مقامات کی قسم کھاتا ہوںo اور اگر تم جان لو تو یہ بہت بڑی (چیز کی) قسم ہےo

ستاروں کے مقامات جو اُن کی موت کے بعد سیاہ شگافوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، سماوِی کائنات کے باب میں قواسرز (quasars) کے بعد سب سے زیادہ پُراسرار ہیں، کیونکہ وہ ایسے مقام ہیں جہاں سے روشنی سمیت کوئی شے فرار نہیں ہو سکتی اور اُن کی کیفیت و ماہیت فزکس کے قوانین کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے مسلمان قارئین کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاہ شگاف کسی دُوسری کائنات کو جانے والی گزرگاہ کا کام دیتے ہیں اور اُن میں گرنے والا مادّہ مکان-زمان کے کسی اور منطقے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ دُوسری کائنات کون سی ہے؟ اور کہاں ہے؟ اُس کی ماہیت کیا ہے؟ کیا بلیک ہول سے گزرے بغیر اُس کائنات تک پہنچا جا سکتا ہے؟ یہ اور اِن جیسے بے شمار سوالوں کا جواب فزکس کے موجودہ قوانین کی رُو سے محال ہے۔ اِسی لئے اللہ ربّ العزت نے ستاروں کے اُن مقامات 'سیاہ شگافوں' کی قسم کھاتے ہوئے اِرشاد فرمایا کہ اگر بنی نوع اِنسان کا شعور اِس قدر پختہ ہو کہ اُن بلیک ہولز کی حقیقت کو جان لے تب اُسے پتہ چلے گا کہ یہاں کتنی عظیم شے کی قسم کھائی جا رہی ہے۔ (بلیک ہولز کے بارے میں مزید مطالعہ کے لئے 'سیاہ شگاف کا نظریہ اور قرآنی صداقت' نامی باب کا مطالعہ کریں)

دُمدار تارے (Comets)

ہمارے نظامِ شمسی کے اندر 9 بڑے سیاروں، اُن کے چاندوں اور سیارچوں کے علاوہ کچھ ایسے اَجرام بھی پائے جاتے ہیں جو برس ہا برس ہماری آنکھوں سے اوجھل رہنے کے بعد اپنے مقررہ وقت پر چند روز کے لئے ظاہر ہوتے ہیں اور بعد ازاں پھر اپنے طوِیل مدار پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں دُمدار تاروں (comets) کا نام دیا جاتا ہے۔ سورج کے گرد اُن کا مدار اِنتہائی بیضوِی ہوتا ہے۔ وہ برف سے بنے بڑے بڑے گولے ہوتے ہیں، عام طور پر اُنہیں 'گرد آلود برف کے گولے' بھی کہا جاتا ہے۔ جوں جوں کوئی دُمدار تارہ سورج کے قریب آتا چلا جاتا ہے اُس کا مرکزہ بخارات پر مشتمل روشن دُم بنانے لگتا ہے، جو ہمیشہ سورج کی مخالف سمت میں چمکتی ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ بعض دفعہ چند کلومیٹر قطر کے دُمدار تارے کی دُم کئی لاکھ کلومیٹرز تک طوِیل ہوتی ہے۔

سورۂ تکویر میں اللہ ربّ العزت نے دُمدار تارے کی اِس اہمیت کے پیشِ نظر اُس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا :

فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِالْجَوَارِ الْكُنَّسِO

(التکوير، 81 : 15، 16)

تو میں قسم کھاتا ہوں اُن (اَجرامِ فلکی) کی جو (ظاہر ہونے کے بعد) پیچھے ہٹ جاتے ہیںo جو بلا روک ٹوک چلتے رہتے ہیں، (پھر ظاہر ہو کر) چھپ جاتے ہیںo

سورج سے ڈیڑھ نوری سال کی مسافت پر بہت بڑا سحابیہ سورج کے گرد محوِگردش ہے، جسے اُوورٹ بادل (Oort Cloud) کہا جاتا ہے۔ سورج کی طرف آنے والے دُمدار تارے وہیں پیدا ہوتے ہیں۔ سورج سے متعلقہ سب سے معروف دُمدار تارہ 'ہیلے کا دُمدار تارہ' ہے، جو اپنے بہت زیادہ بیضوی مدار کی وجہ سے ہر 76 سال بعد منظرِ عام پر آتا ہے۔

برطانوی ماہر فلکیات 'ایڈمنڈ ہیلے' (Edmund Halley) نے اُسے 1682ء میں دیکھا اور پیشنگوئی کی کہ یہ 76 سال بعد 1758ء میں دوبارہ نظر آئے گا، چنانچہ اُس کے اعدادوشمار صحیح نکلے اور وہ 1758ء میں ہی نظر آیا۔ آخری بار وہ 6 فروری 1986ء کو سورج کے قریب آیا تھا۔ اُن دنوں بہت سے خلائی جہاز (probs) ریسرچ کی غرض سے اُس کی طرف بھیجے گئے۔ یورپین سپیس ایجنسی (ESA) کے خلائی جہاز Giotto نے اُس کے اِنتہائی قریب جا کر اُس کی تصاویر بنائیں اور اہلِ زمین کو اِرسال کیں، جن کی بدولت ہم دُمدار تاروں اور بالخصوص ہیلے کے دُمدار تارے کی ساخت کو سمجھنے کے قابل ہوئے۔ 'ہیلے کا دُمدار تارہ' اب دوبارہ اِن شاء اللہ 29 اپریل 2061ء کے روز سورج کے قریب سے گزرے گا۔

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment