جب سے دنیا بنی ہے 'بیویاں بیمار ہوتی آئی ہیں' چنانچہ میرے حصے میں جو بیوی آئی وہ بھی بیمار تھی۔ بیویاں اپنی بیماری کی سب سے بڑی وجہ اپنا شوہر بتاتی ہیں ورنہ میکے میں وہ بھلی چنگی تھیں۔ ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی تھیں۔ البتہ بیچ بیچ میں اس بات پر بھی مچلتی تھیں کہ ذرا بیمار ہو کر دیکھا جائے، چنانچہ اسی امید اور خوشی میں وہ ڈھول ڈھماکوں کے ساتھ ریشمی کپڑے پہنے اور جڑائو زیوروں سے آراستہ سسرال کی چوکھٹ پہ پیر رکھتی ہیں تھوڑی ہی دیر کے بعد بیماری کا عمل شروع ہو جاتا ہے، نو آموز دولہا دلہن کے آتے ہی اسے تشنج میں دیکھ کر سخت گھبراتا ہے اور بھاگا ہوا بھابھی یا ماں کے پاس پہنچ جاتا ہے جو اس کے پھوہڑپنے پہ خوب ہی ہنستی ہیں چونکہ اسے کسی دوسرے کا منہ تو ملتا نہیں' اس لیے اپنا سا منہ لے کر لوٹ آتا ہے۔ شادی کے پہلے ہی چند دنوں میں میاں کو پکا کرنے کے لیے بیوی اپنی تندرستی کے دن یعنی کنوار پنے اور میکے کو یاد کر کے رونے لگتی ہے۔ جہاں وہ اپنی نیند سوتی اور اپنی ہی نیند جاگتی تھی، اور اب یہاں اسے پرائی نیند سونا پڑ رہا ہے اور پرائی ہی نیند جاگنا۔ البتہ آنسو خالص اس کے اپنے ہی ہوتے ہیں اور وہ کبھی دولہا کے آنسو نہیں روتی۔ پھر وہ دن آجاتے ہیں، جب وہ واقعی طبی نقطۂ نظر سے Clinically بیمار ہوتی ہے، میاں ایک کی جگہ دس دوائیں لاتا ہے۔ اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو دکھاتا ہے جو بیوی سے کچھ سوال کرتے ہوئے ضمناً میاں سے بھی کر جاتا ہے اور اسے سخت شرمندہ ہوتا پڑتا ہے۔ لیکن بیوی کی بیماری ڈاکٹر کو نبض دکھانے یا اسے دوائیں لاکر دینے سے نہیں جاتی۔ وہ اس وقت تک رہتی ہے جب تک میاں دوا اپنے ہاتھ سے نہیں پلاتا۔ وہ روٹھتی ہیں برے برے منہ بناتی ہیں۔ میاں پیار کا دھوکہ دیتا ہے یا دھوکے میں پیار کر جاتا ہے۔ یہ تھو تھو کرتی ہیں، وہ فوفو کرتا ہے۔ آخر آدھی دوا اندر جاتی ہے، آدھی باہر گرتی ہے اور کچھ دیر کے بعد جنابہ بیوی کا ذائقہ ٹھیک ہوتا ہے تو وہ میاں کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے ایک ادا سے کہتی ہے: ''تمہارے ہاتھ سے تو میں زہر بھی پی لوں۔'' اور میں یہاں اپنے شوہر بھائیوں کو مشورہ دوں گا کہ بیوی کی اور بہت سی باتوں کے ساتھ اس بات کو بھی سفید، کالا یا ہر رنگ کا جھوٹ سمجھیں ورنہ پھانسی ہو جائے گی۔ اگر بیویاں آس پاس نہ ہوں، یا ہوں تو ہمیشہ کی طرح اپنی ہی بات میں کسی دوسرے کی نہ سنیں تو میں آپ کو بتائوں۔ بیویاں دراصل بیمار نہیں ہوتیں، وہ یونہی تھوڑے سے نوٹس پر بیمار ہو کر دکھا دیتی ہیں۔ اس بات کو جاننے کے لیے کہ ان کی بیماری کے ساتھ ان کا ہوتا سوتا کتنا بیمار دکھائی دیتا ہے، کتنے دکھ اور ہمدرد ی کا اظہار کرتا ہے جو فعل بیویوں کی لغت میں محبت کا دوسرا نام ہے، اگر میاں کے چہرے پر بیوی کی بیماری کے کوئی آثار دکھائی نہ دیں تو وہ نہایت کمینہ اور رذیل آدمی سمجھتی ہیں لیکن دل میں خوش ہوتی ہیں اور کہتی ہیں ''مرد ہے…'' اگر وہ کہیں ہمدردی کا اظہار کرے کروٹ کروٹ ساتھ مرے تو یوں دیکھنے میں خوش نظر آئیں گی، لیکن اندر سے کہیں گی…''زنخا ہے موا۔!'' میں بڑی بیماری کی بات نہیں کرتا جو کہ بیوی خود ہوتی ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی بیماریوں کا ذکر کر رہا ہوں جو دراصل کوئی وجود نہیں رکھتیں اور جو مرد کو اُکسانے کے لیے بیوی دن رات پیدا کرتی رہتی ہے۔ خالص بیوی ہو گی تو روز سویرے اٹھ کر شکایت کرے گی… ''آج میراسر کچھ بھاری ہے!'' پھر وہ ناک سکیڑے گی، ہاتھ کنپٹیوں پر رکھ لے گی اور اس کی یہی بات آپ کو پیاری لگے گی۔ آپ خود بھی محسوس کرنے لگیں گے کہ اس کی وجہ آپ خود ہیں۔ آپ بڑی محبت (جو لفظ اردو میں لکھتے وقت حجت معلوم ہونے لگتا ہے) کے ساتھ کہیں گے…''اوہو! اسپرین ہے گھر میں؟'' چنانچہ اسپرین ہوگی، کوڈو پائرین بھی ہوگی، مگر وہ کھائیں گی نہیں اور آپ سوچنے لگیں گے… ان کا کچھ نہ کچھ بھاری ہی رہتا ہے۔ سر نہیں تو پیر ہی سہی۔ پھر بیوی کے بدن میں ایک حصہ ہوتا ہے جسے وہ کمر کہنے پر مصر ہوتی ہے۔ یاد رہے یہ عورت کے بدن کا وہ حصہ ہے جس پر ہمارے شاعروں اور نثرنگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ مگر بیوی کے سلسلے میں وہی کمر حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے۔ ان شعروں کو اور بیوی کی کمر کو ساتھ رکھ کے دیکھا جائے تو وہی چیز اچھا خاصا کمر معلوم ہونے لگتی ہے۔ وہ ہوتا یا ہوتی تو بدن ہی کیساتھ ہے مگر آپ کو اسے ٹوٹا ہوا تصور کرنا پڑتا ہے۔ بیویاں اتنی سادہ سی حقیقت نہیں جانتیں کہ میاں کو ان سے ہمدردی اور پیار ہوتا ہے، مگر کمر سے نہیں۔ کیونکہ مرد کی فطرت اسے معدوم ہی دیکھنا چاہتی ہے۔ بہرحال بیوی کی ٹوٹی ہوئی یا ٹوٹتی ہوئی کمر پہ کوئی لیپ، کوئی اینٹی فلاجسٹین اثر نہیں کرتا اور نہ دردِ شقیقہ و عصابہ دور کرنے والی گولیاں ۔ لیکن چونکہ اب تک آپ بھی خالص میاں ہو چکے ہیں۔ اس لیے اسی کمر کے گرد ہاتھ ڈال کر کہتے ہیں… '' بنو آج تم بڑی حسین لگ رہی ہو…'' پھر کہاں کی کمر اور کہاں کا درد؟ حقیقت یہ ہے کمر کے درد کے لیے اس سے بہتر دوا سائنس آج تک ایجاد نہیں کر پائی۔
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment