Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Monday, 19 September 2016

Re: ))))Vu & Company(((( مرنے کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط

یہ ایک حقیقی کہانی ہے عالیشا کو حقیقت میں گولی ماری گئی تھی اور پھر یک اور محترمہ نے اس کر مرنے کے بہاد ایک تحریر لکھی تھی جو درج ذیل ہے 

خواجہ سرا
میری شادی ہونے والی تھی اور شاپنگ کے سلسلے میں روز مارکیٹ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک روز شاپنگ کے دوران ہم گزر رہے تھے کہ راستے میں مردوں کا ایک ٹولہ نظر آیا۔ ان سے چند ہی قدم دور ایک خواجہ سرا آرہا تھا۔ جب وہ قریب سے گزرا تو مردوں نے اپنی اوقات دکھاتے ہوئے فقرے کسے ، ایک صاحب تو اپنی اوقات سے بھی باہر نکلے اور اسے چھوا۔ وہ غصے میں بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا اور آج بھی ان میں قید ہے ، اسوقت میں نے اپنے صحیح سلامت ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا، مگرساتھ ساتھ اس خواجہ سرا کی بے بسی پر ترس آیا اور ان مردوں کے ٹولے پر انتہائی غصہ۔
لیکن میری اور میرے غصے کی کیا اووقات۔ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے ، یہاں مردوں کی حکومت ہے۔ اور جب حاکم طاقتور اور محکوم کمزور ہو تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جیت کس ہے! کچھ دن پہلے خواجہ سرا علیشہ امسال کاپشاور میں قتل ہوا جس کی عمر صرف پچیس سال تھی۔لوگ قتل کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں، جیسے کہ بھتہ نا دینے پر، ناچنے کے بعد نیم عریاں تصویریں نا بنوانے پر، اور کچھ صرف یہ کہتے ہیں کہ ایک مشتعل شخص نے علیشہ کو آٹھ گولیاں ماریں ۔
جس کے بعد اسے اس کے ساتھی اٹھا کر لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے گئے جہاں پر ڈاکٹرز اور مریضوں کے ساتھ آئے ہوئے لواحقین نے ان پر فقرے کسے۔
آہ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ چیخوں ، چلاؤں ، زور زور سے روؤں ۔ کوئی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہو اور اس کے ساتھ یہ سلوک۔ کیسے کیسے جانور جنم دئیے گئے ہیں اس دنیا میں ، انسانوں کے روپ میں درندے ۔ کہا جاتا ہے کہ اسے میڈیکل ٹریٹمنٹ نہیں دیا گیا ، مرد وں اور عورتوں کے وارڈ میں رکھنے کی اجازت نہیں مل سکی۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہسپتال کے غسل خانے کے سامنے اس نے دم توڑ دیا ، اور کچھ کہتے ہیں کہ ہسپتال کے باہر درخت کے نیچے۔ اور کچھ یہ کہتے ہیں مردوں اور عورتوں کے وارڈ میں جگہ نہ ملنے کے بعد اسے ایک الگ کمرے میں منتقل کر دیا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا ۔
ہوتے ہیں پائمال تو کہتے ہیں زرد پھول
کل رحمت عمیم کا ہم پر بھی تھا نزول
یاران بوستان میں ہمارا بھی تھا شمول
اے راہ رو، نہ ڈال ہمارے سروں پہ دھول
ہر چند انجمن کے نکالے ہوئے ہیں ہم
لیکن صبا کی گود میں پالے ہوئے ہیں ہم

ڈاکٹر ز نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ان تمام باتوں کو بے بنیاد کہا ہے ۔
سننے میں آیا ہے کہ کسی ڈاکٹر نے خواجہ سرا سے یہ بھی پوچھا کہ صرف ناچتے ہو یا کسی رات کے لئے بھی میسر ہو ، معاوضہ کیا ہے؟
میں نے جو کچھ لکھا ہے صرف سنا ہے ، خبروں میں ، لوگوں سے ، فیس بک پر۔
اس وقت میں یہ سوچ رہی ہوں کہ اگر میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہوتا تو میرا دل پھٹ نہیں جاتا ؟ ایک انسان جس کو آٹھ گولیاں لگی ہو، زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو، اور اسے اس کے وجود پر گالی دی جائے، مذاق اڑایا جائے ، بہت اچھا ہوا علیشہ مر گئی۔ جاتے جاتے تکلیف میں اس کی جان نکلی ہو گی پر ہر روز کی مو ت سے ایک د ن مر جانا بہتر ہے۔
کیسے لوگ ہیں ہم۔ یہ خواجہ سرا بھی ہم ہی انسانوں میں سے کسی کے وجود کا حصہ ہے ، انہیں جنم دے کر فٹ پاتھوں پر چھوڑ آنے والے اپنے آپ کو گالی کیوں نہیں دیتے ؟ سب سے بہتر وہ ان کے ساتھ یہ کر سکتے ہیں کہ انہیں پیدا ہوتے ہی مار دیں ۔ انہیں ہر روز مرنے کی اس اذیت سے نجات دلا دیں۔
ہم شدت اور انتہا پسند قوم ، حوصلے اور ظرف سے گرے ہوئے لوگ، ہم فرقوں میں بٹے مغرور لوگ۔ ہم خواجہ سراؤں کو کہاں برداشت کریں گے ۔ اتناحوصلہ آسمانوں سے بھی نہیں اترے کا ہم سب کے لئے۔
ہم دراصل اس زمین کے مالک بن گئے ہیں ، اور جس کی ملکیت ہے اسے بھول گئے ہیں ،نہ صرف اس زمین کے بلکہ اس پر رہنے والوں کے بھی۔ اس زمین پر ہم اپنی مرضی کا راج چاہتے ہیں ، اپنی مرضی کے لوگ، مذہب ، ذات پات، فرقے، اور جنس ہر چیز پر اپنی بادشاہت کا سکہ جمانا ہے ہمیں۔ وہ کون ہوتا ہے جس نے خواجہ سراؤں کو بنایا، خواجہ سراؤں کو کوئی حق نہیں کہ وہ عزت کی زندگی گزاریں انہیں ذلیل ہونا ہے ، اور ذلیل کرنے کے لئے ہم ابھی اس خطے پر موجود ہیں۔
میں تو اس تکلیف کا اندازہ بھی کرنے سے قاصر ہوں جو اُن سب کو اس وقت ہوئی ہوگی۔ علیشہ کے مرنے کے بعد وہ سب لوگ اپنے وجود کو بدعا بنا کر ظلم کرنے والوں کو دیتے رہے۔کیسی تکلیف ہے ، سن کر ہی دل اچھل کر حلق میں آجاتا ہے ، ہم کسی کے سامنے اپنے عزت نفس کے لٹ جانے پر شور مچاتے ہیں روتے ترپتے ہیں اور کہاں بیچارے وہ لوگ اپنے کو وجود کو بدعا بنا کر ظالموں کو دیتے ہیں۔کوئی کیسے اپنے وجود کو گالی دے سکتا ہے ؟ اور کس حوصلے سے ؟!!!!
ایک خواجہ سرا کی فریاد۔۔۔۔۔
نہ میں پتر نہ میں دھی آں
نہ میں دھرتی نہ میں بی آں
میں وی ربا تیرا ہی جی آں
توں ای مینوں دس میں کی آں ؟


2016-09-19 20:14 GMT+05:00 Sweet Poison <mc090410137@gmail.com>:

Too sad... Sad kar dia ap na


On 19 Sep 2016 12:48 p.m., "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:


مصنف کا پتا نہیں چل سکا اگر کسی صاحب کو پتا ہو تو برہ مہربانی بتا دیں

مرنے کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط  
ماں جی

میری عمر نو دس برس کی تھی جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے گهر سے بے گهرکر دیا تھا۔ میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بےحس وحرکت سہمی ہوئی مجھے تکتی رہیں۔ واحد روانی تمہارے آنسوؤں کی تھی جو ابا کے غیض و غضب کے آگے بھی تهمنے کو تیار نہ تھے۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تها کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھی مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور بهی۔

محلے والوں کے طعنے، رشتے داروں کے طنز اور لوگوں کی چبهتی ہوئی نگاہوں سے جب ابا بے قابو ہو جاتے تو پهر اپنی کالے چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔ اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقش لیے میں اس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا جو پورے گهر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔ پٹائی کا دن جب رات میں ڈھلتا تو تم ابا سے چھپ کر دبے پاؤں آتیں۔ مجھے سینے سے لگاتی، اپنے دوپٹے سے میرے زخموں کی ٹکور کرتی۔ میرا سر اپنی گود میں لیے گھنٹوں میرے پاس بیٹھی رہتی۔ مجھے چپ کراتے کراتے تمہاری اپنی سسکیاں بندھ جاتیں۔ آہوں اور سسکیوں کی گونج کے علاوہ اس کال کوٹھڑی میں کچھ سنائی نہ دیتا۔ ہم دونوں آنسوؤں کی زبان میں بات کرتے۔ میرے آنسوؤں میں ان گنت سوال ہوتے۔ کہ آخر کیوں ابا کی نفرت کی خاص عنایت مجھ پر ہی ہے؟ آخر کیوں گھر میں مہمانوں کے آتے ہی اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں گهر کے ہر فالتو سامان کے ساتھ مجھے بند کردیا جاتا ہے اور جب تک اللہ کی رحمت ہمارے گھر سے چلی نہیں جاتی مجھے رہائی کا پروانہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ یہ رحمت ہر بار میرے لیے زحمت کیوں بن جاتی ہے؟ مگر اماں میرے ہر سوال کے جواب میں تم خاموشی سے میرے اوپر محبت بهری نگاه ڈالتی اور کچھ نہ بولتیں۔ بس کبھی تم میرے ماتهے کا بوسہ لیتی اور کبھی میرے ہاتھوں کو چوم کر اس بات کی گواہی دیتی کہ میں تو اپنے راجہ بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں۔ ایک سوال کرتے کرتے میں تهک جاتا اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا کہ آخر میرے سے ایسی کیا خطا ہوئی جو میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ابا کے پیار کا حقدار نہیں۔

ہاں تمہاری گود میں سو جانے سے پہلے میں یہ دعا بھی کرتا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو مگر صبح ہوتی اور تم پھر اس عورت کا لباده اوڑھ لیتی جو ابا اور معاشرے کے خوف سے مجھے پیار کرتے ڈرتی تھی۔

جس دن ابا نے مجهے گهر سے نکالا اس دن میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے تمہاری سنگھار میز پر رکھی ہوئی لالی سے اپنے ہونٹ رنگ لیے تھے، تمہارا سرخ دوپٹہ سر پر رکھے، تمہارے ہاتھوں کے کنگن اپنی کلائی میں ڈالے تمہاری ٹک ٹک کرنے والی جوتی پہن کرخوش ہو رہا تھا، بس یہ دیکھنے کی دیر تھی کہ ابا نے مجھ پر پهر جوتوں کی برسات شروع کر دی۔ میں معافی کا طلب گار رہا مگر میری شنوائی نہ ہوئی اور پهرگالی گلوچ کرتے ہوئے زمین پر گھسیٹتے ہوئے زنخا زنخا کہتے ہوئے مجھے ہمیشہ کے لیے سب گهر والوں سے دور کر دیا۔

میرے لیے آبا کے آخری الفاظ یہ تھے کہ آج سے تو ہمارے لیے مر گیا۔ یہ جملہ سنتے ہی میری ہاتھوں کی گرفت جس نے ابا کے پیروں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کمزور پڑ گی۔ میری گڑگڑاتی ہوئی زبان خاموش ہوگی، میرے آنسو تهم گئے کیونکہ میں جانتا تھا کہ ابا اپنی کہی ہوئی بات سے کبھی نہیں پھرتے۔ اور تم ماں، ابا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتی

اس کے بعد ابا مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں چهوڑ گے جہاں ایک گرو رہتا تھا۔ امجد کی جگہ میرا نام علیشاہ رکھ دیا گیا۔ مجھے ناچ گانےکی تربیت دی جاتی۔ مجھ پر نظر رکھی جاتی لیکن میں جب کبھی موقع ملتا تمہاری محبت میں گرفتار اپنے گهر کی طرف دیوانہ وار بھاگتا مگر ابا کا آخری جملہ مجھے دہلیز پار کرنے سے روک دیتا۔ دروازے کی اوٹ سے جب تمہیں گرما گرم روٹی اتارتے دیکھتا تو میری بھوک بھی چمک جاتی اور پهر تم اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر میرے بہن بھائیوں کے منہ میں ڈالتی تو ہر نوالے پر میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔ اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے میں اکثر گهر کے باہر رکھی ہوئی سوکهی روٹی کو اپنے آنسوؤں میں بهگو بهگو کر کھاتا۔

بعد کی عیدیں تو تنہا ہی تھیں پر جب گھر بدر نہ ہوا تھا تب بھی عید پر جب ابا ہر ایک کے ہاتھ پر عیدی رکهتے تو میرا ہاتھ پھیلا ہی ره جاتا۔ جب ہر بچے کی جھولی پیار اور محبت سے بهر دی جاتی تو میری جھولی خالی ہی ره جاتی۔ جب ابا اپنا دست شفقت سب کے سروں پر پھیرتے تو میرا سر جهکا ہی رہتا۔

صحن میں کھڑی ابا کی سائیکل جس کو اکثر میں محلے سے گزرتے دیکھتا تو ہر بار دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابا سائیکل روک کر مجھے ایک بار، صرف ایک بار سینے سے لگا لیں مگر میری یہ خواہش، خواہش ہی ره گی۔ گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا جس کے کرب نے میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند 'شرفا' گرو کے پاس آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مجھے زبردستی بے لباس کیا اور اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ ماں، میں اتنا چھوٹا اور کمزور تھا کہ میں تکلیف کی وجہ سے اپنے ہوش ہی کهو بیٹھا تھا۔ پهر اس ہی بے ہوشی کے عالم میں مجھے گرو کے حوالے کر دیا گیا۔ پهر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ میں روز ہی اپنی ہی نظروں میں گرتا رہا مرتا رہا۔ کرتا بھی کیا کہ اب میرے پاس کوئی اور دوسری پناہ گاه نہ تهی۔

پهر اسی کام کو میرے گرو نے میرے پیشے کا نام دے دیا۔ میں گرو کے پاس سے کئی بار بھاگا، در در نوکری کی تلاش میں پهرتا رہا مگر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ ہر بار گرو کے در پر ہی پناہ ملی۔

ہمارا وجود معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں تو کسی کو بددعا بھی دینی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جا تیرے گهر بھی مجھ جیسا پیدا ہو۔ حالانکہ ہماری رگوں میں بهی سرخ رنگ کا خون دوڑتا ہے۔ ہمیں بنانے والا بھی تو وہی ہے جس نے ان کو پیدا کیا۔ ان کے سینے میں بھی دل ہماری طرح ہی دھڑکتا ہے۔ تو پهر ہمیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے ؟ہمارا جرم کیا ہوتا ہے؟ شاید ہمارا جرم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا خون سرخ ہے اور معاشرے کا سفید۔

ماں میں ساری زندگی جینے کی چاه میں مرتا چلا گیا۔ سفید خون رکھنے والے لوگ کبھی مذہب کی آڑ لے کر تو کبھی جسم فروشی سے انکار پر ہمارے جسموں میں گولیاں اتار دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، مجھے بھی گولیاں ماری گئیں۔ جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکٹر مجھے امید کی کرن دکهانے کی کوشش میں آہستہ آہستہ میرے کان میں سرگوشی کر رہا تھا کہ اگر تم ہمت کرو تو زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہو۔ میں نے بہت مشکل سے اپنے ہونٹوں کو جنبش دی اور ڈاکٹر سے کہا کہ اگر میں ہمت کر کے لوٹ بھی آیا تو کیا مجھے جینے دیا جائے گا؟ جب ملک الموت میرے پاس آیا تو میں نے اس سے جینے کے لیے چند لمحوں کی درخواست کی۔ نجانے کیوں اس بار مجھے امید تھی کہ تم دوڑی چلی آؤ گی، میرا بچہ کہتے ہوئے مجھے اپنے سینے سے لگاو گی۔ میرے سر کو اپنی گود میں رکھ کر میرے زخموں کی ٹکور کر کے مجھے اس دنیا سےرخصت کرو گی۔ لیکن موت کے فرشتے نے چند لمحوں کی مہلت بھی نہ دی۔

سنا ہے قیامت کے روز بچوں کو ماں کےحوالے سے پکارا جائے گا۔ بس ماں تم سے اتنی سی التجا ہے کہ اس دن تم مجھ سے منہ نہ پهیرنا۔

تمہاری محبت کا طلبگار

تمہارا بیٹا

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment