Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Wednesday 21 September 2016

Re: ))))Vu & Company(((( سقوطِ حیدرآباد‘‘ اور کشمیر کا المیہ!

Nice


On 21 Sep 2016 3:03 p.m., "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:

سقوطِ حیدرآباد'' اور کشمیر کا المیہ!





 تحریر : رشید انصاری

ستمبر کے مہینہ میں ہوئے کشمیر میں ہوئے ہنگاموں بلکہ المناک واقعات نے 1948ء میں حیدرآباد دکن کی مملکت آصفجاہی کے سقوط اور اس کے بعد ہندوستان کی مفتوحہ آصف جاہی مملکت حیدرآباد کے علاقوں میں ہوئی خوں ریزی، تباہی و غارت گری کی بھیانک یادوں کو تازہ کردیا ہے۔ انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق کم از کم دو لاکھ مسلمان سقوط کے بعد شہید کئے گئے تھے۔ غارت گری، تباہی، آتش زنی اور زنانہ اور غاصبانہ قبضوں کی تعداد و قیمت کا اندازہ مشکل ہے۔ کشمیر کو بھارت سے الحاق (انضمام نہیں) کے بعد جن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے اس کا بھی اندازہ لگانا ناممکن ہے۔
کشمیر اور حیدرآبادمیں برطانوی دور حکومت میں چندباتیں مشترکہ تھیں تو بے شمار متضادات بھی تھے۔ آزادی کے وقت 1947ء میں حیدرآباد اور کشمیر دونوں وسیع اور اہم ریاستیں تھیں لیکن دونوں ریاستوں میں ایک بڑا فرق تھا۔ کشمیر کی آبادی کی اکثریت مسلمان اور حکمراں ڈوگرہ شاہی کے ہندو مہاراجہ ہری سنگھ تھے۔ جبکہ حیدرآباد میں ہندووں کی اکثریت تھی لیکن ان پر حکمرانی آصف جاہی حکمران نواب میر عثمان علی خاں کی تھی۔ آصف جاہی سلطنت اس دور کے لحاظ سے ترقی یافتہ، خوشحال اور فلاحی مملکت تھی جہاں امن وسکون تھا۔ حکمران سے رعایا اور رعایا سے حکمران خوش تھے اسی لئے ریاست فرقہ واریت، تعصب، شاہی جبر بدامنی اور شورشوں سے پاک تھی جبکہ کشمیر میں ظالم مہاراجہ سے رعایا بیزار تھی تو مہاراجہ کو مسلم رعایا پسند نہ تھی۔ ترقی، عوامی فلاحی بہبود اور خوش حالی کا جموں و کشمیر میں دور دور گزر نہ تھا۔
آزادی کے بعد شیخ عبداللہ کے مشورے پر مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے ریاست کا الحق کرلیا اسی الحاق کی بناء پر آج کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیر میں مہاراجہ کی مرضی کو رعایا کی مرضی پر یا مسلم اکثریت پر ہندو مہاراجہ کی مرضی کو ریاست کا مستقبل بنادیا گیا جبکہ حیدرآباد میں مسلم حکمران کی آزاد رہنے کی خواہش کو نظر انداز کرکے عوام کی مرضی کا سہارا لیا گیا یا ہندو اکثریت کو حیدرآباد کے الحاق کا سبب قرار دیا گیا۔ عوام کی مرضی نہ کشمیر میں کسی نے دیکھی نہ حیدرآباد میں۔ ہندوستان نے فوجی طاقت کے بل پر پاکستانی فوج کو جموں و کشمیر پر قبضے سے محفوظ رکھا تو حیدرآباد پر بھی فوج کی طاقت سے قبضہ کیا تھا۔آج جموں وکشمیر کے عوام مصائب میں مبتلاء ہیں۔ فوج کے مظالم کا شکار ہیں جبکہ حیدرآباد کے عوام سکون سے ہیں جموں و کشمیر ہنوز تنازع ہے اور حیدرآباد اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حیدرآباد کے مسلمانوں کو تباہی و بربادی کا سامنا سقوط حیدرآباد کے بعد کرنا پڑاجبکہ کشمیری آج بھی مظالم و مصائب کا شکار ہیں تو حیدرآباد کے عوام آزاد حیدرآباد کو خواب سمجھ کر بھول گئے ہیں۔ آزاد حیدرآباد کی باتیں اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ کشمیر کے عوام آج بھی مختلف مقاصد سے تحریکیں چلارہے ہیں جس کا ذکر کسی قدر تفصیل کا طالب ہے لیکن کشمیر کے ذکر سے پہلے حیدرآباد کا ذکر ضروری ہے۔ 
حیدرآباد اور کشمیر کے مسائل کی دراصل برطانوی حکومت کے پیداکردہ تھے جو آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں تنازعات پید ا کرناچاہتی تھی اس لئے 560 سے زیادہ دیسی ریاستوں کے بارے میں کوئی قطعی و حتمی فیصلے کی جگہ مبہم فیصلے کئے اور دیسی ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار تو دیا لیکن ہندوستان اور پاکستان کو دیسی حکمرانوں کے فیصلوں کو قبول کرنے کا پابند نہیں کیا چنانچہ مہاراجہ کشمیر کا فیصلہ پاکستان نے اور حیدرآباد، بھوپال اور جوناگڑھ اور کئی دیگر ریاستوں کے حکمرانوں کے فیصلوں کو ہندوستان نے قبول نہیں کیا۔ حیدرآباد کے نواب عثمان علی خاں نظام ہفتم نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن حکومت ہند نے ہند واکثریت کی ریاست کے مسلمان حکمران کا فیصلہ مسترد کردیا اور معاہدہ انتظامیہ جارے کی مدت (صرف ایک سال) کے خاتمے سے قبل ہی حیدرآباد پر پوری قوت سے فوجی حملہ کرکے حیدرآباد پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح حیدرآباد سے آصف جاہی سلطنت (جو سلطنت مغلیہ کا ہی تسلسل تھی) کا ہی نہیں ہندوستان میں مسلم حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔ ستم ظر یعنی کی انتہا یہ ہے کہ بھر پور قوت سے کئے گئے فوجی حملے کو ''پولیس ایکشن'' کہہ کر ساری دنیا کو دھوکا دیا گیا۔ حیدرآباد میں مسلمانوں کو جو زبردست جالی و مالی نقصان ہوا وہ ناقابل بیان ہے تو دوسری طرف اسلام کا ایک مضبوط قلعہ مسمار ہوگیا۔ اسلامی تہذیب و ثقافت، اردو کے عظیم ترین مرکز اور آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ ختم ہوگئی۔ حیدرآباد کو ختم کرنے کی واحد وجہ یہی تھی۔ حیدرآباد کا حکمران مسلمان تھا جو انڈین یونین کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں تھا۔ 
حیدرآباد ملک کی قدیم ریاست تھی جس کو مغلیہ سلطنت کے صوبہ دار دکن قمر الدین علی خاں نظام الملک آصف جاہ اول نے 1724ء میں قائم کی تھی۔ گزشتہ صدی میں حیدرآباد اور نظام ہفتم میر عثمان علی خاں کی شہرت نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا کے بیشتر اہم ماملک میں تھی۔ جبکہ جموں و کشمیر میں ڈوگرہ شاہی 1846ء میں اس طرح قائم ہوئی تھی کہ گلاب سنگھ نے جموں و کشمیر کو انگریزوں سے 75 لاکھ میں خرید کر خود کو جموں و کشمیر کی ڈوگرہ شاہی کا پہلا مہاراجہ بنادیا۔ آزادی سے پہلے ڈوگرہ شاہی مہاراجوں نے مسلمانوں پر بڑے مظالم کئے تھے۔ جموں و کشمیر حیدرآباد کے مقابلے میں انتہائی پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ریاست تھی۔ ریاست کی آبادی کی غالب اکثریت مسلمان تھی جن کی ترقی، فلاح و بہبود سے ڈوگرہ شاہی حکمرانوں کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نظام حیدرآباد کی ریاست کی 85ریاست آبادی غیر مسلم تھی لیکن آخری نظام آصف سابع عثمان علی خاں نے درحقیقت اپنی ریاست کو ترقی یافتہ فلاحی مملکت بنارکھا تھا۔ غیر مسلموں سے کسی قسم کی کوئی جانبداری، تعصب اور امتیاز نہیں برتا جاتا تھا۔ نظام ہفتم کے فلاحی کاموں اور ریاست کو ترقی یافتہ بنانے کے عمدہ کاموں کو آج بھی یاد کیاجاتا ہے۔
جموں و کشمیر میں رائے شماری یا استصواب عامہ کروانے سے انکار کا حکومت ہند کے پاس جواز ہے گوکہ مخالف حکومت ہند عناصر کا خیال ہے کہ جموں و کشمیر کی غالب مسلم اکثریت پر حکومت ہند بھروسہ نہیں کرتی ہے۔ دوسری جانب آزاد حیدرآباد کی حکومت نے حکومت ہند کے مطالبہ پر حیدرآباد میں استصواب عامہ کیلئے تیار ہوگئی تھی یعنی حیدرآباد کے مسلمان حکمراں کو اپنی غیر مسلم رعایا پر اٹوٹ بھروسہ تھا تاہم حکومت حیدرآباد کا بھروسہ دیکھ کر وہ اپنی تجویز سے خود ہی دستبردار ہوگئی۔ کشمیر کے عوام پر حکومت ہند کا بھروسہ نہ کرنا قابل فہم ہے لیکن حیدرآباد کی 85 فیصد غیر مسلم اکثریت پر حکومت ہند کا بھروسہ نہ کرنا حیرت انگیز اور ناقابل فہم ہے۔
آزاد حیدرآباد کی حکومت نے حکومت ہند کے خلاف اپنا مقدمہ اقوام متحدہ میں اس وقت پیش کیا جبکہ حیدرآباد پر فوجی حملہ یقنی ہوگیا تھا چنانچہ مقدمہ کی شنوائی ہونے تک ہندوستانی افواج حیدرآباد پر قبضہ کرچکی تھیں!کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے خلاف حکومت ہند نے اپنا مقدمہ پیش کیا تھا اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دہائی دے رہا ہے اور ہندوستان کشمیر میں اقوام متحدہ کی مداخلت کو مسترد کرتا رہا ہے! گویا ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا!
حیدرآباد کشمیر کا ایک تضاد یہ بھی ہے کہ حیدرآباد کی پاکستانی نے کوئی عملاً مدد نہیں کی تھی اور کشمیر میں پاکستان کشمیریوں کی شروع سے ہی ہر قسم کی مدد کرتا آرہا ہے۔ 
حیدرآباد اور کشمیر کے ہندوستان کے اٹوٹ انگ بننے میں مسلمانوں نے اہم روال اداکیا ہے لیکن کتنا بڑا المیہ یہ ہے کہ حیدرآباد میں عام مسلمانوں او رکشمیریوں پر ہوئے مظالم تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ حیدرآباد میں نظام ہفتم کے دربار میں کئی ایسے درباری (مثلاً زین یارجنگ نئی دہلی میں حیدرآباد کے سفیر معتمد (سکریٹری) امور خارجہ علی یاورجنگ ہوش یارجنگ، مہدی جنگ اور افواج حیدرآباد کے کمانڈر انچیف حبیب العیدروس وغیرہ نظام کی حکومت سے غداری کی حیدرآباد کے تمام سرکاری و فوج راز نئی دہلی کو فراہم کئے۔ کمانڈر انچیف حبیب العیدروس نے فوج کو لڑانے کی جگہ پیچھے ہٹاتا رہا ۔ آخر کار ہتھیار ڈال دینے کا نظام کو مشورہ دیا۔ اقوام متحدہ میں حیدرآباد کا مقدمہ شروع ہونے سے قبل ہندوستان فوج کے قبضہ یا حیدرآباد کو ممکن بنانے جن غداروں نے اہم رول کیا تھا جو سب کے سب مسلمان تھے۔ کشمیر میں شیخ عبداللہ نہ ہوتے جموں اور کشمیر کا ہندوستان سے الحاق ممکن نہ ہوتا شیخ عبداللہ کے بعد بھی مسلمانوں کی مدد سے ہی جموں و کشمیر ہندوستانمیں شامل ہے اور اب محبوبہ مفتی اور سجاد لون کی وجہ سے بی جے پی کو کشمیر میں اقتدار مل سکا ہے لیکن حکومت ہند نے عام مسلمان تو دور ہے شیخ عبداللہ کو ہی 1953ء میں غیر جمہوری طریقوں سے معزول کرکے نظر بند کیا اور سالوں ان کو حراست میں رکھا اور اب وحشی جانوروں کے خلاف استعمال کی جانے والی پیلیٹ گن مظلوم معصوم نہتے احتجاجیوں (بہ بشمول عورتوں اور بچوں) کے خلاف بے دریخ استعمال کیا جارہا ہے۔ حیدرآباد پرسکون ہے۔ کشمیر آج بھی مظالم کا شکار ہے۔ 
راقم الحروف کو ہر سال (1994ء سے ) ملکی و غیر ملکی اخبارات رسائل کیلئے دو یا تین مضامین ''سقوط حیدرآباد'' کے موضوع پر لکھتے ہوئے الحمدللہ یہ 23 واں سال ہے۔ سقوط حیدرآباد پر شائد ہی کسی اور نے اتنا لکھا ہو۔ (طالب دعا رشید انصاری)

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment