Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Wednesday 21 June 2017

Re: ))))Vu & Company(((( ملکہ سبا کے تخت کی پرواز

Nice.. 

On 20 Jun 2017 9:39 a.m., "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
کیا کسی انسان کے پاس اتنی طاقت آسکتی ہے کہ ہزاروں میل دور سے کسی چیز کو لمحہ موجود میں ہی حاضر کر دے؟
کیا قرآن میں درج ایسی ہی بات محض ایک دیومالائی کہانی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں؟
مسلمان اسے درست مانتے ہیں تو اس کا تعلق عقیدے سے ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا کیونکہ ایمان اور عقیدہ بغیر عقلی تشریح کے ہے لیکن:

کیا خالق کائنات کسی بات کا تذکرہ بغیر علمی یا عقلی بنیاد کے کرے گا؟

بات یہ ہے کہ قرآن وہ کتاب ہے جس کے بارے میں یہی دعویٰ ہے کہ یہ اللہ کے آخری نبی ﷺ کے ذریعے انسانوں کو اللہ کا آخری پیغام ہے۔ گویا یہاں یہ بات بھی طے ہوئی کہ اس میں درج امور ہر آنے والے دور کے لیے بھی ہیں۔ اللہ نے اسی لیے عربی زبان میں ایسی بلاغت رکھ دی کہ اس کے ہر ہر لفظ کے بہت سے معنی ہیں، یعنی ہر دور کے انسان کے لیے اس کا بیانیہ۔ اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو محض قصہ کہانی لگتی ہیں جیسے جانور سے باتیں، جنّات کا وجود، ملکہ صبا کے تخت کی منتقلی اور دوسرے معجزات۔ اس کی ایک مثال یہ ہے، دیکھیے کہ قرآن کیا کہتا ہے۔
"ایک بڑے جن نے کہا کہ میں آپ کے اپنی جگہ سے اُٹھنے سے قبل لاسکتا ہوں، میں طاقتور اور قابل بھروسہ ہوں۔ جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں، جونہی سلیمان نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، وہ پکار اْٹھا یہ میرے ربّ کا فضل ہے۔" (سورۃ 27، آیت39، 40)

روداد اس کی یہ ہے کہ ایک پیغمبر نے ملکہ صبا کو ایمان کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک انہونی بات کی خواہش کا اظہار کیا کہ کون اس کا تخت اس کے آنے سے قبل یہاں لا سکتا ہے، تو ایک طاقتور جنّ نے کہا کہ میں اس کو آپ کے یہاں سے اُٹھنے سے قبل لاسکتا ہوں جبکہ ایسے میں ایک علم وا لے نے اسے پلک جھپکنے سے قبل لا ڈالا!

قرآن میں ملکہ صبا کے تخت کے حوالے سے ایک پیغمبر کے سامنے ایک علم والے کی قوّت کا مظاہرہ اور تذکرہ اپنے اندر بے بہا معلومات لیے ہوئے ہے۔ یہ معجزہ کہلاتا اگر پیغمبر کی وساطت سے ہوتا لیکن اس کا ایک عام مخلوق کی کارگزاری کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں "کتاب کے علم، Knowledge One" کا نہایت واضح اشارہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ میٹا فزکس میں اجنبی علوم موجود ہیں جو موجودہ طبعیّاتی سائنس سے بہت زیادہ ترقّی یافتہ ہیں لیکن اپنے اچھوتے پیرامیٹرز یا پیرائیوں کے ساتھ ہمارے شعور سے فی الوقت اوجھل ہیں۔ یہاں قرآن انسان کی آئندہ کی ممکنہ علمی اور تکنیکی ترقّی کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔ یہ محض کوئی دیومالائی قصّہ نہیں بلکہ انسان میں موجود نادیدہ قوّتوں کی طرف اشارہ ہے کہ انسان بھی یہ سب کرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے، خواہ طبعیّات کے ذریعے کرے یا روحانیت کی قوّت سے کرے!

ہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ، کیااس واقعہ کی کوئی علمی تشریح کی جاسکتی ہے؟

موجودہ علوم کی روشنی میں اس واقعہ کی ممکنہ علمی تشریح یہی ہوسکتی ہے کہ تخت مادّے سے توانائی میں تبدیل ہوا، پھر روشنی یا اس بھی زیادہ رفتار سے منتقل ہو کر دوبارہ مادّے میں تبدیل ہوا۔ گویا یہ کسی مخفی سپر سائنس کا ایک مظاہرہ ہے جس میں انسانی تخیل کی طاقت کا اہم کردار ہے۔ یہ بات تکنیکی طور پر درست ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ہمارے اپنے موجودہ علوم کی ترقّی کرتی سمت کے بموجب بعید از قیاس بھی نہیں! اس کے دو پہلو ہیں، ایک خیال کی طاقت اور دوسرے مادّے کی ہیئت کی تبدیلی، پھر ان دونوں کا بیک وقت ایکشن میں آنا۔

بس سوال انسان کی ذہنی، علمی اور مادّی صلاحیت کا ہے کہ کیا انسان ایسی قوّتوں اور علوم کو مسخّر کرسکتا ہے؟
ہمارا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ماضی میں بہت سی چیزیں جن کا ہمیں شعور نہیں تھا، آج ہم ان کا علم رکھتے ہیں جیسے ایکس رے اور دوسری خلائی لہریں۔ گویا انسان کا بڑھتا علم مابعد الطبعیات یا میٹا فزکس کو طبعیات یا فزکس میں بھی ڈھالتا جارہا ہے۔

اب ایک رخ یہ بھی دیکھیے کہ ہمارے خیالات بھی غیر طبعی ہیں اور اپنی ساخت اور منبع کے حوالے سے جدید محقق کے لیے ایک راز ہی ہیں۔
غیر طبعیی دنیا میں خیال کی رفتار لا محدود ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ:
کیا انسان کا تخیّل کوئی مخفی طاقتیں بھی رکھتا ہے؟ اور یہ بھی کہ:
کیا جدید مائنڈ سائنس mind-sciences انسان کے اندر موجود کسی خوابیدہ اور بلا خیز غیر مرئی طاقت کا کھوج لگا کر اسے مسخرکر سکتی ہے؟

آج کی جدید دریافتیں کچھ اور بھی کہہ رہی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں!

موجودہ دور میں ایک طرف ذہنی و دماغی سائنس Mind-Sciences کے شعبے انسان کے دماغ کی انہی چھپی قوّتوں پر تحقیق کر رہے ہیں تو دوسری طرف جدید سائنس بھی روشنی کو مادّے میں طبعی طور پہ تبدیل کرنے کی ابتدائی منزل پر پہنچ چکی ہے۔
ُملاحظہ کریں!

"امپیریل کالج لندن کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر اسٹیو روز کا کہنا ہے کہ سائنسدانوں نے اسّی سال کی کوششوں کے بعد روشنی کو مادّے میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب بریٹ اور ویلر نے اسّی برس قبل یہ تھیوری پیش کی تھی تو ان کویقین نہیں تھا کہ یہ کبھی لیبارٹری میں تجربے میں دکھائی جا سکے گی۔ لیکن آج اسّی سال بعد ہم نے انہیں غلط ثابت کر دیا۔ جس چیز نے ہمیں حیران کیا وہ دریافت تھی کہ ہم برطانیہ میں موجود ٹیکنالوجی سے کس طرح روشنی کو مادّے میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ اب ہم بات کر رہے ہیں ان لوگوں سے جو ہمارے ان نظریات کو استعمال کر کے سنگ ِمیل تجربات کر سکتے ہوں۔"
آپ نے ملاحظہ کیا کہ اب ان امکانات پر نہ صرف سائنس دان غور کر رہے ہیں بلکہ اس سمت میں قابل ذکر ابتدائی عملی پیش رفت بھی ہوچکی ہے۔ یہ بات مدنظر رہے کہ علم اور دریافتوں کا ہر نیا روزن دراصل کسی وسیع علوم سے لبریز کائنات میں کھلنے والی کھڑکی بھی ہوسکتی ہے جو اپنے اندر مستقبل کے بے شمار ممکنات لیے ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال بجلی یا برق کی دریافت تھی۔ مثبت اور منفی کرنٹ کی یہ چھوٹی سی دریافت آج ہمیں بائنری نمبر binary-number (صفر اور ایک) کے تئیں انتہائی پیچیدہ سوفٹ ویئر کی تخلیق سے سپر کمپیوٹر، روبوٹ اور خلائی تحقیقات تک لے آئی ہے اور کون جانے مادّے سے توانائی اور توانائی سے مادّے کی تبدیلی کی جدید دریافتیں مستقبل میں انسانوں کو نہ جانے کیسے کیسے محیر العقول کارناموں کا خوگر بنا دے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسان جو سوچتاہے، اکثر وہ چیزیں حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہیں۔ بہت عرصہ قبل بچوں کی کہانیوں میں انسان کو راکٹ کے ذریعے چاند اور مریخ پر جاتے بتایا جاتا تھا، وہ سب حقیقت بن گیا۔ اسی طرح ٹیلی وژن کی مشہور سیریز اسٹار ٹریک بہت سوں نے دیکھی ہوگی، اس میں انسان جہاز سے سیاروں پر توانائی بن کر منتقل ہوتا تھا۔ کیا یہ اب ممکن ہوسکتا ہے۔ موجودہ دور کے ایک مشہور امریکی سائنسدان کا کو جو کچھ کہتے ہیں، وہ آپ کو حیران کرسکتا ہے۔

"نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر مچیو کاکو Michio Kaku کہتے ہیں کہ وہ ٹیکنالوجی جو انسان کو زمین پر کہیں یا خلا میں ٹیلی پورٹ کر سکےگی، اگلے دس سال تک ورنہ آئندہ صدی تک دستیاب ہوجائےگی! پروفیسر جو اپنے مستقبل کے امکانات کے بموجب مسٹر متوازی کائنات بھی کہلاتے ہیں، انہوں نے رئل ٹائم ٹریول اور غائب ہوجانے کی ٹیکنیک کا مطالعہ کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان میں اکثر وقوع پذیر ہو سکتی ہیں۔ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ جو کچھ آپ اسٹار ٹریک فلم میں دیکھتے رہے ہیں، وہ سب درحقیقت ممکن ہوجائیں گی۔"
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قرآن میں جس عمل کو کتاب کا علم قرار دیا گیا، وہ ایک انسان کو حاصل مخصوص ذہنی اور تخیّل کی قوّت یا قدرت تھی، جو کسی نامعلوم پیرائے میں حاصل کی گئی ہوگی۔ موجودہ امکانات کی روشنی میں یہی قرین قیاس ہے کہ اس میٹافزیکل یا مخفی اور اجنبی قدرت میں مادّے کو روشنی میں تبدیل کرکے غالباً روشنی کی رفتار سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے دوبارہ مادّے میں تبدیل کرنے کی صلاحیّت تھی، جو ہمارے اس دور کا انسان شاید کبھی فزیکل پیرائے میں حاصل کر لے۔

ان سطور کو محض قلمی موشگافی سمجھنے والے اصحاب یہ جان رکھیں کہ قابل ترین مگر ملحد سائنسدان ہاکنگ خلا میں کسی انتہائی ترقّی یافتہ مخلوق کی موجودگی کے قوی امکان کا نہ صرف اقرار کرتا ہے بلکہ انسان کو ان کے مقابلے میں کیڑے مکوڑوں سے بھی کمتر بتلاتا ہے، مزید ان کے ممکنہ حملے سے انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے ایک ملین ڈالر سے فنڈ بھی قائم کر چکا ہے۔ اس کے پاس اس سوچ اور عمل کے لیے جو بھی علمی اور عقلی جواز ہے، اگر وہ آپ کو قبول ہے تو اس کے بموجب یہ سطور بھی ایک وزن رکھتی ہیں۔

مادیت کاگردشی مدار:
یہاں پر اس بیان کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ سائنسدان اور جدیدیت کے پروردہ اصحاب علوم کے جس خمار اور تکبّر میں غلطاں ہیں، دراصل وہ مادیت کے پر تَو حاصل علوم کا ایک سحر ہے جس نے انسان کو جکڑ لیا ہے، گویا آج کا محقق یا ریسرچر خالص مادیت کے مدار میں گردش کرتا محض ایک گروہ، جبکہ حقیقتاً اُن علوم سے کہیں زیادہ تاثیر والے علوم روحانیت یا مابعدالطبعیّات Metaphysics میں بھی موجود ہیں اور ہمارے شعور سے اوجھل ایک برتر اور بہت زیادہ ترقّی یافتہ متوازی نظام انسان کوگھیرے ہوئے ہے جس کی گرفت میں ہر کائناتی چیز ہے۔ جوں جوں نئی دریافتیں اور علوم وارد ہو رہے ہیں، مادّی علوم کے اس گردشی مدار کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے، یہاں تک کہ وہ قت آن پہنچے جب طبعی علوم مخفی علوم کے دائرے میں مدغم ہونا شروع ہو جائیں۔

لیکن یہاں ذرا ٹھہریں اور جدیدیت سے مرعوب اذہان یہ جان لیں کہ انسان صرف مخفی علوم دریافت کر رہا ہے، پیدا نہیں! کائنات کے بےبہا علوم پہلے سے کیوں موجود ہیں؟ اس کا جواب کسی جدید اسکالر، فلسفی اور محقق کے پاس بھی نہیں۔ ہاں مگر "العلیم" کے بندوں کے پاس ہے۔ موجودہ دور میں یہ آیت بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔
"اور ہم انہیں ان کے اندر اور آسمان میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کے ان کے سامنے عیاں ہو جائے گا کہ یہی حق ہے، کیا یہ بات کافی نہیں کہ تمہارا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟" ( سورۃ 41 ،آیت 53)

تو تم بھی انتظار کرو ہم بھی کرتے ہیں اس وقت کا، جب قرآن اس آیت کے بموجب خود کو خود ہی منوائے گا۔

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment