Nice
--
اس حقیقت میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتیں اور احسانات بے شمار ہیں۔ ان میں سب سے بڑی اور گرانقدر نعمت اولاد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا} [الکھف: 46]
ترجمہ: مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی (رونق و) زینت ہیں۔
اس گرانقدر نعمت کا صحیح اندازہ اس شخص کو ہی ہوسکتا ہے جو اس سے محروم ہے، ایسا شخص اس نعمت کو حاصل کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔
یہ بھی ایک دوسری حقیقت ہے کہ جہاں اولاد ایک بیش قیمت نعمت ہے وہیں ایک امانت اور بڑی ذمہ داری بھی ہے جس کے بارے میں ہر ماں باپ کو قیامت کے دن جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے اس نعمت کی قدر کی یاا سے یونہی برباد کردیا۔ اور اولاد کی اصل خوبصورتی اور کمال دین اور حسن اخلاق میں ہے ورنہ یہ اولاد والدین کے لئے دنیا وآخرت میں وبال جان ثابت ہوگی۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: :
«كلكم راعٍ ومسؤولٌ عن رعيته، والإمام راعٍ ومسؤولٌ عن رعيته، والرَّجل راعٍ في أهله ومسؤولٌ عن رعيته» [رواه البخاري 2751].
ترجمہ: تم میں سے ہر شخص ذمہ دار اور نگران ہے اور اس سے اپنے ماتحت کے متعلق سوال کیا جائے گا ، حاکم سے اپنی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، ایک آدمی سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
آدمی کا اہل وعیال بھی اس کی رعیت ہے اور ایک بڑی امانت ہے جسے ضائع کرنے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کمی کرنے سے اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا ہے:
{إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَ ى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا} [الاحزاب: 72]
ترجمہ: ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔
اور فرمایا:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا} [التحریم: 6]
ترجمہ: مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ۔
ابن القیم ؒ کا قول ہے: جس نے اپنی اولاد کو مفید باتوں کی تعلیم دینے میں کمی وکوتاہی کی اور انہیں یونہی بیکار چھوڑ دیا ان کے ساتھ اس سے زیادہ برا معاملہ کوئی نہیں ہوسکتا اور تجربات شاہد ہیں کہ اکثر وبیشتر اولاد کے بگاڑ کے سبب خود ان کے والدین ہی ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بیکار چھوڑدیتے ہیں انہیں دین کے فرائض (بنیادی باتوں کی تعلیم) نہیں دیتے اور نہ ہی سنن ومستحبات کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس طرح انہیں بچپن میں ہی برباد کردیتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو یہ بچے خود ہی اپنے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے والدین کے بڑھاپے میں انہیں کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔
والدین اور ولی حضرات کے نام چند مفید ہدایات:
۱)۔ بچے کی تربیت کے سلسلہ میں اصل بات جس کا خیال رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ ان کے دل ودماغ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کا بیج بویا جائے ۔ اسے ان کے اندر جاں گزیں کیا جائے اور پھر برابر اس کی نگہداشت بھی کی جائے اور اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل واحسان یہ ہے کہ بچہ کی پیدائش دین اسلام (دین فطرت) پر ہوتی ہے، اس لئے تربیت کے معاملہ میں صرف خیال رکھنے اور ہمیشہ نگرانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچہ کجروی اور گمراہی کا شکار نہ ہو۔
۲)۔ اولاد کی تربیت،ان پر خرچ کرنا، ان کے لئے اپنی نیند کو قربان کرنا،ان کی نگہداشت کرنا اور ان کی تعلیم پر توجہ دینا، بلکہ انہیں خوشی کے موقع فراہم کرنا یہ سب اموروالدین کے لئے عبادت ہیں، دراصل مقصود اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ} [الذَّاريات: 56]
ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔
اولاد پر خرچ کرنا عبادت ہے، ارشاد نبوی ہے: -:
«دينارٌ أنفقته في سبيل الله، ودينارٌ أنفقته في رقبةٍ، ودينار تصدقت به على مسكينٍ، ودينارٌ أنفقته على أهلك، أعظمها أجرًا للَّذي أنفقته على أهلك» [رواه مسلم 995]
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دینار خرچ کرنا، غلام کو آزاد کرانے کے لئے دینار خرچ کرنا اور ایک دینا رمسکین کو صدقہ کرنا، ان سب میں سب سے زیادہ ثواب اپنے اہل وعیال پر ایک دینار خرچ کرنے میں ہیں۔
«إذا أنفق الرَّجل على أهله يحتسبها فهو له صدقة» [رواه البخاري 55].
ترجمہ:جب آدمی اپنے گھر والوں پر اجر وثواب کی امید کے ساتھ خرچ کرتا ہے تو یہ اس کی جانب سے صدقہ ہے۔
۳)۔ تربیت کے سلسلے میں اخلاص بہت ضروری ہے، اگر سرپرست اور ماں باپ کی نیت دنیا ہو تو پھر اخلاص کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت کے تئیں یہ خواہشات رکھتے ہیں کہ وہ اعلی مناصب اور اعلی اعلی ڈگریاں حاصل کریں گے، لیکن اگر اولاد کی تربیت وتعلیم پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا شامل حال نہ ہوتو پھر اولاد اسی کے تابع ہوکر رہ جاتی ہے۔ لہٰذا دیکھا جاتا ہے کہ جو شخص دنیا کا طلبگار ہوتا ہے تو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت سے خالی دنیاوی تعلیم دیتا ہے، اور ایک شخص وہ ہے جسے توفیق باری تعالیٰ ملتی ہے ، جو مثال کے طور پر طب کی ڈگری حاصل کرتا ہے تاکہ یہ تعلیم حاصل کرکے مسلمانوں کا علاج کرے اور کافر اطباء سے مسلمان بے نیاز ہو، ایسے شخص کے لئے اجر ہے اور اس شخص کے لئے کوئی اجر نہیں جس کی دنیاوی تعلیم سے خالص نیت دنیا ہو۔اس سلسلے میں نیت کا عظیم کردار ہے، نیت اولاد کی اصلاح اور ان کی حسن تربیت کا ایک اہم عنصر ہے، جس کی نیت اللہ کے لئے ہوتی ہے اس میں ترقی ہوتی ہے اور جس کی نیت دنیاوی نفع حاصل کرنا ہوتا ہے تو اس میں کمزوری اور ناکامی کے راستے کھلتے ہیں۔
بعض والدین اپنی اولاد کے سامنے اپنے ماں باپ کی تعظیم وتکریم کرتے ہیں، ان کا مقصدصرف یہ ہوتا ہے کہ ان کی اولاد یہ دیکھے اور وہ بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرنے والے بنے، اس میں دنیا کی محبت اور نفس کی چاہتوں کا غلبہ ہے، لیکن مومن اپنے والدین کی خدمت اور ان کی تعظیم وتکریم اللہ تعالیٰ کے حکم کی ترغیب اور اس کے حکم کو بجالانے اور اس پر اجر وثواب کی امید میں کرتا ہے، اسے دنیاوی چاہتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ وہ خلوص نیت کے ساتھ والدین کی تعظیم کرتا ہے۔
۴)۔والدین پر ضروری ہے کہ وہ اولاد کی تربیت کے تمام مراحل میں اپنی نیت کو درست رکھیں تاکہ اجر کے مستحق ہوں، ان کی تعلیم، ان پر خرچ کرنے، ان کے دل بہلانےاوران کو خوش کرنے کے سلسلے میں اپنی نیتوں کو درست کریں اور اپنے آپ کو اسی کا عادی بنائیں۔
۵)۔دعا ء عبادت ہے، انبیاء علیہم السلام اور رسولوں نے اپنی اولاد اوراپنی بیویوں کے حق میں دعائیں کی ہیں:جو قرآن میں وارد ہوئیں: ارشاد ہے:
{رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ} [الفرقان74]،
ترجمہ: اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا
{ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ} [إبراهيم: 35]
ترجمہ: اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار اس شہر کو (لوگوں کے لیے) امن کی جگہ بنا دے۔ اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھ۔
ان دعاؤں کے علاوہ قرآن مجید میں بہت ساری دعائیں موجود ہیں، کتنی ایسی دعائیں ہیں جو گمراہوں کی ہدایت کا باعث ہوئیں، کتنی ایسی دعائیں ہیں جو تربیتی مراحل میں کارآمد ثابت ہوئیں۔ نیز ان دعاؤں کے لئے قبولیت دعا کے اوقات کی تلاش میں رہیں اور اللہ کے حضور میں گڑگڑائیں، اس کے سامنے عاجزی کے ساتھ ہاتھ پھیلائیں اور یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری اولاد کو ہدایت دے اور انہیں شیطان کے شرور سے بچائے۔
۶)۔اولاد کی تربیت کے سلسلے میں مال حلال اور شبہ سے اجتناب، اور حرام سے پرہیز بھی ضروری ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
«كلُّ جسدٍ نبت من سحت فالنَّار أولى به» [صحَّحه الألباني 4519 في صحيح الجامع]،
ترجمہ: ''ہر وہ جسم جو حرام مال سے پلا بڑھا اس کے لئے جہنم زیادہ بہتر ہے۔''
کوئی باپ یا ماں یہ خیال نہ کرے کہ سود، چوری اور رشوت ہی حرام ہیں، بلکہ کام کے وقت کو ضائع کرنا بھی اس میں شامل ہے، بہت سارے ملازمین اور معلمین اپنے کاموں میں سستی اور غفلت برتتے ہیں، اور اپنے کام کے وقت مقرر ہ سے کچھ منٹ تاخیر سے پہنچتے ہیں، اگر انہی ساعتوں کو جمع کرلیا جائے تو وہ کئی گھنٹے ہوجاتے ہیں، اسی طرح کئی کئی گھنٹے دوست واحباب کے ساتھ گفتگو، اخبارات ورسائل کے مطالعہ، اور فون پر بات چیت میں خرچ ہوجاتے ہیں، لہٰذا ان اوقات کے بدل میں حاصل ہونے والی کمائی مال حرام میں شامل ہے، کیونکہ یہ مال حقیقی بدل کے بغیر حاصل کیا جارہا ہے۔اسی طرح لوگوں کے مال ناجائز طریقے سے کھانا اور ان کے حقوق کو ہضم کرنا بھی مال حرام میں شامل ہے۔ لہٰذا مسلمان بھائی سے اپیل ہے کہ وہ اپنے پیٹ کو اور اپنی اولاد کو مال حرام سے بچائے۔اور حلال مال پر قلت کے باوجود اطمینان کا اظہار کرے، بیشک اسی میں بے پناہ برکتیں پوشیدہ ہیں۔
۷)۔تربیت کے لئے درکار ضرورتوں میں نیک چلن اور نیک نمونہ بھی شامل ہے، ایک باپ اگر خود ہی نماز کو ضائع کرنے والا ہو تو وہ کیسے اپنی اولادکو نماز کی پابندی کرنے والا پاسکتا ہے، اولادگانوں کے سننے سے کیسے بچ سکتی ہے جبکہ وہ اپنے والدین کو یہ کرتے ہوئے دیکھتی ہیں، لہٰذا والدین کا نیک وصالح ہونا اولاد کے لئے ماں باپ کی حیات اور موت کے بعد بھی کارآمد ثابت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی پر ذرا غور کیجئے:
{وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ} [الكهف: 82]،
ترجمہ: اور ان کا باپ ایک نیک بخت آدمی تھا۔ تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور (پھر) اپنا خزانہ نکالیں۔
باپ کی نیکی اپنی اولاد کے لئے کئ برسوں کے بعد کارآمد ثابت ہوئی۔
لہٰذا اولاد میں دین اسلام کی تخم ریزی کرنا اور انہیں شعائر اسلام پر آمادہ کرنا ماں باپ کے لئے اجر وثواب کا باعث ہوتا ہے:
«من سنَّ في الإسلام سنَّةً حسنةً، فله أجرها وأجر من عمل بها بعده...» الحديث [رواه مسلم 1017].
ترجمہ: جس نے دین اسلام میں ایک اچھائی جاری کی، تو اس کا اسے بھی اجر ملتا ہے اور اس کے بعد جو اس پر عمل کرے گا ان کا سب کا اجر اسے ملتا ہے۔''
۸)۔تربیت کے سلسلے میں والدین پیچیدہ مسائل اور آسان راہ کے لئے خصوصی توجہ دیں، اور اس سلسلے میں رائے مشورے بھی لیں، نیز مسلم بچوں کی اسلامی تربیت کے لئے تیار کردہ کیسٹوں اور کتابچوں سے بھی مدد لیں، یہ یاد رکھیں کہ گاڑی یا کوئی مشین وغیرہ کی خریدی سے زیادہ اہم اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دینا ہے، والدین گاڑی یا کوئی گھریلو چیز کی خریدنے کے لئے تو برابر اہل علم سے رائے مشورے لیتے ہیں لیکن اپنی اولاد کی تربیت کے سلسلے میں لاپراوہی سے کام لیتے ہیں۔
۹)۔ صبر، اولاد کی تربیت کی راہ میں ایک اہم عنصر ہے، لیکن اکثر لوگ اس جانب توجہ نہیں دیتے، بچوں کی چیخ پکار پر صبر کرنا، اور غصہ نہ ہونا، ان کی بیماری کے موقع پر صبر کا مظاہر ہ کرنا، ان کے رجحانات اور میلانات پر توجہ دینا اور ان پر مایوسی کا اظہار نہ کرنا، نیز ایک اچھے مدرسے میں بچوں کی تعلیم کے لئے ان کو چھوڑنے کے لئے طویل مسافت کا برداشت کرنا ، مسجد میں اپنے ہمراہ انہیں لے جانے کے لئے صبر سے کام لینا،اسی طرح عصر کی نماز کے بعد اپنی اولاد کے ساتھ مسجد میں تھوڑی دیر بیٹھنا تاکہ وہ کچھ قرآن کریم حفظ کریں، یہ سب امور اولاد کی تربیت کے تئیں والدین کے لئے بے حد ضروری اور لازمی ہیں۔اگر والدین ان امور پر عمل پیرا ہیں تو ایسے والدین کے لئے خوشخبری ہےکہ وہ راہ جہاد میں مصروف ہیں:
{وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا} [العنكبوت: 69]
،ترجمہ: اور جن لوگوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم اُن کو ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے۔
اولاد کی تربیت والدین کی ذمہ داری ہے، جہاں تک ہدایت کا مسئلہ ہے تو یہ خالق ارض وسماں کے ذمہ ہے، اگر والدین کی جانب سے کوشش اور صبر ہیں تو خیر اور خوشی انہیں عنقریب حاصل ہوجائیں گی۔
۱۰)۔نماز، یہ عظیم فریضا اور شہادتین کے بعد دین اسلام کا دوسرا رکن ہے، لہٰذا والدین اولاد کی تربیت کے دوران نماز کی اہمیت، اس کی عظمت شان اور اس کی قیمت کا احساس دلائیں، یہ اس شخص پر بہت آسان ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسان کردے،نیز بچوں کی تربیت کے دوران نبی پاک ﷺ کے اس طریقہ کو بھی ملحوظ رکھے، امام احمد سے آپ ﷺ کا ارشاد گرامی منقول ہے:
«مروا أبناءكم بالصَّلاة و هم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها لعشر» [صحَّحه الألباني 298 في إرواء الغليل]،
اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو، جب وہ سات برس کے ہوں اور دس برس پر (نماز نہ پڑھنے کی صورت میں تنبیھا)انہیں مارو۔
لہٰذا جو شخص بھی اس حدیث میں عمل کرلےتو اسے نما ز کے سلسلے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ سات سے دس برس کے بچے مسجد جانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ انداز لگائیے اگر بچوں نے اس عمر میں 5000 مرتبہ اذان کی آوازیں سنیں اور خوشی خوشی نماز کے لئے پہنچے، جب ان کی عمر دس برس ہوجائے تو ان کی جملہ اداء شدہ نمازیں 5000 ہوجائیں تو کیا وہ دس برس بعد نماز چھوڑ سکتے ہیں؟!
خوش نصیب والدین اُن جاہل والدین کو اپنا نمونہ نہ بنائیں، جو سردی کے باعث اپنی اولاد پر رحم کھاکر انہیں نماز فجر کے لئے بیدار بھی نہیں کرتے، بلکہ والدین اپنی عقلوں کا استعمال کریں اور انہیں جہنم کی آگ سے بچانے میں دنیا کی ٹھنڈک کو برداشت کریں، اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو بجالائیں، والدین اپنی اولاد کو نماز کے لئے بیدار کرنے، نماز پڑھنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرنےاور نماز کو ان کے لئے محبوب شئی بنانے میں اپنا رول ادا کریں ، یہانتک کہ قیامت کے دن آپ اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوسکے۔ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی یاد رکھیئے:
«من صلَّى الصُّبح فهو في ذمَّة الله» [رواه مسلم 657]
غور کیجئے اگر آپ کا لاڈلا نماز فجر ادا کرتا ہے تو گویا وہ پورا دن اللہ کی حفاظت میں ہے۔
ابن تیمیہ ؒ رقم طراز ہیں: ''جس کے ماتحت بچے، غلام یا یتیم ہوں اور وہ انہیں نماز کا حکم نہ دیں، تو ان کے نماز نہ پڑھنے کی سزا ، بڑوں کو دی جائے گی، اور بڑوں کی تعزیر کی جائے گی، اس لئے کہ گھر کے بڑوں نے انہیں نماز کا حکم نہ دے کر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہیں''۔
۱۱)۔اولاد کے درمیان انفرادی جدائی اور ان کی صلاحیتوں کے بارے میں خیال رکھنا ضروری ہے، نیز ان کے درمیان انصاف کا معاملہ کرنا بھی بہت اہم ہے۔بعض والدین اس سلسلے میں لاپرواہی سے کام لیتے ہیں تو بچے نظمیں اور قرآن مجید کی بجائے فضول چیزیں حفظ کردیتے ہیں جو کہ ان کے لئے بے فائدہ ثابت ہوتی ہیں، اگر علماء امت کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں اکثر کی زندگی میں یہ ہی بات نظر آئے گی انھوں نے اپنی صلاحیتوں اور اپنے حافظے کو بے فائدہ چیزوں میں استعمال کیا۔
۱۲)۔بچوں کے ذہن ودماغ میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم، اس کی محبت اور وحدانیت کی تخم ریزی کیجئے، انہیں غلطیوں پرمتنبہ کیجئے،اور ان میں پڑنے سے آگاہ کیجئے، یہ چیز ان کے لئے کارآمد ثابت ہوگی، نیز انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عادی بنائیے،اور اس کام پر ان کی ہمت افزائی کیجئے، چونکہ دین پر استقامت اور اجر عظیم کو پانے کا یہ ذریعہ ہے۔
۱۳)۔غصہ کو پینے اور جوش وجذبات کو دبانے اور شیطان کے حملوں پر اس سے حفاظت کی دعا کرنے کے لئے اپنی ذات کو تیار کیجئے، دین اسلام نے سزا کی ایک حد متعین کی ہے،لہٰذا بچے کی حد دس ضرب سے متجاوز نہ ہو، نیز اسے مسواک سے یا چھوٹی چھڑی سے ضرب لگائی جائے، نیز چہرے اور ستر پر مارنے سے کلی طور پر احتیاط کریں،نیز دوران مار (ضرب)بسم اللہ کہے، غصہ اور جوش کی حالت میں ہرگز نہ مارے،اگر مار کے بجائے ہمت افزائی یا کسی چیز سے محروم کرکے مقصد حاصل کیا جائے تو یہ والدین اور اولاد ہر دو کے لئے زیادہ بہتر اور مفید ہے۔
۱۴)۔یہ دور فتنہ وفساد کا دور ہے، ہر جانب سے فتنے کی ہوائیں چل رہی ہیں،لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ان فتنوں کی تیروں سے بچانے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور ان کی حفاظت پر سختی سے توجہ دیں،نیز اس جانب بھی توجہ دیں کہ بچوں کی ہم نشینی اور کھیل کود کس قسم کے بچوں کے ساتھ ہیں، اس لئے کہ صحبت کا اثر ہوتا ہے، ارشاد نبوی ہے: :
«الرَّجل على دين خليله فلينظر أحدكم من يخالل» [رواه أبو داود 4833 والتِّرمذي 2378 وحسَّنه الألباني]
ضیاع اوقات والے مقام سے بچوں کو دور رکھنے کی کوشش کریں،نیز والدین اپنی اولاد کے لئے بیک وقت ایک باپ، ساتھی اور دوست کا کردار ادا کریں، لڑکوں میں شجاعت اور لڑکیوں میں پاکدامنی وحیاء کے جذبات پروان چڑھائے، اوراپنی لڑکیوں کے تن تنہا گھر سے باہر نکلنے کے سلسلے میں سستی اور غفلت سے کام نہ لیں بلکہ گھر سے باہر جانے کے لئے ان کے ساتھ رہے۔۔خبردارآپ کی نسل میں ایسے افراد پیدا نہ ہو جو اللہ رب العزت سے قولا وفعلا جنگ کا اعلان کریں۔
۱۵)۔والدین کے پاس اپنے کاموں اور ملازمتوں کے بعد بہت وقت ہوتا ہے، بھلا والدین اس وقت میں سے اپنی اولاد کے لئے کتنا حصہ نکالتے ہیں؟اگر والدین سے اولاد کے سلسلے میں لاپرواہی ہوئی ہو تو وہ اس کا تدارک کرتے ہوئے ان کے حصے کو انہیں دینے میں لگ جائے،اور اگر والدین نے وقت کی حفاظت کی تو ایسے والدین قابل مبارکباد ہیں۔والدین یاد رکھیں آپ کا گھر ایمانی اور آپ کی چھوٹی سے مملکت ایمانی ماحول سے لبریز ہو،جہاں سیرت رسول اللہ ﷺ پڑھی جاتی ہو، جہاں اسلامی، علمی اور ثقافتی مسابقات کا اہتمام کیا جاتا ہو۔
اگر گھر کے بچوں میں جنھوں نے حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی ہوتو انہیں قیمتی انعامات سے نوازا جائے نیز سیرت رسول کے ہر پہلو کو بچوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام والدین کو نیک اور آنکھوں کی ٹھنڈک اولاد عطا فرمائے، اور ہم سب کو جنت عدن میں جمع فرمائے۔
وصلّى الله على نبيِّنا محمَّدٍ وعلى آله وصحبه أجمعين.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment