فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے ،کعبہ کا طواف فرمایا، طواف ہونے کے بعدکلیدبردارکعبہ عثمان بن طلحہ کو بلایا، اور ان سے کعبہ کی چابی لے کر کعبہ بھی فتح کرلیا، پھر آپ ﷺ کعبۃ اللہ میں داخل ہوئے اور کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرمایا:
«لا إله إلا الله وحده، صدق وعده، ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده».
پھر آپ بیٹھ گئے،علی بن بن طالب کھڑے ہوئے، اور کہا: اے اللہ کے رسول،حجاج کو پانی پلانے اور کعبۃ اللہ کی چابی کی ذمہ داری ہمیں سونپ دیجیئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان بن طلحہ کہاں ہے؟ انہیں بلایا گیا، وہ آئے ، آپ نے فرمایا: عثمان! یہ لیجیئے تمہاری چابی، آج نیکی اور وفاداری کا دن ہے۔[سیرت ابن ہشام] اسی اثناء آیت قرآنی نازل ہوئی:
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا].النساء: 58[
''اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجاج کو پانی پلانے اور کلید کعبہ کی ذمہ داری اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اہل امانت کے سپرد فرمائی اور حضرت علی کو اس سے دور رکھا۔
امانت کیا ہے؟
حقوق کی ادائیگی اور ان کی حفاظت کرنا امانت ہے، لہٰذا مسلمان ہر حقدار کا حق ادا کرتا ہے، اللہ کا حق عبادت کے ذریعے ادا کرتا ہے اور اپنے اعضاء کو حرام سے بچاتا ہے۔
امانت اسلام کا بہترین خلق ہے، امانت اسلام کی بنیاد ہے، یہ ایک عظیم فریضہ ہے جسے انسان نے اٹھایا ہے، جبکہ اسی فریضہ کو سنبھالنے سے آسمان وزمین اور پہاڑوں نے اس کے بوجھ اور عظمت کی وجہ سے انکار کردیا ، فرمان باری تعالیٰ ہے:
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُوماً جَهُولاً
[الأحزاب: 72].
''ہم نے بارِ امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھالیا، بیشک وہ بڑا ظالم اور بڑا جاہل ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے ہمیں امانتوں کے ادا کرنے کا حکم دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
[النساء: 58].{إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا}
''اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو''
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے ایمان اور اخلاق کی دلیل امانت قرار دی ہے، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
» [أحمد]. لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له
''اس کا ایمان نہیں جسے امانت کا پاس ولحاظ نہیں، اور اس کا دین نہیں جس کے پاس عہدوپیمان کا پاس ولحاظ نہیں۔''
امانت کی قسمیں:
امانت کی بہت ساری قسمیں ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
عبادت میں امانت:
عبادت میں امانت یہ ہےکہ انسان دین کے تمام فرائض کو کما حقہ ادا کرے، نماز، روزہ، والدین کی فرمانبرداری اور دیگر وہ فرائض اور واجبات جو ہم پر ضروری ہیں اللہ کی امانت سمجھ کر انہیں سرانجام دے۔
اعضاء وجوارح کی حفاظت کرنا امانت ہے:
مسلمان پر ضروری ہے کہ اس کے سارے اعضاء اس کے پاس امانت ہے، لہٰذا ان کی حفاظت ضروری ہے، اپنے اعضاء کو ان چیزوں میں استعمال نہ کرے جس سے اللہ ناراض ہوتا ہو،آنکھ امانت ہے، ضروری ہے کہ اسے ناجائز چیزوں پر ڈالنے سے بچائے، کان امانت ہے، ضروری ہے کہ حرام سننے سے اس کی حفاظت کرے، ہاتھ امانت ہے، پیر امانت ہے اور اسی طرح دیگر تمام اعضاء امانت ہیں۔
رقم اور چیزوں میں امانت:
رقومات اور چیزوں کی حفاظت کرنا، اور انہیں ان کے مالکوں تک جب وہ طلب کرےاپنی اصل حالت میں پہنچانابھی امانت میں شامل ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ساتھ کیا ، مشرکین اپنی اشیاء آپ کےپاس بطور امانت رکھا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ اہل مکہ کے درمیان صدق وامانت میں مشہور تھے، اہل مکہ آپ کو صادق وامین کے لقب سے پکارتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی، تو حضرت علی بن ابی طالب کو مشرکین کے سامان اور امانتوں کا ذمہ دار بنایا تھا۔
کام میں امانت:
یہ امانت میں شامل ہے کہ انسان اپنی ذمہ داری کو بخوبی انجام دے، لہٰذا ایک مزدور کو اپنا کام بحسن وخوبی اور امانت سمجھ کر انجام دینا چاہیے، طالب علم کو اپنے فرائض بخوبی سرانجام دینا چاہیے، علم کی تحصیل میں محنت کرنا چاہیے، اور اپنے والدین کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
بات چیت اور کلام میں امانت:
یہ امانت میں شامل ہے کہ مسلمان اچھی بات کرے، زبان سے نکلنےوالے الفاظ کی اہمیت اور قدر کو جانے، چونکہ ایک ہی کلمہ بسا اوقات انسان کو جنت میں داخل کردیتا ہے اور اس کے بدولت وہ متقین میں شامل ہوجاتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء۔ [إبراهيم: 24]
''کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے وہ ایسی ہے جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط ہو اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوں۔''
اسی طرح کبھی انسان زبان سے ایسا کفریہ کلمہ ادا کردیتا ہے جس کے باعث وہ جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسے کلمے کو ناپاک درخت سے تشبیہ دی ہے، ارشاد فرمایا:
وَمَثلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ۔ [إبراهيم: 26]
''اور ناپاک بات یعنی غلط عقیدے کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے کہ وہ زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے، اس کو ذرا بھی قرار وثبات نہیں۔''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ کی اہمیت اور اس کے اثرات بیان فرمائے:
«إن الرجل لَيتَكَلَّمُ بالكلمة من رضوان الله، ما كان يظن أن تبلغ ما بلغتْ، يكتب الله له بها رضوانه إلى يوم يلقاه، وإن الرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله، ما كان يظن أن تبلغ ما بلغتْ، يكتب الله له بها سخطه إلى يوم يلقاه۔[مالك]
''ایک آدمی ایک کلمہ اللہ کی رضامندی کا بولتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں تک پہنچے گا، تو اس کلمے کی بناء پر اس کیلئے قیامت تک اللہ کی رضامندی لکھ دی جاتی ہے۔ اسی طرح آدمی اللہ کی ناراضگی کا کوئی کلمہ بولتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں تک پہنچے گا، تو اس کلمے کی وجہ سے اس کیلئے قیامت تک اللہ کی ناراضگی لکھ دی جاتی ہے۔''
مسلمان اچھی اور اللہ سے قریب کرنے والی بات بولتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
والكلمة الطيبة صدقة۔[مسلم]
''اچھی بات صدقہ ہے''
ذمہ داری امانت ہے:
ہر ذمہ دار انسان کسی نہ کسی چیز کا ذمہ دار ہے، لہٰذا وہ چیز اس کے گلے میں امانت ہے، چاہے وہ حاکم ہو یا محکوم، والد ہو یابیٹا یا پھر وہ مرد ہو یا عورت ، ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«ألا كلكم راعٍ وكلكم مسئول عن رعيته، فالأمير الذي على الناس راعٍ وهو مسئول عن رعيته، والرجل راعٍ على أهل بيته وهو مسئول عنهم، والمرأة راعية على بيت بعلها (زوجها) وولده وهي مسئولة عنهم، والعبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه، ألا فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته۔[متفق عليه]
''سنو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے، اور تم میں سے ہر شخص سے اس کے ماتحتوں سے متعلق پوچھا جائے گا، لوگوں کا امیر ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں سے متعلق پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی ذمہ دار ہے، اور اس سے ان سے متعلق پوچھا جائے گا، غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، سنو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے ماتحتوں سے متعلق پوچھ ہوگی۔''
راز کی حفاظت کرنا امانت ہے:
مسلمان اپنے بھائی کے رازوں کی حفاظت کرتا ہے، اس میں خیانت نہیں کرتا، اور اس کے رازوں کو افشاء نہیں کرتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا حدَّث الرجل بالحديث ثم التفت فهي أمانة۔[أبو داود والترمذي]
''جب آدمی بات کرے پھر(بات کے دوران) اپنے آس پاس دیکھے(کہ کوئی سن نہ سکے)، تو اس کی بات امانت ہے''۔
خریدوفروخت میں امانت:
مسلمان کسی کو دھوکہ نہیں دیتا، نہ دھوکہ کھاتا اور نہ خیانت کرتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گذرے، جو غلہ بیچ رہا تھا، آپ نے اپنا ہاتھ غلہ کے ڈھیر میں ڈالا، تو آپ نے اسے گیلا پایا، آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے، اے غلہ والے؟ اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول بارش ہوئی، اس لیے، تو آپ نے فرمایا: تم نے اسے اوپر کیوں نہیں کیا کہ لوگ دیکھ لیں؟ جس نے دھوکہ دیا وہ ہم سے نہیں''۔ [مسلم]
امانت کی فضیلت:
جب لوگ امانت کا خیال رکھیں گے، خیر کے دروازے کھلیں گے، محبت عام ہوگی، اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مومن بندوں کی تعریف فرمائی جو امانت کا لحاظ رکھتے ہیں، ارشاد فرمایا:
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ۔ [المعارج: 32].
اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس کرتے ہیں۔
آخرت میں امانتدار لوگ اپنے رب کی خوشنودی، اور آسمان وزمین کی اتنی جنت جو متقین کے لیے تیار کی گئی حاصل کرکے کامیاب قرار پائیں گے۔
خیانت:
ہر وہ انسان جو اپنی امانت کو ادا نہیں کرتا خیانت دار ہے،اور اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّاناً أَثِيماً [النساء: 107]
''اللہ تعالیٰ دغاباز اور گنہگار کو دوست نہیں رکھتا''
اللہ تعالیٰ نے خیانت نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ۔[الأنفال: 27]
''اے ایمان والو! نہ تو اللہ اور رسول سے خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم ان باتوں کو جانتے ہو''۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کے ساتھ امانت کا پاس ولحاظ رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو خیانت کرے اس کے ساتھ ہم خیانت نہ کریں۔ آپ کا ارشاد ہے:
أدِّ الأمانة إلى من ائتمنك، ولا تَخُنْ من خانك۔ [أبو داود والترمذي وأحمد]
جو تمہیں امین بنائے، اس کی امانت ادا کرو، اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔
خیانت کا انجام:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ خیانت کرنے والے کو خیانت کی وجہ سے عذاب جہنم ہوگا، اور قیامت کے دن افسردگی اور ندامت کا سامنا ہوگا، قیامت کے دن ذلیل وخوار اور پشیمانی کے ساتھ آئے گا، ارشاد نبوی ﷺ ہے:
لكل غادر لواء يعرف به يوم القيامة۔[متفق عليه]
ہر دھوکہ باز کا ایک پرچم ہوگا، جس کے ذریعے قیامت کے دن اس کی پہچان ہوگی۔
خیانت کرنے والا منافق ہے:
امانت ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، اور خیانت نفاق کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، فرمان نبوی ﷺ ہے:
آية المنافق ثلاث: إذا حدَّث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائْتُمِنَ خان» [متفق عليه].
''منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدے کو توڑے، اور جب اسے امین بنایا جاتے تو خیانت کرے''
یقنامنافق ہی امانت میں خیانت کرتا ہے اور مسلمان خیانت سے بچتا ہے۔
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment