حضرت محمدمصطفی ﷺنے نومولود بچّوں کے کانوں میںاَذان واقامت کہلواکر اسلام کی روح پُھونکنے کا حکم دیا دُنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور والدین کی توجہ سے مستقبل کا معمار ، مذہب اور ملک و قوم کے لیے قیمتی اثاثہ بن سکتا ہے ۔ والدین اورمعاشرہ تعلیم و تربیت سے اس کی پوشیدہ صلاحیتوں میںنِکھار پیدا کرسکتے ہیں اور نظر انداز کر کے انہیں زَنگ آلود بھی کرسکتے ہیں ۔ بچے بزرگوں ، بڑوں اور والدین کو جیسا کرتے دیکھتے ہیں 'ویسا ہی کرنا شروع کردیتے ہیں ۔جو سُنتے ہیں، وہی بولتے ہیںاور جو کُچھ دیکھتے ہیں، اُس کا اِظہار بھی کرتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اُن میں اچھی عادتیں منتقل کی جائیں،اُنہیں پیار دیاجائے ،اُن کی اَچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام اور اُن کے آرام وسُکون کا خیال رکھا جائے ۔ بَچّے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں،
اگر بچّوں کو معاشرے کی غلط عادتوں اور روایتوںسے محفوظ نہ رکھا جائے ،تو آئندہ نسلیں تباہی کا شکار ہوجائیں گی۔ بچپن اور آغازِجوانی کا دور حسّاس ترین ہوتاہے ۔بچّے کا دل و دماغ سادہ اور خُداداد صلاحیتوں سے بھرپور ہوتا ہے ۔
معروف مقولہ ہے کہ '' کم سِنی میں حاصل کیا ہوا علم پتھر پر لکیر کی طرح ہے ۔'' اس عمر میں جو پڑھا اور سُنا جائے ' اس کے اثرات تا حیات رہتے ہیں ۔ عمر کے اس حصّے میںبچّے کی تربیت اسلامی خطوط پر کی جائے تو بچّہ تاحیات دین سے مخلص' معاشرے کے لیے مفید'صالح اور والدین کافرماں بردار ثابت ہوگا لیکن اگر غفلت اوربے جا لاڈ پیارمیں والدین نے بچّے کی تربیت نظر انداز کردی تو وہ اسلام ' والدین اور معاشرے سمیت ہر فکر اور ہر نظریے سے انحراف کرتارہے گا ۔ صد افسوس کہ ٹیکنالوجی کے اس دَور میں والدین کی مصروفیت اور غفلت کے باعث بچّے اسلامی تربیت سے تو ایک طرف'اخلاقی اور معاشرتی تربیت سے بھی محروم نظر آتے ہیں ۔ جس اسکول اور تعلیم پر اکتفا کرلیا جاتا ہے، اس کا مکمل زَور دُنیاوی علوم پر ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے بچّے دین سے بے زار نظر آتے ہیں اور والدین کے ساتھ اِن کے سلوک کا اندازہ روزمرہ کے واقعات سے کیا جاسکتا ہے ۔
آج نوجوانوں میں دِین سے دُوری کے رُجحان کی بڑی وجہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اوراسلامی تعلیمات سے دوری ہے ،جب کہ اسلام مکمل ضابطہ ٔحیات ہے ، یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور آسانیاں پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ ہمارے پیارے نبی آنحضرت محمد مصطفی ؐکی سیرت ِطیّبہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی آپ ؐکے پیش ِنظر رہی۔آپؐ نے ارشاد فرمایا:''باپ اپنی اولاد کو جو کُچھ دے سکتا ہے ،اُس میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے''۔(ترمذی) آپؐنے یہ بھی ارشاد فرمایا:''انسان کے مرنے کے بعد اُس کا عمل تو ختم ہوجاتا ہے مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ اُن کا اَجر مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ،ایک یہ کہ وہ کوئی صدقہ ٔ جاریہ کر جائے ،دوسرے یہ کہ ایسا علم چھوڑ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ،تیسرے ایسی صالح اور نیک اولاد جو اُس کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہے ۔'' (ابنِ ماجہ)
ہمارے پیارے نبی کریمؐ نے روزِاوّل سے ہی بچّوں کے دونوں کانوں میںاَذان واقامت کہلواکر اسلام کی رُوح پھونکنے کاحکم دیا۔(طبرانی) کسی مردِصالح سے خرما یا شہد چٹوانے کی ہدایت دی کہ آغاز سے ہی بزرگوں کی برکتوں سے بچہ بہرہ ور رہے۔(مسلم) بچوں کے بہتر نام رکھنے کی تلقین کی گئی ہے ،کیوں کہ قیامت کے دن اِن ہی ناموں سے پکارا جائے گا۔(ابو داؤد)بچے کا غلط نام رکھ دیا گیاہے تو بدل دیاجائے ۔کیوں کہ نام کے اثرات انسان کے اَعمال وافعال پر مُرتب ہوتے ہیں ۔
حضرت عمرؓ کی بیٹی کا نام عاصیہ تھا ،بدل کر جمیلہ رکھا۔(ابو داؤد)ساتویں روز عقیقہ کیجیے،اور بال منڈوا کر اُس کے وزن کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کردیں اور اسلامی شعار کے مطابق ساتویں دن ختنہ کرائیں(ترمذی)بچّہ بولنے لگے تو سب سے پہلے اُسے کلمہ طیبہ سکھائیں۔ بچوں کو ڈرانے سے پرہیز کیجیے ،ابتدائی عمر کا یہ ڈَر ساری زندگی قلب ودماغ پر چھایا رہتا ہے ۔ماں کا دودھ بچّے کا حق ہے ،لیکن اِس کے ساتھ ماںکا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے ہونہار کودرسِ توحید اورعشقِ رسول ؐ بھی سکھائے۔
اولاد کو بات بات پر ڈانٹنے ،جِھڑکنے اور بُرا بھلا کہنے سے پرہیز کیجیے ۔ان کی کوتاہیوں پر بے زار ہونے اور اظہارِنفرت کرنے کی بجائے حکمت سے اُن کی اصلاح کرنے کی محبت آمیز کوشش کیجیے۔اولاد کے ساتھ نرمی اورشفقت کا برتائو کیجیے۔ حسب ِحیثیت ان کی ضروریات پوری کرکے اِنہیں خوش رکھیے اور اطاعت اورفرماں برداری کے جذبات اُبھاریے۔ احنف بن قیس رضی اللہ عنہ نے اس سوال کے جواب میں کہ اولاد کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے؟ارشاد فرمایا،''اولاد ہمارے قلوب کا ثمرہ ہے ،کمر کی ٹیک ہے ،ہماری حیثیت ان کے لیے زمین کی طرح ہے، جو نہایت نرم اور بے ضرر ہے ۔ہمارا وجود اُن کے لیے سایہ فگن آسمان کی طرح ہے اور ہم اِنہی کے ذریعے بڑے بڑے کام انجام دینے کی ہمت کرتے ہیں ۔اگر وہ کبھی آپ سے کوئی جائز مطالبہ کریں تو ضرور پوراکیجیے ۔ وہ کبھی دل گرفتہ ہوں تو ان کے دلوںکا غم دور کیجیے۔نتیجے میں وہ آپ سے محبت کریں گے ،آپ کی پِدرانہ کوششیں پسند کریں گے ۔ان پر ناقابل برداشت بوجھ نہ بنیے کہ وہ آپ سے اُکتا جائیں اور قریب آنے سے نفرت کریں۔''
دوسروں کے سامنے بچّوں کی عیب جوئی اوراُن کی اصلاح سے مایوسی کا اظہار نہ کیجیے،بچّوں کی ہر جاو بے جا ضد پوری نہ کیجیے،چیخنے چلانے سے خود بھی گریز کریں اور بچّوں کو بھی اس کاعادی بنائیں۔انہیں اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کی عادت ڈالیں،بچّوں میں باہم لڑائی ہونے پر اپنے بچّے کی بے جا حمایت نہ کیجیے،صدقہ وخیرات بچّوں کے ہاتھوں سے دلوائیں تاکہ ان میں ایثار وہم دردی کے جذبات پرورش پائیں۔بچّوں کو دینی واقعات اور قرآنی ترجمہ سنانے کا اہتمام کریں۔اولاد کے مابین ہمیشہ برابری کا سلوک کیجیے۔
بچّوں کے سامنے ہمیشہ اچھا عملی نمونہ پیش کیجیے۔لڑکی کی ولادت پر بھی ایسے ہی خوشی منائیں، جیسے لڑکے کی ولادت پر ہوتی ہے اور ان معصوم بچّیوں کی تربیت اورپرورش انتہائی خوش دِلی سے کیجیے۔بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ یکساں محبت کا اظہار کیجیے۔اس حوالے سے ہمارے پیارے نبی آنحضرت محمد مصطفی ؐ کی سیرتِ طیّبہ مثالی نمونہ اور روشنی کا مینار ہے ۔ آج کے دور میںجب انسان مشین بن چکا ہے 'اپنے بچّوں کو نظر انداز نہ کریں۔ انہیں آپ کی توجہ کی ضرورت ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم اُن کے لیے وقت نکالیں ۔ ان کی تربیت اسلامی خطوط اور اسوہ ٔ حسنہ کی روشنی میں کریں ۔ اگر ہم نے مغربی روایت کی طرح اپنے بچّوں کو نظر انداز کیا ، نرسریوں ' ڈے کیئر سینٹر کی زینت بنایا تو وہ بڑھاپے میں ہمیں نظر انداز کرکے اولڈ ہوم کی زینت بنائیں گے ۔اﷲ نہ کرے کہ اس طرح اُن کی آخرت برباد ہو۔ہمیں اُن کی تربیت اس طرح کرنی ہے کہ دُنیا میں وہ معاشرے کے لیے مفید شہری بنیں 'ہمارے دست و بازو بنیں اور آخرت میں جنّت اُن کا مقدّر ہو۔(آمین)
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment