Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Friday, 1 July 2016

))))Vu & Company(((( ( Love) محبت اور اسلام......؟؟؟؟؟؟


کیا اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیںہے جو زندگی کے تمام شعبہ جات میں صراطِ مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی کرسکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟کیوں نہیں !اسلام واقعی ایک مکمل ضابطہ زندگی ہے ۔اور یہ خوبی صرف اسلام کاہی خاصہ ہے ۔اسلام ہماری زندگی کے کسی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرتا ۔اور ہماری فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔

اب یہ ہماری کوتاہی ہے کہ بعض معاملات کے بارے میں ہم یہ خود ساختہ تصورات قائم کر لیتے ہیں کہ ایسے تصورات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اس سلسلے میںجو روایت عوام الناس میںجاری ہے اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔ایسا کرنے سے اسلام کی جامعیت اور عالم گیریت پر حرف آتاہے

۔لہٰذایہ تصورات قابل مذمت ہےں۔جب ہم مذاہب کی دنیا کا م مطالعہ کرتے ہیں تو اسلام ہی واحد ایسا مذہب ملتا ہے جو ہمارے مسائل کے حل کے لیے مکمل اورجامع معلومات فراہم کرتا ہے ۔

زندگی کے معاملات میں سے ایک اہم مسئلہ'' محبت ''کی طرز نوعیت ہے جسے ہم عرف عام میں پیار یا Loveکے نام سے یاد کرتے ہیں ۔آئیے !اسلام کی روشنی میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیںکہ اسلام نے کیسی محبت کو روا رکھا ہے اور کس قسم کی محبت سے اجتناب کا حکم ہے۔

عموماً جب ہم پیار ،محبت یا Loveکا ذکر کرتے ہیں تو ان پڑھ جاہل بلکہ کچھ متوسط طبقہ کے پڑھے لکھے لوگ بھی اسے ایک دنیاوی اور عام معاشرتی عمل سمجھتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ روز مرہ کے میڈیا (الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا )سے متاثر ہوتے ہیں ۔وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ اس بے حیائی یعنی پیارکا تعلق اسلام سے نہیں ہو سکتا بلاشبہ وہ اپنے مو قف میںایک غیر قصداً غلطی کے ساتھ درست ہیں ۔غلطی یہ ہے کہ ہے وہ بھی دیکھا دیکھی اس بے راہ روی کو پیار اور محبت کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔جس کا قطعی طور پرحقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کیونکہ محبت ایک فطر ی عمل ہے اور اسلام فطرت کا ترجمان ہے اس لحاظ سے محبت کا اسلام سے گہرا تعلق ہے ۔جہاں اسلام دوسر ے اعمال کا حکم دیتا ہے اور ہمیں چار ناچار ان اعمال پر کاربند رہنا پڑتا ہے اسی طرح اسلام فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں محبت کا حکم بھی دیتاہے جو اللہ نے ہمارے دلوں میں القا ء کی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

(فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ۔۔۔۔۔۔)[آل عمران:103]
''اس اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی۔۔۔۔۔۔ ''
اس کی تاکیدنبی مکرم eنے بھی ان الفاظ میں فرمائی۔

((تَہَادُوْا تَحَابُّوا۔۔۔۔۔۔))[مؤطأ :1413]

''آپس میں تحفے تحائف دو اور محبت کرو۔۔۔۔۔۔''

لہٰذا یہ فطری عمل ہونے کے ساتھ اسلام کا مطالبہ بھی ہے ۔ علاوہ ازیں اسلام ہمیں محبت کرنے اور اس کو ترقی دینے کے ایسے مواقع بھی فراہم کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر آپس میں محبت بڑھتی ہے ۔جیسے اخوت ،بھائی چارہ ،ایثار وقربانی وغیرہم۔

اب ایک ایسا حکم جو اسلام نے دیا ہوجس کے نتائج بھی خوش کن ہوںاور اس کے ذریعے راحت ،سکون اور نرمی کی فضا قائم ہو کیا اسکی وجہ سے بے حیا ئی پھیل سکتی ہے ؟
بالکل نہیں !
تو ہمیں اس فحاشی کو محبت کا نا م دینے سے گریز کرنا چاہیے ۔کیونکہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں (یعنی اس عمل کو محبت یا پیا ر کا نام دیتے ہیں )تو اس کی وجہ سے اسلام کے دامن پر بے حیا ئی پھیلانے کا دھبہ لگتا ہے جبکہ قرآن تو کہتا ہے ۔

(إِنَّ اللَّہَ لَا یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء ِ ۔۔۔۔۔۔)[الاعراف :28]

''بلاشبہ اللہ تعالیٰ فحاشی کا حکم نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔''

اور فحاشی کا حکم دینا شیطان کا کام ہے ۔(دیکھئے البقرہ:169النور:21)

اب ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ ایسا کس نے اور کیوں کیا ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تما م کہانی دشمنانِ اسلام نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے رچائی ہے اور نوجوان نسل کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ایسے ذرائع استعمال کیے جن کی مدد سے ان کے ذہنوں محبت نام ہی اس چیز کا رکھ دیا جس میں لڑکی اور لڑکا ہو اور بس !باقی جو کچھ ہے وہ دائرہئ محبت سے خارج ہے ۔یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو رہا بلکہ اس سارے عمل کے پیچھے ایک خاص مقصد ہے جسکوتفریح کے نام پر محبت کی آڑ میں خاص منصوبے کے تحت سر انجام دیا جارہا ہے ۔اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج سے پندرہ بیس برس پہلے ریلیز ہونے والی فلمیں، ڈرامے اور پرگراموں کے علاوہ اخباروں میں آنے والے فلم ایکٹرز وغیرہ کی تصویریں کس حد تک قابل اعترا ض تھیں اور آج ان کی کیا حالت ہے؟ آپ بازاروں ،اخباروں یا سینما گھروں میں دیکھ سکتے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اس گھناؤنے مقصد کی تکمیل کے لیے مذہبکا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس بے حیائی عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کم علم مذہبی لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہوجائے ۔مثال کے طور پر یہ ڈائیلاگ:

''محبت عبادت ۔۔۔۔۔۔محبت ہے پوجا''

محبت اور عشق:

عام طور پر ان الفاظ کے معنوں اور استعمال میں فرق نہیں کیا جاتا جو مناسب نہیں ہے کیونکہ عشق اور محبت دونوں عربی زبان کے لفظ ہیں اور الگ الگ معنی رکھتے ہیں ۔

محبت :(مادہ :حب)رغبت کرنا،پیار ومحبت کرنا یا ہونا [المنجد:182,136]

عشق:محبت میں حد سے گزرنا ،محبت میں زیادتی ہونا(پارسائی اور فسق دونوں طرح ہوسکتی ہے)[المنجد:654,449]

محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے جو انسان کے خیا لات کو پاکیزگی بخشنے کے علاوہ اس کے اندر احساس پیدا کر کے مہذب اور شائستہ بناتی ہے۔ جبکہ عشق میںحد سے زیادہ زیادتی اور بے حیائی کا میلان پایا جاتا ہے۔اسی لیے عشق کو انگریزی زبان میں (جنسی پیار:Sexual Love)بھی کہا جاتا ہے۔

اس بات کی تصدیق ایک شاعر یوں کرتا ہے:
؎
ہم نے کیا کیا نہ کیا تیرے عشق میں محبوب
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبرایوب کیا گریہ یعقوب کیا​

کیا اس شعر میں انبیاء کی توہیں کا پہلو نہیں جھلکتا ۔۔۔۔۔۔؟ ایسے شعروں کے بارے میںہی اللہ کے نبی eنے فرمایا کہ:
'' انسان کے پیٹ کا پیپ سے بھرجانا شعر کے بھر جانے سے بہتر ہے''(تفسیر ابن کثیر)

دونوں لفظ (عشق اور محبت )عر بی میں مستعمل ہونے کے باوجود محبت اور پیار کے لیے قرآن وحدیث میں صرف محبت(یا اس کا ہم جنس)لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ عشق میں جنونی حد تک محبت کی زیادتیپائی جاتی ہے بے شک وہ فسق کی بجائے پارسائی میں بھی ہوسکتی ہے لیکن کسی معاملے میں بھی حد سے گزرناجائز نہیں حتی کہ اللہ کی عبادت میں بھی توازن اور اعتدال کا حکم ہے ۔جیسے اللہ تعالیٰ نے نبی eکو عبادت کی زیادتی سے منع فرمایا۔[المزمل :٢،٣]اور پیارے پیغمبر eنے اپنے امت کو عبادت میں بھی میانہ روی کا حکم دیا۔[بخاری:٤٦٧٥]
لہٰذا زیادتی جب عبادت میں جائز نہیں تو دوسرے معاملات میں تو بالاولیٰ اس کی ممانعت صادر ہوتی ہے ۔

عشق اور شعرائ:

شعراء اپنے کلام میں محبت کے لیے اکثر عشق کا لفظ استعمال کرتے ہیں اوریہ بھی اس لفظ کے عام ہونے کی ایک وجہ ہے۔ لفظِ عشق کوشاعر مشرق علامہ اقبال نے بڑی اہمیت دی اوراپنی شاعر ی میں عشق اور خودی پر زور دیا جیسے :
مرد ِخدا کا عمل عشق سے صاحب ِفروغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق ہے اصل حیات ،موت ہے اس پر حرام
بے خطر کود پڑا آتش ِنمرود میں عشق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عقل ہے محوِ تماشا لبِ بام ابھی
صدقِ خلیل بھی ہے عشق صبر ِحسین بھی ہے عشق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معرکہ وجود میں بدر وحنین بھی ہے عشق
حتی کہ جذبا ت میں آکر یہاں تک لکھ گئے :
اگر ہو عشق تو کفر بھی مسلمانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ ہو تو مردِ مسلمان بھی کا فر وزندیق
اس کے بعد ذرا ملاخطہ فرمائیں کہ میر تقی میر عشق کے بارے کیا لکھتے ہیں:
سخت کافرتھا جس نے پہلے میر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مذہبِ عشق اختیار کیا​

قطع نظر اس بات سے کہ انہوں نے عشق کو کن معنوں میں استعمال کیا دونوں اقبال اور میر ایک دوسرے کی نظر میں کافر ہیں ۔لیکن ہم دونوں کی آراء کو رد کرتے ہوئے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محبت اندھی یاعشق؟
آپ نے یہ جملہ تو ضرور سنا ہو گا کہ ''محبت اندھی ہوتی ہے ''جس کا مفہوم یہ ہے کہ:
''محبت میں انسان کچھ نہیں دیکھتا ،وہ اپنے پرائے کا خیال کیے بغیر اپنے محبوب سے ایسی خاص لگن ،پیا ر اور محبت رکھتا ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے بغیر پرواہ کیے کہ وہ کا م جائز ہے یا ناجائز بس محبوب کی خوشی ہی اس کی منزل ہوتی ہے جسے پانے کے لیے وہ ہر مشکل راستے سے گزرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔''
یااس کا مفہوم یہ لیا جاتاہے کہ:
''محبت کسی سے بھی ہوسکتی ہے ۔''(لیکن پہلا مفہوم زیادہ عام ہے )
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات درست ہے یا نہیں ؟آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس جملے میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں ان کا محر ک عشق ہے نہ محبت ۔کیونکہ محبت تو پاکیزہ عمل ہے اور اس میں ہی جب جائز ناجائز،صحیح غلط اور حلال حرام کی تمیز ختم ہو جائے تو اس میں پا کیزگی کا عنصر تو ختم ہو گیا لہٰذا یہاں محبت کی جگہ لفظ عشق ہی زیادہ منا سب ہے ۔او ریہی تجربات اور دلائل سے ثابت ہو تا ہے۔تو درست فقر ہ یوں ہوا:
''عشق اندھا ہوتا ہے ''
اقسامِ عشق:
عشق کی دو قسمیں ہیں ۔

1عشق ِحقیقی( اللہ سے عشق )
2عشق ِمجازی یا غیر حقیقی(اللہ کے علاوہ کسی سے بھی عشق )

عشق جائز یا ناجائز:

عشق مجازی توناجائز ہے جس میں پیار کی بجائے پیاس اورمحبت کی بجائے جنون ہوتا ہے اور اس کے نتائج بھی آج ہمارے اس معاشرے میں دیکھے جاسکتے ہیں جن کی وجہ سے بد امنی اور بے چینی نے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے خود کشی ،بد معاشی ،فحاشی ،حسد ،جھوٹ ،(وجدانی کیفیت میں )گانا گنگنانا ،گناہ اور ثواب کے خود ساختہ پیمانے اور اس کے علاوہ اپنے دلعزیز کی خوشی کے لیے ہر گناہ کر گزرنا عشق کہانی کا ہی منہ بولتا ثبو ت ہیں ۔کیونکہ'' عشق اندھا ہوتا ہے '' اگریہ محبت ہوتی تو اس کے یہ اثرات نہ ہوتے کیونکہ محبت اسلام کا عطا کردہ تحفہ ہے اور اسلام ان گناہوں سے سختی سے منع کرتاہے جو اس نام نہادمحبت یعنی عشق کے نتیجہ میں رونماہوتے ہیںاور ہو رہے ہیں۔
آپ حیران ہوں گے کہ عشق مجازی کے علاوہ عشق حقیقی بھی جائز نہیں جس کا تعلق اللہ سے ہے ۔اس کی واضح دلیل وہ صوفیا اور درویش ہیں جنہوں نے اللہ کو خوش کرنے کے لیے عبادت کے خودساختہ طریقے اپنائے یہ سو چے بغیر کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے کا موں سے منع تو نہیں کیایہ جائز بھی ہیں یا نہیں ؟ یعنی و ہ اللہ کی محبت میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ اللہ کے ہی نازل کردہ اسلام کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں جیسے خود کو فنا کر لینا ،رہبانیت اختیار کر لینا (یعنی انسانی معاشرے کو چھو ڑ کر بے آباد علاقوں میں اللہ کی عبادت کے لیے جانا)اور اپنے اوپر حلال کردہ چیزوں کو حرام کر لینا ۔جب کہ اسلام نے ان چیزوں کے بارے میں واضح ممانعت کا اعلان کیا ہے ۔ارشاد ہے۔

((لَا آمُرُکُمْ اَئنْ تَکُوْنُوْا قِسِّیْسِیْنَ وَّرَہْبَانًا))

[مصنف ابن ابی شیبۃ:٥٨ج٣،مسند احمد بلفظ مختلف:٢٤٧٠٦]

(وَرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوہَا مَا کَتَبْنَاہَا۔۔۔۔۔۔)[الحدید:٢٧]

''میں تم کو رہبانیت کا حکم نہیں دیتا، رہبانیت کی ابتدا اہل کتاب کی خود ساختہ تھی اللہ نے انہیں یہ حکم نہیں دیا تھا۔''

(یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّہُ لَکَ۔۔۔۔۔۔)[التحریم:١]

''اے نبیe آپ نے اپنے اوپر اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو کیوں حرام کیا ہے؟''
یعنی اللہ کو خوش کرنے کے لیے حلا ل حرام اورجائز ناجائز میں تمیزنہ کرنا گناہ ہے اوراسی طرح ثواب کے خودساختہ طریقے نکالنا بھی جائز نہیں ۔جبکہ عشق میں یہ سب کچھ ہوتا ہے ۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ عشق ناجائز، محبت جائز،عشق حرام، محبت حلال، عشق گناہ اور محبت ثواب ہے ۔

اقسامِ محبت:

ظاہر ہے ہماری محبت ہر ایک سے مساوی نہیں ہوتی کسی سے کم اور کسی سے زیادہ اور اسی طرح محبت کے جذبات واحساسات بھی الگ الگ ہوتے ہیں ۔جیسے ماں باپ کی محبت اور دوستوں کی محبت ایک جیسی نہیں ہوسکتی اسی طرح دوسرے رشتے بھی محبت کے میدان میں الگ مقام رکھتے ہیں۔اس لحاظ سے محبت کی دو قسمیں ہیں ۔
1حقیقی محبت 2مجازی یاغیر حقیقی محبت
حقیقی محبت سے مراد اللہ ،رسول eاوران کے بتائی ہوئی اشیاء سے محبت ہے اور یہی اصل محبت ہے اس کا فائدہ ابدی ودائمی ہے اس کے علاوہ جن چیزوں سے محبت ہوگی اس کے فوائد توضرور ہوں گے لیکن اس مجازی یعنی غیر حقیقی محبت کے فوائد حقیقی محبت کے فوائد سے بڑھ نہیں سکتے ۔ہر سمجھ دار اور عقل مند شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ مجازی محبتکی بجائے حقیقی محبت کو ترجیح دے کیونکہ یہ اسلام کا حکم ہونے کے علاوہ عقل کا تقاضابھی ہے کہ عارضی چیز کی بجائے دائمی کو پسند کرتی ہے۔مثال کے طور پر'' آپکے سامنے کوئی شخص دو ایسی چیزوں کو پیش کرتا ہے جن میں سے ایک لائف ٹائم گارنٹی جبکہ دوسر ی عارضی ہے اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے اور آپ کومکمل اختیار ہے کہ ان میں سے جس کو چاہیں اختیار کر لیں تو اگر آپ دانا اور عقل مند ہوئے تو یقینا آپ لائف ٹائم گارنٹی والی چیز کوترجیح دیں گے''

لیکن اس کے باوجود میں نے جب بھی کسی سے محبت کے حوالے سے حقیقی اور غیر حقیقی کے موضوع پر بات کی تو ان میں سے اکثر کو یہی کہتے سنا کہ ''حقیقی محبت تو ہے لیکن ''بس اسکے بعد اس کی ساری داستا ن غیر حقیقی محبت پر ہوتی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس حقیقی محبت کے موضوع پر گفتگو کرنے کےلئے مواد کی کمی ہے جو علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ایسا طریقہ اختیا ر کریں کہ جس سے حقیقی محبت کا پر چارہوسکے لیکن ان کا وہی قدامت پسندانہ طرزِ بیان جس کو سن سن کر لوگ اکتا چکے ہیں اور مزید سننے کے لیے تیار نہیں ہیں اسکے برعکس غیر مسلم آئے دن میڈیا کے ذریعے نت نئے طریقوں سے محبت کے نام پر بے حیا ئی پھیلا رہے ہیں اور ہمارے عوام بھی ان کو پسند کرتے ہیں۔ یہ تو ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ بعض معاملات میں انسان مسلسل ایک چیز سے اکتا جاتا ہے اور کسی نئی چیز کا خواشمند ہوتاہے جو کہ میڈیا کر رہا ہے اور مسلمان ہیں کہ ابھی تک خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔

اے ساقی گل فام برا ہو تیرا تو نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔با توں میں لبھا کر ہمیں وہ جام پلایا ہے
یہ حا ل ہے سو سال غلامی میں بسر کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہوش ہمیں اب بھی مکمل نہیں آیا ہے​

اگر آپ نے مشاہدہ کرنا ہو تو آپ اپنے کسی دوست سے سوال کریں کہ ''کیا آپ نے کسی سے پیا ر کیا ہے؟''آپ دیکھیں گے کہ وہ تھوڑا سا ابنارمل(Ubnormal) ہو کر اس کے جواب میں کسی لڑکے یا لڑکی (اپنی جنس کے لحاظ سے )کا نا م بتائے گا یا پھر نفی میں جواب دے گا ۔

اس کے بعد آپ پوچھیں کہ کیا اللہ سے پیا ر نہیں ہے ؟تو وہ اس طرح کے الفاظ کہے گا''وہ تو ہے ہی''غور کریںاللہ کی محبت کے بار ے میں جواب دیتے وقت اس کا رویہ عدم دلچسپی کا مظہر ہے ۔یعنی و ہ اسکو اپنی مجبوری سمجھتا ہے اور زبان سے اقرر کرنا اس کے لیے لازم ہے کیونکہ آپ بھی مسلمان ہے اور وہ بھی لہٰذا نفی میںجواب دے کر وہ اپنے اوپر کفر کا فتویٰ لگوانے سے گریز کرے گا بے شک وہ اللہ سے محبت کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش بھی نہ کرتاہو اس کا منہ سے اقرار کرنا ہی اسکو لو گوں کی نظروں میں مسلمان کہلوانے کےلئے کا فی ہے۔جبکہ قرآن نے ایمان والوںکی نشانی ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

(وَالَّذِینَ آَمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ۔۔۔۔۔۔)[البقرۃ:١٦٥]

''ایمان والوں کی سب سے زیادہ محبت اللہ سے ہوتی ہے''

پیغمبر اسلام کا فرمان:

((لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ))[رواہ البخاری:رقم الحدیث١٤، باب حب الرسول]

''تم میں سے اس وقت تک کو ئی شخص کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں محمد eاسکو اس کے والدین ،بچوں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں''
مزید تفصیل کے لیے قرآن کی ایک آیت ملاخطہ ہوں:

(قُلْ إِنْ کَانَ آَبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ)[التوبۃ:٢٤]

''اے محمد eفرما دیجیے !اگر تمہیں اپنے باپ ،بیٹے ،بھائی ،بیویاں ،رشتہ دار ،مال جو تمنے کمایا ہے،تجارت جس کے مند اپڑنے سے تم ڈرتے ہو اورمکان (کوٹھیاں ،بنگلے)اللہ، رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیاد ہ محبوب ہیں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کرو ،اور اللہ نا فرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔''

موجودہ دور میں مسلمانوںکی حالت دیکھ کریہ اندازہ لگا نا آسان ہے کہ قرآن کی اس آیت کا عملی انکار نہیں ہورہا؟اس کے باوجو د بھی اگر ہم یہ فریا د کریں کہ ہمیں دنیا میں عزت مل جائے تو یہ ہمارا گمان اوروہم ہے جب اللہ نے قرآن میں واضح فرما دیا ہے کہ اس کے بعد عذاب کا انتظار کرو اور آج ہم پر وہ عذاب مغلوبیت کی شکل میں مسلط ہو چکا ہے تو پھر کیوں اس عذاب سے چھٹکا را پانے کےلئے غیر موثر حربے استعمال کیے جاتےہیں؟جبکہ کہ اس کا حل توہمارے پاس موجود ہے۔
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ کو جواب دیجیے کہ کیا آپ سب سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول eسے محبت کرتے ہیں ؟اس محبت کے تقا ضوں کو بھی کبھی پورا کرنے کی کوشش کی یا صرف زبانی کلامی محبت پر ہی اکتفا کیا ۔۔۔۔۔۔؟ذرا سوچیئے!
یہ بات بھی شک وشبہ سے خالی ہے کہ اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں سے بھی محبت ہوسکتی ہے۔اور یہ محبت بھی اللہ نے خود انسان کے دل میں ڈالی ہے۔جیسے آپس میں مسلمانوں کی محبت(آل عمران:١٠٣)خاوند اور بیوی کے درمیان محبت(روم:٢١)والدین

کی محبت ،بھائی بہنوں کی محبت ،ساتھیوں دوستوں کی محبت ،مال ودولت سے محبت وغیرہم۔لیکن ان سب کی حیثیت ثانوی اور درجہ دوم کی ہے ہم ان تمام چیزوں کی محبت میں سے کسی کی محبت کو بھی اللہ ورسول کی محبت پر ترجیح نہیں دے سکتے ۔
جہاں تک عورت اور مرد کی محبت کا تعلق ہے تواس کابھی انکار نہیں لیکن اسلا م محبت کے ساتھ ساتھ عورت کو مکمل سکیورٹی اورتحفظ بھی فراہم کرتا ہے ۔اس کی عزت کی حفاظت کرنے کے لیے سخت سے سخت قوانین پر عمل درآمد کا کہتا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ مومن مرد اور مومنہ عورت کو ایک دوسرے کا دوست بھی کہتاہے ۔

(وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء ُ بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔۔۔۔۔۔)[التوبۃ:٧١]

''مومن مرد اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔''

لیکن آج کی دوستی اور اسلام کی بتائی ہوئی دوستی میںزمین وآسمان کا فرق ہے ۔اگر آج بھی اس دوستی کو اسلامی اصولوں پر اپنایا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن یاد رہے !اس دوستی میں اسلام کے دوسرے تمام احکاما ت کی پابندی بھی ضروری ہے مثلاًعزت وناموس کی حفاظت (نور:٣١)غیر محرم مردوںسے بات کرتے وقت آوازمیں نرمی نہ رکھنا(الاحزاب:٣٢)ان سے تنہائی میں نہ ملنا(بخاری:٥٢٣٢)اور پردہ وغیرہ۔کیونکہ اسلام کا مقصد امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے (آل عمران :١١٠)تو اس قانون کو نافذ کرنے والے بھی اس کے پابند ہیں یعنی اگر وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں توانکے لیے خود بھی ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کی برائی سے بچیںکیونکہ اگروہ ایسا نہیں کریں گے کہ تو یہ ایک بہت بڑا جرم ہو گا۔( مزید تفصیل کے لیے دیکھیے!الصف٢،البقرہ:٤٤،ہود:٨٨)لہٰذا یہ بات غور سے سمجھ لیں کہ دوستی ضرور ہے لیکن حدود وقیود میں رہتے ہوئے ۔

محبت ہونا یا کرنا:

'' محبت ہوتی ہے یا کی جاتی ہے '' محبت ایک فطری عمل ہے اور اسلام عین فطرت ہے بشرطیکہ فطر ت میں فتور نہ ہولہٰذا محبت اسلام کا تقاضا اور مطالبہ ہے اوراسلام جو حکم بھی دیتا ہے اس پر عمل کرنا ثواب ہے ۔تو ثابت ہو ا کہ محبت ایک اچھا عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ثواب کا کام بھی ہے ۔اب ثواب کا کام کیا جائے تو اچھی بات ہے اور اگر ہوجائے تو اس بھی بہتر ۔لیکن اگر نہ بھی ہو تب بھی ہمیں یہ کرنا توپڑئے گا ۔

وجوہاتِ محبت:

دنیا میں ہر کا م کی کو ئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے جس کے نتیجے میں و ہ کا م رونما ہوتا ہے پھر اگر تھوڑا اور آگے بڑھا جائے تو اس وجہ کی بھی کوئی وجہ ہوتی ہے اسی طرح یہ سلسلہ چلتے چلتے فطرت اور قدرت پر آکر ختم ہوتا ہے ۔
سوال یہ کہ'' محبت کیوں ہوتی ہے ''لفظِ کیوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ لفظِ ''کیوں ''ایک ہی وقت میں ایک سوال بھی ہے اور جواب بھی آپ جب بھی کسی چیز کی گہرائی میں پہنچنا چاہتے ہیں تو یہ لفظ آپ کو آپ کے منزل تک پہنچا سکتا ہے ۔لیکن اس کا استعمال حد سے زیادہ بھی نہیں کرناکیونکہ سنا ہے کہ:
''کیوںسے لڑائی ہوتی ہے''۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! تو بات ہورہی تھی کہ محبت کیوں ہوتی ہے ۔
جس طرح فطرت میں دوسری چیزیں شامل ہیں اسی طرح محبت بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں رکھ دی تھی ۔لیکن پھر بھی کچھ وجوہات ایسی ہوتی ہیں جو انسانوںکے مابین محبت کا سبب بنتی ہیں ۔جن میں چند درج ذیل ہیں۔

1پہلی نظر میںمحبت :

بعض لوگ کسی کو دیکھتے ہی محبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔اس جذباتی محبت کی ابتداء بڑی شاندار اور پُرلذت ہوتی ہے اور انجام انتہائی کرب ناک اور پریشان کن ہوتا ہے ۔کیونکہ ایسی محبت صرف شکل وصورت یا دوسرے کی ظاہری وبنا وٹی عادات سے ہوتی ہے جوپہلی نظر میںمشاہدے میںآتی ہیںاور کسی کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے اس کی ظاہری شکل وصورت کے اچھا ہونے کی بجائے باطن کا پاکیزہ ہونازیادہ ضروری ہے ۔اس لیے آپ جب تک کسی کے ساتھ رہ کر اس کے ضمیر کا مطالعہ نہیں کریں گے ،اسکو سمجھیں گے نہیں تب تک آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا محبوب واقعی مخلص ،سچا ، دیانتدار اور باوفاہے ۔کسی کے دل کی بات اس کی شکل پر تو نہیں لکھی ہوتی اور نہ ہی کسی شخص کی ظاہر ی خوبصورتی اسکے باطنی حسن پر دلالت کر سکتی ہے ۔حضرت بلال tاور ابو لہب کی مثال آپ کے سامنے ہے لیکن اسکے با وجود کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ'' انسان اپنی چہرے سے پہچانا جاتاہے'' جو اپنے مؤقف میں درست نہیں ہےں۔ کتنے ہی ایسے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں جو شکل سے شریف النفس لیکن حقیقت میں شریرالنفس یعنی منافق ہوتے ہیں۔لہٰذاپریشانیوں سے بچنے کے لیے ایسی مصنوعی محبت سے اجتناب ہی بہتر ہے ۔
2عادات میں مطابقت:

محبت کی دوسر ی بڑی وجہ عادات واطوار ،ذہنی خیالات اور جذبات واحساسات کا ملناہے ۔ایسی محبت پائیدار اور تادیر قائم رہنے والی ہوتی ہے ۔اس کو ہم کامیاب محبت کہہ سکتے ہیں۔
3خونی رشتوں سے محبت :

یہ فطری محبت ہر انسان کو اس کے ورثے میں ملتی ہے جو اسکے خون میں رچی بسی ہوتی ہے اور تا حیات اس کے ساتھ وابستہ رہتی ہے ۔مثال کے طور پر والدین اوربچوں اوربھائی بہنوں کے درمیان محبت ۔ یہ محبت سب سے مضبوط محبت ہے اس میں عادات کا ملنا شرط نہیں ہے ۔اسکو لاشعوری محبت کہا جاسکتا ہے ۔جیسے ایک ننھا منھا بچہ محبت کا معنی مفہوم نہ جاننے کے باوجود اپنے ماں کی جدائی برداشت نہیںکرتا ۔اللہ اور رسول کی محبت کے بعد سب سے زیادہ حق دار اسی محبت کے افراد ہیں۔
4اکٹھے رہنے سے محبت:

وجوہاتِ محبت میں اہم وجہ انسان کا اکٹھے اور مل جل کررہنا بھی ہے ۔آپس میں رہتے ہوئے جہاں چھوٹے موٹے جھگڑے ہوتے ہیں وہاں آہستہ آہستہ انسانی عادات میں موافقت اور باہمی تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے جو بعد میں محبت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اس کو بھی ایسی لاشعوری محبت کہہ سکتے ہیں جس کی عمر میں زیادتی کی امید کی جاسکتی ہے۔

5احسانات کے بدلے محبت :

جب انسان کسی شخص پر احسان کرتا ہے تو جس پر احسان کیا جا تا ہے اسکے دل میں اپنے محسن کے بارے میں نرمی کے جذبات پیداہوتے ہیں شرط یہ ہے کہ وہ شخص جس پر احسان کیا گیا ہے زندہ ضمیر والا ہو ۔اس کے علاوہ احسان کرنے والے کو بھی اس سے مزید ہمدردی ہوگی۔
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ محبت میں ایک سے زیاد ہ وجوہات اکٹھی ہو جا تی ہےں ۔یعنی خونی رشتہ بھی ہوتا ہے، عادات بھی ملتی ہےں اور احسانات بھی ہوتے ہیں ایسی صورت میں نور علیٰ نور کا ساماحول ہوتا ہے۔یعنی'' سونے پہ سہاگہ''
اصولِ محبت:
جہاں اسلام محبت کرنے کی حوصلہ افزاہی کرتا ہے وہاں اسلام ہمیں وہ اصول بھی فراہم کرتا ہے جن کی بنیادوں پرقائم رہ کر محبت کی جائے تاکہ مسلمان محبت کوکوئی غلط رنگ نہ دے بیٹھیں ۔آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا مسلمانوں نے اسلام کے بتائے ہوئے اصولوںکو ترک کر کے خود ساختہ اور دنیاوی اصولوں کو اختیار کرکے خود کو خود ہی گمراہ کر لیا ۔محبت کرتے وقت مندرجہ ذیل اصولوں کی پابندی لازمی ہے۔

1حصولِ رضائے الٰہی:

محبت کا سب سے پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان اپنی محبت کی عمارت اسلام کی بنیادوں پر کھڑی کرے و ہ بنیا د کیا ہے؟نبی مکرم eنے فرمایا
((اَلْحُبُّ فَیْ اللّٰہِ وَالْبُغْضُ فِیْ اللّٰہِ))[السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی:١٧٢٨]
''کسی کے ساتھ محبت یا بغض صر ف اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے''
اللہ کے لیے محبت سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی سے دین کی بنیاد پر محبت کرے یعنی جو دین کے زیادہ قریب ہے اور اسلامی قوانین کی پابند ی کرنے اور ان پر عمل کرنے کی جتنی کوشش کرتا ہے اسی لحاظ سے اس سے محبت کی کمی زیادتی ہونی چاہیے بحیثیت مسلما ن ہمارا یہ فرض ہے کہ کسی سے محبت کی جائے تو محض اللہ کی رضاکے لیے نہ کہ دنیاوی مفادات کے حصول کی خاطر۔

2نیک لوگوں سے محبت:

دوستی اور محبت ہمیشہ اچھے لوگوں سے کرنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ بھی اچھے لوگوں سے محبت کرتے ہیں لہٰذا ہمیں ان لوگوں سے محبت کرنا چاہیے جن سے اللہ محبت کرتا ہے ۔
اللہ کن لوگوں سے محبت کرتا ہے؟
مندرجہ ذیل لو گ وہ خوش نصیب ہےں جن سے اللہ محبت کرتا ہے۔
1نیکی کرنے والے[البقرہ:١٩٥،آل عمران :١٣٤،١٤٨،المائدہ :١٣،٩٣]
2توبہ کرنے اور پاک رہنے والے[البقرہ:٢٢٢،التوبہ:١٠٨]
3اللہ سے ڈرنے والے[آل عمران:٧٥،التوبہ:٤،٧]
4صبر کرنے والے[آل عمران:١٤٦]
5اللہ پر بھروسہ کرنے والے[آل عمران:١٥٩]
6انصاف کرنے والے[المائدہ:٤٢،حجرات :٩،الممتحنہ:٨]
7اللہ کے راستے میں لڑنے والے[الصف:٤]
لہٰذا ہمیں بھی ایسے لوگوں کو تلاش کرکے ان سے محبت اور دوستی کرنی چاہیے اس کا صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت کے دن بھی اس کا فائدہ ہو گا ۔ رسول eنے فرمایا:

((الْمَرْء ُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ))[بخاری:٥٧٠٢]

''قیامت کے د ن آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہو گا ''

نیز فرمایا:

''آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتاہے اسے دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہاہے''[ترمذی:٢٣٧٨]

لہٰذا آپ قیامت کے دن جس کا ساتھ چاہتے ہیں اس سے سب سے زیادہ محبت کریں ۔
ذرا سوچیئے کہ آپ جس شخص سے محبت کرتے ہیں وہ نیک ،تائب،متقی ،پرہیز گار ،صابراور منصف جیسی صفات کا مالک ہے؟

جہاں محبت اللہ کے لیے ہو وہاں کسی سے نفرت ہو تو وہ بھی اللہ کی رضا کےلیے یعنی جو اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اگر سمجھائے نہ سمجھے تو اس سے تعلقات بڑھانے سے پرہیز کرنا چاہیےکیونکہ ایسے لوگ نفرت کے مستحق ہیں اور اللہ بھی ایسے لوگوں سے نفر ت کرتا ہے ۔
اللہ کن لوگوں سے نفر ت کرتاہے؟

قرآن کے مطالعے کے بعد مندرجہ ذیل لو گ ایسے ہیں جن کے لیے قرآن کہتا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت نہیں کرتا۔

1زیادتی کرنے والے[البقرہ:١٩٠،المائدہ ٨٧،الاعراف:٥٥]

2فساد کرنے والے[البقرہ:٢٠٥،المائدہ ٦٤،القصص:٧٧]

3کافر، گناہ گار[البقرہ٢٧٦،آل عمران:٣٢،روم :٤٥]

4ظالم[آل عمران:٥٧،آل عمران١٤٠،شوریٰ:٤٠]

5فخر ، غروراور تکبر کرنے والے[النسائ:٣٦،النحل :٢٣،القصص:٧٦،لقمان:

١٨،الحدید:٢٣]

6کافر گناہ گار خیانت کرنے والے [النسائ:١٠٧،الانفال :٥٨،الحج٣٨]

7اسراف کرنے والے[الانعام:١٤١،الاعراف:٣١]

لہٰذا دوستی اور محبت کے معاملے میں نہایت عمیق نظری سے جائزہ لینا چاہیے کیوں کہ اگر آپ کا چناؤ غلط ہوا تواس کا نقصان ہو سکتا ہے۔ نفسیا تی اصول کے تحت آہستہ آہستہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ دوست کی عادات ورجحانات اور ذوق لاشعوری طور پر آپ میں منتقل ہونا شروع ہو جائے گا ۔جو آپ کے لیے دین ودنیا میں خطرے سے خالی نہ ہو گا ۔فرمان الٰہی ہے:

(وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَی یَدَیْہِ یَقُولُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا oیَا وَیْلَتَا لَیْتَنِی لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا )[الفرقان:٢٧،٢٨]

''قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا کہ اے کاش!میں نے رسول کے ساتھ روش اختیار کی ہوتی ۔اے کاش!میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔''

4توازن :

اصولِ محبت میں توازن اور اعتدال کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔محبت کو کامیاب بنانے کے لیے توازن بہت ضروری ہے ۔جس جس کامحبت میں جتنا جتنا حق ہے اسے اس مقام پر ہی رکھا جا ئے ۔اور اسلا م نے جو درجہ بندی کی ہے اس کی پابندی کی جائے۔ محبت کو قائم رکھنے اور دوام بخشنے کے لیے یہ نسخہ بہت کا ر آمد ہے ۔

اسلام کی درجہ بندی :

١۔اللہ سے محبت[البقرہ:١٦٥]

٢۔رسول اللہ eسے محبت[بخاری:١٤]

٣۔والدین سے محبت[بنی اسرائیل :٢٣]

٤۔اس کے بعد عام لوگوںسے ان کی ایمانی کیفیت کے لحاظ سے درجہ بدرجہ محبت [موطأ:١٤١٣]

3اعلانِ محبت :

جب انسان کو کسی سے محبت ہو یا کسی سے محبت کرے توحکمت ِعملی سے اس کا اظہار بھی کرنا چاہیے اس سے ان کے قلبی تعلقات میں مزید اضافہ ہوتاہے اور محبت بھی بڑھے گی۔رسول محترم eنے فرمایا:
((إِذَا اَئحَبَّ الرَّجُلُ اَئخَاہُ فَلْیُخْبِرْہُ أَ نَّہُ اَئحَبَّہُ))[الترمذی:٤٤٥٩]
''جب آدمی اپنے بھائی سے محبت کرے تو اسے بتائے کے وہ اس سے محبت کرتا ہے۔''
ہمارے اس نام نہاد اسلامی معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دیا جاچکا ہے لہٰذا احتیاطی طو ر پر اظہار ِمحبت کے لیے ''I Love You''کے الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
اللہ کے حضور دست بستہ دعاہے کہ وہ ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق محبت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔(آمین)

فوائد ِ محبت:

شریعت نے جہاں محبت کرنے کی ترغیب دی وہاں اس کے فوائد بھی بیان کیے تاکہ لو گ اس کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی اہمیت کو سمجھیںاور معاشرہ میں امن اور سکون قائم ہو۔محبت کے چند اہم فوائد درج ذیل ہےں:
1رضائے الٰہی:
محبت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے محبت کرنے سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔حضور اکرم eنے فرمایا:

جو شخص کسی سے صرف اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرتا ہے تو اللہ بھی اس سے ایسی ہی محبت کرتا ہے جیسا کہ وہ شخص کسی دوسرے سے محبت کرتاہے۔[مسلم:٤٦٥٦]

اس شخص سے زیادہ خوش نصیب اور کون ہو سکتاہے جس سے اللہ محبت کرے؟

2اللہ اورفرشتوں کی محبت:

حدیث میں آیاہے: 

''جب اللہ بندے سے محبت کرتاہے تو اللہ تعالیٰ جبریل uکو بلاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو!تو جبریل uاس سے محبت کرتے ہیں پھر جبریلu آسمانی فرشتوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتے ہیں تم سب بھی فلاں شخص سے محبت کرو !تو فرشتے بھی اس بندے سے محبت کرتے ہیں۔پھر بندے کو اللہ تعالیٰ دنیا میں مقبولیت عطا کرتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ جس شخص سے ناراض ہوتے ہیں اس کو انجا م اس کے برعکس ہوتا ہے۔''[مسلم:٤٧٧٢]
کیا آپ دنیا میںمقبولیت کے علاوہ اللہ اور فرشتوں کی محبت حاصل کرناچاہتے ہیں؟؟؟
3عرش کا سایہ:

''جودو بندے اللہ کی رضا کی خاطرآپس میں محبت کرتے ہےں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے د ن ان کو اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائیں گئے۔''[مسلم:٤٦٥٥]
میدان محشر میں جہاں اللہ کے عرش کے سواء کوئی سایہ نہیں ہو گا اس دن کون ہے جو ایسا نہ چاہے؟
4اطمنانِ قلب:

محبت انسان کے لیے سکون کا باعث ہے اور یہ سکون اپنے محبوب کو یا د کرنے سے حاصل ہو تا ہے اور انسان ہر وقت اپنے محبو ب کی یا د میںہی کھونا پسند کرتاہے۔عربی مقولہ ہے [مَنْ اَحَبَّ شَیْاًاَکْثَرَ ذِکْرَہُ]''انسان کو جس سے محبت ہو اس کو اکثر یا د کرتا ہے ۔''اور اسی میں اس کو سکون ملتا ہے اسی لیے قرآن مجید میںایمان والوںکے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کو سکون اللہ کی یا د میں ملتاہے کیونکہ ان کی سب سے زیادہ محبت اللہہی سے ہوتی ہے۔

(الَّذِینَ آَمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُہُمْ بِذِکْرِ اللَّہِ أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ )[الرعد:٢٨]

''ایمان والوں کے دلوں کو اللہ کی یا دمیں اطمنان حاصل ہوتا ہے ۔یا د رکھو !اللہ کی یا د سے ہی دلوں کو سکون حاصل ہوتاہے۔''

اگر آپ کو بے چینی وبے قراری کا سامنا رہتاہے تو قرآن کی اس آیت میں اس مسئلے کا حل موجود ہے۔ 

لہٰذا محبت کا سب سے زیادہ حقدار اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے کیونکہ:
اگر آپ کسی کے جمال وکمال کی وجہ سے اس سے محبت کرتے ہیں توکائنات کا ساراجمال اسی اللہ کی وجہ سے ہی ہے ۔

اگر آپ قرابت داری کی وجہ سے کسی سے محبت کرتے ہیں تواللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر آپ کے قریب ہے۔(قۤ:١٦)

اگر آپ کسی کے احسان کی وجہ سے محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ محسن کوئی نہیں۔(بنی اسرائیل:٧٠)

اگر آپ کسی کے اقتدار واختیار کی بناء پر محبت کرتے ہیں تو مختار کل اللہ کی ذات ہے اور اقتدار ِاعلیٰ کا مالک صرف وہی ہے۔(یوسف:٦٧)

غرضیکہ کسی سے محبت کرنے کے جو بھی محرکات ہوسکتے ہیں ان سب کا مالک اللہ ہے اسی لیے فرمایا کہ ایما ن والے سب سے زیادہ محبت اللہ سے ہی کرتے ہیں۔(البقرہ:١٦٥)

اللہ کی محبت کیاہے؟

ہم سب اس بات کا اقرار تو کریں گے کہ ہم کو اللہ سے سب سے زیادہ محبت ہے لیکن ہم اس بات میں سچے اس وقت تسلیم کیے جائیں گئے جب ہم رسول اللہ eکی اطاعت وفرمابرداری میں پورے اتریں گے کیونکہ فرمان الٰہی ہے :

(قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ)[آل عمران:٣١]

''اے نبی eفرما دیجیے !کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کروایسا کرنے سے اللہ بھی تم سے محبت کرے گااور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور وہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔''

لہٰذا دین پر عمل کر کے اللہ کے محبوب بنیںاور آپس میں پیار ومحبت سے معاشرے کو سکون اور امن کا گہوراہ بنائیے۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم کو اس پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے:(آمین)

((أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلَی حُبِّکَ))[ترمذی:٣١٥٩]

''اے اللہ میں آپ کی محبت کا سوال کرتاہوںاور ان لوگوں کی محبت کا سوال جن سے آپ محبت کرتے ہیں اور ایسے اعمال کی محبت کا سوال کرتا ہو ں جو مجھے آپ کی محبت کے قریب کردیں''

آمین یا رب العالمین

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment