Nice...
On 30 Apr 2016 7:36 pm, "Sweet Poison" <mc090410137@gmail.com> wrote:
-- Nice
On 30 Apr 2016 2:47 pm, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:--کلام اقبال تاریخی ادوار کے آئینہ میں ( حصہ دوم)۔تحریر : محمودالحقشاعری کا تیسرا دور 1908 تا 1923علامہ صاحب کے شاعری کے تیسرے دور میں گورا راج نے 1911 میں ہندوؤں کی مخالفت کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے تقسیم بنگال کو منسوخ کر دیا ۔ پھر 1913 میں مسجد شہید گنج کانپور کا واقعہ بہت اہمیت کا حامل تھا ۔ جس نے مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کی تحریک میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرنے کی طرف پہلا قدم بنا دیا ۔ اور 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا ۔ جس میں ملت اسلامیہ کے مرکز خلافت عثمانیہ ترکی نے جرمنی اور جاپان کے ساتھ شامل ہوکر دنیا کی اتحادے ممالک کے خلاف صف آرا ہوا ۔برطانوی حکومت کے زیر اثر ہندوستان بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ سلطنت عثمانیہ ترکی کے خلاف جنگ میں شامل ہوا ۔ مسلمان جسے اپنا اسلامی مرکز سمجھتے تھے وہ اس سے پہلے ہی یورپ کے مرد بیمار کا مقام پا چکا تھا ۔اس جنگ کی وجہ سے آخری سانسوں پہ چلا گیا ۔مسلمان ترکی سے دلی وابستگیرکھتے تھے ۔اور اس جنگ میں ترکی کا کردار اتنا اہم نہیں تھا مگر انجام بہت اہم تھا ۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جس طرح ترکی کے حصے بخرے کر کے بندر بانٹ کی گئی ۔ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے درد اور اذیت کا باعث تھی ۔اور اس جنگ کے خاتمے کے بعد ہی ہندوستان کے اندر انتہا پسند تنظیموں کا اثر ورسوخ بڑھتا چلا گیا ۔جو مسلمانوں سے مفاہمت کی بجائے مخاصمت کی روش پر عمل پیرا تھیں ۔سیاسی جماعتیں سیاسی داؤ پیچ سے اس مسئلے کے حل میں کوشاں تھیں ۔علامہ اقبال اپنی اس فکر کو اشعار کی زبان میں مجلسوں میں بیان کرتے ۔ اور قوم کے اندر نئی و ولولہ کو پیدا کرنے کی تحریک بنے ۔ ۔شعور کی بیداری اور تحریکوں کے آغاز نے قوم میں جو نئی روح پھونکی ۔ تو قومیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرتی چلی گئیں ۔ جوں جوں منزل قریب آتی گئی فاصلے بڑھتے چلے گئے اور راستے جدا ہوتے چلے گئے ۔علامہ صاحب کی شاعری میں وہ تمام اثرات جو ان کی دلی کیفیت کے غماز تھے نمایاں نظر آتے ہیں ۔بلاد اسلامیہ علامہ اقبال کی وہ نظم ہے کہ جس میں انہوں نے نہایت خوبصورت پیرائے میں پرچم اسلامی کی سر بلندی کی داستان بیان کر دی اور ان کا مکہ معظمہ و مدینہ منورہ سمیت اسلام سے عقیدت عشق کا اظہار پڑھنے کے لائق ہے۔سرزميں دلی کی مسجود دل غم ديدہ ہےذرے ذرے ميں لہو اسلاف کا خوابيدہ ہےپاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کيونکر زميںخانقاہ عظمت اسلام ہے يہ سرزميںہے زمين قرطبہ بھی ديدہء مسلم کا نورظلمت مغرب ميں جو روشن تھی مثل شمع طورمسلم ثقافت و تہذیب کی بدولت عالم دنیا میں عَلم اسلام کی سر بلندی کا ذکر بار بار کرتے ہیں اور گورستان شاہی میں بادشاہت کے متعلق ان کا انداز کلام کیا خوب ہے۔خواب گہ شاہوں کی ہے يہ منزل حسرت فزاديدہء عبرت! خراج اشک گلگوں کر اداہے ہزاروں قافلوں سے آشنا يہ رہ گزرچشم کوہ نور نے ديکھے ہيں کتنے تاجوراس نشاط آباد ميں گو عيش بے اندازہ ہےايک غم ، يعنی غم ملت ہميشہ تازہ ہےدہر کو ديتے ہيں موتی ديدہء گرياں کے ہمآخری بادل ہيں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہمہيں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش ميںبرق ابھی باقی ہے اس کے سينہء خاموش ميںعلامہ اقبال نے اپنی ابتدائی شاعری میں ترانہء ہندی لکھا تھا مگر برصغیر کی بدلتی سیاسی صورتحال میں ان کی شاعری میں مسلم قومیت کا رنگ نمایاں ہوتا چلا گیا ۔ جب وہ 1908 میں یورپ سے لوٹے تو ہندوستان میں تقسیم بنگال کو لے کر ہندوؤں نے واویلہ مچارکھا تھا کیونکہ مسلم اکثریتی مشرقی بنگال ( موجودہ :بنگلہ دیش) صوبہ بننے سے مسلم ترقی اور اکثریتی صوبہ ہندو سے برداشت نہیں ہو رہاتھا ۔ اور آخر کار گورا حکومت نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے اور 1911 میں تنسیخ تقسیم بنگال ہو گئی ۔ پھر ان کا رحجان شاعری میں ہندوستان کے ساتھ مسلمان کی طرف بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔ جیسے ان کا یہ ترانہ ملی ملاحظہ فرمائیں ۔چين و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارامسلم ہيں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہماراتوحيد کی امانت سينوں ميں ہے ہمارےآساں نہيں مٹانا نام و نشاں ہمارایہ وہ دور ہے جب ان کی شاعری میں انسانیت ناطے اشعار کے کہنے کا مزاج بدل چکا تھا ۔ہندوستان کومسلم اسلاف کا امین قرار دیتے تھے ۔ان کے نزدیک بادشاہت کے خاتمے سے ہندوستان فتح ہوا تھا مسلمان نہیں ۔ اسی فکر کو انہوں نے جگانے کی کوشش کی ۔ جو بار بار اشعار کی صورت میں مسلم قوم میں اس جزبہ کو پیدا کرنے کا سبب ہو ئی۔مثلا ان کے کلام وطنيت (يعنی وطن بحيثيت ايک سياسی تصور کے( میں ان کا اسلوب بیان قومیت کی تعریف یوں کرتا ہے ۔گفتار سياست ميں وطن اور ہی کچھ ہےارشاد نبوت ميں وطن اور ہی کچھ ہےاقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسی سےتسخير ہے مقصود تجارت تو اسی سےخالی ہے صداقت سے سياست تو اسی سےکمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سےاقوام ميں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سےقوميت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سےمسلمان قوم جس مشکل کا شکار تھی ۔طاقت کا توازن بگڑنے سے حاکم محکومی کے اس مقام پر جا پہنچے جہاں انہیں معاشی ومعاشرتی نا ہموار سماج کے ساتھ ساتھ غم روزگار کے بھی لالے تھے ۔ کئی دہاہیوں سے انہیں انگریزی تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا جارہا تھا ۔ انگریز بہادر کے ساتھ ساتھ ہندو صدیاں محکومی کا بدلہ انگریز کے کندھوں پر چڑھ کر مسلمانو ں سے لینا چاہتے تھے ۔ علامہ اقبال کا شکوہ بھی آرزدہ دل مسلمان کی پکار تھی ۔کيوں زياں کار بنوں ، سود فراموش رہوںفکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوںنالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوںہم نوا ميں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوںہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہمقصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہماے خدا! شکوہء ارباب وفا بھی سن لےخوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لےتھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قديمپھول تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھی شميمجسٹس جاوید اقبال اپنی کتاب میں والد محترم کے متعلق لکھتے ہیں کہ علامہ صاحب جب واپس لوٹے تو انہیں ابتدا میں یورپ میں گزارے گئے اپنے دن یاد آتے رہے ۔جدید تعلیم سے آراستہ شاعری میں کہنہ مشق اقبال اس وقت کی سیاست کے لئے انتہائی موضوع اوصاف کے مالک تھے ۔مگر پرواز کی رغبت نہیں تھی تو خود کو کچھ اس انداز میں نصيحت فرماتے ہیں ۔ميں نے اقبال سے از راہ نصيحت يہ کہاعامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نمازتو بھی ہے شيوہ ارباب ريا ميں کاملدل ميں لندن کی ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجازجتنے اوصاف ہيں ليڈر کے ، وہ ہيں تجھ ميں سبھیتجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شريک تگ و تازغم صياد نہيں ، اور پر و بال بھی ہيںپھر سبب کيا ہے ، نہيں تجھ کو دماغ پروازمسلمان نوجوان جس دور سے گزر رہے تھے وہ انہیں جدید دنیا سے روشناس کرانے میں ایک اہم سمت چل رہا تھا ۔مشینی ترقی سے معاشرتی قدریں اکثر کمزور پڑ جاتی ہیں ۔اور یہی اس دور کا خاصہ تھا کہ نوجوانوں میں حقوق آزادی کی اُمنگ کی بجائے عیش ترنگ کی کیفیت طاری تھی ۔ جسے جنجھوڑنے کی ضرورت تھی ۔ علامہ صاحب نے خطاب بہ جوانان اسلام میں اسی پیغام کو باور کروایا ۔کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کيا تو نےوہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تاراتجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميںکچل ڈالا تھا جس نے پاؤں ميں تاج سر داراتجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہيں سکتیکہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سےاراگنوا دی ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائی تھیثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارااس کے باوجود کہ حالات مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں تھے وہ مسلمانوں کے استقلال و نیت خلوص پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے کلام مسلم (جون1912ء( میں ایسے اظہار کیا ۔آشکارا ہيں مری آنکھوں پہ اسرار حياتکہہ نہيں سکتے مجھے نوميد پيکار حياتکب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھےہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھےشکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ لکھ کر تمام نقادوں ، معترضین کو لا جواب کر دیا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہےپر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتی ہےہم تو مائل بہ کرم ہيں' کوئی سائل ہی نہيںراہ دکھلائيں کسے' رہر و منزل ہی نہيںتربيت عام تو ہے' جوہر قابل ہی نہيںجس سے تعمير ہو آدم کی' يہ وہ گل ہی نہيںکوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيںڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں1911 میں تنسیخ بنگال نے مسلمانوں میں انتہائی مایوسی پیدا کر دی تھی ۔ انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا ۔ ایک طاقت کا شاہسوار تو ایک کوڑا تھا ۔ مسلمان بیچارگی کی تصویر بنا اچھے مستقبل کی امید بھی کھوتا جا رہا تھا ۔ایسے میں علامہ صاحب کا یہ کلام نوید صبح (1912ء) حوصلہ و ہمت بندھانے کی نوید تھا ۔آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحرمنزل ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفرمحفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوتديتی ہے ہر چيز اپنی زندگانی کا ثبوتچہچاتے ہيں پرندے پا کے پيغام حياتباندھتے ہيں پھول بھی گلشن ميں احرام حياتمسلم خوابيدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھی ہووہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھی ہوصرف قوم کوخوابیدگی سے اُ ٹھانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لئے دعا بھی نکلتی ان کے دل سے ۔يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دےجو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دےپھر وادي فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دےپھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دےمغربی دنیا کے زیر اثرنوجوان مسلمان اپنی ثقافت و تہذیب بھی بھولتے جارہے تھے۔ قوم کی قسمت کا فیصلہ نئی نسل کے ہاتھ میں تھا جنہوں نے قیادت کی ذمہ داری کندھوں پر اُٹھانی تھی اور وہی نئی تہذیب کی رعنائی کے دلدادہ ہوتے جارہے تھے وہ اپنے کلام تہذيب حاضر میں اسی نقطہ کو واضح کرتے ہیں ۔نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبيعت نےيہ رعنائی، يہ بيداری ، يہ آزادی ، يہ بے باکیتغير آگيا ايسا تدبر ميں، تخيل ميںہنسی سمجھی گئی گلشن ميں غنچوں کی جگر چاکیعلامہ اقبال مسلمانوں کو ان کے مذہب پر کاربند رہنے کو ان کی بحیثیت ملی تشخص قائم رکھنے کی بندش سمجھتے تھے ۔ مسلمانوں کا طرز حیات جدا ہے اور اسے چھوڑنے سے سارے ناطے رشتے مذہب کادھاگہ کھلنے سے ملت کےموتی بکھرنے کی مثل ہو جاتا ہے ۔ اسی پیغام کو انہوں نے اپنے کلام مذہب میں یوں بیان کیا ۔اپنی ملت پر قياس اقوام مغرب سے نہ کرخاص ہے ترکيب ميں قوم رسول ہاشمیدامن ديں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعيت کہاںاور جمعيت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئیاور پھر انہیں اس امید کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اگر وہ مذہب سے بیگانہ نہ ہوں تو ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں چھوٹا ۔اس کے باوجود کہ قوم اپنا ماضی کھو چکی ہے۔لیکن انہیں اس بات سے غرض نہیں ہونی چاہیئے کہ انہوں نے زوال کا تاریک دور دیکھا ۔ بلکہ انہیں ملت میں پرو کر رہنا ہو گا ۔اور نئی زندگی کی صبح کا انتظار کرنا ہو گا ۔ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطےکچھ واسطہ نہيں ہے اسے برگ و بار سےملت کے ساتھ رابطہء استوار رکھپيوستہ رہ شجر سے ، اميد بہار رکھ!علامہ صاحب کا یہ شعر!نالہ ہے بلبل شوريدہ ترا خام ابھیاپنے سينے ميں اسے اور ذرا تھام ابھیکبھی کبھار ایسے موقع پر پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے جہاں کسی کو یہ باور کروانا ہو کہ جناب ابھی صبر رکھیں ۔ آپ اس قابل نہیں کہ پرواز کر سکیں ابھی آپ میں مقابلہ کا دم نہیں ۔ لیکن جب میں نے اس شعر کو پورے مفہوم کے ساتھ پڑھا تو علامہ صاحب کا عشق حقیقی ابھر کر آنکھوں کے سامنے آ گیا ۔ایسے ہی نقادوں کے لئے یہ اگلا شعر!پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت انديش ہو عقلعشق ہو مصلحت انديش تو ہے خام ابھیکہیں پھر کوئی نقاد نہ آ دھمکے کہ چیلنج ہو گیا اور علامہ صاحب کو جو میں خراج تحسین پیش کر رہا ہوں وہ بحث میں بدل جائے تو واپس موضوع کی طرف آتے ہیں اور ان اشعار کو پڑھتے ہیں ۔نالہ ہے بلبل شوريدہ ترا خام ابھیاپنے سينے ميں اسے اور ذرا تھام ابھیپختہ ہوتی ہے اگر مصلحت انديش ہو عقلعشق ہو مصلحت انديش تو ہے خام ابھیبے خطر کود پڑا آتش نمردو ميں عشقعقل ہے محو تماشائے لب بام ابھیاسی طرح علامہ صاحب کا یہ شعر بھی زبان زد عام ہے اور کسی پر طنز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔خاص کر اگر کبھی کوئی اچھا کام کی نیت کرے تو کہا جاتا ہے ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کيا ملے گا نماز ميںلیکن اگر پڑھتے جائیں تو انسان خود پڑھنے پڑ جاتا ہے کہ علامہ صاحب بہت بڑی بات کتنی آسانی سے کیسے کہہ گئے ۔ کہ پڑھتے جائیں تو مفہوم کیا سے کیا ہو جاتا ہے ۔کبھی اے حقيقت منتظر نظر لباس مجاز ميںکہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہيں مری جبين نياز ميںنہ کہيں جہاں ميں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملیمرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز ميںنہ وہ عشق ميں رہيں گرمياں،نہ وہ حسن ميں رہيں شوخياںنہ وہ غزنوی ميں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف اياز ميںجو ميں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زميں سے آنے لگی صداترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کيا ملے گا نماز ميںعقل میں تعبیر و تنقید تو دل سے عشق کا معاملہ قرار دیا جاتا ہے لیکن عشق حقیقی میں اظہار سے زیادہ اعمال کی بنیاد پر روح عمل سے آبیاری کی ضرورت ہوتی ہے جسے علامہ صاحب کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں ۔گرچہ تو زندانی اسباب ہےقلب کو ليکن ذرا آزاد رکھعقل کو تنقيد سے فرصت نہيںعشق پر اعمال کی بنياد رکھ
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment