Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Tuesday, 19 April 2016

))))Vu & Company(((( توحید .......تعظیم اور عبادت کا مفہوم حصّہ چہارم ...تعظیم کی اَقسام. .... (حصہ چہارم )

​​.تعظیم کی اَقسام. .... (حصہ  چہارم )



حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی عمل سے پہلے پیش قدمی نہ کریں۔
اپنے آپ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مقدم نہ رکھیں۔
یہ بنیادی نکتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس امر کا متقاضی تھا کہ وہ اپنے ہر عمل کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے مربوط کریں کہ رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غائت درجہ تعظیم بجا لانا دراصل اللہ ل کی تعظیم بجا لانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام درحقیقت اللہ تعالیٰ کا ادب و احترام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اللہگ کی اطاعت ہے۔ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوئی کے تصور کو ختم کرنے کے لئے اللہ ل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اپنی رضا قرار دیا اور تمام امور اور معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا قائم مقام اور نائب بنایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک طرف اللہ تعالیٰ سے قرآن کا نور لیتے ہیں تو دوسری طرف مخلوق کو پہنچاتے ہیں۔ صرف ایک بات میں استثنیٰ رکھا گیا ہے کہ کسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی باقی تمام امور میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دوئی نہیں۔ اس نکتے کی وضاحت شیخ ابنِ تیمیہ نے بھی کی ہے جس کا ذکر ذیل میں آ رہا ہے۔

تعظیمِ خداوندی اور تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقتِ واحدہ ہیں

نصوصِ قرآنی سے ثابت ہے کہ جو کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حرمتی کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بے حرمتی کرتا ہے، جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے اور جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آزردہ کرتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کو آزردہ کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے سے اللہ رب العزت کو اذیت پہنچتی ہے۔ قابل ِ غور بات یہ ہے کہ اذیت دینے سے جسمانی اور ذہنی تکلیف توحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچتی ہے لیکن اللہ جل شانہ تو جسمانیت سے پاک ہے اسے کوئی کیسے کوئی تکلیف پہنچا سکتا ہے؟ پس اس کا یہ فرمانا کہ اگر تم میرے پیغمبر کو تکلیف دیتے ہو تو گویامجھے تکلیف دیتے ہو، کا معنی اس کے غضب اور ناراضگی کو دعوت دینا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًاo

''بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہےo''

(1) الاحزاب، 33: 57

اس آیت ِکریمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت اور بے ادبی پر اس قدر غضب کا اظہار دراصل اﷲ تعالیٰ کی اپنے محبوب سے محبت کی دلیل ہے۔

قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ایک ہی نوعیت کا اعلان فرمایا ہے جس میں اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دونوں حقوق برابر ہیں اور ان دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہے۔ یہ دونوں حقوق، حقوق اللہ ہیں۔ علامہ ابنِ تیمیہ کے نزدیک اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ اس آیت کے ذیل میں انہوں نے بجا طور پر لکھا ہے:

وجعل شقاق اﷲ ورسوله ومحادة اﷲ ورسوله وأذی اﷲ ورسوله ومعصية اﷲ ورسوله شيئًا واحدًا.

''اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت و اذیت اور معصیت و نافرمانی کو (قرآن حکیم میں) ایک ہی چیز قرار دیا گیا ہے۔''

(1) ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 40، 41

بعد ازاں علامہ ابنِ تیمیہ نے اپنے اس مؤقف کی تائید میں درج آیاتِ قرآنی کا بالترتیب تذکرہ کیاہے:

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَآقُّواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَمَن يُشَاقِقِ اللّهَ وَرَسُولَهُ {الانفال، 8: 13}
إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ {المجادلہ، 58: 20}
أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللّهَ وَرَسُولَهُ {التوبہ، 9: 63}
وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ {النسائ، 4: 14}
علامہ ابنِ تیمیہ کا یہ بیان اس امر پر دلالت کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم دراصل پیغمبر اعظم و آخر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ہے اور یہ دونوں تعظیمیں در حقیقت ایک ہی نوعیت کی حامل ہیں۔ حقیقتِ واحدہ ہونے کے ناطے تعظیمِ خداوندی اور تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی فرق نہیں۔وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ د کے حقوق کی ترتیب ظاہر کرنے کے لئے مزید لکھتے ہیں:

وفی هذا وغيره بيانٌ لتلازم الحقين، وأن جهة حرمة اﷲ تعالی ورسوله جهة واحدة، فمن أذی الرسول فقد أذی اﷲ، ومن أطاعه فقد أطاع اﷲ.

''مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ جل مجدہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق باہم لازم و ملزوم ہیں نیز یہ کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کی جہت ایک ہی ہے لہٰذا جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دی اس نے اﷲ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کی۔''

(1) ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 41

بعض لوگوں کا اصرار ہوتا ہے کہ وہ وسیلے اور ذریعے کے قائل نہیں۔ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تعلق چاہتے ہیں جب کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس لیے مبعوث کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا پیغام بذریعہ وحی نازل ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ پیغام آگے نوعِ انسانی تک پہنچائیں۔ گویا رسالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فریضہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈیوٹی تھی سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد فقط اللہ تعالیٰ کے پیغام کو انسانیت تک پہنچانا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول کے منصب پر فائز کیا گیا لیکن علامہ ابنِ تیمیہ کا نقطئہ نظر ان لوگوں سے مختلف ہے، وہ لکھتے ہیں:

لأن الأمة لا يصلون ما بينهم وبين ربّهم إلا بواسطة الرّسول، ليس لأحدٍ منهم طريق غيره ولا سبب سواه.

''اس لئے کہ امت کا اپنے رب سے تعلق صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے استوار ہو سکتا ہے کسی کے پاس بھی اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ یا سبب نہیں ہے۔''

(2) ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 41

ان آیات اور اس طرح کی دیگر آیات میں اﷲ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے حقوق کے باہم لازم و ملزوم ہونے کا بیان ہے۔ اﷲ رب العزت کی عزت و توقیر اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و توقیر ایک ہے اگر کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اس نے گویا اﷲ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اﷲتعالیٰ کی اطاعت کی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے نائب ہیں - علامہ ابنِ تیمیہ کا عقیدہ

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجودِ مسعود خدا اور مخلوق کے درمیان مضبوط واسطہ ہے۔ کوئی بھی شرعی امر، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ اور واسطہ کے بغیر امت تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو لوگ واسطے کو شرک کہتے ہیں انہیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰتک براہِ راست رسائی قطعاً نا ممکن ہے۔ امت تک کوئی فیض وسیلہِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر نہیں پہنچ سکتا، وہی اللہ اور مخلوق میں درمیانی واسطہ ہیں۔ علامہ ابنِ تیمیہ مزید لکھتے ہیں:

وقد أقامه اﷲ مقام نفسه فی أمرهِ ونهيه وإخباره و بيانه، فلا يجوز أن يفرّقَ بين اﷲ ورسوله فی شیء من هذه الأمور.

''بے شک اﷲ تعالیٰ نے اوامر و نواہی اور اخبار و بیان میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا قائم مقام مقرر کیا ہے اس لئے مذکورہ بالا امور میں اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین تفریق جائز نہیں۔''

(1) ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 41

اس حوالے سے علامہ ابنِ تیمیہ کہہ رہے ہیں کہ امورِ دین میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان فرق کرنا جائز نہیں۔ اگر یہ بات کہنا شرک ہے تو سب سے پہلے اس کا اطلاق علامہ ابنِ تیمیہ پر ہوتا ہے جنہوں نے اس نکتے کا استنباط و استشہاد کیا۔ اگر وہ اس کے مرتکب نہیں تو پھر امتِ مسلمہ میں کوئی بھی فرد مشرک نہیں ہوسکتا کیونکہ اس عقیدے سے آگے کوئی نہیں جاتا اور یہ بلند ترین سطح ہے جس تک کوئی گیا ہو۔

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا قائم مقام اور نائب بنایا ہے تو کیا کسی اور کی طرف سے کسی قسم کی دوئی یا ثنویت پیدا کرنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ ان امور میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان کوئی فرق اور دوئی نہیں۔ دونوں میں یکتائیت پائی جاتی ہے اور کوئی ان میں دوئی نہیں پیدا کر سکتا، سوائے اس فرق کے کہ اﷲ رب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے عبد ہیں، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ کا نائب سمجھنا شرک نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دراصل ایک ایسے اونچے مقام پر فائز کر دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت کے مطابق تفویض کردہ اختیار کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے مخلوقِ انسانی تک پہنچانا مقصود تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کے نائب اور قائم مقام ہیں۔

ذکرِ الٰہی کی قبولیت بھی تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشروط ہے

جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر گزر چکا ہے کہ قرآن حکیم نے سورۃ الفتح کی آیت میں تعظیم و تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اپنی تسبیح سے پہلے فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان کی ترجیحی ترتیب کو بدل دیا ہے۔ اس کا اپنے بندوں سے ارشاد ہے کہ ''لِتُوْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهِ'' اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا کام اللہ تعالیٰ کی بزرگی و تقدیس بیان کرنے سے بھی پہلے اس کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور توقیر کا عَلَم بلند کرنا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کے بغیر اﷲ تعالیٰ کی تسبیح بھی قبول نہیں۔ یہی ایمان کی پرکھ کا معیار اور کسوٹی ہے جس پر پورا اترنے سے عبادت، ذکر و فکر اور تسبیح و تقدیس قابلِ قبول ہوگی۔

یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ کو ہمارے سجود اور تسبیحات کی ضرورت نہیں، اصلاً اسے اپنی بندگی مطلوب ہے اور اس کی بندگی تقاضا کرتی ہے کہ جس ذاتِ رسالت نے تمہیں مجھ سے شناسا کرایا پہلے اس کی تعظیم و تکریم کرو۔ لہٰذا تعظیمِ رسالت ہوگی تو عبادت بھی قبول ہو گی، تکریمِ رسالت ہو گی تو ذکر و تسبیح بھی وجہِ شرف ہوگی ورنہ یہ سب منافقانہ اور کافرانہ عمل قرار پائے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے تو اپنے نبی سیدنا آدم ں کی عدمِ تعظیم کی وجہ سے بڑے عابد ابلیس کو بھی راندہِ درگاہ ٹھہرایا تھا ورنہ ابلیس نے بارگاہِ الٰہی میں نبی کی اہانت اور گستاخی کے علاوہ کوئی اور غلطی نہیں کی تھی۔ اپنے تئیں اس نے توحیدِ خالص کا مظاہرہ کیا تھا کہ میں توحید پرست ہوں اس لئے آدم (ں) کو سجدہ میری عبادت و بندگی کو داغدار کر دے گا۔ یہ تو آدم ں کی عدمِ تعظیم پر ملنے والی سزا کامعاملہ ہے جس نے ایک مقرب اور عابد کو شیطان اور ابلیس بنا دیا۔ جبکہ ہم تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی جو اﷲ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ تعظیم و تکریم کی مستحق ہے اس کے ساتھ تعلق کی بات کر رہے ہیں۔

قارئین خود سوچ سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے عزازیل جیسے عبادت گزار ناری فرشتے کو حضرت آدم ں کی بے ادبی کی بناء پر شیطان بنا دیا تو اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت اسے کس قدر ناپسند ہوگی؟ اسی طرح یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم اﷲ تعالیٰ کو کس قدر عزیز ہوگی۔ جن کے ایمان و نصرت کے لئے عالمِ ارواح میں انبیاء علیہم السلام کی ارواحِ مقدسہ سے اﷲ تعالیٰ نے پختہ وعدہ لیا تھا۔ اب اگر کوئی اس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر سے روگردانی کرتے ہوئے تکبرانہ رویہ اختیار کرے گا تو اس کا حشر بھی نہ صرف ابلیس کے ساتھ ہوگا بلکہ اس سے کہیں بدتر ہوگا۔

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment