Nice
On 28 Apr 2016 6:08 pm, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
-- --کلام اقبال تاریخی ادوار کے آئینہ میں (حصہ اول(تحریر : محمودالحقانسانی زندگی کے ادوار قوس و قزح کے رنگوں کی مانند ترتیب میں ایک کے بعد ایک دوسرا رنگ دکھاتا ہے ۔زندگی کی ترتیب بھی قوس و قزح کے رنگو ں کی طرح بدلتی نہیں ۔ بچپن ، لڑکپن ، ادھیڑ پن اور بڑھاپا۔ ہر انسان میں زندگی کے ادوار اسی ترتیب میں ہیں ۔ ہر رنگ کی اپنی جاذبیت اور خوبصورتی رکھتا ۔ بڑھاپا جوانی میں اچھا نہیں لگتا ۔تو جوانی میں بچپنا بھی اچھا نہیں لگتا ۔ وقت سے پہلے شعور کا ادراک بے باک پن دیتا ہے ۔کھانا دیگوں میں تیار ، پلیٹ میں کھایا تو پانی سے بہایا جاتا ہے ۔دودھ کے دانت ٹوٹ جائیں تو نئے طاقت بھر لاتے ہیں ۔اگر طاقت کے ٹوٹ جائیں تو کمزوری میں چھپاتے ہیں ۔ زندگی میں رنگ رلیاں ہیں مگر رنگ رلیوں میں زندگی کے رنگ نہیں ۔انسان کے ادوار سوچ کی تبدیلی کی صورت میں نمایا ں ہوتے ہیں ۔ جو اس کی زندگی کو الگ زاوئے سے دکھاتے ہیں ۔زندگی میں سوچ میں پیدا ہوتے کیونکر کے سوال رفتہ رفتہ بدلتے جاتے ہیں ۔ جو ں جوں حالات بدلتے ہیں ایک نیا کیونکر پھر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے ۔سالوں ایک سوال کے جواب پانے میں گزر جاتے ہیں ۔علامہ محمد اقبال کی زندگی کے ادوار ان کی شاعری کے ادوار سے منسلک نظر آتے ہیں۔سیاسی اور معاشرتی ادوار میں تغیر و تبدل سے ان کے افکار میں بھی یہ رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔شاعری کا پہلا دور 1905 تکان کی شاعری کا پہلا دور 1905 تک بیان کردہ کلام پر مبنی ہے جب کہ ہندوستان میں 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی رنگون نظر بندی کے بعد ہندوستان کی سیاسی فضا قدرے غیر سیاسی رہی ۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کی تعلیمی تحریک کا شعور بیدار کرنے میں عملی لحاظ سے فعال تھی ۔ یہاں علامہ صاحب کی شاعری کا روائتی انداز بھی کچھ یوں تھا ۔تو شناسائے خراش عقدئہ مشکل نہیںاے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیںزیب محفل ہے ، شریک شورش محفل نہیںیہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیںعہد طفلی کو بھی اشعار میں قلمبند کر دیا ۔تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیےوسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیےتھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیےحرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیےعلامہ صاحب سے پہلے اردو شاعری کا انداز شاہانہ تھا ۔ شاہی محلوں میں شاعروں کی سرپرستی کی جاتی ۔تعریف و تحسین سے پزیرائی کی جاتی اور واہ واہ سے داد دی جاتی ۔ مگراردو شاعری قوم کی تربیت کے عنصر سے محروم تھی ۔صرف ایک شاعر مرزا اسد اللہ غالب اس زبوں حالی کو اپنے اشعار میں بیان کر گیا ۔ جن کے بارے میں علامہ صاحب نے ایک اچھوتے انداز بیان میں خراج تحسین پیش کیا کہ لطف گویائی میں غالب کی ہمسری ممکن نہیں ۔فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہواہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجاتھا سراپا روح تو ، بزم سخن پیکر ترازیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہانطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پرمحو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پرلطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیںہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیںاس زمانہ میں انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلاً مکڑا اور مکھی ، پہاڑ اور گلہری ، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جز بنا دیا ۔کبھی بچے کی دعا کہہ گئے۔جو ہر سکول کے بچے کی زبان پر ہے ۔لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میریزندگی شمع کی صورت ہو خدایا میریکبھی ماں کا خواب بیان کر گئے ۔پرندے کی فریاد تو کبھی شمع اور پروانہ کی کہانی ان کے قلم سے بیان ہوتی رہی ۔انسان اور بزم قدرت کو انہوں نے اپنی تخیل فکر سے شاعری میں ڈھال دیا ۔صبح خورشید درخشاں کو جو دیکھا میں نےبزم معمورہ ہستی سے یہ پوچھا میں نےصبح اک گیت سراپا ہے تری سطوت کازیر خورشید نشاں تک بھی نہیں ظلمت کامیں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگرجل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیونکر؟نور سے دور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میںکیوں سیہ روز ، سیہ بخت ، سیہ کار ہوں میں؟شاعری کا یہ دور علامہ صاحب کی قدرت سے وابستگی کا نقطہ آغاز تھا ۔رخصت اے بزم جہاں ، چاند ، سرگزشتہ آدم ، نالاں ء فراق اور تصویر درد کا اظہار خوبصورت انداز میں کیا ۔اسی انسانیت کے ناطے ترانہء ہندی لکھا ۔ جو آج بھی ہندوستان کی فضاؤں میں گونجتا ہے ۔ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستان ہمارااپنی شاعری کے بالکل ابتدائی زمانہ میں اقبال کی توجہ غزل گوئی کی جانب تھی اور ان غزلوں میں رسمی اور روایتی مضامین ہی باندھے جاتے تھے۔علامہ صاحب کا یہی دور ہے جب انہوں نے مخصوص روائتی شاعرانہ انداز میں غزلیات لکھیں ۔مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میںتو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھاس دور کی یادگار کے طور وہ مشہور غزل بھی ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں۔نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھیمگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیاتھیتمہارے پیامی نے سب راز کھولاخطا اس میں بندے کی سرکار کیاتھیلیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی جستجو تلاش میں سرگرداں تھے ۔اور دل کی اصل کیفیت کی طرف رغبت بار بار جا رہی تھی۔اس لئے تو لکھتے ہیں ۔جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میںوہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میںحقیقت اپنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنیمکاں نکلا ہمارے خانہ دل کے مکینوں میںتمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کینہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میںشاعری کا دوسرا دور 1905 سے 1908 تکان کی شاعری کا دوسرا دور 1905 سے 1908 تک ہے ۔ جو انہوں نے یورپ میں اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر گزارا ۔اور مغربی دنیا کو گہری مطالعاتی نظر سے کریدا ۔ اس دور کی شاعری میں یورپ کے مشاہدات کا عکس واضح نظر آتا ہےاور دوسری طرف ہندوستان سیاسی و معاشرتی لحاظ سے کن راہوں پر چل رہا تھا کا مطالعہ بھی بہت ضروری ہے ۔ 1905 میں تقسیم بنگال ہوئی ۔ کانگریس اور ہندوؤں کا مخالفانہ رد عمل جس کے نتیجہ میں 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام اور مسلمانوں میں سیاسی تحفظ کے شعور کی بیداری کا دور دیکھنے میں آتا ہے ۔مسلمانوں کی تحریک میں مطالبات حقوق میں شدت اور تقاضا سے اجتناب برتا گیا ۔بلکہ مفاہمتی انداز اپنایا گیا ۔ضد کی بنیا د پر سیاسی تنظیم کی تشکیل نو نہیں کی گئی ۔اور علامہ صاحب کی شاعری کا یہ دور بھی مسلمانوں کے اندر اس تحریک کو پیدا کرنے کے لئے شدت کا اظہار نہیں کرتا ۔ لیکن وہ ملک کی نجات مشرقی افکار و نظریات میں پاتے تھے ۔ ہم کلامی میں علامہ صاحب میں رومانیت کاپہلو بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ یہی وہ دور ہے جب ان کا زاویہ نگاہ تبدیل ہوا اور ان کی شاعری میں پیغامیہ رنگ دیکھنے میں آتا ہے ۔مغربی تہذیب بےزاری کا اظہار و اشگاف الفاظ میں کرتے ہیں۔دیار ِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہےکھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زر اب کم عیار ہوگاتمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گیجو شاخ نازک پر بنے گا آشیانہ ناپا ئیدار ہوگامغربی معاشرے پر کچھ ایسے بھی روشنی ڈالی ۔عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سےستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سےتڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکیزگی پائیحرارت لی نفسہائے مسیح ابن مریم سےان کے اظہار خیال کا یہ انداز بھی نرالا ہے ۔کہیں سامان مسرت، کہیں ساز غم ہےکہیں گوہر ہے ، کہیں اشک ، کہیں شبنم ہےلیکن رومانیت کے اظہار میں ان کی عشق بیان کی صفت اسی روش پرتھی جو دل کی کیفیت پر بھاری تھی ۔ پیام عشق میں یوں کلام کرتےہیں ۔سن اے طلب گار درد پہلو! میں ناز ہوں ، تو نیاز ہو جامیں غزنوی سومنات دل کا ، تو سراپا ایاز ہو جانہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سےتمام ساماں ہے تیرے سینے میں ، تو بھی آئینہ ساز ہو جاغرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیراجہاں کا فرض قدیم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جازمانہ دیکھے گا میں ان کا رنگ جدا نظر آتا ہے ۔دل کی کیفیت میں طوفان ہیں جس کی نشاندہی وہ اپنی خموشی سے کرتے ہیں ۔زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کامری خموشی نہیں ہے ، گویا مزار ہے حرف آرزو کاکوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمناالہی تیرا جہان کیا ہے نگار خانہ ہے آرزو کامغربی تہذیب کی ناپائیداری کے ادراک کے بعداقبال اسلامی نظریہ فکر کی جانب راغب ہوئے۔اسی تغیر فکر نے ان کے اندر ملتِ اسلامیہ کی خدمت کا جذبہ بیدار کیا۔ اس جذبے کی عکاسی ان کی نظم "شیخ عبدالقادر کے نام " میں ہوتی ہے۔ جہاں وہ لکھتے ہیں۔اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق ِ خاور پربزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیںشمع کی طرح جئیں بزم گہ عالم میںخود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment