Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Sunday, 3 April 2016

))))Vu & Company(((( عقیدہ توحید کے سات ارکان (حصّہ سوم )


 اقرارِ توحید سے قبل صدقِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اقرار

صحیح بخاری میں آیت کریمہ۔ (وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ) (1) (اور (اے حبیب مکرم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرایئے۔) کے شانِ نزول کے تحت بیان ہوا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہِ صفا پر اہلِ مکہ میں سے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے، جو تم پر حملہ کر دے گا تو کیا تم مان لو گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں نے کہا : جی ہاں! ہم مان لیں گے۔

(1) الشعراء، 26 : 214

گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صداقت کا اقرار اعلانِ توحید سے پہلے کروا لیا تاکہ انکار کرنے والوں پر حجت قائم رہے اور اقرار کرنے والوں کی نظر میں بھی توحید پر ایمان لانے سے قبل ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی اہمیت و اوّلیت واضح ہو جائے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیسے مان لو گے؟ تم نے تو وہ لشکر دیکھا ہی نہیں؟ انہوں نے کہا : آپ سچے ہیں، آپ نے کبھی غلط بات نہیں کی، آپ جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں، اس وجہ سے آپ پر ہمارا غیر متزلزل اعتماد ہے اس لیے آپ جو کچھ فرما رہے ہیں اس کو مان لیں گے۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم مجھے واقعی قابلِ اعتماد (trustworthy) سمجھتے ہو اور مجھ پر بن دیکھے بھروسہ (blind faith) رکھتے ہو تو پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ اﷲ ایک ہے، اور اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے، اس کی وحدانیت اور ایک ہونے پر ایمان لے آؤ۔ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات قبول کر لی وہ مؤمن ہو گئے اور جنہوں نے انکار کردیا وہ کافر ہو گئے۔ اس موقع پر ابولہب نے غضبناک ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے : اے محمد! (معاذ اﷲ! استغفر اﷲ!) تم برباد ہو جاؤ، تباہ ہو جاؤ، کیا اس بات کے لیے ہمیں جمع کیا تھا؟ اس کی اس دریدہ دہنی اور گستاخی کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پوری سورت نازل فرما دی اور انہی الفاظ کے ساتھ اس کی مذمت کر دی، فرمایا :

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّO

''ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے)o''

اللهب، 111 : 1

11۔ مخبر کا نام رسول اور خبر کا نام توحید ہے

کوہِ صفاء پر پہلی دعوتِ توحید کا یہ سارا منظرنامہ (scenario) اس بات پر شاہدِ عادل ہے کہ ایمان کے باب میں سب سے پہلے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قابلِ اعتماد ہونے پر ایمان لانا ناگزیر ہے۔ اس لئے لوگوں کو اﷲ کی وحدانیت کی خبر دینے سے پہلے وسیلۂ رسالت اور واسطۂ نبوت پر ایمان لانے کے لئے کہا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلمۂ توحید کا اعلان کروایا گیا چنانچہ جب ان کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور اعتماد قائم ہو گیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ کے ایک ہونے کی خبر (divine news) انہیں پہنچائی۔ اس سے یہ نکتہ بھی کھلا کہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ، وسیلہ اور واسطہ سے اﷲ کو ایک مان لیا وہ مؤمن ہو گئے اور جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہ مانی وہ کافر قرار پائے۔ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کے ذریعے ہی ایمان باﷲ اور عقیدۂ توحید متحقق ہوتا ہے۔ اس لئے ہر اہلِ ایمان کا عقیدہ یہی ہونا چاہئے کہ ایمان باﷲ خود وسیلۂ رسالت کا طالب اور متقاضی ہے۔

ایک ممکنہ اعتراض کا جواب

اگر کوئی طالب کے لفظ پر اعتراض کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلب ارادے کو کہتے ہیں اور یہ ارادۂ الٰہی پر موقوف ہے کہ اس نے جس کو چاہا اپنا نبی اور رسول مقرر کر دیا۔ یہی طلب ہے۔ اسی لئے وہ واسطۂ نبوت اور واسطۂ رسالت کا طالب ہوتا ہے فرق یہ ہے کہ بندہ تو اپنی طلب میں محتاج ہے لیکن اللہ محتاج نہیں، قادر ہے۔ اپنی قدرت سے انبیاء کو مقرر فرماتا رہا ہے۔ لہٰذا ہمارا عقیدۂ توحید اور ایمان باللہ کی اساس اس پر قائم ہے کہ واسطۂ نبوت و رسالت ناگزیر اور اٹل (inevitable) حقیقت ہے۔

12۔ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : عقیدۂ توحید پر قطعی شہادت ہے

قرآن مجید سے یہ بات بڑی واضحیت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ایمان باللہ اور عقیدۂ توحید بھی واسطۂِ نبوت اور وسیلۂِ رسالت کے ساتھ متحقق ہوتا ہے پھر جب مسلمان دائرہ ایمان میں داخل ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو دلائل (evidences) اللہ کی توحید کے اثبات پر قائم ہیں وہ اس عقیدے کو مزید استحکام عطا کرتے ہیں۔ توحید پر قائم کئے گئے دلائل سب کے سب ثانوی (secondry) حیثیت رکھتے ہیں یعنی وہ عقیدۂ ایمان (faith) کو مزید مضبوط (strengthen) کرنے، اس کی اعتقادی حیثیت (conviction) اور commitment کو مضبوطی و پختگی تو ضرور فراہم کرتے ہیں مگر جو حتمی، بنیادی اور قطعی شہادت ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ باقی تمام دلائل، واقعاتی دلائل (circumstantial evidences) کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ بات قانون کے طلباء اچھی طرح جانتے ہیں کہ وکیل عدالت (Court) میں جو مختلف دلائل دیتے ہیں ان کو قرائن (Circumstantial evidences) کہتے ہیں مثلاً : چور نے کسی کمرے سے چوری کی ہے مگر تالا ٹوٹا ہوا نہ ہی ہینڈل ٹوٹا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کہیں سے چابی حاصل کرکے دروازہ کھولا۔ یہ قرائن ہیں جو آپ کو ایک نتیجے تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔ بادی النظر میں جو بات بڑی ٹھوس (Solid) لگتی ہے وہ حقیقت میں اتنی بھی ٹھوس نہیں کیونکہ یہ امکان بھی ہے کہ رات گھر والے تالا لگانا ہی بھول گئے ہوں اور تالا لٹکا رہ گیا ہو، اس اثناء میں چور آیا، اس نے چوری کی، تالا لٹکایا اور چلا گیا تو پتہ چلا کہ قرائن (circumstantial evidences) کو شہادتوں سے رد بھی کیا جا سکتا ہے، قرائن علم میں تیقّن اور واضحیت (clarity) میں اضافہ کرتے ہیں مگر وہ بذاتِ خود عقیدۂِ توحید اور ایمان کی اساس نہیں بن سکتے۔

شہادت کی دوسری قسم قطعی شہادت (conclusive evidence) ہے اس کو قانونی اصطلاح میں براہِ راست شہادت (Direct evidence) بھی کہتے ہیں جبکہ وہ شہادت جو قرائن پر مبنی ہو بالواسطہ شہادت کہلاتی ہے۔ اللہ رب العزت کی توحید اور اس کے وجود پر بلاواسطہ، حتمی اور قطعی شہادت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے اس لئے اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًاO

''اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ذاتِ حق عزوجل کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نور (بھی) اتار دیا ہےo''

النساء، 4 : 174

وہ دلائل جو قطعی، حتمی اور ناقابلِ تردید ہوں انہیں برہان کہتے ہیں۔ عربی لغت میں برہان کا معنی 'أَوْکَدُ الْأَدِلَّة، ہے۔ یعنی دلائل میں سب سے قوی ترین دلیل جو رد نہ کی جا سکے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اللہ رب العزت کی ذاتِ اقدس اور عقیدۂ توحید پر قطعی شہادت اور سب سے زیادہ مضبوط دلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

13۔ توحید پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی اصالۃً ہے

اﷲ تعالیٰ کے ایک ہونے کی اصل گواہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی۔ اس پر پوری امت بغیر دیکھے گواہ بن گئی۔ کیوں؟ اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا کہ اللہ ایک ہے تو موقع کے گواہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے اور ساری امت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعتماد پر گواہ بنی ہے۔ لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نائب (Vicegerent) ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ شہادت کی دو قسمیں ہیں :

شہادتِ اصالت
شہادتِ نیابت
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ'' میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے تو یہ شہادت اصالۃً ہے۔ جبکہ حضور کی امت کی گواہی کو نیابۃً شہادت کا درجہ حاصل ہو گیا۔

14۔ توحید پر امت کی گواہی نیابۃً ہے

ہم جب کلمہ پڑھتے ہیں تو گویا اللہ رب العزت کے ایک ہونے کی گواہی دیتے ہیں کہ ''أشْهَدُ أنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ'' میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے یعنی

I do give witness to Oneness of Almighty Allah

یہاں کوئی پوچھے کہ آپ کس طرح یہ گواہی دیتے ہیں جبکہ آپ نے تو دیکھا ہی نہیں۔ دیکھے بغیر گواہی کیسے ہو سکتی ہے؟ مثلاً : اگر کوئی قتل ہوا ہو اور آپ موقع واردات پر موجود نہ ہوں اور صرف اخبار میں پڑھا ہو یا کسی سے سنا ہو کہ فلاں نے اس کو قتل کیا ہے اور آپ عدالت میں پیش ہوجائیں اور کہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ فلاں کو فلاں نے قتل کیا ہے تو آپ کی اس بات کو عدالت نہیں مانے گی بلکہ عدالت آپ سے سوال کرے گی کہ کیا آپ موقع پر موجود تھے؟ کیا آپ نے اپنی آنکھوں سے قتل ہوتے دیکھا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ نہیں تو عدالت آپ کی شہادت رد کر دے گی۔ کیونکہ گواہ کا موقع پر موجود ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح جب آپ نے توحید کا مشاہدہ کیا ہی نہیں، اللہ کو دیکھا ہی نہیں بلکہ اس کے بارے میں صرف سنا ہے تو یہ آپ کا اعلان، شہادت کیسے بن گیا؟ قانون کی زبان میں یہ ساری کی ساری گواہی نیابۃً ہے۔ نیابت کا مطلب ہے کسی کا نائب مختار بننا اور کسی کے تفویض کردہ اختیار کو استعمال کرنا۔

15۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاہدِ خالق و مخلوق ہیں

اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روز قیامت اعمال و احوالِ امت کا گواہ بنایا، یوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خالق کائنات اللہ رب العزت اور اس کی مخلوق کے گواہ بن گئے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاO

''بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لئے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo''

الفتح، 48 : 8

اور یہ کتنی بڑی بات ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے امت محمدی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی بنا پر تمام سابقہ امم پر گواہ بن گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ.

''اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوعِ انسان پر گواہ ہو جاؤ۔''

الحج، 22 : 78

16۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاہدِ انبیاء و امم ہیں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتماد کر کے جب ہم نے توحیدِ باری تعالیٰ کی گواہی دی تو ہمارا یہ اعلان (Declaration)، شہادت بن گیا جس کے بارے میں قرآن مجید نے کہا :

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاO

''پھر اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo''

النساء، 4 : 41

اس آیتِ کریمہ میں روزِ قیامت کے اس منظر کی نشان دہی فرمائی جب ہر امت سے نبی لایا جائے گا جو اپنی امت پر شہید ہو گا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آدمں سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی کی شہادت پر گواہ ہوں گے۔ گویا تمام انبیاء علیہم السلام کی شہادت پر بھی قطعیّت (finality) کی مہر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی ہو گی جو رد نہیں ہو سکتی، اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـؤُلاَءِ.

''اور (یہ) وہ دن ہو گا (جب) ہم ہر امت میں انہی میں سے خود ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو ان سب (امتوں اور پیغمبروں) پر گواہ بنا کر لائیں گے۔''

النحل، 16 : 89

گویا ہر نبی شاہد الامت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاہدِ انبیاء و امم ہیں۔ یعنی ہر نبی صرف اپنی امت پر گواہ ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں اور امتوں پر گواہ ہیں۔ امتِ محمدی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی بناء پر سابقہ تمام امتوں پر گواہ بن گئی۔

17۔ توحید کے باب میں واسطۂِ نبوت کا انکار کفر ہے

یہاں ایمان کے باب میں اور عقیدۂ توحید کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے اور وسیلے سے ایمان کا متحقق ہونا واضح ہے اور یہ ثابت ہو گیا کہ ایمان کی بنیاد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور وسیلہ پر ہے جس پر اعتماد کر کے اگر اللہ کو ایک مانا جائے تو عقیدۂ توحید وجود میں آتا ہے۔ یہاں سے توحید کا تصور (concept) اپنی واضح شکل میں اجاگر ہوتا ہے لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ توحید کے لئے کسی وسیلہ اور واسطہ کی ضرورت نہیں ہے، انہیں جان لینا چاہئے کہ اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اور وسیلہ درمیان سے ہٹا دیا جائے تو اس کے بعد کوئی مسلمان مسلمان ہی نہیں رہتا خواہ ظاہراً اس کے سارے اعمال مسلمانوں والے ہی کیوں نہ ہوں اور وہ دن رات توحید کا اقرار کرتا پھرتا ہو۔

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment