یہ والی پڑھی ہے یا نہیں ؟؟؟؟
2016-04-11 18:16 GMT+05:00 Sweet Poison <mc090410137@gmail.com>:
Choti post ho to parh laita ho bari ho to adhi parh k central point lay laita ho
On 11 Apr 2016 3:24 pm, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:--پڑھتے بھی ہو یار صرف نکے لکھ دیتے ہو--2016-04-11 15:19 GMT+05:00 Sweet Poison <mc090410137@gmail.com>:Nice
On 11 Apr 2016 1:58 pm, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:----تعظیم کی اَقسام حصّہ اولقرآن حکیم کی متعدد آیات سے ثابت ہے کہ اللہ رب العزت نے صحابہ کرامث کو تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب سکھائے۔ مثلاً یہ بتایا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا ہو تو ایسے نہ بلاؤ جیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو بلکہ اس سے اعلیٰ تعظیم کے ساتھ بلایا کرو۔ گویا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم مخلوق کی حد سے اعلیٰ و ارفع اور خالق کی حد سے نیچی ہو، جو آپٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِبعد اَز خدا بزرگ توئی قصہ مختصرکی آئینہ دار ہو۔ اس لحاظ سے تعظیم کی تین اقسام ہیں:تعظیمتعزیرتوقیرتعظیمتعلیماتِ اسلام کی رو سے اسلامی معاشرے میں ہر چھوٹا بڑے کی تعظیم کرتا ہے۔ اپنے بڑوں، بزرگوں کی زیادہ سے زیادہ ادب و تعظیم کرنا ایک معاشرتی تقاضا سمجھا جاتا ہے لیکن جب تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہو تو لازمی ہے کہ معمول کی تعظیم کے عام طریقے ختم ہو جائیں اور تعظیم کا بلند ترین درجہ اختیار کیا جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم از روئے قرآن واجب ہے۔ ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کرنا کفر ہے۔ سورۃ الاعراف میں اﷲ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی باقاعدہ طور پر چار خصوصیات بیان فرمائیں جو تعظیم و توقیرِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل ہیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی شرط ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo''پس جو لوگ اس(برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo''(1) الاعراف، 7: 157ایک اور آیتِ مبارکہ میں اسی مضمون کو مزید زور دے کر بیان فرمایا گیا ہے:إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاo''بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لئے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کروo''(2) الفتح، 48: 8، 9وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ کا معنی حضور رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے انتہا درجے کی تعظیم و توقیر اور حد سے زیادہ ادب و احترام ہے۔ جس کا حکم اس طرح دیا گیا ہے جیسے فرشتوں کو حضرت آدم ں کے آگے سجدہِ تعظیمی بجا لانے کا حکم دیا گیا تھا۔دوسرا اہم نکتہ اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جہاں اہلِ ایمان کو صبح شام اپنی تسبیح کی تاکید فرمائی اسی لہجے اور اسی پیرائے میں اپنے محبوب پیغمبر کی تعظیم و تکریم کا حکم فرمایا۔ گویا تعظیم و تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین میں وہی درجہ اور اہمیت ہے جو اﷲ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت کی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عبادت اﷲ تعالیٰ کے لئے ہی مختص ہے اور اس کی ادائیگی کا ایک خاص طریقہ ہے لیکن تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دائمی اور باطنی عمل ہے جس پر جملہ عبادات کی قبولیت کا انحصار ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ میں مجموعی طور پر ایمان بالرسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درج ذیل چار تقاضے بیان ہوئے ہیں:تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمتوقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنصرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماس واضح ترتیب میں ایمان کے بعد اوّلیت تعظیم و توقیر کو دی گئی ہے۔ یہ بڑا اہم اور ایمان افروز نکتہ ہے کہ نصرت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دو تقاضوں کے بعد مذکور ہیں۔ اس اُلوہی ترتیب سے یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ جو فی الحقیقت نصرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، قرآنی منشاء کے مطابق اس وقت تک مؤثر، نتیجہ خیز اور موجبِ ثمرات نہیں بنتا جب تک پہلے دین لے کر آنے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعظیم و توقیرکے دو تعلق استوار نہ ہوجائیں۔ نصرت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کا تعلق عقائد، نظریات اور جذبات سے زیادہ اعمال و افعال کے ساتھ ہے۔ جبکہ اوّل الذکر دونوں تقاضے ایمانی کیفیت، تعلق کی نوعیت اور عقیدے کی طہارت کے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر تعظیم و توقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شجرِ ایمان کی جڑیں اور تنا ہیں جبکہ موِخر الذکر دو تقاضے اس شجر کی شاخیں اور پھل ہیں۔ ایمان کی توثیق و تصدیق تبھی ہوتی ہے جب تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایمان کو پرکھا جاتا ہے کیونکہ تعظیم، ایمان پر گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ جب تک کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اور تعظیم کو بدرجہ اتم اپنے دل میں جاگزیں نہ کرے اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔ ایمان کی تکمیل کے بعد ہی اطاعت و نصرت کی کاوشیں مقبول اور باثمر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا فرد کا اوّلین فریضہ ہے اور اس کے بعد ہر مسلمان کا پہلا فریضہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت، ادب اور تعظیم و تکریم پر مبنی انتہائی درجے کا تعلق اُستوار کرنا ہے۔تعزیرقرآن حکیم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کے بیان میں اللہ رب العزت نے جو الفاظ ارشاد فرمائے ہیں وہ بھی اپنے اندر بڑی معنویت اور جامعیت رکھتے ہیں چنانچہ حضور ں کی تعظیم کے لئے ایک لفظ تُعَزِّرُوْہُ کا بیان سورہ الفتح کی آیت نمبر 48 میں آیا ہے۔ جس کا معنی ہے کہ حضور ں کی تعظیم میں خوب مبالغہ کرو۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے عظموہ بیان نہیں ہوا تو پتہ چلا کہ وہ تعظیم جو ہم اپنے والدین، بڑے، بزرگ اور اساتذہ و مشائخ کی کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اس سے بہ درجہ ہا بڑھ کر کرنا واجب ہے یعنی عام مخلوق کے لئے تعظیم کی جو حد مقرر ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ان حدود سے بڑھ کر کی جائے تو ایمان ہے۔ فقط اتنا فرق رہے کہ ذات باری تعالیٰ معبود ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے برگزیدہ بندے۔ وہ خالق ہے اور یہ مخلوق۔ پس تعظیم کا وہ بلند درجہ جو حد عبادت سے نیچے ہو وہ تعزیر ہے جو مخلوق میں سے صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے جبکہ عبادت فقط اللہ رب العزت کا حق ہے۔ اس حق میں کوئی نبی رسول یا برگزیدہ بندہ ہرگز اس کا شریک نہیں۔
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment