Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Monday, 25 April 2016

))))Vu & Company(((( توحید .......تعظیم اور عبادت کا مفہوم حصّہ پنجم ..........(حصّہ دوم )

توحید .......تعظیم اور عبادت کا مفہوم حصّہ پنجم .......(حصّہ دوم )

) ترمذی، السنن، کتاب البرو الصلۃ عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، 4: 321، رقم: 1919

پس ثابت ہوا کہ عبادت کا مستحق فقط اللہ تبارک و تعالیٰ ہے لہٰذا کسی غیر کو عبادت کا حق دار سمجھنا یا غیر کی عبادت کرنا شرک فی العبادت ہے۔ توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں ما سوائے اللہ رب العزت کے کسی کی عبادت جائز نہیں۔ کسی کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا شریک نہیں بنایا جاسکتا۔ جبکہ کفار و مشرکین اپنے بتوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہم ان بتوں کی عبادت کر کے ان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ کفر و شرک اس اعتبار سے ہے کہ وہ مشرکین ان بتوں کی باقاعدہ عبادت کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ بت اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب کا ذریعہ ہیں۔ وہ کہتے تھے:

مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اﷲِ زُلْفٰی.

''ہم ان (بتوں) کی پرستش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اﷲ کا مقرب بنا دیں۔''

(1) الزمر، 39: 3

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے اس عقیدہِ تقرب کی واضح تکذیب کی ہے کیونکہ اگر وہ مشرکین اپنے اس قول میں صادق ہوتے تو اُن کے نزدیک اللہ تبارک وتعالیٰ، اِن بتوں سے زیادہ قابلِ تعظیم ہوتا اور وہ لوگ غیراللہ کی عبادت نہ کرتے۔ لیکن وہ یہ جانتے ہوئے کہ اسلام میں کسی کو تقرب إلی اﷲ کے لئے وسیلہ بنانا جائز ہے، اس تصور کو 'مَا نَعْبُدُهُم' کے الفاظ میں ان کی بت پرستی کے جواز کی دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ توسل کی مشروعیت کے باعث مسلمان ہمارے بتوں کی عبادت کرنے کو نظرانداز کر دیں گے یا نرم گوشہ اختیار کر لیں گے۔ وہ مسلمانوں کو یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ بتوں کی پوجا کرنے سے ہماری غرض و غایت یہ ہے کہ ان کے ذریعہ ہم اﷲ تعالیٰ کے قریب ہو جائیں۔ ان کے اس استدلال کو اﷲ تعالیٰ نے رد کر دیا کیونکہ شرک کو کسی بھی عمل اور نیت کے ذریعے پاک اور حلال نہیں کیا جا سکتا۔

مطالعہء قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ مشرکینِ مکہّ اللہ تعالیٰ کے وجود کے بالکل منکر نہیں تھے بسا اوقات وہ اللہ تعالیٰ کو ایک اور سب سے بالا و برتر ہستی مانتے تھے مگر ان کا شرک توحید فی الالوہیت کے باب میں تھا اسی بناء پر ان کے ہاں عقیدہِ توحید کے باب میں خرابی، توحیدِ ربوبیت کی نسبت توحیدِ الوہیت میں زیادہ تھی۔ قبل از اسلام یہود اور دیگر مشرکین عرب حضرت نوح ں کے زمانے کی طرح اپنے بتوں کو مختلف قبائل سے منسوب کر کے اس کی پوجا کرتے تھے۔

زمانہِ جاہلیت میں قبر پرستی کی حقیقت

قبل از اسلام لوگ قبروں کو براہِ راست سجدہ کرتے اور بعض قبائل ان قبروں کے اوپر اس مدفون کا بت یا ان کی تصاویر بنا کر رکھ لیتے اور اس کو سجدہ کرتے تھے سجدہ کرتے ہوئے ان کا تصور یہی ہوتا تھا کہ یہ بت اور مدفون شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے شفیع ہیں۔ ان کا یہی عمل در اصل شرک فی الاُلوہیت تھا۔

امام بخاری نے ان کے اس مشرکانہ عمل کو اس طرح روایت کیا ہے:

1۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کے متعلق فرمایا:

لَعَنَ اﷲُ اليَهُوْدَ، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ.

''اﷲ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجود بنا لیا تھا (یعنی وہ براہِ راست قبروں کو سجدہ کرتے تھے)۔''

بخاری، الصحیح، کتاب الصلوۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ ویتخذ مکانھا مساجدا، 1: 165

مسلم، الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور واتخاذ الصور، 1: 376، رقم: 529

2۔ اس طرح ایک اور روایت میں ان کے اس مشرکانہ رجحان اور وطیرہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید واضح فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے:

أَنَّ أُمَّ حَبِيْبَةَ وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَکَرَتَا کَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَکَرَتَا لِلنَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالََ: إِنَّ أُولَئِکَ إِذَا کَانَ فِيْهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ بَنَوْا عَلَی قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْکَ الصُّوَرَ فَأُولَئِکَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اﷲِ يَوْمَ القِيَامَةِ.

''حضرت اُمِ حبیبہ اور حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ عنہما نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا جس میں بت اور مورتیاں تھیں، پس انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر لیتے اور اس میں اس کی مورتی بنا لیتے وہ لوگ قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔''

بخاری، الصحیح، کتاب الصلوۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ و یتخذ مکانھا مساجدا، 1:165، رقم: 417

مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور و اتخاذ الصور، 1:375، رقم: 528

3۔ حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے:

صَارَتِ الأوْثَانُ الَّتِي کَانَتْ فِي قَوْمِ نُوحٍ فِي العَرَبِ بَعْدُ، أَمَّا وَدٌّ کَانَتْ لِکَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ، وَأَمَّا سُوَاعٌ کَانَتْ لِهُذَيْلٍ، وَأَمَّا يَغُوثُ کَانَتْ لِمُرَادٍ، ثُمَّ لِبَنِي غُطَيْفٍ بِالجَوْفِ عِنْدَ سَبَإٍ، وَأَمَّا يَعُوقَُ فَکَانَتْ لِهَمْدَانَ، وَأَمَّا نَسْرٌ فَکَانَتْ لِحِمْيَرَ لِآلِ ذِی الکَلاَعِ، أَسْمَائُ رِجَالٍ صَالِحِيْنَ مِن قَوْمِ نُوْحٍ، فَلَمَّا هَلَکُوْا أَوحَی الشَّيْطَانُ إِلَی قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَی مَجَالِسِهِم الَّتِي کَانُوْا يَجْلِسُوْنَ أَنْصَابًا وَ سَمُّوهَا بِأَسْمَائِ هِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتَّی إِذَا هَلَکَ أُولٰئِکَ وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ.

''جو بت حضرت نوحں کی قوم میں پوجے جاتے تھے وہی بعد میں اہل عرب نے اپنے معبود بنا لئے۔ وَد بنی کلب کا بت تھا جو دومۃ الجندل کے مقام پر رکھا ہوا تھا۔ سواع بنی ہذیل کا بت تھا، یغوث بنی مراد کا بت تھا، پھر یہی بنی غطیف کا بھی الٰہ بن گیا جو سبا کے پاس جوف میں تھا۔ یعوق قبیلہ ہمدان کا اور نسر ذی الکلاع کی آلِ حمیر کا بت تھا۔ یہ حضرت نوح کی قوم کے نیک آدمیوں کے نام ہیں جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں پر وہ اﷲ والے بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے بنا کر رکھ دو اور ان بتوں کے نام بھی ان صالحین کے نام پر ہی رکھ دو۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا کر دیا لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے تھے جب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور علم بھی کم ہو گیا تو ان کی پوجا و پرستش ہونے لگ گئی۔''

(1) بخاری، الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب ودًا ولا سواعًا ولا یغوث ولا یعوق، 4:1873، رقم: 4636

مندرجہ بالا روایات سے درج ذیل امور واضح ہوئے:

1۔ مشرکین قبور کو تعظیماً نہیں بلکہ انہیں معبود سمجھ کر ان کی طرف سجدہ کرتے تھے۔

2۔ انہوں نے باقاعدہ بت تراش رکھے تھے جو قبروں کے اوپر نصب تھے اور سجدہ کرتے وقت وہ اس قبر اور اس کے اوپر رکھے ہوئے بت کو پوجتے تھے۔

3۔ مشرکین نے ان صالحین کے قیام گاہوں پر ''تھان'' یعنی چبوترے بنا رکھے تھے جن پر ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر رکھے جاتے تھے اور انہی چبوتروں پر وہ جانور بھی ذبح کرتے تھے۔

4۔ اس خون کو وہ عبادتاً اور تقرباً ان چبوتروں پر مَل دیتے تھے۔

5۔ اس خودساختہ عبادت کو وہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور شفاعت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔

آج جو لوگ مزاراتِ انبیاء و اولیاء کی تعظیم کو شرک کے زمرے میں شامل کرتے ہیں اور مزارات پر حاضری کو خلافِ توحید سمجھتے ہیں انہیں دراصل مشرکین کے اسی عمل سے مغالطہ ہوتا ہے حالانکہ مشرکین کا عمل مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر واضح اور صریح شرک تھا۔ ان دونوں افعال میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں کو ایک جیسا سمجھنے سے قبل ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ شرک کا اطلاق کرتے ہوئے اس کی حقیقت اور تاریخ کو ملحوظ رکھا کریں۔ توسل تعظیم اور عبادت میں واضح فرق کو سامنے رکھے بغیر فتوی لگانے سے ہی فتنہ پیدا ہوتا ہے۔

اہلِ اسلام کا عمل مشرکین سے بالکل برعکس ہے۔ مسلمان مزارات پر صرف اس لیے جاتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء کو اﷲ تعالیٰ کی قربت محبت اور اطاعت کی وجہ سے قابلِ احترام سمجھتے ہیں۔ نہ وہاں پر کسی ولی کا بت اور مورتی بنائی جاتی ہے، نہ اس کی پوجا پاٹ ہوتی ہے اور نہ ہی کسی چبوترے پر جانور ذبح کر کے خون ملا جاتا ہے۔ الغرض اسبابِ شرک میں کوئی سبب اہلِ اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ رہا قبروں کا احترام کرنا اور ان پر دعا و توسل کے لئے جانا تو یہ نصِ حدیث سے ثابت ہے۔

خلاصہِ کلام

اس بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ مشرکین اگرچہ بتوں کی عبادت کو اﷲ تعالیٰ تک رسائی کا ذریعہ بناتے تھے مگر ان کا یہ بیان محض دھوکا ،فریب اور دجل تھا جسے قرآن نے کئی مقامات پر رد کر دیا اور ان کی بت پرستی کو شرک جیسے گناہ عظیم کے زمرے میں ہی رکھا۔انسانی تاریخ کے کسی دور میں کسی پیغمبر کے عہدِ نبوت میں شرک کبھی بھی جائز نہیں رہا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ شریعت بدلتی رہی، احکام بدلتے رہے، قانون بدلتے رہے۔ حلال، حرام، جائز ناجائز پر مبنی شریعت کے احکام بدلتے رہے۔ ہر پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے نئی شریعت دی مگر شرک کسی بھی شریعت میں کبھی بھی جائز نہیں تھا۔ چونکہ ہر پیغمبر یہ دعوت لے کر آیاکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ شرک نہ کرو، شرک کا انکار اور توحیدکی دعوت ہر پیغمبر کا منصب تھا۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اس تصور کو اجاگر کرنے کے لئے مبعوث ہوئے کہ جہاں ایک طرف اللہتعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت جائز نہیں وہیں کسی کی بھی تعظیم نہ صرف جائز بلکہ ایک مستحب عمل ہے جس کی تحسین اور سفارش اس کے پسندیدہ ہونے کی بناء پر کی گئی ہے۔

شرعاً تعظیم کے جائز اور واجب طریقے

جیسا کہ آغازِ کلام میں بھی واضح کیا گیا کہ بعض لوگ تعظیم اور عبادت کو گڈمڈ کرتے ہوئے تعظیم پر شرک کا فتویٰ لگا دیتے ہیں حالانکہ تعظیم نہ صرف یہ کہ شرک نہیں بلکہ تعظیم کی کئی صورتیں شرعًا واجب بھی ہیں۔ ذیل میں تعظیم کی مختلف شکلیں اور صورتیں الگ الگ بیان کی جارہی ہیں۔ ان میں سے بعض کی آئندہ صفحات میں تشریح و توضیح بھی آ رہی ہے۔ تعظیم کے جائز طریقے مندرجہ ذیل ہیں:

تعظیم بالقیام
تعظیم بالاستقبال
تعظیم بخلع النعال
تعظیم بالتقبیل
تعظیم بالزیارت
تعظیم بالتوجہ
تعظیم بالمحبت
تعظیم بالتبرک
شریعت میں تعظیماتِ واجبہ مندرجہ ذیل ہیں:

تعظیم الوہیت
تعظیم رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تعظیم انبیاء علیہم السلام
تعظیم قرآن
تعظیم حدیث
تعظیم اہل بیت
تعظیم صحابہ
تعظیم اَولیاء و صالحین
تعظیم اکابر و مشائخ
تعظیم والدین
تعظیم شعائر
تعظیم شہورِ مقدسہ
تعظیم ایامِ مقدسہ
تعظیم اماکن مقدسہ
تعظیم آثار مبارکہ

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment