عقیدہ توحید کے سات ارکان
مسئلہ توحید قرآن حکیم کے بنیادی اور اساسی موضوعات میں سے ہے۔ اِس مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے اگرچہ قرآن حکیم کی متعدد آیاتِ بینات میں دلائل و براہینِ قاطعہ موجود ہیں لیکن سورۃ الاخلاص میں اللہ رب العزت نے اپنی توحید کا جو جامع تصور عطا فرمایا ہے وہ کسی اور مقام پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ کو سورۂ توحید بھی کہتے ہیں۔ اس سورہ میں توحید کے سات بنیادی ارکان بیان کئے گئے ہیں۔ اگر ان ارکانِ سبعہ کو ملا لیا جائے تو عقیدۂ توحید مکمل ہو جاتا ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک رکن کی بھی عقیدتاً خلاف ورزی ہو جائے تو توحید باقی نہیں رہتی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO اللَّهُ الصَّمَدُO لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْO وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌO
''(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجئے : وہ اللہ ہے جو یکتا ہےo اللہ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہےo نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےo اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہےo''
الاخلاص، 112 : 1 - 4
اس سورت میں بیان شدہ توحید کے ارکانِ سبعہ کی تفصیل درج ذیل ہے :
واسطۂ رسالت
ذاتِ حق کا فوق الادراک ہونا
احدیّت
صمدیّت
لا وَلَدیّت
لا والدیّت
لاکفویّت
پہلا رکنِ توحید : واسطۂ رسالت
عقیدۂ توحید کے لیے واسطۂ رسالت کی ناگزیریت
سورۂ اخلاص کا آغاز لفظِ ''قُل'' سے کیا گیا جس کا معنی ہے : ''(اے نبیِّ مکرّم!) آپ فرما دیجئے۔'' کیا فرما دیجئے؟
هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO
''وہ اللہ ہے جو یکتا ہےo''
یہ مختصر مضمون جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یعنی اس کے ایک ہونے کو بیان کر رہا ہے، اس کی وحدتِ مطلقہ کا بیان ہے۔ چونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر برہانِ ناطق ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے پیارے! ہم چاہتے ہیں کہ توحید کا مضمون بیان کرنے کے لئے تیری زبان اِستعمال ہو۔ جو کچھ اس سے نکلے، میری ہستی پر دلالت کرے۔ میرے ایک ہونے کا مضمون اتنا بلند ہے کہ اس کی ادائیگی کا حق تیری زبان سے ہی ادا ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ اے محبوب! مجھے تیری اُمت کو ایمان سے بہرہ ور کرنا ہے مگر اِن کا میری نسبت عقیدۂ ایمان تب متحقق ہوگا جب یہ آپ سے سن کر آپ کی بات کو سچا مان کر مجھے ایک مانیں گے۔
1۔ ''قُل'' عنوانِ رسالت ہے اور ''هُوَ اﷲ'' عنوانِ توحید
اﷲ رب العزت نے سورۂ اخلاص کی ابتداء لفظ قُلْ سے فرمائی۔ لفظِ ''قُلْ'' عنوانِ رسالت ہے جبکہ عنوانِ توحید ''هُوَ اﷲ'' ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو اللہ کے ہونے کا براہِ راست علم (Direct knowledge) حاصل ہو گیا تو وہ علم ''وحدانیت'' ہے، عقیدۂ توحید نہیں۔ کیونکہ وہ علم بغیر واسطۂ رسالت کے ہے اور اس میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ ہی نہیں تھا لہٰذا وحدانیت کا تصور ایمان تب بنتا ہے جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان لانے میں واسطہ و وسیلہ بنیں۔
2۔ وحدت، وحدانیت اور توحید کا مفہوم
عقیدۂ توحید کی معرفت کے لئے ایک اہم بات جو ذہن نشین کرنا ضروری ہے اور جسے بہت سے اہلِ علم نے اِس انداز میں بیان نہیں کیا، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیق سے قرآن مجید، احادیثِ نبوی، ائمۂ کبار، محدثین و متکلمین، اسلاف کی تحقیقات اور مفسرین کی تفاسیر کے مطالعہ کے بعد جو بات راقم کے ذہن میں راسخ ہوئی وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک ہونا توحید نہیں ہے، بلکہ یہ اس کی وحدت ہے۔ اس باب میں تین الفاظ اہم ہیں :
وحدت
وحدانیت
توحید
اس اجمال کی ضروری تفصیل اِس طرح ہے :
وحدت
وحدت اکائی کو کہتے ہیں اس کا مطلب ہے اللہ کا ایک ہونا اور اللہ تعالیٰ کی وحدت، وحدتِ مطلقہ ( Absolute oneness) کہلاتی ہے۔
وحدانیت
اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا تصور جب نظریہ، فلسفہ اور فکر (Theory, Philosophy & Thought) میں ڈھل جاتا ہے تو اسے ''وحدانیت'' سے موسوم کیا جاتا ہے۔
توحید
توحید، نظریہ اور تصور سے بڑھ کر ایک عقیدہ ہے مگر اس کے باوجود یہ اس وقت تک ایمان نہیں بن سکتا جب تک اس کا حصول واسطۂ رسالت سے نہ ہو۔ واسطۂ رسالت سے اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا ہی وہ عقیدہ ہے جو ایمان بنتا ہے اور ہم اسی کو عقیدۂ توحید کہتے ہیں۔
3۔ واحد اور توحید کے درمیان معنوی ربط
عربی گرائمر کی رو سے لفظِ توحید باب تفعیل کا مصدر ہے اور اس کے لغوی معنیٰ ''ایک کرنا'' کے ہیں۔ اس کا مادۂ اشتقاق وَحْدَۃً ہے اور اِسی سے واحد مشتق ہے جس کے معنی ایک کے ہیں۔ ماہرینِ علم الریاضی و علم الاعداد و ہندسہ کے نزدیک نصف الاثنین واحد یعنی دو کے آدھے کو ایک کہتے ہیں۔
واحد کی اقسام
واحد کی تین قسمیں ہیں :
واحدِ عددی
واحد جنسی
واحد نوعی
واحد عددی
الواحد نصف الاثنین یعنی دو کے آدھے کو ایک کہتے ہیں۔
واحد جنسی
علمائے مناطقہ و فلاسفہ کے نزدیک واحد جنسی اُسے کہتے ہیں جو اپنی جنس کے اعتبار سے ایک ہو مثلاً حیوان ایک جنس ہے اور جسم نامی ایک جنس ہے۔ شیر، گائے، بکری وغیرہ حیوان ہیں اور یہ تمام اپنی خاص جنس کے لحاظ سے واحد ہیں کیونکہ اِن تمام جانوروں میں حیوانیت مشترک جنس ہے لہٰذا یہ تمام جانور ایک جنس کے لحاظ سے واحد جنسی ہیں۔
واحد نوعی
علمائے مناطقہ و فلاسفہ کے نزدیک واحد نوعی وہ ہے جو اپنی نوع کے لحاظ سے ایک ہو مثلاً حیوان کی کئی انواع ہیں۔ کوئی حیوان صاہل یعنی ہنہنانے والا جانور ہے، کوئی حیوان مفترس یعنی چیرنے پھاڑنے والا جانور ہے اور کوئی حیوانِ ناطق جیسے اِنسان۔ اِس لئے اِنسان حیوا ن ناطق ہونے کی حیثیت سے اپنی نوع کا ایک فرد کہلاتا ہے۔ بیل کو جب واحدِ نوعی کہیں گے تو اُس میں شیر اور بکری وغیرہ شامل نہیں ہوں گے۔ اِس لئے کہ بیل اگرچہ حیوانیت میں دوسرے حیوانات کے ساتھ مشترک ہے مگر وہ اپنی نوع کے اعتبار سے الگ حیثیت رکھتا ہے اِس لئے وہ اپنی نوع کا فرد کہلائے گا۔
خلاصۂ کلام
مذکورہ بالا واحد کی تمام تعریفات کے مطابق اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو واحدِ عددی مانے تو مشرک ہو گا کیونکہ اُس نے واحد عددی کی تعریف کے مطابق اللہ تعالیٰ کو دو کا آدھا تسلیم کیا اور اللہ تعالیٰ میں دو کے لحاظ سے وحدت کا مفہوم آیا۔ اگر کوئی اِنسان اللہ تعالیٰ کو واحد جنسی مانے تو تب بھی مشرک کہلائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس میں اشتراکِ جنس ضروری ہے اور اللہ رب العزت اشتراکِ جنس سے پاک ہے۔ اِسی طرح کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو واحد نوعی مانے تو بھی مشرک ہو گا کیونکہ نوع کے لئے افراد کا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا یہ امر متحقق ہوا کہ مذکورہ بالا تمام تعریفات کے مطابق اللہ تعالیٰ کو نہ تو واحد عددی، نہ واحدِ جنسی اور نہ واحد نوعی مان سکتے ہیں کیونکہ اِس سے شرک لازم آتا ہے تو پھر لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کو وہ واحد مانتے ہیں جسے زُبانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا ہے اور اس کا اظہار ''قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ'' میں ہے۔
ذہن نشین کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ دوسرے کے اعتبار سے اُس میں مفہوم وحدت آیا ہے۔ پوری اُمت کا متفق علیہ اور مجمع علیہ عقیدہ ہے کہ اللہ رب العزت نہ واحد عددی ہے نہ واحد جنسی ہے اور نہ واحد نوعی، بلکہ اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ واحد حقیقی ہے اور اُس کی ذات ازل سے ہی وحدتِ ذاتی سے متصف ہے اور وہ ہر قسم کے اشتراک، اشتباہ، مماثلت، تعدد، تکثر، تجزی، حلول، اتحاد، امکان، حدوث، ترکیب، تحلیل اور تبعیض سے پاک ہے اور اِن تمام عقائدِ حقہ کا اعلان زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لفظ ''قُل''سے کروایا گیا ہے۔ اس واحدِ حقیقی کو ''اَحَد'' سے تعبیر کیا گیا ہے۔
4۔ وحدت اور توحید میں فرق
خدا کا ایک ہونا تصورِ وحدت ہے۔ اگر زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر اپنی عقل، فہم اور سمجھ سے خدا کو ایک جانا جائے تو یہ تصورِ وحدت ہے اور زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر اﷲ تعالیٰ کو ایک مانا جائے تو یہ عقیدہ توحید ہے، اس لئے ارشاد فرمایا گیا :
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO
''( اے نبی مکرم!) آپ فرما دیجئے وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔''
اللہ تعالیٰ ان الفاظ سے پیغام دے رہے ہیں کہ میرے پیارے نبی! یوں تو جاننے والے اپنے فہم سے مجھے ایک جانتے رہیں گے لیکن آپ اپنی زبان سے فرما دیں کہ میں ایک ہوں تو ان کا یہ جاننا ان کو ایمان کی نعمت عطا کر دے گا۔ سننے والے آپ کی زبان سے سن کر اور آپ کی بات کو مان کر مجھے ایک مانیں اور ایک جانیں گے تو ان کی وحدت، توحید میں بدل جائے گی۔
5۔ لوگوں نے مظاہرِ فطرت کو معبود بنا لیا
قرآن مجید میں یہ ذکر بہ صراحت آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں نے اپنے علم و فکر اور عقل کی بنا پر وجودِ خدا کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا لہٰذا اس زمانے کے لوگ مظاہرِ فطرت کو معبود بناتے ہوئے کبھی سورج کی پوجا کرتے اور کبھی ستاروں کی پرستش کرتے تھے یعنی مظاہر پرستی کو انہوں نے اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اس کے پیچھے لوگوں کے ذہنوں میں اپنے فائدہ کا کوئی خاص تصور (concept) کارفرما ہوتا تھا۔ ایسے میں اللہ رب العزت نے ان کی طرف سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جنہوں نے پیغمبرانہ بصیرت و حکمت سے لوگوں کے باطل تصورات کا رد کیا اور انہیں ذاتِ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذْ قَالَ إِبراہِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍO وَكَذَلِكَ نُرِي إِبراہِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَO فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لاَ أُحِبُّ الْآفِلِينَO فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَO فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي هَـذَآ أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَO إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
''اور (یاد کیجئے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر (جو حقیقت میں چچا تھا محاورۂ عرب میں اسے باپ کہا گیا ہے) سے کہا : کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں (مبتلا) دیکھتا ہوںo اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہو جائےo پھر جب ان پر رات نے اندھیرا کر دیا تو انہوں نے (ایک) ستارہ دیکھا (تو) کہا : (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے : میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتاo پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا (تو) کہا : (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ (بھی) غائب ہو گیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے : اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی ضرور (تمہاری طرح) گمراہوں کی قوم میں سے ہو جاتاo پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا (تو) کہا : (کیا اب تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے (کیونکہ) یہ سب سے بڑا ہے؟ پھر جب وہ (بھی) چھپ گیا تو بول اٹھے : اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اﷲ کا) شریک گردانتے ہوo بیشک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوںo''
الانعام، 6 : 74 - 79
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment