Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Saturday, 2 April 2016

))))Vu & Company(((( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجہ نمود حُسن حقیت (حصّہ دوم )

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجہ نمود حُسن حقیت


حضرت علامہ آلوسی ?مذکورہ آیت کے تحت اِمام قطبُ الدین رازی ?کے حوالے سے رقمطراز ہیں :
أنه يتعين أن الإقتداء المأمور به ليس إلا في الأخلاق الفاضلة و الصفات الکاملة، کالحلم و الصبر و الزهد و کثرة الشکر و التضرع و نحوها، و يکون في الآية دليل علي أنه صلي الله عليه وآله وسلم أفضل منهم قطعا لتضمنها، أن اﷲ تعالٰي هدي أولئک الأنبياء عليهم الصلٰوة و السلام إلٰي فضائل الأخلاق و صفات الکمال، و حيث أمر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يقتدي بهداهم جميعًا امتنع للعصمة أن يقال : أنه لم يتمثل، فلا بدّ أن يقال : أنه عليه الصلٰوة والسلام قد امتثل و أتي بجميع ذالک، و حصل تلک الأخلاق الفاضلة التي في جميعهم، فاجتمع فيه من خصال الکمال ما کان متفرقاً فيهم، و حينئذٍ يکون أفضل من جميعهم قطعا، کما أنه أفضل مِن کل واحدٍ منهم.
''یہ اَمر طے شدہ ہے کہ اِس آیت میں شریعت کے اَحکام کی اِقتداء کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اَخلاقِ حسنہ اور صفاتِ کاملہ مثلاً حلم، صبر، زُہد، کثرتِ شکر، عجز و اِنکساری وغیرہ کے حاصل کرنے کا حکم ہے۔ یہ آیتِ مقدسہ اِس اَمر پر قطعی دلیل کا درجہ رکھتی ہے کہ اِس اِعتبار سے حضور تمام انبیاء و رُسل سے اَفضل و اَعلیٰ ہیں کیونکہ ربِ کائنات نے جو اَوصاف اور فضیلتیں اُن نبیوں اور رسولوں کو عطا کی ہیں اُن کے حصول کا آپ ﷺ کو حکم فرمایا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت کے پیشِ نظریہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ ﷺ نے اُن (فضیلتوں) کو حاصل نہیں کیا بلکہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ ﷺنے وہ خصائص اور کمالات جو دِیگر انبیاء و رُسل میں جدا جدا تھے اُن سب کو اپنی سیرت و کردار کا حصہ بنا لیا، اِس لئے ﷺجس طرح ہر نبی سے اُس کے اِنفرادی کمالات کے اعتبار سے اَفضل ہوئے اُسی طرح تمام انبیاء و رُسل سے اُن کے اِجتماعی کمالات کے اعتبار سے بھی افضل قرار پائے۔''
( آلوسي، روح المعاني، 7 : 217) 
رسولِ اوّل و آخر ﷺکے محامد و محاسن کے ضمن میں شیخ عبدالحق محدث دِہلوی ? لکھتے ہیں :
آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم را فضائل و کمالات بود، کہ اگر مجموع فضائلِ انبیاء صلوات اﷲ علیھم اجمعین را در جنب آن بنہند راجح آید۔
''حضور ﷺکے محاسن و فضائل اِس طرح جامعیت کے مظہر ہیں کہ کسی بھی تقابل کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل کو ہی ترجیح حاصل ہو گی''۔(محدث دهلوي، شرح سفر السعادت : 442)
اِس کائناتی سچائی کے بارے میں کوئی دُوسری رائے ہی نہیں کہ جملہ محامد و محاسن اور فضائل و خصائل جس شان اور اِعزاز کے ساتھ آقائے محتشم کی ذاتِ اَقدس میں ہیں اِس شان اور اِعزاز کے ساتھ کسی دُوسرے نبی یا رسول کی ذات میں موجود نہ تھے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر رقمطراز ہیں :
خلائق درکمالاتِ انبیاء علیھم الصلٰوۃ و السلام حیران، و انبیاء ہمہ در ذاتِ وے۔ کمالاتِ انبیاءِ دیگر محدود و معین است، اما ایں جا تعین و تحدید نگنجد و خیال و قیاس را بدرکِ کمالِ وے را نہ بود.
''(اللہ رب العزت کی) تمام مخلوقات کمالاتِ انبیاء علیہم السلام میں اور تمام انبیاء و رُسل حضور ﷺکی ذاتِ اَقدس میں متحیر ہیں۔ دِیگر انبیاء و رُسل کے کمالات محدُود اور متعین ہیں، جبکہ حضور ﷺکے محاسن و فضائل کی کوئی حد ہی نہیں، بلکہ ان تک کسی کے خیال کی پرواز ہی ممکن نہیں۔'') محدث دهلوي، مرج البحرين(
حضور سرورِ کونین کی ذات حسن و کمال کا سرچشمہ ہے۔ کائناتِ حُسن کا ہر ہر ذرّہ دہلیزِ مصطفیٰ کا ادنیٰ سا بھکاری ہے۔ چمنِ دہر کی تمام رعنائیاں آپ ہی کے دم قدم سے ہیں۔ ربِ کریم نے آپ کو وہ جمالِ بے مثال عطا فرمایا کہ اگر اُس کا ظہورِ کامل ہو جاتا تو اِنسانی آنکھ اُس کے جلووں کی تاب نہ لا سکتی۔ صحابہ کرام نے آپ کے کمالِ حسن و جمال کو نہایت ہی خوبصورت اَنداز میں بیان کیا ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں :
رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في ليلة إضحيان، فجعلت أنظر إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و إلي القمر، و عليه حلة حمراء، فإذا هو عندي أحسن من القمر.
''ایک رات چاند پورے جوبن پر تھا اور اِدھر حضور ﷺبھی تشریف فرما تھے۔ اُس وقت آپ سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہ کے حسنِ طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاند پر، پس میرے نزدیک حضور چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے۔'' )ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 118، ابواب الأدب، رقم : 2811
ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 39، رقم : 10. دارمي، السنن، 1 : 44، مقدمه، رقم : 57. ابو يعلي، المسند، 13 : 464، رقم : 7477. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 196. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 150، رقم : 1417. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 167(
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
حسن و جمال میں حضورﷺ کی خوبی و محبوبی کسی سے پوشیدہ نہیں پر وقار انداز ، شگفتہ گفتگو ، خوبصورت چہرہ، مناسب قد الغرض ہر چیز اور ہر زاویے میں لازوال تھے۔ اسی لئے علامہ اقبال ؒنے ان کی خوبصورتی کو یوسف ، عیسیٰ اور موسیٰ پر ترجیح دی ہے۔
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ ید بےضا داری
آنچ خوباں ہمہ دارند تو اتنہا داری
کیونکہ اللہ تک رسائی کے لئے حُب نبی ہی اصل زینہ ہے۔ جس پرصحابہ کرام نے عمل کیا۔ حضرت ابوبکرصدیق ، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی نے عمل کیا۔ علامہ اقبا ل ؒا س لئے نصیحت کرتے ہیں اللہ سے وہی سوز طلب کرو جو انہی صحابہ نے طلب کیا تھا۔ جو ان کو عشق نبوی سے حاصل ہوا۔
سوز صدیق و علی از حق طلب
ذرہ عشق نبی از حق طلب
اس دنیا کی تخلیق کی اصل وجہ ذات نبی اکرمﷺ ہے کیونکہ آپ ہی کی وجہ سے اس دنیا میں اصل خالق یعنی اللہ کی ذات کی پہچان ، صحیح معنوں میں ممکن ہوئی۔ آپ ﷺہی تھے جنہوں نے خدا تعالیٰ کی حقیقت کے بار ے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور ان کے راز آشکار کئے۔
اسلام دینِ اعتدال و توازن ہے۔ اور ہمیں کشادہ دلی سے اعتدال و توازن کا راہ دکھاتا ہے۔ جبکہ آج کے دور میں کچھ حضرات دین و ایمان میں محبت کی قلبی کیفیات کی اہمیت کی ہی نفی کر ڈالتے ہیں اور صرف اور صرف ظاہری اعمال پر زور دے کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لے کر آج تک مسلمانوں کے دلوں میں موجزن اللہ تعالٰی اور اسکے رسول اور اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اور اولیائے کرام کی محبت و عقیدت کے عقیدے کو ہی غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور"محبت" کے بارے میں گفتگو کو ہی "بےکار" قرار دے دیتے ہیں۔
لہذا جو محبت دل میں ہے ، اس کے متعلق بحث بیکار ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اعمال کی نفی نہ تو دینِ اسلام کرتا ہے، نہ کوئی محبتِ رسول ﷺکا داعی، نہ اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا محب اور نہ ہی اولیائے کرام کا معتقد کرتا ہے۔ ایسا کہنے والے دراصل صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لے کر آج تک امت مسلمہ کے دل میں موجزن محبتِ رسول ﷺکے اس عظیم جذبے کی اہمیت کو کم کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے بھروسے پر خود صحابہ کرام اجمعین کو آخرت میں اپنی سرخروئی کا یقین و ایمان تھا۔ 
لَّيْسَ الْبِرَّ اَن تُوَلُّواْ وُجُوھَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَۃِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّہِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَى الزَّكَاۃَ وَالْمُوفُونَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْباْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَاْسِ اُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَاُولَـئِكَ ھُمُ الْمُتَّقُونَO (الْبَقَرَة ، 2 : 177)
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیںo
قُلْ اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO (آل عِمْرَان ، 3 : 31)
(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہےo
یہاں اتباعِ رسول ﷺکی بنیاد "محبتِ الہی" کو بنایا گیا ہے۔
انسان حضور نبی اکرم رحمۃ للعالمین ﷺکے کردار کی بلندی اور عظمت کی رفعت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے اور زبانیں بیان کرنے سے معذور ، اگر اس کا صحیح ادراک کرنا ہے تو اس کے در پر آنا پڑے گا جو یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے ''میں رسول ﷺکے پیچھے پیچھے اس طرح سے چلتا تھا جس طرح سے اونٹنی کا بچہ اونٹنی کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ''اور اپنے بچپنے سے لیکر آخر وقت تک رسول ﷺکے ہمراہ رہا ﷺاس وقت دینا سے رخصت ہوئے ہیں جب ان کا سر میرے سینہ پر تھا اور ان کی روح اقدس میرے ہاتھوں پر جدا ہوتی ہے تو میں نے اپنے ہاتھوں کو چہرہ پر مل لیا ۔ میں نے ہی آپ ﷺکو غسل دیا جب ملائکہ میری مدد کر رہے تھے اور گھر کے اندر و باہر کہرام برپا تھا۔ ملائکہ کا ایک گروہ نازل ہورہا تھا اور ایک واپس جا رہا تھا سب نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور میں مسلسل ان کی آواز یں سن رہا تھا ۔یہاں تک کہ میں نے ہی حضرت نبی اکرمﷺ کو سپرد لحد کیا ''(حضرت مولا علی کرم اللہ وجہ الکریم )
نہ تو قلم میں اِتنی سکت ہے کہ حسنِ مصطفیٰ ﷺکو حیطۂ تحریر میں لا سکے اور نہ زبان ہی میں جمالِ مصطفیٰ ﷺکو بیان کرنے کا یارا ہے۔ سلطانِ عرب و عجم ﷺکی ذاتِ ستودہ صفات محاسنِ ظاہری و باطنی کی جامع ہے۔ کائناتِ ارض و سماوات آپ ﷺکے حسن کے پَرتو سے ہی فیض یاب ہے اور آپ ﷺکی نسبت کے فیضان سے ہی کائناتِ رنگ و بو میں حسن کی خیرات تقسیم ہوتی ہے۔ اِسی حقیقت کو حکیم الاُمت علامہ محمد اِقبال ?یوں بیان کرتے ہیں : 
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو 
یا زِ نورِِ مصطفیٰ اُو را بہاست 
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ ﷺ است 
(دُنیائے رنگ و بو میں جہاں بھی نظر دوڑائیں اس کی مٹی سے جو بھی آرزو ہویدا ہوتی ہے، وہ یا تو نورِ مصطفیٰ سے چمک دمک رکھتی ہے یا ابھی تک مصطفیٰ کی تلاش میں ہے۔) 
محمد کی محبت دین حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment