ڈاکٹر عطش درّانی نے لغات کی تدوین میں حصہ لیا۔ مقتدرہ کی طرف سے شائع کی جانے والی لغات کی ٹیم میں شامل رہے۔ وہ لغات سازی کے چند اصول بیان کرتے ہیں۔
۱۔ لغت میں لفظ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ روز مرے، محاورے، تراکیب وغیرہ کو ردیف وار ترتیب میں دینا غلط ہے۔
۲۔ مرکبات محض مثال کے لیے استعمال ہوں۔ محاورے کلیدی الفاظ کے تحت دیے جائیں۔ متعلق فعل، اسمیہ، صفاتی تراکیب کی بھی یہی صورت ہو۔
۳۔ اس امر کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ اُردو الفاظ کا تلفظ IPAکے تحت دیا جائے یا اپنے طریقے وضع کیے جائیں اور نئے اور مقامی الفاظ محض سلینگ کے طور پر دیے جائیں۔
ڈاکٹرصاحب نے لغات سازی کے عمل کو جدید سطور پر لانے کی بات کی ہے۔ ان کا کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ روز مرے ،محاورے اور تراکیب کو ترتیب وار ہونا چاہیے مگر ردیف کے اعتبار سے نہیں ۔ جہاں کہیں کسی لفظ کے ساتھ روزمرے اور محاورے کا بیان کیا جانا ہو انہیں وہیں بیان کیا جائے۔ محاوروں کو کلیدی الفاظ کے ساتھ ہی استعمال کیا جائے۔ روزمروںاور محاوروں کے ساتھ ساتھ خصوصی اہمیت سلینگ کے استعمال کی ہے۔ اُردو ایک ہمہ گیر زبان ہے اس میں مقامی الفاظ کی آمیزش بہت زیادہ ہے۔ مقامی الفاظ کا اُردو میں اس قدر شامل ہونا اس مسئلے کی طرف بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ان الفاظ کو کس فہرست میں شامل کیا جائے۔ کیا یہ الفاظ مقامیت کے دائرہ کار میں آئیں اور ان کی نشاندہی کی جائے یا پھر انہیں سیلنگ کی فہرست میں ڈالا جائے۔ دور حاضر میں جدید اردو لغت کی ترتیب و تدوین میں ان امور کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔ ڈاکٹر عطش درّانی کے بقول اُردو کا ایک ایسا لغت مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو ایسے علمی، تکنیکی اور سائنسی ادبیات کی بنیاد پر مرتب ہو جس میں مختلف سانچوں، کینڈوں اور محضروں کو ملحوظ رکھا جائے۔
ڈاکٹر عطش درّانی ایک جدید ماہر لسانیات ہیں ان کے زاویہ نظر میں زبانوں کا بین الاقوامی تناظر موجود رہتا ہے۔ وہ اس امر کی اہمیت سے بخوبی آشنا ہیں کہ اُردو لغت کی ترتیب میں زبان کے سانچوں، کینڈوں اور محضروں کو صراحت کے ساتھ بیان کیا جانا ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے ہی زبان بجا طور پر بین الاقوامی سطح پر اپنا آپ منوا سکے گی۔
ڈاکٹررئوف پاریکھ کا سلینگ لغت (اردو زبان میں سلینگ) شائع ہوا۔ ڈاکٹر پاریکھ کے بقول سلینگ پرانے لفظوں کو نئے مفہوم میں استعمال کرنے کا نام ہے۔ سیلنگ ایک طرح کا سماجی بول چال ہی ہے جو ہر طبقے میں رائج ہو سکتا ہے، معاشرے میں مختلف سلینگ ہیں۔۲۳؎ دُرّانی صاحب ، ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی سلینگ کی تعریف اور اُردو میں سلینگ کے بارے میں ان کے نظریے سے متفق نہیں۔ ان کے بقول اُردو چونکہ اشرافیہ کی زبان رہی ہے یہ اوپر سے نیچے آئی ہے۔ امرا کی زبان ہونے کی وجہ سے اس میں سلینگ تلاش کرنا عبث ہے۔ ۲۴؎ انھوں نے اُردو زبان کی ابتدا کے متعلق اپنے نظریے میں اسے اشرافیہ کی زبان قرار دیا ہے تو یہ امر واضح ہے کہ اشرافیہ کی زبان میں سلینگ نا ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
۱۰۔ اُردو دنیا کی بڑی زبان
عطش صاحب کو یہ کمال حاصل ہے کہ انھوں نے اُردو زبان کے مختلف پہلوئوں پر بحث کی ہے ۔ وہ گاہے گاہے اُردو کا بطور زبان دنیا کی دوسری زبانوں سے موازنہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بقول اُردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اُردو کے بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ ۳۱ کروڑ بنتی ہے۔ اُردو پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا ، نیپال، بھوٹان، افریقی ممالک، سنگا پور، ملائیشیا ، مالدیپ ، بھارت ، ماریشس، عرب اور خلیجی ممالک ، انگلستان، کینیڈا اور امریکہ میں بہت سے لوگوں کی زبان ہے۔ ان کے خیال میں اُردو کو یونیسکو کی سرکاری زبان بنایا جانا چاہیے۔ ۲۵؎ یہ حقیقت ہے کہ اُردو زبان کا دنیا میں استعمال بہت بڑھ چکا ہے۔ دنیا کے طول و عرض میں اُردو زبان کو بولا اور سمجھا جا رہا ہے۔ ان کا یہ مطالبہ بھی دل کو لگتا ہے کہ اُردو کو یونیسکو کی سرکاری زبان قرار دیا جائے۔
۱۱۔قومی یکجہتی اور نفاذ اُردو
قومی یکجہتی اور نفاذ اُردو کے موضوع پر ڈاکٹر عطش درّانی کا کہنا ہے قومی سطح پر اُردو کے کردار کے چار پہلو ہیں۔
۱۔ زبان قومی ہو گی ۔
۲۔ زبان معاشرتی اور ثقافتی رابطوں کی ہو گی ۔
۳۔ زبان علمی اور تعلیمی ہو گی۔
۴۔ زبان دفتری ہو گی۔
اُردو کو قومی زبان بنا کر پہلا پہلو پورا ہو چکا ہے۔ معاشرتی اور ثقافتی رابطے کی زبان بنا کر اس کا دوسرا پہلو بھی پورا ہو چکا ہے۔ تیسرا پہلو بھی پورا کیا جا سکتا ہے، اگر بہت سے تکنیکی اور سائنسی علوم کا مؤثر ترجمہ کر لیا جائے اور انہیں اُردو میں پڑھایا جائے تو یہ زبان علمی و تعلیمی بن سکتی ہے۔ چوتھا پہلو زبان کو دفتری بنانے کے متعلق ہے۔ یہ پہلو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم انگریزی کو بتدریج اپنے دفاتر سے ختم کر دیں اور انگریزی اصطلاحات کی جگہ اُردو اصطلاحات برائے دفتری استعمال بنا لیں اُردو دفتروں میں کامیابی سے رائج کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں اُردو زبان کے بھر پور نفاذ کے لیے مختلف مشاہیر اور ماہرین اپنی آراء کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب نے مدلل طور پر اُردو کے نفاذ اور اس کے قومی یک جہتی کی زبان ہونے کے بارے اظہار خیال کیا ہے۔ تعلیمی و علمی میدان میں اُردو کو ترقی دے کر ہم اسے ایک مضبوط زبان بنا سکتے ہیں۔ دفاتر میں اگر غیر ملکی زبانوں بالخصوص انگریزی کو ختم کر دیا جائے تواُردو کا نفاذ بطور دفتری زبان کرنے میں زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
۱۲۔قومی زبان کی ترقی کے بنیادی تقاضے
قومی زبان کی ترقی ایک اہم موضوع ہے۔ عطش صاحب کے بقول کسی بھی قومی زبان کی ترقی اور تشکیل میں اسے علاقائی تعصبات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ قومی زبان کا بنیادی مسئلہ تحریر اور بول چال کی واحد زبان کی حیثیت سے فروغ پانا ہے۔ ادب زبان کے معیار ات مقرر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مگر زبان کو محض ادبی تخلیقات کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ زبان کو اپنے لفظی اور قواعدی سرمائے میں اضافے کے لیے نئی سمتوں اور تکنیکوں کی ضرورت ہے۔ زبان کی استطاعت بڑھانے کے لیے اسے نئی لغات ، قواعد، (معجم/ تھسیارس)،قاموس (انسائیکلوپیڈیا) اصول ترجمہ ، اصول اصطلاحات سازی کمپیوٹری گرائمر کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق نئے ادبی معیارات مقرر کرنے کے لیے زبان کے تصریفی پہلوئوں ، روز مروں ، محاورات اور تلفظ کی ہر آن تشکیل کی ضرورت رہتی ہے۔ ان معیارات کو مقرر کرنے کے لیے علاقائی ضروریات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر عطش درّانی ادب میں زبان کے استعمال اور زبان کے لسانیات میں استعمال کو علیحدہ کرتے ہیں۔ ان کی رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ ادبی تخلیقات اور بالعموم زبان کے استعمال میں فرق ہے۔ اگر یہ خواہش کی جاتی ہے کہ زبان ترقی کرے تو اس ضمن میں نئی تکنیکوں کے استعمال کی ضرورت ہے۔ زبان بین الاقوامی زبانوں کی صف میں تبھی کامیابی سے اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے جب اس میں لغا ت، قواعد، تھیسارس، انسائیکلو پیڈیا، اصطلاحات متعارف کروائی جاتی رہیں۔ انھی مہارتوں اور تکنیکوں کی وجہ سے ہی زبان ترقی کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر عطش درّانی نے اس موضوع پر نئے دریچے کھولے ہیں اور دوسرے ماہرین سے بڑھ کر عمدہ اور پختہ بات کی ہے۔
۱۳۔اکیسویں صدی کی اُردو
اکیسویں صدی میںاُردو کے معیار اور نئی ضرورتوں کے متعلق بھی ڈاکٹر عطش درّانی نے اظہار خیال کیا ہے۔ ان کے بقول اُردو نے بطور بین الاقوامی زبان کافی ترقی کر لی ہے۔ بیسویں صدی میں مقتدرہ قومی زبان اب ادارہ فروغ قومی زبان کا قیام، کمپیوٹر پر نحوی نستعلیق کی تیار ی ، اُردو اطلاعیات، نادرا کا قیام اُردو کے اہم کارنامے ہیں۔ اب ٹیلی ویژن ، ٹیلی فون اور برقی آلات کی کمپنیوں نے عربی کے ساتھ ساتھ اُردو ہدایات بھی لکھنا شروع کر دی ہیں۔ کیونکہ اُردو دنیا کی ایک چوتھائی سے زیادہ حصے کی زبان ہے۔ ان کے مطابق اکیسویں صدی میں اُردو کی مزید کامیابی کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔
۱۔ اُردو کی تکنیکی ،تدریسی، ابلاغی،کثیرلسانیاتی منصوبہ بندی کی جائے۔
۲۔ اُردو کے کمپیوٹر سافٹ ویئر مسلسل بنوائے جائیں۔
۳۔ جامعات اور زبان کی ترقی کے اداروں میں ماہرین زبان متعین کیے جائیں جو لسانی تحقیق کا فریضہ سر انجام دیں جیسے وہ محضری تجزیے ، عوامی رائے اور رجحانات ، آزاد پالیسی، سماجی لسانیات، علم ترجمہ کے موضوعات پر تحقیق کرواتے رہیں۔
۴۔ اُردو زبان کا ایک معیاری لغت بھی بنایا جائے جو بول چال کے تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہو۔
۵۔ اُردومیں تراجم کی رفتار کو بڑھایا جائے۔
بین الاقوامی سرمایہ دار اور تاجر کمپنیاں اپنی پیدوار کی فروخت کے لیے ان زبانوں کا استعمال کرتی ہیں جو ان کی نظر میں بین الاقوامی سطح پر بہت اہم ہوں۔ ان زبانوں کے بولنے اور سمجھنے والے زیادہ ہوں۔ بین الاقوامی کمپنیاں انگریزی، فرانسیسی ، عربی اور اب اُردو کو اپنی پیداوار (Products) میں ہدایات کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ اُردو زبان کا ایسا استعمال بین الاقوامی سطح پر اُردو کی اہمیت کا غماز ہے۔ ڈاکٹر عطش درّانی نے درست طور پر ان رجحانات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کو لاگو کر کے اُردو کو دور رس فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ اُردو میں تدریسی ابلاغ اور تکنیک کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اُردو کو جتنا تدریس اور ابلاغی سطح پر استعمال کیاجائے گا۔ اس کے سمجھنے اور بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اکیسویں صدی کی اُردو کو بہتر کمپیوٹر سافٹ ویئرز سے بھی لیس ہونا چاہیے۔ یہ سافٹ ویئر اُردو کے کاروباری استعمال میں بہتر کرداراد اکریں۔ اس کے ساتھ ساتھ علم ترجمہ کو ٹھوس اور مفید بنانے میں ممدومعاون ثابت ہوں گے۔ اس طرح کے کمپیوٹر تراجم کی مدد سے زبان کی ترقی کو اور زیادہ بہتر بنایا جا سکے گا۔
۱۴۔زبان کی ترقی کے لیے لسانی منصوبہ بندی
ڈاکٹر عطش درّانی کے بقول جب زبان کی ترقی کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو اس سے ادبیات کی ترقی مراد لی جاتی ہے، مگر ایسا نہیں زبان کی ترقی کا تعلق زبان کی تکنیکی طور پر ترقی ہے۔ ان کے مطابق زبان کی لسانی منصوبہ بندی کے لیے مندرجہ ذیل نکات اہم ہیں۔
۱۔حروف تہجی :
اُردو کے حروف تہجی اور صوتیے ترقی پذیر ہیں۔ اس لیے نئی تحقیق کے مطابق انہیں کمپیوٹرپلیٹ پر محفوظ کرنا چاہیے۔
۲۔معیار بندی :
اُردو زبان میںمختلف لہجے اور بولیاں ہیں۔ ان میں معیارات تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو کسی خاص طبقے کی نمائندگی نہ کریں۔
۳۔ضابطہ بندی:
اُردو زبان کے خاص ادب کو ضابطہ میں لانا ضروری ہے۔
۴۔جدید کاری :
اُردو کو جدید بنانے کے لیے اس میں وقت کے ساتھ ساتھ لفظیات اور اصطلاحات کا اضافہ کیا جانا ضروری ہے۔
۵۔کثیر لسانیت:
اگر ممکن ہو تو ایک اور زبان بھی اُردو کے ساتھ چلائی جا سکتی ہے۔ مثلا مختلف فارمز ، انتخابی پرچوں اور ہدایات میں اُردو کے ساتھ انگریزی بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
۶۔توسیع:
اُردو کو مزید فروغ دے کر انٹرنیٹ پر لایا جائے۔ اس کی توسیع اس کی قدر کا باعث ہو گی۔ لسانی منصوبہ بندی کو کارگر بنانے کے لیے تحقیق، ابلاغیات اور اشاعت میں اُردو کے معیار کو بہتر بنانا ہو گا۔
جو زبان بھی ہو اس کی ترقی کے لیے ایک مناسب منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ اُردو زبان اس میں بد قسمت رہی ہے کہ اس کے فروغ اور ترقی کے لیے مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ منصوبہ بندی کا قدم بھی اسی وقت آتا ہے جب زبان کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کی جائے۔ بغیر نشاندہی کیے ہوئے مناسب منصوبہ بندی کرنا محال ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس معاملے میں فوقیت رکھتے ہیں جنھوںنے نہ صرف بین الاقوامی سطح پر مختلف زبانوں کا موازناتی مطالعہ کیا ہے بلکہ ان گوشوں کی نشاندہی کی ہے جن کے ذریعے بہتر منصوبہ بندی کر کے زبان کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ اُردو زبان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مختلف لہجوں اور بولیوں کے لیے خاص معیارات مقرر کیے جائیں۔ ان معیارات کی بدولت یہ اندازہ و تخمینہ لگایا جا سکے گا کہ زبان میں مقامیت کے کیا درجات مقرر ہوں گے۔ ان درجات سے زبان کے اندر دوسری زبانوں کے امتزاج و غایت کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ اُردو زبان کو بہتر طور پر ترقی دینے کے لیے اس میں مختلف لفظیات اور اصطلاحات کو ایک خاص درجہ دیا جائے۔ نئی لفظیات و اصطلاحات کی نوعیت کا مطالعہ کر کے ان کے مؤثر اور قابل استعمال ہونے کو جانچا جائے ،اس طرح معروف اور قابل فہم لفظیات و اصطلاحات زبان کا حصہ بنیں گی۔ آج کل انٹر نیٹ اور جدید ذرائع ابلاغ و اشاعت اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اب ان جدید ذرائع سے استفادہ کرنا بہتر ہو گا۔
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment