Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Monday, 4 April 2016

))))Vu & Company(((( عقیدہ توحید کے سات ارکان (حصّہ دوم )


ذاتی علم اور تحقیق کی بناء پر خالق کی پہچان ایمان نہیں

تاریخ میں بڑے بڑے فلسفی گزرے ہیں جن میں سقراط (Socrates)، بقراط (Hippocrate)، ارسطو (Aristotle)، افلاطون (Plato) وغیرہ معروف ہیں جب سے فلسفہ کی تاریخ شروع ہوئی اور حقیقت (reality)، وجود (existence) وغیرہ پر فلسفیانہ بحثیں شروع ہوئیں کہ کائنات کی حقیقت اور اس کی اصل کیا ہے؟ انسان کیا ہے؟ اسی طرح سورج کے بارے میں، آسمانوں کے بارے میں، ستاروں کے بارے میں، خود کائنات (Universe) کے بارے میں اور بنی نوع انسان (human beings) کے بارے میں، سوچ بچار شروع ہوئی تو فلسفے وجود میں آنے لگے مثلاً اس وقت عقلیت کا فلسفہ (Rationalism)، حِسیّت کا فلسفہ (Empiricism) اور تنقیدیّت کا فلسفہ (Criticism) وجود میں آیا۔ اس طرح ارتقاء اور پیش رفت کے نتیجے میں مختلف فلسفے وجود میں آئے اور تصورات بنتے چلے گئے جو انسان کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ایک نتیجے پر پہنچنے میں ممد و معاون بنے۔

انہی عقلی دلائل، غور و خوض اور سوچ و بچار سے جو تفکر کا عمل (thinking process) ظہور پذیر (Develop) ہوا، اس سے استدلالی عمل (reasoning process)، اِستخراجی و اِستنباطی عمل (deductive process) سائنسی عمل (scientific process) اور منطقی عمل (logical process) کی صورت گری ہوئی اور ان تمام تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سوچ بچار کر کے انسان اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور وہی حقیقتِ مطلقہ (absolute reality) ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب اس تصور میں میں پختگی آ گئی تو وہ عقیدہ بن گیا مگر زیادہ تر نظریہ اور فلسفہ ہی رہا۔ عقیدہ بن جانے سے بھی وہ ایمان کے درجے کو نہیں پہنچا نہ وہ عقیدہ توحید میں متشکل ہوا کیونکہ وحدت (unity) علم میں منتقل ہو کر ایک فکر تو بن گئی مگر توحید نہ بن سکی جو مذکورہ بانیانِ فلسفہ کو ایمان کی دولت سے بہرہ ور کر سکتی۔ ان کا نتیجۂ علم ایک نظریہ اور نقطۂ نظر تو بن گیا لیکن انہیں مومن نہ بنا سکا۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے اپنے تجربات اور فکر و تدبر سے حقیقتِ مطلقہ کا جو علم حاصل کر لیا تھا وہ محض وحدت کا علم ہی رہا، توحیدِ الوھی کا درجہ حاصل نہ کر سکا، اس کی صرف ایک وجہ تھی کہ ان فلاسفہ نے بہ واسطہ رسالت و نبوت اس حقیقتِ مطلقہ یعنی خالقِ ارض و سماء اللہ عزوجل کو واحد اور یکتا نہ مانا۔ نتیجتاً وہ دولتِ ایمان سے محروم رہے۔

خلاصۂ بحث یہ ہوا کہ اللہ عزوجل کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے ایک ماننا ہی ایمان ہے۔ خواہ ذاتی علم ہو یا ماننے والا ایک سادہ سا عام انسان ہی کیوں نہ ہو اس کے برعکس اگر واسطۂ رسالت و نبوت نصیب نہ ہو اورانسان علم میں اپنے وقت کا امام ہی کیوں نہ ہو وہ علم کے ذریعے دولتِ ایمان حاصل نہیں کر سکتا اور نہ فلسفہ اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں فائدہ دے سکتا ہے۔

7۔ پیغمبر کے واسطے سے خالق کی پہچان ایمان ہے

جیسا کہ اوپر کی سطور میں واضح ہو گیا ہے کہ اگر انسان نے اپنے ذاتی علم، مشاہدے، تجربے، تجزیئے، استدلال اور سائنسی علم (scientific knowledge)، علم فلسفہ (philosophical knowledge) پر اعتماد کر کے اﷲ تعالیٰ کو ایک جانا اور مانا تو یہ فکر، نظریہ اور فلسفہ رہا اور اگر پیغمبر کی خبر پر پیغمبر کی زبان پر بن دیکھے (blind faith) اﷲ تعالیٰ کو ایک جانا اور مانا تو اس کا یہ جاننا عقیدۂ توحید اور ایمان بن گیا۔ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ کا نبی اور رسول ہونے کے ناطے یہ کہا کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ اﷲ ایک ہے اب خواہ کسی انسان کا اس حوالے سے کوئی علم ہے یا نہیں، قطعِ نظر اس سے جب اس نے اﷲ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات مان لی اور یقین کر لیا تو اس کا عقیدۂ توحید وجود میں آ گیا۔ اس طرح اﷲ کو ایک ماننا توحید اور ایمان بن گیا۔

گویا عقیدۂ توحید تب وجود میں آتا ہے جب اﷲ تعالیٰ کے ایک ہونے کی معرفت کا ادراک زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کے درمیان مکالمہ ہوا، جسے قرآن نے ان الفاظ کے ساتھ قیامت تک محفوظ کر لیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَـهَكَ وَإِلَـهَ آبَائِكَ إِبراہِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَـهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَO

''کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جب یعقوب (علیہ السلام) کو موت آئی، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا تم میرے (انتقال کے) بعد کس کی عبادت کرو گے؟ تو انہوں نے کہا : ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق (علیھم السلام) کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبودِ یکتا ہے، اور ہم (سب) اسی کے فرماں بردار رہیں گےo''

البقرة، 2 : 133

حضرت یعقوب علیہ السلام یہ سن کر خاموش اور مطمئن ہو گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو یہ پوچھ رہے تھے کہ کس کی عبادت کرو گے۔ جواب بڑا سادہ سا تھا۔ اگر وہ صرف اتنا کہہ دیتے کہ اللہ کی عبادت کریں گے تو سوال کا جواب مل جاتا لیکن آپ کے صاحبزادوں نے ذاتی علم و عرفان اور معرفتِ حق کی بہ دولت یہ جواب نہیں دیا بلکہ کہا کہ ہم آپ کے اور آپ کے آباؤاجداد کے رب کی عبادت کریں گے۔ پھر کہا وہ ایک ہے اور ہم اسی کو ماننے والے ہیں۔ یہ سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام مطمئن ہو گئے۔ اس ارشادِ باری تعالیٰ سے پتہ چلا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام بھی بیٹوں کی زبان سے یہ اطمینان کرنا چاہتے تھے کہ آیا ان کے بیٹے باری تعالیٰ کی ذات تک رسائی اپنی عقل و دانست سے حاصل کرنا چاہتے ہیں یا واسطۂ نبوت سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی فرد اپنی عقل پر اعتماد کرنے کی بجائے اﷲ کو اس لئے رب مانے کہ زبانِ نبوت نے اعلان کر دیا اور اس کی جبین نیاز رسالت کے سامنے جھکی رہے تو پھر اس کے بہکنے کا امکان اور شائبہ نہیں ہو گا۔

8۔ عقیدۂ توحید خود وسیلۂِ رسالت کا طالب ہے

جب تک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کو ایک جاننے کے علم میں واسطہ اور وسیلہ نہیں بنے تب تک وہ علم محض ایک تصور تھا عقیدۂِ توحید نہیں تھا۔ فلسفہ تھا ایمان نہیں تھا، فلسفہ سے ترقی پاکر ایمان تب بنا جب اس علم کو وسیلہ رسالت نصیب ہوا۔ گویا عقیدۂِ توحید یعنی ایمان باﷲ وسیلۂ نبوت و رسالت کے بغیر وجود میں نہیں آتا۔ بالفاظ دیگر عقیدۂ توحید کا اثبات وسیلۂ رسالت سے ہوتا ہے۔ اس طرح عقیدۂِ توحید ایک ایسی مسلمہ حقیقت بن گیا کہ دنیا کی کوئی قوت اس کو رد نہیں کر سکتی۔

9۔ ایمان ذاتی علم کی بجائے خبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انحصار کا نام ہے

یہاں ایمان کے ایک اور نکتہ کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو اس وقت دنیا کے پاس اپنے ذرائع سے جو دستیاب علم تھا، اگر اس کی اساس پر انسان اس نتیجے تک پہنچتا کہ خدا ایک ہے اور بہ فرضِ محال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ دین لے کر آئے تھے، فرما دیتے کہ خدا ایک نہیں، دو یا تین ہیں تو ایمان باﷲ کے باب میں ایک خدا کی بجائے دو یا تین خداؤں کو ماننا لازم ہو جاتا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ماهِ ذوالحجہ، شہرِ مکہ اور یومِ عرفہ کے بارے میں استفسار فرمایا۔ انہوں نے اﷲ و رسولہ اعلم کہہ کر بے خبری کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ذہنوں میں موجود علم کے برعکس کوئی اور بات بھی کہہ دیتے تو وہ اس کو بھی مان لیتے۔ بخاری شریف کی روایت ہے :

عَنْ أبِيْ بَکْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : خَطَبَنَا النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ النَّحْرِ، قَالَ : أَتَدْرُوْنَ أَيُ يَوْمٍ هَذَا؟ قُلْنَا : اﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ : أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟ قُلْنَا : بَلٰی، قَالَ : أَيُ شَهْرٍ هَذَا؟ قُلْنَا : اﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، فَقَالَ : أَلَيْسَ ذُوالْحَجَّةِ؟ قُلْنَا : بَلَی، قَالَ : أَيُ بَلَدٍ هَذَا؟ قُلْنَا : اﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ : أَلَيْسَتْ بِالْبَلَدَةِ الْحَرَامِ؟ قُلْنَا : بَلَی، قَالَ : فَإنَّ دِمَاءَ کُمْ، وَأَمْوَالَکُمْ، عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا، فِيْ شَهْرِکُمْ هَذَا، فِيْ بَلَدِکُمْ هَذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ، أَلاَ هَلْ بَلَغْتُ؟ قَالُوْا : نَعَمْ، قَالَ : اللّٰهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَی مِنْ سَامِعٍ، فَلَا تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.

''حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم النحرکو ہمیں خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم سمجھنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ فرمایا : کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے جی ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے جس سے ہم سمجھنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ فرمایا : کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ کون سا شہر ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم سمجھنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ حرمت والا شہر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو (پھر یہ بھی جان لو کہ) تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے جب تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) کیا میں نے پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا، ہاں۔ (تب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا : اے اﷲ! گواہ رہنا (اور فرمایا) حاضر اسے غائب تک پہنچا دے۔ بعض اوقات وہ شخص جس تک بات پہنچائی گئی براہِ راست سننے والے سے زیادہ یاد رکھتا ہے۔ میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ ہو جانا۔''

1. بخاری، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة أيام منی، 2 : 620، رقم : 1654

(امام بخاری نے اس حدیث مبارکہ کو صحیح البخاری، کتاب العلم، رقم : 67، کتاب المغازی، رقم : 4144، کتاب الاضاحی، رقم : 5230، کتاب الفتن، رقم : 6667، اور کتاب التوحید، رقم : 7009 میں بھی بیان کیا ہے)

2. مسلم، الصحيح، کتاب القسامة و المحاربين والقصاص والديات، باب تغليظ تحريم الدماء و الأرض و الأموال، 3 : 1305، رقم : 1679

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایمان اپنے علم پر انحصار کرنے کا نام نہیں بلکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر پر انحصار کرنے کا نام ہے یعنی جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا اس پر اعتماد کرنے کا نام ایمان ہے۔ اگر لوگوں کا مبلغِ علم اور اطلاع اس کی مطابقت میں ہو تو علم صحیح ہے اور اگر ان کا علم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے علم سے متضاد اور غیر مطابق (inconsistent) ہو جائے تو پھر تمام ذرائع سے اکٹھا کیا ہوا علم غلط ہو گا۔

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment