Nice
On 22 Jun 2016 5:17 p.m., "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
-- --13۔ پیالہ مبارک سے حصولِ برکتلبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس برتن کو مس کیا وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم ایسے برتنوں کو بطور تبرک اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے اور پینے پلانے کے ایسے برتنوں کا استعمال باعث برکت و سعادت گردانتے تھے۔1۔ حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک ایسے برتن میں پانی پلانے کی پیشکش کی کہ جس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا اور انہوں نے اس مبارک برتن کو اپنے پاس محفوظ کر لیا اور فرمایا :ألا أسقيک فی قدح شرب النبی صلی الله عليه وآله وسلم فيه؟بخاري، الصحيح، 5 : 2134، کتاب الأشربة، رقم : 5314عسقلانی، تغليق التعليق، 5 : 32''کیا میں آپ کو اس پیالے میں (پانی) نہ پلاؤں جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا ہے؟''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسرے الفاظ اس طرح مروی ہیں کہ میں مدینہ پاک حاضر ہوا تو مجھے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے اور اس نے کہا :انطلق إلی المنزل فأسقيک فی قدح شرب فيه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.بخاري، الصحيح، 6 : 2673، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، رقم : 6910بيهقي، السنن الکبری، 5 : 349، رقم : 10708عسقلانی، فتح الباری، 7 : 131، رقم : 3603عسقلانی، تغليق التعليق، 5 : 32''میرے ساتھ گھر چلیں میں آپ کو اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیا ہے۔''2۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :فأقبل النبی صلی الله عليه وآله وسلم يومئذ حتي جلس في سقيفة بني ساعدة هو و أصحابه ثم قال : اسقنا، يا سهل : فخرجت لهم بهذا القدح فأسقيتهم فيه. (قال أبو حازم : ) فأخرج لنا سهل ذلک القدح فشربنا منه. قال : ثم استوهبه عمر بن عبدالعزيز بعد ذلک، فوهبه له.بخاري، الصحيح، 5 : 2134، کتاب الاشربة، رقم : 5314مسلم، الصحيح، 3 : 1591، کتاب الأشربة، رقم : 2007ابوعوانه، المسند، 5 : 136، رقم : 8125بيهقي، السنن الکبري، 1 : 31، رقم : 123روياني، المسند، 2 : 201، رقم : 1036ابن جعد، المسند، 1 : 431، رقم : 2935طبراني، المعجم الکبير، 6 : 145، رقم : 5792عسقلاني، فتح الباري، 10 : 99، رقم : 5314''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر حضرت سہل سے فرمایا : اے سہل! ہمیں پانی پلاؤ۔ پھر میں نے ان کے لیے یہ پیالا نکالا اور انہیں اس میں (پانی) پلایا۔ (ابو حازم نے کہا :) سہل نے ہمارے لیے وہ پیالہ نکالا اور ہم نے بھی اس میں پیا۔ پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان سے مانگ لیا تو حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان کو دے دیا۔''صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پیالۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ پانی اپنے سروں اور چہروں پر انڈیلا3۔ حضرت حجاج بن حسان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :کنا عند أنس بن مالک، فدعا بإناء و فيه ثلاث ضباب حديد و حلقة من حديد، فأخرج من غلاف أسود و هو دون الربع و فوق نصف الربع، فأمر أنس بن مالک فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا علی رؤوسنا و وجوهنا و صلينا علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم.احمد بن حنبل، المسند، 3 : 187، رقم : 12971ابن کثير، البديه والنهيه، 6 : 7مقدسي، الآحاديث المختارة، 5 : 216، رقم : 1845اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔''ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔''حضرت انس رضی اللہ عنہ نے پیالۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاندی کے تار سے جوڑاجب وہ مبارک پیالہ ٹوٹ گیا (جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی پیا تھا) جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھا تو اس کی مرمت کا انہوں نے جس قدر اہتمام کیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب اشیاء کو کس قدر حرزجاں بنائے ہوئے تھے۔4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔أن قدح النبی صلی الله عليه وآله وسلم انکسر فاتخذ مکان الشعب سلسلةً من فضة. قال عاصم : رأيتُ القدح و شربتُ فيه.بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2942طبرانی، المعجم الاوسط، 8 : 87، رقم : 8050بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 29، رقم : 113 - 111عسقلانی، تلخيص الجبير، 1 : 52ملقن، خلاصة البدر المنير، 1 : 25احمد بن علي، الفصل للوصل المدرج، 1 : 249صنعاني، سبل السلام، 1 : 34ابن قدامه، المغني، 1 : 59شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 84''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ (حضرت انس رضی اللہ عنہ) نے اسے جوڑنے کے لئے عام چیز کی بجائے چاندی کے تار لگا دیئے۔ عاصم (راوی ) کہتے ہیں : خود میں نے اس پیالے کی زیارت کی ہے اور اس میں پیا ہے۔''14۔ مشکیزہ سے حصولِ برکت1۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ مشکیزہ کا منہ حصول خیر و برکت کے لئے کاٹ کر محفوظ کیا۔ جیسا کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی عمرہ اپنی دادی حضرت کبشہ انصاریہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم دخل عليها، و عندها قِربة معلقة فشرب منها و هو قائم، فقطعت فم القِربة تبتغي برکةَ موضع في رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.ابن ماجه، السنن، 2 : 1132، کتاب الأشربه، رقم : 3423ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 306، ابواب الأشربه، رقم : 1892ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 174، باب صفة شرب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، رقم : 212ابن حبان، الصحيح، 12 : 138، رقم : 5318حميدي، المسند، 1 : 172، رقم : 354طبراني، المعجم الکبير، 25 : 15، رقم : 8شيباني، الآحاد والمثاني، 6 : 138، رقم : 3365بغوي، شرح السنه، 11 : 379، رقم : 3042ابن ماجہ کی روایت کی سند صحیح ہے جبکہ امام ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح غریب قرار دیا ہے۔''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ہاں تشریف لائے تو وہاں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پانی پیا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے تھے، پس میں نے مشکیزے کا منہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ اقدس والی جگہ سے حصول برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔''2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :أن النبي صلی الله عليه وآله وسلم دخل علي أم سليم، و في البيت قِربة معلقة، فشرب من فيها و هو قائم، قال : فقطعت أم سليم فم القربة فهو عندنا.احمد بن حنبل، المسند، 3 : 119، رقم : 12209احمد بن حنبل، المسند، 6 : 431، رقم : 27468ترمذي، الشمائل المحمدية، 1 : 177، باب صفة شرب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، رقم : 215طيالسي، المسند، 1 : 229، رقم : 1650طبراني، المعجم الکبير، 25 : 127، رقم : 307طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 204، رقم : 654مقدسي، الآحاديث المختاره، 7 : 295، رقم : 2750ابن جعد، المسند، 1 : 329، رقم : 2255هيثمي، موارد الظمان، 1 : 333، رقم : 1372ابن جارود، المنتقیٰ، 1 : 220، رقم : 868''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا کے یہاں تشریف لائے تو ان کے گھر میں (پانی کا) ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشکیزہ سے کھڑے ہوئے پانی نوش فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نے اس مشکیزہ کا منہ کاٹ لیا۔ پس وہ (اب بھی) ہمارے پاس موجود ہے۔''حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں۔ان دونوں صحابیات کا مشکیزے کے ٹکڑوں کو محفوظ کر لینا فقط حصولِ برکت کے لیے اس وجہ سے تھا کہ انہیں محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے مس کیا تھاجس سے یہ ٹکڑے عام ٹکڑوں سے ممتاز ہو گئے تھے، فقط اس لئے کہ دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سما جانے کے بعد یہ ہمیشہ کے لیے خیر وبرکت کا باعث سمجھے جانے لگے۔15۔ عصا مبارک سے حصولِ برکت1۔ حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں گستاخِ رسول سفیان بن خالد الھذلی کا کام تمام کر کے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چہرہ فلاح پائے۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس (خالد بن سفیان بن ھذلی) کو قتل کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے سچ کہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور اپنے کاشانۂ اقدس میں تشریف لے گئے اور مجھے عصا عطا کیا اور فرمایا : اے عبداللہ بن انیس! اسے اپنے پاس رکھ، پس جب میں یہ عصاء لے کر لوگوں کے سامنے نکلا توانہوں نے کہا کہ یہ عصا (ڈنڈا) کیا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اسے پاس رکھو۔ لوگوں نے (مجھے) کہا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرو کہ کیا تم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس تو نہیں کرو گے؟ عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیک وسلم! یہ عصا مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کس لیے عطا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :آية بيني و بينک يوم القيامة، أن أقل الناس المنحصرون يومئذ يوم القيامة. فقرنها عبداﷲ بسيفه فلم تزل معه حتي إذا مات، أمر بها فصبت معه في کفنه ثم دفنا جميعاً.احمد بن حنبل، المسند، 3 : 496ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 51مقدسي، الآحاديث المختارة، 9 : 30، رقم : 13ابويعلي، المسند، 2 : 202، رقم : 905بيهقي، السنن الکبری، 3 : 256، رقم : 5820هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 203طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 208ابن هشام، السيرة النبوية، 6 : 31ابن حبان، الصحيح، 16 : 115، رقم : 7160هيثمي، موارد الظمان، 1 : 156، رقم : 591''قیامت کے روز یہ تیرے اور میرے درمیان ایک نشانی ہوگی کہ جس دن بہت کم لوگ کسی کے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں گے۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) حضرت عبداﷲ بن انیس نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہتا یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔ انہوں نے عصا کے متعلق وصیت کی تھی کہ اس کو ان کے کفن میں رکھ دیا جائے اور پھر ان کے ساتھ ان کے ساتھ یکجا دفن کر دیا جائے۔''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے :أنه کانت عنده عصية لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فمات فدفنت معه بين جنبه و بين قميصه.ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 6هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 45''کہ ان کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک چھوٹی سی چھڑی تھی، جب وہ فوت ہوئے تو وہ (چھڑی) ان کے ساتھ ان کی قمیص اور پہلو کے درمیان دفن کی گئی۔''آثارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی کی سزاقاضی عیاض رضی اللہ عنہ 'الشفا (2 : 621)' میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :أن جَهْجَها الغِفَاری أخَذَ قضيبَ النبیِّ صلي الله عليه وآله وسلم من يد عثمان ص، و تناوله لِيکسِره علي رُکبته، فصاح به الناسُ، فأخذته الأکِلَة في رُکبته فقطعها، و مات قبل الْحَولِ.قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفي، 2 : 621بخاري، التاريخ الصغير، 1 : 79، رقم : 311عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 1 : 519''جھجاھا غفاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عصا مبارک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑنے کی (مذموم) کوشش کی لیکن لوگوں نے شور مچا کر اسے روک دیا۔ پھر (اس کو اس بے ادبی کی غیبی سزا اس طرح ملی کہ) اس کے گھٹنے پر پھوڑا نکلا جو ناسور بن گیا جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور وہ اُسی وجہ سے سال سے کم عرصہ میں مر گیا۔''16۔ منبر مبارک سے حصولِ برکتحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس منبر شریف پر بیٹھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو دین سکھاتے تھے، عشاقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس منبر شریف کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے آثار کی طرح دل و جاں سے حصولِ برکت کا ذریعہ بنا لیا، وہ اسے جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے اوراس سے برکت حاصل کرتے۔قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :و رُئی ابن عمر واضعا يدَه علي مَقْعَدِ النبیِ صلي الله عليه وآله وسلم من المِنبَر، ثم وضعها علي وَجْهه.قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، 2 : 620تميمي، الثقات، 4 : 9، رقم : 1606ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 254ابن قدامه، المغني، 3 : 299''اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔''17۔ عطا شدہ سونے سے حصولِ برکتصحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کسی بھی شے کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرتے اور حتی المقدور اسے ضائع نہ ہونے دیتے حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دینار بطور معاوضہ کسی صحابی کو دیئے تو انہوں نے انہیں بھی باعث خیر و برکت سمجھ کر سنبھال کر رکھے اور آگے خرچ نہیں کئے۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں : میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ایک سست اونٹ پر سوار ہونے کی وجہ سے سب سے پیچھے رہتا تھا۔ جب میرے پاس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے تو پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : جابر بن عبداللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ایک سُست اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چھڑی کے متعلق فرمایا تو میں نے چھڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اونٹ کو مارا اور ڈانٹا۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے وہی اونٹ سب سے آگے بڑھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اونٹ کو خریدنا چاہا تو میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! یہ آپ ہی کا ہے، یہ بلا معاوضہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خریدنے پر اصرار کیا اور فرمایا کہ میں نے چار دینار کے عوض اسے تم سے خرید لیا ہے اور مجھے مدینہ منورہ تک اس پر سواری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔۔۔ ۔ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :يا بلال، اقضِه و زِدهُ.''اے بلال! (جابر کو) اس کی قیمت دو اور اس میں زیادتی کرو۔''حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو چار دینار اور ایک قیر اط سونا زیادہ دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :لا تُفارِقنُی زيادةُ رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. فلم يکنِ القيراط يُفارق جراب جابر بن عبداﷲ.بخاري، الصحيح، 2 : 810، کتاب الوکالة، رقم : 2185مسلم، الصحيح، 3 : 1222، کتاب المساقاة، رقم : 1600احمد بن حنبل، المسند، 3 : 314، رقم : 14416ابن حبان، الصحيح، 11 : 279، رقم : 4911ابوعوانه، المسند، 3 : 253، رقم : 4849ابو يعلی، المسند، 3 : 413، رقم : 1898''اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا (ایک قیراط) سونا مجھ سے کبھی جد ا نہ ہوتا۔ (راوی بیان کرتے ہیں : ) اور (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کردہ ) وہ ایک قیراط (سونا) جابر بن عبداللہ کی تھیلی میں برابر رہتا، کبھی جدا نہ ہوا۔''
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment