Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Monday, 27 June 2016

Re: ))))Vu & Company(((( مسلم نوجوان کے نام چند نصیحتیں

Nice

On 27 Jun 2016 7:15 p.m., "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:

میرا سوال ہے کہ:امت اسلامیہ اور معاشرہ کی تعمیر میں مسلم نوجوان کا کیا کردار ہونا چاہئے؟ملاحظہ ہو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نوجوان کا ذکر کیا گیا ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: {قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ} [الأنبياء: 60]، اسی طرح نوجوان سے متعلق احادیث نبویہ بھی وارد ہیں، لہٰذا مسلم نوجوان کے دین، اس کے معاشرہ اور قوم کے تئیں آپ کیا فرماتے ہیں؟

جواب:

الحمدللہ!
شیخ  عبدالعزیز بن باز ؒ کہتے ہیں:

'' کسی بھی قوم کے نوجوان ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتے ہیں، جو اپنی قوم میں نئی زندگی اور انقلاب کی روح پھونکنے کا کام کرتے ہیں، وہ ثمر آور توانائی اور تازہ دم اور خداداد صلاحیتوں سے مسلح ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پیشتر قوموں کی بیداری اور انکے انقلاب کا سہرا نوجوانوں کے ہی  سر جاتا ہے۔

اس حقیقت سے دشمنان اسلام بخوبی واقف ہیں، لہٰذا انھوں نے نوجوانان ملت کے راستوں میں رکاوٹیں پیدا کرکے، ان کے رخ کو موڑکر، ان کے دین سے انہیں  بیگانہ کرکے نیز اہل علم اور اہل الرائےپر نفرت بھرے القاب چسپاں کرکےاور ان کی شبیہ کو معاشروں میں مسخ کرکےیا ان پر حکومتوں کے الزامات تھوپ کر نوجوانان ملت کے درمیان ایک گہری خلیج پیدا کردی ہیں۔ فتاوى الشبخ ابن باز " ( 2 / 365 ) .

(۲)۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ مسلم نوجوان کا ایک اہم کردار رہا ہے، اس نے اہم ترین خدمات اور کارنامے سرانجام دیئے ہیں ، نوجوان کی ترقی اور دوبارہ ان میں بیداری پیدا کرنے  کے لئے چند اہم امور پر عمل ضروری ہے۔

یہاں ان امور کا  خلاصہ پیش کرنا مناسب ہوگا۔

۱۔ علم شرعی:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 {هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ} [الزمر:9].

ترجمہ: بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں۔

اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے: «طَلَبُ العِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَىْ كُلِّ مُسْلِمٍ» [رواه ابن ماجه، وهو حديث حسن ] . ترجمہ: علم (دین کا) حاصل کرنا ہر مسلم پر فرض ہے۔

علم ہر مسلم پر شرعی طور پر واجب ہے، جاہل دین کو سمجھ نہیں سکتا، اور نہ محفلوں اور کلبوں میں اپنے دین کا دفاع کرسکتا ہے، جاہل سے اس کی قوم کو اس کے شہر کو اور نہ ہی اس کے دیہات اور نہ ہی اس کے اہل خانے کو کوئی فائدہ ہوتا ہے، لہٰذا مسلمان نوجوانوں کو مساجد، اور اسلامی مراکز میں قائم علمی حلقوں کا رخ کرنا چاہئے اور حفظ قرآن مجید اور کتب دینیہ کے مطالعہ میں اپنی سرگرمیاں سرانجام دینا چاہیئے۔

۲۔ دعوت الی اللہ اور لوگوں کو تعلیم دینا:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}

 [آل عمران:104].

 اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔

علم کی زکاۃ ،دعوت اور تعلیم دینا ہے، جس نے بھی علم شرعی حاصل کیا ہے اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے علاوہ تک اسے پہنچائے، اور کافروں کو اسلام کی دعوت دینے اور نافرمان بندوں کو استقامت علی الدین پر آمادہ کرنے میں حصہ لیں۔

۳۔ لوگوں کی ایذاء رسانیوں پر صبروبرداشت:

اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کے لئے نصیحت کو نقل فرمایا:

 {يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ} [لقمان: 17] .

ترجمہ: بیٹا نماز کی پابندی رکھنا اور (لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا امر اور بری باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اس پر صبر کرنا۔ بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔

اور داعی کے لئے تو لازمی بات ہے کہ اسے قولی اور فعلی ایذاؤں کا سامنا ہوگا،لیکن دعوت الی اللہ کو جاری رکھنے میں یہ صعوبتیں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے، انبیاء اور رسولوں کو اس سے زیادہ ایذاؤں اور صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا، لیکن انہوں نے اپنے طریق کو چھوڑا نہیں، داعی کو ایسے موقعوں پر صبر اور احتساب سے کام لینا چاہئے۔

۴۔ اوامرکو بجالانا اور نواہی سے اجتناب:

مسلم نوجوان اپنے رب تعالیٰ کا مطیع وفرمان بردار ہوتا ہے، وہ شریعت کا کوئی حکم نہیں سنتا مگر یہ کہ سب سے پہلے اسے بجالاتا ہے، وہ کوئی ممنوعہ بات کو سنتے ہی اس سے سب سے پہلے دور ہوجاتا ہے، ایسا نوجوان کل روز قیامت عظیم اجر وثواب کا مستحق ہوگا، ایسے وقت جب سورج اپنی شعلہ باریوں کے ساتھ مخلوق کے سروں پر منڈلا رہا ہوگا تو وہ نوجوان اپنے رب تعالیٰ کے عرش کے سایے میں عرش الہٰی کی ٹھنڈی ٹھنڈی فضاؤں سے لطف اٹھارہا  ہوگا۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے لوگ ہوں گے، اللہ تعالیٰ انہیں اس دن سایہ عطا فرمائے گا جس دن اللہ تعالیٰ کے سایے کے کوئی سایہ نہ ہوگا، ان میں ایک انصاف پرور بادشاہ اور ایسا نوجوان بھی ہوگا جس نے اپنے رب تعالیٰ کی عبادت میں پرورش پائی'' [متفق علیہ]

۵۔ تزکیہ ٔنفس:

مسلم نوجوان کو اور جس بات کی ضرورت ہے اور ہم پر جس کی نصیحت کرنا واجب ہے وہ یہ کہ مسلم نوجوان اپنے وقت کا کچھ حصہ تزکیہ نفس کے لئے بھی دے، یعنی اپنے نفس پر محنت کرے اور نفس کو ان نفل اعمال میں مشغول رکھے جن کا کرنا آسان ہو، جیسے قیام اللیل کا اہتمام، فرصت کے دنوں میں روزوں کا اہتمام، روزمرہ کے اوراد واذکار کی پابندی، یہ اعمال ہدایت کے راستے پرثابت قدم رہنے کے لئے نوجوان کا توشہ ہے، ساتھ ہی محرمات سے نظروں کی حفاظت اور منکرات کے سننے سے کانوں کی حفاظت اور باقی جوارح کی ان اعمال کے ارتکاب سے حفاظت جن کے ارتکاب سے رب تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔ نیز اس باب میں مسلمان نوجوان کو نبی ﷺ کے حکم کو بجالاتے ہوئے جو کہ آپ نے نوجوانوں سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے عفت نفس کا اہتمام کرنا چاہیئے۔

آپ ﷺ کا ارشاد ہے: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ» [متفق عليه]

(اے نوجوانوں کی جماعت تم میں  سے جو نکاح کرنے پر قدرت رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ شادی کرے،کیونکہ یہ نظروں اور شرمگاہ کی حفاظت کاذریعہ ہے، اور جو نکاح نہیں کرسکتا اسے چاہئے کہ وہ روزہ رکھے، اس لئے کہ روزہ اس (شہوت)سے بچنے کا ذریعہ ہے۔)


۶۔مستند علماء کرام سے رجوع ہونا:

ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا} [النساء: 83].

 ترجمہ: اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو ہوجاتے۔

ٰمسلم نوجوان جذبات کے بہاؤ میں نہیں بہتا ہے بلکہ وہ  مستند علماء اور اکابر امت  کی رہنمائی ورہبری میں ہدایت کے راستے پر چلتا ہے، جو  وسیع علم اور فائدہ مند تجربات کے حامل ہوتے ہیں، ان کی نصیحتوں پر عمل کرتا ہے اور ان کے رائے مشوروں کو عملی جامہ پہناتا ہے۔جب ایسا ہوتو امید ہے کہ نوجوان اپنی قوم، اپنے دین کو بہت زیادہ نفع پہنچانے والاثابت ہوگا۔

۷۔نوجوانوں  کولوگوں کے لئے نمونہ بننا چاہئے:

علم کے طلبگاروں، اہل علم اور داعی حضرات کا یہی حال رہتا ہے،وہ مسلم نوجوان جو لوگوں کو تعلیم کودیتا ہو ، انہیں دعوت  دیتا ہو اس کے قول وفعل میں تضاد نہیں  ہوتا  ہے بلکہ مسلم نوجوان تو فضائل سے آراستہ ہوتا ہے اور نیکیوں پر لوگوں کو آمادہ کرتا ہے، وہ امانت ، استقامت، صدق وسچائی اور پاکدامنی وپاکبازی میں لوگوں کے لئے ایک مثال ہوتا ہے۔

۸۔نوجوان اپنے دین پر فخر کرتے ہیں اور کافروں کی تقلید وپیروی چھوڑتے ہیں:

ارشاد باری تعالیٰ ہے: {قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ} إلى قوله تعالى: {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ} [الممتحنة: 4 – 6].

( ترجمہ:) تمہیں ابراہیم اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں) سے جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو بےتعلق ہیں (اور) تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہوسکتے) اور جب تک تم خدائے واحد پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی۔ ہاں ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے یہ (ضرور) کہا کہ میں آپ کے لئے مغفرت مانگوں گا اور خدا کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہمارا بھروسہ ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیرے ہی حضور میں (ہمیں) لوٹ کر آنا ہے،اے ہمارے پروردگار ہم کو کافروں کے ہاتھ سے عذاب نہ دلانا اور اے پروردگار ہمارے ہمیں معاف فرما۔ بےشک تو غالب حکمت والا ہے،تم (مسلمانوں) کو یعنی جو کوئی خدا (کے سامنے جانے) اور روز آخرت (کے آنے) کی امید رکھتا ہو اسے ان لوگوں کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ اور روگردانی کرے تو خدا بھی بےپرواہ اور سزاوار حمد (وثنا) ہے۔

لیکن آج ہم اکثر نوجوانوں کو کفار کی پیروی میں ان کے لباس، ان کی وضع قطع اور حرکات وسکنات میں ان کی نقل کرتے ہوئے پاتے ہیں، بڑا افسوس ہے ایسے نوجونوں پر، حالانکہ ان نوجوانوں کو اپنے دین پر فخر کرنا چاہئے تھا، انہیں اپنے دین کے شعائر کے مظاہرے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے تھا، ان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنے خالق ومالک کی عبادت میں لوگوں سے شرم کریں۔ نوجوانوں کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ قول، فعل اور لباس میں کافروں جیسی ہیئت اختیار کریں، اگر نوجوانوں میں یہ باتیں پیدا ہوجائیں توایسے نوجوان مغربی تہذیب وتمدن کے دلدادہ دیگر نوجوانوں کے لئے ایک بہترین نمونہ ثابت ہونگے۔

۹۔جہاد  کرنا اور  اپنے نفس کو اللہ کے راستے میں لگانا:

امت اسلامیہ کو (ینگ مسلم)مسلم نوجوان کے ہر قسم کی توانائی ا ورطاقت کی ضرورت ہے، مسلم نوجوان کو اپنے دین کی سربلندی وافتخار کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے ، مسلم نوجوان تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی کافر اسلامی ملک پر حملہ آور ہے تو وہ اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں اس پر ٹوٹ پڑتا ہے، جب خاندان بکھیردیئے جاتے ہیں تو مسلم نوجوان ان کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، وہ اسلام کے لئے ہر میدان کا شہسوار ہوتا ہے، جب کبھی اور جہاں کہیں جو بھی اسلام کے لئے ضرورت پیش آتی ہے ، ایسے وقت مسلم نوجوان کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اسلام کی سربلندی کے لئے آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ معزز صحابۂ کرام میں ینگ مسلم کی مثال دیکھنا ہوتو حضرت علی ابن ابی طالب کو دیکھو، جب وہ ہجرت کی رات بلاخوف وتردد نبی پاک ﷺ کے بستر پر لیٹ گئے، عبداللہ بن ابوبکر کو دیکھو جو قریش کی خبر لیتے اور سرکار مدینہ کو مطلع فرماتے،  خلیفہ اول حضرت ابوبکر کو دیکھو جو غار ثور میں رسول اللہ کا تن تنہا ساتھ دے رہے ہیں، حضرت اسامہ بن زید کو دیکھئے جنھوں نے اکابرین صحابہ پر مشتمل ایک لشکر جرار کی قیادت سنبھالی۔


اخیرمیں ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ  مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے،اور نوجوانان ملت کو اپنی رضا وخوشنودی والے اعمال کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں ہدایت یافتہ اور ہدایت کی دعوت دینے والے بنائے۔۔۔۔آمین

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment