Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Thursday 31 March 2016

))))Vu & Company(((( اردو کی لسانی ترقی میں ڈاکٹر عطش دُرّانی کا کردار (حصّہ دوم )

۔گھوسٹ کریکٹر تھیوری 
(Ghost Character Theory) 
ڈاکٹر عطش درّانی نے شہرہ آفاق گھوسٹ کریکٹر تھیوری پیش کی ہے جسے 'خالی کشتیوں' کی تھیوری بھی کہتے ہیں۔ گھوسٹ کریکٹرز وہ حروف ہیں جو بے نقط ہوں اور انہیں تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ استعمال کیا جا سکے۔ ڈاکٹر عطش درّانی کے مطابق ان کریکٹرز کی تعداد ۱۹ہے۔ 
ئ، ا، ب، ح ، د ، ر، س، ص، ط، ع ، ف، ق، ک، ل، م، ں، ہ، و ، ی ۔ 
یہ کریکٹرز عربی رسم الخط سے آئے جب ایران نے عربی رسم الخط اپنایا تو انھوں نے چند نئے حروف متعارف کروائے جن میں نقطے اور ایک لائن ہو۔ یہی رسم الخط ہندوستان آیا تو ان پر چار نقطوں کا اضافہ ہو گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، عربی اور فارسی زبانوں میں تین بنیادی گھوسٹ کریکٹرز شامل ہو گئے۔ و، ہ ، گ ، ھ، ے ،تھے۔ وہ زبانیں جو عربی رسم الخط استعمال کرتی ہیں۔ ان میں گھوسٹ کریکٹرز کی تعداد ۲۲ہے جو یہ ہیں۔ 
ا ب ح د ر س ص ط ع ف ک گ ل م ن ں و ہ ء ی ھ ے 
مکمل ۵۲ بنیادی کریکٹرز کم از کم ۶۶۰بنیادی حروف بناتے ہیں۔ ۶۶۰گھوسٹ بنیادی حروف ۱۹۸۰۰ رسمی حروف بناتے ہیں ۔ کل ملا کر ۲۰۴۰۰= ۱۹۸۰۰+۶۰۰ حروف بنتے ہیں۔۷؎ ان کی پیش کردہ اس گھوسٹ تھیوری سے انٹرنیشنل Unicode پر مختلف الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی مدد سے ڈاکٹر عطش درّانی نے کمپیوٹر پر مختلف زبانوں کے الفاظ کے استعمال کو بہتر بنایا ہے۔ اب تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو، براہوی، بلتی، شنا، کشمیری ، گوجری کو کمپیوٹر پر لکھا جا سکتا ہے۔ 
۶۔خاص مقصد کی زبان
(Language For Specific Purposes) 
خاص مقصد کی زبان کی اصطلاح یورپ اور بین الاقوامی سطح پر استعمال کی جا رہی ہے۔ جب زبان کے ماہرین زبان کو کسی خاص مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو وہ خاص مقصد کی زبان کہلاتی ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر عطش درّانی کے سر سہرا جاتا ہے کہ انھوں نے اس بین الاقوامی سطح کے موضوع کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کے بقول علمی مقاصدو تکنیکی امور، سائنسی علوم، فنی اور خصوصی اغراض کے لیے جو زبان استعمال ہوتی ہے خاص مقصد کی زبان کہلاتی ہے۔ یہ زبان خصوصی حلقے تک محدود ہوتی ہے۔ صرف متعلقہ مضمون و شعبہ کے ماہرین باہمی ابلاغ کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بقول اُردو کو میڈیکل، انجینئرنگ ، وکالت ، دفتری امور کی خاص زبان کے طور پر ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ تا کہ ایک خاص شعبے کے لوگ ایک خاص ٹیکنیکل زبان سمجھ سکیں۔ اُردو کے علمی تحقیقی اداروں اور جامعات میں خاص زبان کو ترقی دینے کے لیے سانچوں ، کینڈوں، محضروں کے تجزیوں ، ثقافتی تنوع اور زبان اور ترجمہ کے اصولوں پر تحقیق کروانی چاہیے۔ ۷؎
دیکھا جائے تو ڈاکٹر صاحب کی رائے میں وزن ہے اگر اس کا موازنہ بین الاقوامی سطح کے ماہرین سے بھی کیا جائے تو یہ امر واضح ہے کہ کسی بھی خاص مقصد کی زبان کو اپنانے اور ترقی دینے کے لیے اس خاص شعبے کے افراد ہی استناد رکھتے ہیں اگر کوئی ماہر لسانیات یا ادیب اس امر کا دعویٰ کر بیٹھے کہ خاص مقصد کی زبان اس سے تشکیل دلوائی جائے تو یہ درست نہیں ہو گا، کیوں کہ کسی بھی شاعر ادیب کا تعلق ادب سے ہے نہ کہ اس کے پاس اختیار ہو کہ وہ کسی خاص شعبہ میں استعمال ہونے والی زبان اور اس کے الفاظ کو تشکیل دے۔ اگر کوئی خاص مقصد کی زبان کی تشکیل کو ادیبوں سے جوڑتا ہے تو یہ محض لغو ہو گا۔ 
خاص مقصد کی زبان کے بارے میں ڈاکٹر عطش دُرّانی نے ایک جگہ کہا کہ اُردو کی خاص زبان کو ترتیب دینا ادیبوںکا کام نہیں بلکہ اس شعبے کے ماہرین کا کام ہے ۔ اگر ڈاکٹری کے شعبہ کے لیے اصطلاحات اور الفاظ ترتیب دیے جانے ہیں تو بہتر ہے اسی شعبہ کے لوگ وہ اصطلاحات بنائیں۔ اگر یہ معاملہ ادیبوں کے سپرد کیا گیا تو خاص مقصد کی زبان پروان نہیں چڑھ پائے گی ۔ ۸؎ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر صحیح معنوں میں خاص مقصد کی زبان کا حصول ممکن بنانا ہے تو اسے اس موضوع اور شعبہ کے ماہرین کے حوالے کرنا ہو گا۔ 
۷۔عام مقصد کی زبان
(Language For General Purposes)
بین الاقوامی سطح پر خاص مقصد اور عام مقصد کی زبان کا ایک ساتھ اظہار کیا جا رہا ہے ۔ دونوں کا ذکر اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ عام مقصد کی زبان سے مراد زبان کا عمومی استعمال ہے۔ ڈاکٹرصاحب کے بقول عام زبان کو بعض اوقات عمومی مقاصد کی زبان کہا جاتا ہے یہ روزہ مرہ بول چال کے علاوہ تحریر و تقریر، ادبی، صحافتی اور معلوماتی ضرورتوں کے لیے استعمال میں آتی ہے۔ اسے عام چلن کی زبان کہا جاتا ہے۔ ۹؎ ان کے نزدیک عام مقصد کی زبان اسے قرار دیتے ہیں، جو روز مرہ بول چال میں استعمال ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ روز مرہ میں استعمال ہونے والی زبان میں خاص پیشہ ورانہ اور سائنسی الفاظ کم استعمال ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کی زبان سادہ ہوتی ہے۔ یہ عام لوگوں کی زبان ٹھہرتی ہی اسی وجہ سے ہے کہ اس میں عام نوعیت کے روز مرے استعمال ہوتے ہیں چونکہ لوگوں کی اکثریت یہ زبان استعمال کرتی ہے اس لیے تقریر و تحریر میں اس کا استعمال کیا جانا امر لازم ہے۔۰ ۱؎ ڈاکٹرصاحب کی رائے سے اتفاق کرنے میں کوئی باک نہیں کہ عام مقصد کی زبان بالعموم عوامی سطح پر استعما ل کی جاتی ہے۔ 
L.S.P اور L.G.P کے بارے میں ڈاکٹر عطش درّانی کا کہنا ہے کہ خاص مقصد کی زبان (LSP) ایک قرار داد ہے اس میں لفظوں کے معنی طے کر لیے جاتے ہیں۔ یہ معنی خود بنانے پڑتے ہیں اور یہ کام اسی شعبہ کے ماہرین کرتے ہیں L.G.P ایک سماجی مسئلہ ہے یہ عام بول چال کی زبان ہے لوگ اسے پہلے ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔۱۱؎ خاص مقصد کی زبان (L.S.P )کے معنی طے کرنا پڑتے ہیں۔ انہیں ماہرین طے کرتے ہیں جبکہ عام مقصد کی زبان L.G.P کے معنی پہلے سے ہی طے شدہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ معاشرہ ان کے معنی پہلے ہی طے کر چکا ہوتا ہے۔۱۲؎ 
۸۔اصطلاحات 
جامع اللغات میں اصطلاح کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے۔ 
کوئی لفظ یا جملہ جس کے کوئی خاص معنی کوئی گروہ ٹھہرائے کسی حرفے یا فن کا خاص لفظ ۔ 
یعنی اصطلاح وہ لفظ ہے جس کے خاص معنی ٹھہرائے جاتے ہیں اور یہ معنی کوئی گروہ ٹھہراتا ہے ۔ اسی تعریف کو آگے بڑھاتے ہیں پروفیسر نیاز عرفان کے بقول اصطلاح سے مراد ہے:
اصطلاح کوئی عام لفظ نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اس کا مطلب ایک ایسا لفظ یا مجموعۂ الفاظ ہے جو کسی تصور، شے،نظریے یا کیفیت کو مختصرلیکن جامع طور پر بیان کر سکے۔ یہ عموماً عام بول چال کے الفاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ اس میں کفایت اور صحت کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ یعنی کم سے کم الفاظ میں کسی شے کی صحیح نوعیت اور ماہیت بیان کی جا سکتی ہے۔
پروفیسر نیاز عرفان اصطلاح کو کوئی عام لفظ قرار نہیں دیتے۔ ان کے خیال میں اصطلاح ایک خاص لفظ یالفظوں کا مجموعہ ہے۔ کم سے کم الفاظ میں کسی شے کا بیان ہے۔ درجہ بالا دونوں تعریفوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اصطلاح ایک خاص لفظ ہوتا ہے جو کسی شے یا نظریے کو مختصراً بیان کرتی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اصطلاح محض ایک لفظ پر مشتمل ہو گی؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی اصطلاح کے بارے میں تعریف دیکھتے ہیں۔ 
چند حروف میں کسی خاص موضوع /شعبہ یا علم کو بیان کرنا اصطلاح کہلاتا ہے۔ اصطلاح لفظ بھی ہوسکتی ہے۔ ترکیب، حرف، ہندسہ، مخفف، سرنامیہ اورترخیمہ بھی۔۵ ۱؎
اصطلاح کسی خاص موضوع یا شعبہ کے متعلق خاص لفظ ہے جو ترکیب، حرف اور ہندسہ بھی ہو سکتا ہے۔ اصطلاح کی درجہ بالا تعریفوں کو دیکھنے کے بعد اصطلاح کی یہ تعریف سامنے آتی ہے۔ 
' جب کسی شعبے کے ماہرین کسی شے، نظریے یا کیفیت کو مختصراً بیان کریں وہ اصطلاح کہلائے گی۔ اصطلاح کسی ترکیب، حرف، ہندسہ، مخفف ، سرنامیہ اورترخیمہ کی شکل میں ہو سکتی ہے'۔ 
اُردو زبان میں اصطلاحات کا سرمایہ اس وقت پیدا ہونے لگا جب یہ زبان علوم و فنون کے اظہار کا ذریعہ بنی۔ اس دور میں اصطلاحات عربی، فارسی، ترکی اور سنسکرت سے لی جاتی تھیں جبکہ اٹھارویں صدی عیسوی میں مسلم سلطنت کا سورج غروب ہوا اور انیسویں صدی میں انگریزی تسلط قائم ہواتو ایک مسئلہ درپیش ہوا، جب جدید مغربی علوم کو اُردو زبان کے ذریعے حاصل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اصطلاحات اور وضع اصطلاحات نے ایک نئی اہمیت اختیارکر لی ۔ دہلی کالج ۱۸۲۵ء میں قائم ہوا اور اس کے ساتھ وہاں 'دہلی ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی' قائم ہوئی۔ درسی کتب کی ضرورت کے لیے کیمیا ، نباتات، معدنیات ، ریاضی، طب، علم ہندسہ اور دوسرے علوم کی اصطلاحات وضع ہوئیں۔ حیدر آبادمیں شمس الامرا نے انگریزی و فرانسیسی سے اہم کتابوں کے اردو تراجم میں گہری دلچسپی لی اور ۱۸۳۴ء ۔ ۱۸۵۰ء کے درمیان بیس سے زیادہ سائنسی کتابوں اور امہات الکتب کو اُردو میں ترجمہ کرایا گیا۔ وضع اصطلاحات کی کمیٹی بھی اسی زمانے میں سر سید احمد خان نے قائم کی۔ رڑکی انجینئرنگ کالج میں ۱۸۵۶ء سے ۱۸۸۸ء تک ایک ذریعہ تعلیم اُردو زبان تھی۔ درسی ضروریات کے پیش نظر وہاں بھی متعدد کتابیں اُردو میں لکھی گئیں اور اصطلاحات وضع کی گئیں۔ اسی طرح آگرہ میڈیکل کالج میں بھی ذریعہ تعلیم اُردو تھی۔ وہاں بھی طلبہ کی درسی ضرورت کے لیے کتابیں لکھی گئیں اور جدید طبی اصطلاحات اُردو میں وضع کی گئیں۔ یہ ذخیرہ آج بھی پاکستان کے بعض کتب خانوںمیں محفوظ ہے۔ سائنٹیفک سوسائٹی، مظفر پور (۱۸۶۸ء ) نے بھی فلکیات ، معدنیات ، طبیعات ، جغرافیہ اور فن تعمیر وغیرہ پر بہت سی کتابیں نہ صرف ترجمہ کرائیں یا لکھوائیں بلکہ وضع اصطلاحات کے کام کو بھی آگے بڑھایا۔ شاہان اودھ غازی الدین حیدر اور نصیر الدین حیدر کے دور حکومت میں بہت سی علمی و سائنسی کتابیں اردو میں ترجمہ ہوئیں اور بہت سی نئی اصطلاحات وجود میں آئیں۔ ۱۸۶۵ء میں انجمن پنجاب لاہور میں قائم ہوئی اور اس کے تحت بھی ترجمہ اور اصطلاحا ت کا بہت قابل ذکر کام ہوا۔ 
بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں جامعہ عثمانیہ کا آغاز ہوا۔ یہاں اصطلاحات سازی کے کام میںغیر معمولی اور مفید پیش رفت ہوئی۔ اس کے علاوہ انجمن ترقی اُردو ہند،دارالمصنفین اعظم گڑھ (ہند)، پاکستان میں انجمن ترقی اُردو کراچی، اردو کالم ۱۹۴۹ء اور مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۵۰ئ، سائنٹیفک سوسائٹی کراچی ۱۹۵۵ئ، مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی لاہور ۱۹۵۶ء ، ترقی اُردو بورڈ کراچی ۱۹۵۸ئ، مرکزی اُردو بورڈ لاہور ۱۹۶۲ء کے ساتھ ساتھ جامعات خاص کر جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب اور دیگر علمی ادارے مجلس زبان دفتری حکومت پنجاب لاہور اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے اصطلاحوں کے موضوع پر بہت کام کیا ہے۔ ان اصطلاحات میں قانونی ، معاشرتی، معاشی، دفتری ، فطری سائنس ، سائنسی تکنیکی، سمعی، تدریسی اصطلاحات تیار کر لی گئیں۔ اصطلاحات سازی کے موضوع پر تحریر کرنے والوں میں پروفیسر منہاج الدین ، مولوی وحید الدین سلیم، مولوی عبدالحق ، میجر آفتاب حسن، ڈاکٹر عطش درّانی کے نام قابل ذکر ہیں۔ 
ڈاکٹر عطش درّانی کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ' اُردو اصطلاحات سازی' وحید الدین سلیم کے تقریباً ۷۰ سال بعد اس موضوع پر کوئی مبسوط تحریر منظر عام پر آئی۔ ڈاکٹرصاحب کے اس موضوع پر کام کو بہت پذیرائی ملی، ان کے بقول ہمارے ہاں ابھی اصطلاحات کا پورا تصور رائج نہیں ہوا۔ ہم ابھی تک لفظ سازی کے لسانی و قواعدی مرحلوں سے نہیں نکل پائے۔ ہمارے ہاں اصطلاحی الفاظ اور مرکبات کی تشکیل 'ترجمے' تک محدود ہے۔
ڈاکٹر عطش درّانی کی رائے اس معاملے میں درست ہے کہ ہمارے ہاں تاریخی طور پر اصطلاحات سازی کے ماہرین بھی اس موضوع پر تقسیم ہو کر رہ گئے کہ اُردو کے لیے اصطلاحات عربی، فارسی سے لی جائیں یا انگریزی سے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ کیا انگریزی اصطلاحات کا ترجمہ لیا جائے یا انگریزی الفاظ و اصطلاحات بعینہٖ نافذ کی جائیں۔ روایتی طور پرانھیں ہمارے ہاں ترجمے تک محدود کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی اُردو میں اسی ترجمے کے رجحان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب اصطلاحات کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصطلاحات کو منظم ، واضح ، درست منضبط، مختصر اور اپنے علم کا نمائندہ ہونا چاہیے۔ دور حاضر میں بھی ماہرین لسانیات و اصطلاحات کی یہی رائے ہے کہ اصطلاحات کو مختصر اور جامع ہونا چاہیے۔ اس طرح ترسیل معنی میں سہولت میسر آئے گی۔ ڈاکٹرصاحب کے بقول نحوی اور ترکیبی لحاظ سے اصطلاحات کی چار قسمیں ہیں۔ مفرد، اتصالی یا ترکیبی، مرکب، اشتقاتی ۔
اکثر ماہرین اصطلاحات کے ہاں بھی تقریباً یہی قسمیں ملتی ہیں۔ مولانا وحید الدین سلیم ،سلیم فا رانی نے اصطلاحات کی قسموں میں مرکب و اشتقاتی کو کافی اہمیت دی ہے۔ جہاں تک اُردو میں اصطلاحات سازی کے رجحانات کا تعلق ہے ڈاکٹر عطش درّانی کے بقول ہندی، سنسکرت ، عربی، فارسی، انگریزی زبانوں سے استفادے کا رجحان ہے۔ اُردو میں الفاظ سازی ، انگریزی میں زیادہ ہو رہی ہے۔ان کی رائے ہے کہ انگریزی اصطلاحات جو پہلے ہی رائج ہو چکی ہیں اور مطالعہ میں آ چکی ہیں انہیں ویسا ہی رہنے دیا جائے۔ تاہم موجودہ دورمیں ترجمہ کاری کے ذریعے اگر اصلاحات میں بہتری کی گنجائش ہے تو گوں نا گوں اصطلاحات اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ ۱۸؎ مولانا وحید الدین سلیم کے بقول بھی انگریزی اصطلاحات کو ویسے کا ویسا ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ انگریزی اصطلاحات جو رائج ہو چکی ہیں۔ ان کی تبدیلی سے خوا مخواہ کی بے ربطی پیدا ہو گی۔ اُردو زبان میں رائج ہندی، فارسی، عربی، ترکی اور انگریزی اصطلاحات کو من و عن رائج رکھا جائے۔ سائنسی اشیاء کے نام جو اُردو میں رائج ہیں ویسے ہی رہیں۔ تاہم مولانا وحید الدین سلیم کا یہ کہنا ہے کہ عربی و فارسی اصطلاحات کو انگریزی اصطلاحات پر فوقیت دینا چاہیے۔ ۱۹؎ سلیم فارانی کے مطابق اُردو زبان کی نوعیت اور اسلام کی یاد گار اصطلاحوں کو قائم کیا جائے۔ علوم و فنون اور انگریزی کی اصطلاحیں جیسے رائج ہیں انہیں ویسا ہی رکھا جائے کیوں کہ وہ عوامی ہو چکی ہیں۔ 
اصطلاحات کے موضوع پرڈاکٹر عطش درّانی نے گہری نظر ڈالی ہے۔ اُردو زبان کی علمی اعانت بھی اسی امر سے ہی ممکن ہے۔ اُردو کو بحیثیت زبان مختلف مقامی اور بین الاقوامی زبانوں سے معاملہ کرنا ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس الفاظ و اصطلاحات کا ایک ایسا ذخیرہ ہونا درکار ہے جو اسے دیگر زبانوں کے درمیان تمام تر توانائی کے ساتھ قائم ودائم رکھ سکے۔ ڈاکٹر درانی نے جہاں تک اصطلاحات کے نظری پہلوئوں پر گفتگو کی ہے اس کے ساتھ ساتھ اصطلاحات کو عملاً متحرک و مفید بنانے کے لیے بھی تجاویز دی ہیں۔ اصطلاحات سازی کے عمل کو بہتر اور دور رس بنانے کے لیے دوسری زبانوں سے اثر کو برا نہیں گردانتے مگر اس کے ساتھ یہ پہلو ضرور مد نظر رہے کہ اصطلاحات سادہ ہوں۔ 
۹۔لغات 
کسی بھی زبان کی ثروت مندی اور ترقی کے معیار کا اندازہ اس کے ذخیرہ الفاظ کی وسعت، ہمہ گیری اور تنوع سے ہوتا ہے۔ اس ذخیرہ الفاظ کو کسی خاص ترتیب سے منضبط کرنے اور ان کے معنی کے مختلف مفاہیم کی وضاحت کا نام لغت نویسی ہے۔ لغت نویسی کا علم زبان کی حفاظت ، اس کے استعمال کی معیار بندی اور فصاحت کے معیار کو طے کرنے میں از حد معاون ہوتا ہے۔ علم لغت (Lexicology) اور لغت نویسی (Lexicography) کو سمجھنا بجا طور پر زبان کے عروج و زوال کے عوامل کو سمجھنا ہے۔ 
سترھویں صدی عیسوی کے اواخر یعنی عالمگیری دور کے ایک منصف عبدالوسع ہانسوی کی مرتب غرائب اللغات کو اُردو کا پہلا لغت تسلیم کیا جاتا ہے۔ سراج الدین خان آرزو نے اسے نوادر الالفاظ کے نام سے ۱۱۵۶ء ہجری / ۱۷۴۳ عیسوی میں مرتب کیا۔ اُردو کا دوسرا باقاعدہ لغت میر محمدعترت کاکمال عترت ہے جو اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں تالیف ہوا۔ اس کے بعد مرزا جان طپش دہلوی کاشمس البیان مصطلحات ہندوستان آتا ہے۔ طپش کے مذکورہ لغت کے بعد جن لغات کا ذکر ملتا ہے ان میں مولوی محمد مہدی واصف کا دلیل ساطع (۱۸۳۳) ،اوحد الدین بلگرامی کا نفائس اللغات، محبوب علی رام پوری کا منتخب النفائس زیادہ اہم ہیں۔ یورپی مصنفین میں جان گل کرسٹ(John Gill Christ) کا لغت انگلش ہندوستانی ڈکشنری ، جان شکسپیئر(John Shakespear) کا اے ڈکشنری آف ہندوستانی انگلش ، ڈنکن فاربس(Dincins Forbis) کا اے ڈکشنری آف ہندوستانی انگلش، ایس ڈبلیو فلین (S.W.Falin)کا اے نیو ہندوستانی انگلش ڈکشنری اور جان ٹی پیٹس (John.T.Petis)کا اے ڈکشنری آف اُردو کلاسیکل ہندی اینڈ انگلش بہت اہم ہیں۔ 
فرہنگ آصفیہ اُردو کا ایک اہم لغت ۱۸۸۸ء میں اس کی پہلی اور دوسری جلد ۱۸۹۸ء میں تیسری اورچوتھی جلد ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد مولوی نور الحسن نئیرکا نور اللغات (چار حصے ۱۹۲۴ء تا ۱۹۳۱ئ) اور جامع اللغات (چار جلدیں ۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۵ئ) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے چھپنے والے لغت بھی اہم ہیں۔ 

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment