Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Saturday 26 March 2016

))))Vu & Company(((( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت (حصّہ اول )


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان رحمت ہے،کہ 
اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم علیہ السلام سے کنانہ کو چنا،بنی کنانہ سے قریش کو چنا قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم سے مجھے چنا۔ امام مسلم ترمذی

پیش نظر وہ نوبہار سجدے کو دل ہے بیقرار روکئے سر کو روکئے ہاں یہی امتحان ہے

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دین حق میں شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی 
خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی 

وجہ تخلیق کائنات سروردوعالم نبی محتشم رسول مکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بندہ مومن کے تعلق کے بارے میں شریعت مطہرۃ میں انتہائی واضح اورصریح احکامات موجود ہیں،کہ کوئی بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا ،کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ اس کو اس کی جان اس کی اولاد اس کے ماں باپ اس کے مال یہاں تک کہ دنیا کی ہر شے سے زیادہ محبوب اور پیاری نہ ہوجائے۔

یہی اصل ایمان ہے کہ روح کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہا درجہ کا تعلق عشق و محبت رکھاجائے،اگر صحابہ کرام علیہم الرضوان کے شب وروز کا مطالعہ کریں،تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس انتہائی درجے کا عشق اور کس قدر عظیم الشان محبت کا مظاہرہ کرتے تھے 

کیونکہ اقامت واحیائے دین کا دارومدار ایمان پر ہے اور پھر کامل ایمان کا انحصار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت اور انتہادرجہ کی تعظیم وتکریم پرہے
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و تعظیم وتکریم کے معیار کے اصول اور پیمانے کیاہیں؟۔۔۔
تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت جس قدرصحابہ کرام علیہم الرضوان کرتے تھے اس کی مثال ملنا مشکل وناپید ہے ،کہ
صحابہ کرام علیہم الرضوان کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جس پاس ادب تھا اور جو تعظیم رسالت اور تکریم رسالت صحابہ کرام علیہم الرضوان کو حاصل تھی یہ سب کچھ ان کو سرکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت کی بدولت ملا تھا نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا یہ تسلسل صحابہ کرام علیہم الرضوان سے لے کر تابعین و تبع تابعین اور اکابر ائمہ تک جاتاہے ۔

اسلاف واخیار کے ادب وتکریم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ ذکر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے ہی ان کی آنکھیں چھم چھم برسنے لگتی۔
آج امت مسلمہ دین سے جس قدر ہوتی جارہی ہے اس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناآشنا ہوتے جارہے ہیں اور امت مسلمہ کا سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری کے سبب گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موقع مل رہا ہے کہ وہ امت کے بھولے بھالے اور سیدھے سادھے مسلمانوں کہ شرک وبدعت کی آڑ میں گمراہ کرکے اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کررہے ہیں
 
اہل ایمان کے دلوں سے ادب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتعظیم وتکریم رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ختم کرنے کے لئے درجنوں گمراہ فرقے وجود میں آگئے ہیں

مختلف ناموں سے گمراہی کا یہ ٹولہ اپنے ایمان کا تو بیڑا غرق کرہی چکا ہیاب وہ بھولے بھالے اور سادہ لوح مسلمانوں کو شرک وبدعت کے نعرے کی آڑ میں ورغلا کر اپنے شکنجے میں لے کر ان کے دلوں سے شمع عشق ورسالت کو بجھانا چاہتاہے
جو لوگ سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوری طرح واقف نہیں اور جن کو درست عقائد کا صحیح علم نہیں ہے وہ وہ سیدھے سادھے مسلمان،ان گمراہ وبدمذہبوں کے جال میں پھنس کراپنے ایمان کی قیمتی دولت کو گنوادیتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہرمسلمان کو چاہئے کہ آئے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور رفعت وکمال سے آگاہ ہواورعقائد صحیحہ سے بھی آگاہی حاصل کرلے
جتنا عشق اور جتنی محبت حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کریں گے اسی قدر ادب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت کا ادراک حاصل ہوگا 
یہاں پرایک سوال اور بھی پیداہوتاہے،کہ گمراہ فرقے،جوکہ ایک ہی حمام کے سب ننگے ہیں ،یہ سب مذہب،رسول (علیہ السلام)دشمنی اور بعض نبی کے معاملے میں بہت اچھی طرح سے ساجھے دار ہیں یہ لوگ مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،یہ علماء وفقہاء سے بحث نہیں کرتے ،بلکہ یہ عام لوگوں سے ابحاث کرکے گمراہ کرتے ہیں

ان کے گستاخانہ طرزعمل میں ایک گمراہ کن سوال یہ بھی سیدھے سادھے مسلمانوں سے ہوتاہے کہ یہ اہلسنت بریلوی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم حد سے زیادہ کرکے اس تعظیم کو اللہ تعالیٰ کے برابرکردیتے ہیں ،حالانکہ ایسا نہیں ہے یہ محض جھوٹ ،افتراء اور الزام ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور ہم یہ شہادت ہر نمازمیں التحیات پڑھتے وقت دیتے ہیں ،لہذا ثابت ہواکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا بندہ و مخلوق تسلیم کرتے ہیں ،جبکہ اللہ تعالیٰ خالق اورمعبود ہے
تفصیلی بحث اندرکتاب میں مناسب موضوع کے لحاظ سے کروں گا یہاں محض 2الفاظ میں ان گستاخوں کو لپیٹ لیتا ہوں،کہ آپ ،جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی حد کی وضاحت کردیں کہ وہ حد کہاں تک ہے؟...تاکہ ہم اس حد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کریں

ویسے ایک بات کی اور وضاحت کرکے ان گمراہوں کے ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوڑہی دیتاہوں،کہ اللہ تعالیٰ تو لامحدود ہے اور ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر کو کس طرح لاسکتے ہیں اس لامحدودیت کی طرف یہ تو ممکن ہی نہیں کہ مخلوق،معبود کے درجات تک پہنچ جائے۔
باقی رہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظت و توقیر کی اور ادب کی ،تو اس کا تو ہمیں حکم دیا جارہاہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں،اور جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرے گا ،وہ مومن تو نہیں ہوسکتا،

مومن تو وہی ہیں ،کہ جو اللہ تعالیٰ کے احکامات مکمل طور پر بجالائیں،جن میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان کے معاملے میں مومنین کو آزمائے گا بھی ،گووہ یہ جانتا بھی ہے کہ کون مومن ہے اور کون مومن نہیں ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی حجت قائم فرمائے گا
 
ترجمہ کنزالایمان 
کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہے کہ اتنی بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ ہم لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی

سورۃ العنکبوت2

اس آیت کریمۃ کی روشنی میں دیکھیں تو اس بات کی گنجائش ہی نہیں کہ محض یہ کہنا کہ ہم ایمان لائے ہیں ان کے اس قول کو تسلیم کرلیا جائے گا اس کے لئے ان کی آزمائش ہوگی کہ وہ ایمان والے ہیں بھی یا نہیں جن کا ثبوت یہ بھی ہے
ارشاد ربانی ہے،کہ
 
کیا اس گمان میں ہوکہ جنت میں چلے جاؤگیاور ابھی تم پر اگلوں کی سی رواداد نہ آئی ،پہنچی انہیں سختی اور شدت اور ہلا ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ کہ اٹھا رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کب آئے گی مدد اللہ کی ؟۔۔۔ سن لو اللہ کی مدد قریب ہے۔ سورۃ بقرۃ 214

شان نزول اخذ از ترجمہ کنزالایمان
 
یہ آیت کریمہ غزوہ احزاب کے متعلق نازل ہوئی جہاں مسلمانوں کوسردی اور بھوک وغیرہ کی سخت تکلیفیں پہنچی تھی، ان میں انہیں صبر کرنے کی تلقین فرمائیء گئی اور بتایا گیا کہ راہ خدا میں تکالیف برداشت کرنا قدیم سے خاصان خدا کا معمول رہا
 ہے ابھی تو تمہیں پہلوں کی سی تکلیفیں پہنچی بھی نہیں ہیں

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment