Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Monday 28 March 2016

))))Vu & Company(((( دین و شریعت محمدی کا اعجاز (حصّہ ششم)

 نتیجہ خیزی کی ضمانت

قرآنی اعجاز کی دلیلِ ناطق اس کی ہدایت کا نتیجہ خیز ہونا ہے۔ قرآن مجید نے نہ صرف اپنی ہر دعوت کو حتمی، قطعی اور یقینی طور پر فیصلہ کن قرار دیا بلکہ معیارِ صداقت وحقانیت بھی نتیجہ خیزی ہی کو قرار دیا ہے۔ قرآن حکیم نے کامل یقین کے میسر آنے کی جس جس تدبیرکا ذکر کیا ہے وہ بہرصورت تجربی توثیق، مشاہدہِ حقیقت اور نتیجہ خیزی کے تصور پر مبنی ہے۔

قرآن میں نتیجہ خیزی کی ضمانت کا مفہوم یہی ہے کہ اس کے سلسلہ علم وہدایت کا ہر دعویٰ تجربی توثیق کی بنا پر معروضی نتائج پیدا کرنے کا ضامن ہے جو فی نفسہِ قرآن ہی کا اعجاز ہے۔ اس سلسلے میں چند ارشادات قرآنی ملاحظہ ہوں :

1۔ قرآنی ہدایت کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ انسانیت کو دنیا وآخرت میں خوف وغم کی مہیب کيفیت سے نجات دلا دی جائے۔ چنانچہ قرآن نے اپنے اس دعویٰ کی نتیجہ خیزی کا بیان اس طرح کیا :

فَإِمَّا يَاْتِيَنَّکُمْ مِّنِّی هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَo

البقره، 2 : 38

''پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا نہ ان پر کوئی خوف (طاری) ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔''

2۔ اسی طرح قرآن فَاِنَّ حِزْبَ اﷲِ هُمُ الْغَالِبُوْنَ '' بیشک اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں}(1) کا اعلان کر کے اس دنیا میں باطل کے مقابلے میں غلبہ دین کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ دعویٰ محض اس پر موقوف نہیں کہ مسلمان اس کی آرزو تو کر سکیں لیکن انہیں اس کی عملی اور واقعاتی نتیجہ خیزی کا مشاہدہ نہ ہو سکے چنانچہ اس امر کی ضمانت بھی ساتھ ہی مہیا کر دی گئی :

(1) المائدة، 5 : 56

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo

آل عمران، 3 : 139

''اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔''

3۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا :

فَلاَ تَهِنُوْا وَتَدْعُوْا اِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُم الْاَعْلَوْنَ وَاﷲُ مَعَکُمْ وَلَنْ يَتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ.

محمد، 47 : 35

''(اے مومنو!) پس تم ہمت نہ ہارو اور ان (متحارب کافروں) سے صلح کی درخواست نہ کرو (کہیں تمہاری کمزوری ظاہر نہ ہو)، اور تم ہی غالب رہو گے، اور اﷲ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال (کا ثواب) ہرگز کم نہ کرے گا۔''

4۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

وَ مَنْ يَتَوَلَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اﷲِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ.

المائده، 5 : 56

''اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو(وہی اﷲ کی جماعت ہے اور) اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں۔''

5۔ اس امر کی مزید وضاحت درج ذیل آیت سے بھی ہوتی ہے :

وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَo اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَo وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَo

الصٰفّٰت، 37 : 171.173

''اور بے شک ہمارا فرمان ہمارے بھیجے ہوئے بندوں (یعنی رسولوں) کے حق میں پہلے صادر ہو چکا ہے۔ کہ بے شک وہی مدد یافتہ لوگ ہیںo اور بے شک ہمارا لشکر ہی غالب ہونے والا ہے۔''

اس آیت سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ خدا کا وعدہ محض خالی دعویٰ نہیں بلکہ فی الواقع اس کارگہِ حیات میں حق و باطل کے درمیان ہونے والی کشمکش میں اہلِ حق کو غالب اور فتح یاب کر دینے کا مژدہ جانفزا ہے اور یہی دعوی قرآن کی نتیجہ خیزی پر دلالت کرتا ہے۔


اُمیّتِ صاحبِ قرآن

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمیّت ایک زندہ جاوید حقیقت ہے۔ نبی اُمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب تبلیغِ دین کا علم بلند کیا اور مکہ کے کفار و مشرکین کو دامنِ اسلام سے وابستہ ہونے کی دعوت دی تو باطل کے ایوان لرز اُٹھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین اور صادق کہنے والے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے دُشمن ہو گئے، سازشوں کے ایک لامتناہی سلسلے کا آغاز ہوا۔ وہ کون سا افتراء و بہتان تھا جو ان لوگوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف نہیں باندھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (معاذ اﷲ) ساحر، کاہن مجنون اور جانے کیا کیا نہ کہا، ایذا رسانی میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن سب کچھ کہنے اور کرنے کے باوجود پورے عالم کفر میں سے کسی کو یہ کہنے کی جرات نہ ہو سکی کہ آپ امی نہیں ہیں اور یہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا تحریر کردہ ہے، گویا آپ پر اتہامِ کذب کوئی نہیں لگا سکا۔ آج تک مخالفین اسلام میں سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانِ نبوت سے قبل یا بعد کسی مکتب میں تعلیم حاصل کی اور کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کئے ہیں۔ کوئی یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی فاضل سے علوم و معارف، عربی ادب کی فصاحت و بلاغت، شعر و سخن کے اصول اور حکمت و دانائی کے خزانے حاصل کئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے معاشرے میں اُمّی اور صادق و امین کی حیثیت سے معروف تھے۔ قرآن جیسے علم و معرفت سے معمور کلام کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہونا ہی اس کی مُنَزَّل مِنَ اﷲِ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اسی لئے ارشاد ربانی ہے :

وَمَا كُنتَ تَتْلُواْ مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ

العنکبوت، 29 : 48

''اور (اے حبیب!) اس سے پہلے آپ کوئی کتاب نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی آپ اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ورنہ اہلِ باطل اسی وقت ضرور شک میں پڑ جاتے۔''

پھر اسی سورہ میں آگے چل کر فرمایا گیا ہے :

اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اِنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ.

العنکبوت، 29 : 51

''کیا ان کے لئے یہ (نشانی)کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر (وہ) کتاب نازل فرمائی ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے (یا ہمیشہ پڑھی جاتی رہے گی)۔''

اس سے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسی کتاب کا نزول ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسے تلاوت کرنا ہی اس وحی کی صداقت و حقانیت کی روشن دلیل بن گیا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی مکتب و مدرسہ یا استاد سے پڑھے بغیر زمانہ گزشتہ و آئندہ کے احوال بیان کرے، عقائدِ صحیحہ کا مدلل اِحقاق اور عقائدِ باطلہ کا قوی اِبطال کرے، انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے اصول و ضوابط بیان کرے، اعلیٰ اخلاق اور مذہبی تعلیمات کا پرچار کرے، طبیعی اور ما بعد الطبیعی حقائق کا تفصیلی ذکر کرے، سیاست و معاشرت، اقتصاد و معیشت اور تہذیب و ثقافت کے اصولوں کی تعلیم دے اور ان پر کامیابی سے عمل پیرا بھی ہو، صلح و جنگ اور قومی و بین الاقوامی امور سے متعلق قوانین بنائے، حکمت و دانائی، تدبر و بصیرت اور ضابطہ اِصلاحِ اَحوال پر مبنی اس اعلیٰ فلسفہ حیات کی بات کرے جو ابد الآباد تک قابلِ عمل اور انقلاب آفریں ہو، لیکن پھر بھی اس کا کلام حق تصور نہ کیا جائے، ایسی کوئی بات کہنا بڑی ناانصافی ہو گا۔ بلاشک و شبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمّی ہونا قرآن کی حقانیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمّی ہونے کے باوجود مَا کَانَ وَ مَا يَکُوْنُ کے جمیع علوم خود ربِ ذو الجلال سے حاصل کر لئے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ عَلَمَّکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُط وَکَانَ فَضْلُ اﷲِ عَلَيْکَ عَظِيْمًاo

النساء، 4 : 113

''اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا فرمایا جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔''


--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment