Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Friday 22 April 2016

Re: ))))Vu & Company(((( گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

Nice

On 22 Apr 2016 11:00 am, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

رابرٹ بریفالٹ لکھتے ہیں "عہد قدیم میں سائنس کا وجود ہی نہ تھا۔یونانیوں کے ہاں بھی علم ہیئت اور ریاضی باہر سے پہنچے جو ان کی تہذیب و تمدن میں جذب نہ ہو سکے۔یونانیوں کی تگ و دو محض نتائج اخذ کرنے اور نظریاتی طریقوں تک محدود رہی۔ یونانیوں کی تمام تر سائنسی معلومات کا تعلق تصور مشاہدے اور منطق تک محدود تھا"۔مسلمانوں نے نجوم اور دیومالا جیسی خرافات کو سائنس میں سے نکال کر اسے مضبوط علمی استحکام بخشا۔ انہوں نے سائنسی نظریات کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھا۔ یوںانہوں نے سائنس میں نئی نہج کا آغاز کیا اور جدید سائنس کے لئے راہ ہموار کی۔ اسلام سے پہلے مشرق کے بہت سے شہران یونانی علوم و فنون کے مراکز بن چکے تھے۔ اس میں اسکندریہ،شاپور اور حران کو خاص طور پر اہمیت حاصل ہے۔ اسکندریہ کے اسکول کو طب، کیمیائ، طبیعات وغیرہ میں شہرت حاصل تھی البتہ ان کے ہاں تمام مباحث میں سحر، دیومالا اور علم نجوم کی آمیزش پائی جاتی تھی۔ یہاں پر عیسائیت کے غلبے کے تحت افلاطونیت اور نطوریت کے اثرات غالب تھے۔ حران علوم و فنون کا ایک بڑا مرکز تھا۔ جہاں ریاضی اور فلکیات کو بہت فروغ حاصل ہوا اور شاپور میں طب و فلسفہ نے بہت ترقی کی۔ جب اسلامی فکر دو واضح گروہوں معتزلہ اور اشعریہ میں تقسیم ہوگئی اور اس اختلاف نے شدت اختیار کرلی تو ارسطو کی عقلیت کے پیروکار مسلمان مفکرین نے جنہیں مشایین کہا گیا،عقل و الہام کی بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے ہر قسم کے حسی علم کو مشاہدے اور تجربے کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنا شروع کیا اور یوں جو نتائج سامنے آئے، محض انہی کو اعتبارات کی حیثیت حاصل ہوگئی مختصراً یہ کہ مسلمانوں نے نظری علوم کو تجربی علوم کی سند پر رکھ کر پرکھنا شروع کیا اور یوں سائنس اپنی حقیقی بنیادوں پر وجود میں آئی۔سید حسن نصر اس کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"مسلمانوں نے ارسطو کی قیاس مابعد الطبیعیاتی علت کو تجربی علت میں بدل دیا"۔
یہ وہ سائنٹفک طریق کار تھا جس کے بارے میں رابرٹ اولخ جیسا مورخ سائنس رقمطراز ہیں:"محض مفروضوں اور دیومالائی بنیادوں کے بجائے عربی علم نسبتاً زیادہ حسی مشاہدات کی بنیادوں پر قائم تھا"۔
اوبرٹ فیلڈ لکھتا ہے " پاڈا(اٹلی) کے علماءکا تجربی رجحان دراصل ابن رشد کا مرہونِ منت تھا جو اندلس میں انہیں تعلیم دے چکا تھا۔ اس کے نزدیک جالینوس کے برعکس اور وسالیوس سے تین صدیاں پہلے ایک مسلمان طبیب اس مفروضے سے انکار کر چکا تھا کہ دل کی درمیانی دیوار میں مسام ہوتے ہیں۔ اس نے واضح طور پر بتا دیا کہ خون کی صفائی کا عمل پھیپھڑوں کے ذریعے ہوتا ہے ۔ وسایوس نے اپنا نظریہ اس سے مستعار لیا تھا۔
ایچ ٹی یچ لکھتا ہے "جالیونس کے ساتھ ہی بہت سے طریق کار کھو گئے تھے ۔ عربوں اور بعد ازاں یہودیوں کو بھی ان کے بارے میں بہت کم علم حاصل ہوا تھا۔ ان کے ریاضیاتی طریق کار نے یقینا متاثرکن تبدیلیاں کی ہیں اوربقول جے ڈی برنال انہوں نے سائنٹفک طریق کار کے اصول وضع کئے اور استقرائی و استخراجی طریق کار کے دوہرے عمل کو نیوٹن سے پانچ سو برس قبل ہی استعمال میں لے آئے۔تجربی تحقیقات پر سائنس کی بنیادیں استوار کرنے کا آغاز جابر بن حیان اور الکندی جیسے مسلمان سائنسدانوں سے ہوتا ہے ان کے علاوہ الرازی، الغرغانی، ثابت بن قرة، الفارابی، المسعودی، البطری، ابوالوفا، ابن عباس، ابوالقاسم، الزہراوی، ابن اسحاق، ابن یونس، ابن جزار، الکرخی، البغدادی، ابن خطیب، حسن الرماح، ابن عیسیٰ، الغزالی، الرزقانی، ابن رشد، ابن العوام اور ابن بیطار جیسے سینکڑوں مسلمان سائنسدانوں نے جدید سائنس کی بنیادیں استوار کیں۔
ان مسلمان سائنس دانوں کے سائنسی انکشافات اور ایجادات کی فہرست یوں تو خاصی طویل ہے مگر مختصراً اُنہوں نے روشنی، نظر، کسوف، بادوباراں، حیوانات، نباتات، طب، کیمیا اور خواص اشیاءپر متعدد کتابیں لکھیں او رتجربے کئے۔ بارود اور تیزاب ایجاد کیا۔ زمین کے محیط اور قطر کی صحیح پیمائش کی اور یہ کہا کہ سالانہ گردش میں زمین کو نہیں بلکہ سورج کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اُنہوں نے سیاروں کے مداروں کے بیضوی ہونے کا اعلان کیا ۔ کیمیا س یعنی مقناطیسی سوئی کو قطب نما میں استعمال کیا۔ اگرچہ کاغذ کے موجد چینی تھے لیکن مسلمانوں نے اس کی صنعت کو ترقی دی اور دور تک پھیلا۔ انہیں ساتویں صدی سے پہلے ہی چکیوں کا علم ہو چکا تھا۔ شیشہ گری میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ دوربین کی ایجاد بھی انہوں نے کی تھی۔ وہ صدیوں تک بارود استعمال کرتے رہے جدید بارود کی تیاری تیرہویں صدی میں شام میں ہوئی۔ اس وقت وہ آتش یونانی استعمال کرتے رہے تھے۔ آتش یونانی، یونانیوں یا قسطنطینوں نے ایجاد نہیں کی تھی بلکہ عربوں نے سب سے پہلے اسے جنگی مقاصد میں استعمال کیا۔تب کہیں قسطنطنیہ والوں کو اس کا پتہ چلا لیکن انہوں نے اسے الہامی عطیہ کہہ کر عوام سے اس کا راز چھپائے رکھا۔ اسی طرح توپ سب سے پہلے افریقہ کے ایک سردار یعقوب نے بنائی تھی۔
سائنس کو اس کی بنیادیں اسلامی دور میں عطا ہوئیں۔گویا یہ مسلمان تھے جنہوں نے سائنس کو فکری انداز سے نکال کر عملی استحکا م بخشا اور نظری علوم کی صنف سے نکال کر تجربی بنیادوں پر اُستوار کرنا شروع کیا۔ مسلمان علماءاور سائنس دانوں نے ایک ایسی شاہراہ تیار کی جس پر تہذیب کا قافلہ چلتا ہوا یورپ کی طرف روانہ ہوا۔
ساتویں صدی عیسوی میں مسلمان وسط ایشیائ، فارس، شمالی افریقہ اور اسپین تک پھیل چکے تھے ۔ ان کے تجارتی قافلے اس وقت کی شاہراﺅں پر رواں دواں تھے جن میں سامان تجارت کے ساتھ ساتھ دیگر دنیا سے علوم و فنون بھی منتقل ہوئے۔ یونان،ہند اور ایران کی سائنس بھی مسلمانوں کے پاس جمع ہو چکی تھی۔ اس زمانے میں علوم کا ایک سے دوسرے ملک کو منتقل ہونا بہت مشکل تھا اکثر کتب سریانی (شامی) سے عربی میں ترجمہ ہوئیں اور بعد ازاں عربی سے لاطینی میں ترجمہ ہو کر بالآخر یورپ کی دوسری زبانوں میں منتقل ہوئیں۔
اسلامی دنیا میں عیسائیت کے برعکس زبانوں پر قفل نہیں چڑھائے گئے۔ نہ غور و فکر پر پابندی لگائی گئی، نہ حکماءعلماءکے پیچھے خفیہ پولیس رکھی گئی، نہ مفکروں اور فلسفیوں کو مذہب کے نام پر زندہ جلایاگیا اور نہ ہی مذہب کے نام پر کسی کو علم حاصل کرنے سے روکا گیا بلکہ مسلمانوں کی طرف سے ادیبوں، عالموں او رسائنسدانوں کی زبردست سرپرستی کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ صرف چند ہی صدیوں میں اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی تحقیق بھی پھیلتی چلی گئی۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں نے جس ملک کو فتح کیا وہاں علم کے خزانوں کی تلاش شروع کی اور یوں جتنی بھی کتابیں دستیاب ہوتیں دارالحکومت کو بھیج دی جاتیں۔ وہاں ان کی حفاظت اور ترجمے کا کام ہوتا تھا۔ عرب کے مشہور قول "علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے" پر عمل کرتے ہوئے بغداد کے عباسی خلفاءنے ہندوستان اور قسطنطنیہ تک سفارتی مہمیں بھیجیں تاکہ وہاں سے علمی حیثیت کی کتابیں ہر قیمت پر خریدی جائیں۔ نادر قلمی نسخوں کی تلاش خرید و فروخت اور کتب خانے قائم کرنے کےلئے خلفاء، وزرائ، امراءاور عوام میں مقابلہ رہتا تھا۔ مدرسوں اور علماءکی سرپرستی بڑھ چڑھ کر کی جاتی تھی۔مسلمانوں کے ہاں علم کا بنیادی ماخذ قرآن مجید اور تعلیمات و اسوہ رسول تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مروجہ ذریعہ علم کو بھی استعمال کیا۔ ان کے بنیادی فکر اور مختلف ذرائع سے ہونے والے علوم کے باہمی امتزاج و مباحث نے انہیں اس امر پر مجبور کیا تھا کہ وہ اکثر علوم میں تصدیق اور پرکھ کے لئے تجربہ کو استعمال کریں اور تجربی علم کو فروغ دیں۔
تجربی بنیادوں پر مبنی علم "سائنس" کو مسلمانوں کے ہاں عمومی قبولیت حاصل تھی اور مسلمانوں کے کسی بھی فرقے نے اس پر اعتراض نہ کیا کیونکہ اس میں بنیادی اصولوں کو استعمال کیا جاتا تھا جن کی طرف مسلمانوں کی مذہبی کتاب "قرآن مجید رہنمائی کرتی ہے ۔قرآن مجید نے یہ اعلان کر دیا کہ یقین یعنی علم کے تین ارتقائی پیمانے ہیں:
(۱) علم بذریعہ استنباط جسے استدلال یا عقلی علم بھی کہتے ہیں اسے علم الیقین کا نام دیاگیا۔(۲) علم بذریعہ مشاہدہ جسے حسی یا مشاہداتی علم بھی کہتے ہیں، اسے عین الیقین کا نام دیاگیا۔(۳) علم بذریعہ تجربہ جسے وارداتی اور تجربی علم بھی کہتے ہیں، اسے حق الیقین کا نام دیاگیا۔
اکثر علماءنے اس طریق کار کی حمایت کی ہے اور اس پر کاربند ہوئے۔ بنوامیہ نے 681ءمیں دمشق میں اپنا سلسلہ خلافت قائم کیا تو وہاں سائنسدانوں کو جمع کرنا شروع کر دیا اگرچہ وہ روم کے ہیلنی دور سے متاثر تھے لیکن افادہ پسندی کے ساتھ ساتھ تجربی تحقیق پر بھی ان کی نظر تھی۔ انہوں نے دمشق میں ایک فلکی رسدگاہ بنا رکھی تھی۔
عباسی خلفاءمیں منصور اور مامون الرشید اس سلسلے میں مشہور ہیں۔ منصور نے پرانی کتابوں کے تراجم پر زور دیا اور مامون نے بغداد میں ایک بہت بڑا کتب خانہ "بیت الحکمت" قائم کیا۔ یہ کتب خانہ833ءمیں قائم کیا گیا۔ کتابوں کے ضمن میں مسلمان عربوں کی ایک بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے صرف علمی کتابوں کو جمع کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور یونانی شعراءمورخوں اور ڈرامہ نگاروں کی نگارشات کو نظرانداز کر دیا جس وقت یورپ میں علم کا کوئی ایک دیا بھی روشن نہیں تھا۔ مسلمان ارسطو ، افلاطون اور سقراط کے انکار پر تنقید و تحقیق کی روشنیاں بکھیر رہے تھے۔
مامون کے بعد تقریباً ہر خلیفہ اور سلطان نے کتب خانے قائم کئے اور علماءکی سرپرستی کی۔ مسلمانوں کے پاس اس قدر کتابیں جمع ہو چکی تھیں کہ جب منگولوں نے صرف بغداد کی کتابیں دریائے دجلہ میں پھینکیں تو دریا کا پانی سیاہی گھلنے سے کالا ہوگیا اور دریا کے آرپار ایک بند سا لگ گیا۔ براﺅن لکھتا ہے"ان کتابوں کی تعداد چار لاکھ کے لگ بھگ تھی"۔
خلیفہ الحکم بن ناصر نے زرکثیر خرچ کر کے کتابیں جمع کیں۔ ہر ایک کتاب ہزار دینار میں خریدی جاتی تھی اس کے کتب خانے میں ہر فن پر علیحدہ علیحدہ کتابیں موجود تھیں۔ کتابوں کی فہرست سازی کا جو طریقہ اس کتب خانے میں وضع ہوا وہی آج تک چلا آرہا ہے۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباءکی
جو دیکھا ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سپارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment