Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Tuesday 12 April 2016

))))Vu & Company(((( توحید .......تعظیم اور عبادت کا مفہوم حصّہ چہارم ...تعظیم کی اَقسام. .... (حصہ دوم )

..تعظیم کی اَقسام.

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ تعزیر کا معنی یوں بیان کرتے ہیں:

التَّعْزيرُ: النُّصْرَهُ مَعَ التَعْظِيْمِ، قَال {وَتُعَزِّرُوْهُ؛ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ} والتَّعْزِيْرُ ضَرْبٌ دُوْنَ الْحَدِّ وَ ذَالِک يَرْجعُ الی الْاوّل فاِنّ ذٰلِکَ تأديبٌ، والتّأديبُ نُصْرَةٌ مَّا. لٰـکن الْاوّل نُصْرَةٌ بِقَمْعِ مَا يَضُرُّه عَنْه، وَالثَّانِيْ نُصْرَةٌ بِقَمْعِة عَمَّا يَضُرُّهُ. فَمَنْ قَمَعتهُ عَمَّا يَضُرّه فَقَدْ نَصَرْتهُ.

''تعزیر سے مراد ایسی مدد ہے جس میں تعظیم بھی شامل ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے (اور ان (کے دین) کی مدد کرو. .. اور (تم ان کی مدد کرتے رہے) اسی طرح التعزیر کا ایک معنی ہے کسی کو حدِ شرعی سے کم سزا دینا۔ دراصل یہ معنی بھی پہلے معنی کی مناسبت سے لیا جاتا ہے کیونکہ یہ سزا تادیباً ہے اور یہ کسی شخص کی اصلاح کے لئے ایک طرح کی مدد ہوتی ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے معنی میں تعزیر کا مطلب کسی شخص سے نقصان پہنچانے والی چیز کو روکنا جبکہ دوسرے معنی کے لحاظ سے تعزیر کا مطلب ہے کسی شخص کو مضر چیز سے باز رکھنا۔ پس تو نے کسی شخص کو مضر چیز سے روکا تو، تُو نے اس کی مدد کی۔''

(1) راغب اصفہانی، المفردات، 333

حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تعزیر کی تشریح یوں کی ہے:

والتعزير يأتی بمعنی التعظيم والاعانة و المنع من الاعداء ومن هنا يجئی التعزير بمعنی التأديب لأنه يمنع الجانی من الوقوع فی الجناية.

''تعزیر، تعظیم مدد و نصرت اور دشمنوں سے تحفظ کے معنی میں آتا ہے اسی لئے تعزیر بمعنی تادیب اصلاح یا سزا استعمال ہوتا ہے کیونکہ یہ مجرم کو معصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔''

(2) عسقلانی، فتح الباری، 8: 582

علامہ ابنِ منظور نے تعزیر پر تفصیلی بحث کی ہے، وہ لکھتے ہیں:

''تعزیر کا اصل معنی تادیب ہے اسی لئے شرعی حد سے کم سزا کو تعزیر کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ بھی اصلاح اور اخلاقی تربیت ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے میں نے فلاں شخص کی سرزنش کی۔ اسی طرح عزرتہ متضاد معانی میں استعمال ہوتا ہے اور عزرہ کا معنی ہے فلاں شخص کی تعظیم اور تکریم کی یہ معنی متضاد کی طرح ہے اور العزر کامعنی ہے تلوار کے ذریعہ مدد اور عزرہ عزرا و عزرہ کا معنی ہے فلاں شخص کی پشت پناہی کی اس کو تقویت پہنچائی اور مدد کی ۔ ارشادِ باری تعالیٰ، وَتُعَزِّرُوْہُ۔ اور. .. وَعَزَّرْتُمُوْھُمْ. .. کی تفسیر ہے یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد تلوار کے ساتھ کرتے رہو پس جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی گویا اس نے اللہ گ کی مدد کی۔''

مزید انہوں نے لکھا ہے:

''انبیاء علیہم السلام کی مدد و نصرت سے مراد ان کی حمایت کرنا اور ان کے دین کے دشمنوں کو باز رکھنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا ہے۔''

تعزیر کا اصل معنی روکنا باز رکھنا ہے گویا کہ جس نے کسی کی مدد کی تو اس نے اس سے دشمن کو روکا اور ان کی سختی سے بچایا پس اس وجہ سے وہ تادیب جو حد شرعی سے کم ہو اسے تعزیر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مجرم کو دوبارہ ارتکابِ معصیت سے روکتی ہے۔

(1) ابن منظور، لسان العرب، 4: 562

مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ تعظیم کا وہ درجہ جہاں کسی کی تعظیم اس حد تک کی جائے کہ اس میں محض ادب و احترام نہ ہو بلکہ اگر ضرورت پڑے تو اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا جائے اور تلوار کے ذریعہ دشمنوں کا مقابلہ کرکے ان کو ایذا رسانی سے روکا جائے،تعزیر کہلاتا ہے۔ قرآن حکیم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعزیر سے مراد بھی ایسی نصرت ہے جس میں تعظیم بہر حال شامل ہو۔ ائمہ تفسیر نے بھی اس کا معنی کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

1۔ امام ابنِ کثیر نے لکھا ہے:

{لِّتُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهُ وَتُعَزِّرُوْهُ} قال ابن عباس رضی اﷲ عنهما وغير واحد: تعظموه.
''{لِّتُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهُ وَتُعَزِّرُوْهُ} کی تفسیر میں حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما اور دیگر اہلِ علم نے کہا ہے کہ تعزروہ سے مراد ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب تعظیم کرو۔''

(1) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 4: 186

2۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:

قال ابن عباس: {تُعَزِّرُوْهُ}: أی تجلوه. وقال المبرد: {تُعَزِّرُوْهُ}: تبالغوا فی تعظيمه.

''حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تعزروہ کا مطلب ہے ان کی تعظیم کرو ،اور مبرد نے کہا: تعزروہ کا معنی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب تعظیم کرو۔''

(2) قاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 512

3۔ امام بغوی نے لکھا ہے:

{وَتُعَزِّرُوْهُ} أی تعينوه و تنصروه.

''{وَتُعَزِّرُوْہُ} کا معنی ہے کہ ان کی مدد و اعانت کرو۔''

(3) بغوی، معالم التنزیل، 4: 190

4۔ امام بیضاوی نے لکھا ہے:

{وَتُعَزِّرُوْهُ} وتقووه بتقوية دينه و رسوله.

''{وَتُعَزِّرُوْہُ} کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے دین اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کے ذریعہ کرو۔''

(4) بیضاوی، أنوار التنزیل، 5: 201

5۔ امام طبری نے لکھا ہے:

وکان الفراء يقول العزر الرد. عزرته رددته إذا رأيته يظلم.

''فراء کہتے تھے کہ عزر کا معنی روکنا ہے۔ عزرتہ کا معنی ہوگا میں نے جب اس کو ظلم کرتے ہوئے پایا تو اسے روکا۔''

(1) طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 6: 152

6۔ امام قرطبی نے لکھا ہے:

{وَتُعَزِّرُوْهُ} أی تعظموه وتفضموه قاله الحسن والکلبی، والتعزير التعظيم والتوقير وقال قتادة: تنصروه وتمنعوا منه. ومنه التعزير فی الحد لأنه مانع.

''و تعزروہ کا معنی حضرت حسن اور کلبی کے مطابق یہ ہے کہ ان کی تعظیم و تکریم کرو، اور تعزیر سے مراد تعظیم و توقیر ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس سے مراد ہے کہ ان کی مدد کرو اور ان سے دشمن کو روکو اسی سے تعزیر (جس کا معنی سزا) ہے کیونکہ وہ مجرم کو ارتکاب معصیت سے روکتی ہے۔''

(2) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 16: 266

7۔ امام نحاس نے لکھا ہے:

و أصل التعزير فی اللغة المنع، ومنه عزرت فلانًا أي أنزلت به ما يمتنع من أجله من المعاودة کما تقول نکلت به أی أنزلت به ما ينکل به عن العودة.

''لغت میں تعزیر کا معنی روکنا ہے اسی سے ہے عزرت فلاناً یعنی میں نے فلاں شخص کو اس چیز سے روکا جس کی وجہ سے وہ بار بار جرم کا ارتکاب کرتا تھا جیسے کہا جاتا ہے میں نے فلاں کو روکا یعنی اس عادت سے روکا جس کی بناء پر وہ بار بار جرم کرتا تھا۔''

(3) نحاس، معانی القرآن، 2: 385

3۔ توقیر

لغت کے اعتبار سے توقیر میں سنجیدگی، متانت، وقار اور حلم و بردباری کا معنی پایا جاتا ہے۔ یہ لفظ و۔ ق ۔ ر سے بنا ہے۔ اسی سے ایک لفظ وقار ہے۔ ابنِ منظور لکھتے ہیں:

الوقار: الحلم والرزانة.

''وقار کا معنی ہے بردباری اور سنجیدگی۔ ''

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment