Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Monday 18 April 2016

))))Vu & Company(((( توحید .......تعظیم اور عبادت کا مفہوم حصّہ چہارم ...تعظیم کی اَقسام. .... (حصہ سوم )

تعظیم کی اَقسام. .... (حصہ سوم  )

(1) ابن منظور، لسان العرب، 5: 290

وقر سے توقیر کا معنی ہوتا ہے: کسی کی عظمت بیان کرنا۔

ووقرت الرجل اذا عظمته وفی التنزيل العزير {وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ}.

''وقرت الرجل اس وقت کہا جاتا ہے جب اس شخص کی عظمت شان کو بیان کیا جائے، قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالی ہے: (اور (ان کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو۔''

(2) ابن منظور، لسان العرب، 5: 290

تعظیم و توقیر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شجرِ ایمان کی جڑ ہے۔ ایمان کی تکمیل اور اس میں بہار کاانحصار تعظیم و توقیر کے ساتھ مشروط ہے۔ قرآنِ حکیم میں ادب و احترام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں تعظیم کے ساتھ توقیر کا لفظ بھی استعمال ہواہے جسکا معنی اہلِ علم کے نزدیک ادب واحترام کی وہ کیفیت ہے جہاں تعظیم کرنے والا ممدوح کی عظمت و شان کا خوب چرچا کرے۔

لغوی اعتبار سے 'وقر' کے معانی میں سے ایک معنی 'کان کا بہرا ہونا' بھی ہے اور 'سنجیدگی' کا معنی بھی اس کے اندر پایا جاتا ہے تو گویا اس اعتبار سے توقیر، تعظیم کا ایسا بلند درجہ ہے جہاں کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم میں اس قدر سنجیدہ ہو جائے کہ اس کی زبان پر ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی تعریف ہو، اس کے دل و دماغ میں کسی بھی قسم کی بے ادبی و گستاخی کا شائبہ تک نہ ہو اور اس کے کان ہر عیب سننے سے بہرہ ہو جائیں۔

توقیر بھی تعظیم سے ہے لیکن باعتبار مخلوق یہ ادب و احترام کا وہ بلند درجہ ہے جو شرعاً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاحق ہے۔ مفسرین نے بھی توقیر کا معنی بلند درجہ تعظیم و تکریم ہی بیان کیا ہے۔

1۔ امام ابنِ کثیر نے لکھا ہے:

{وَتُوَقِّرُوْهُ} من التوقير وهو الاحترام والإجلال و الإعظام.

''وتوقروہ یہ لفظ توقیر سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد ادب و احترام، بلند مرتبہ اور عظمت ہے۔''

(1) ابن کثیر،تفسیر القرآن العظیم، 4: 186

2۔ امام بغوی نے لکھا ہے:

{وَتُوَقِّرُوْهُ} تعظموه وتفخموه.

''{وَتُوَقِّرُوْہُ} کا معنی ہے ان کی تعظیم کرو اور خوب شان و شوکت بیان کرو۔''

(2) بغوی، معالم التنزیل، 4: 190

3۔ امام قرطبی لکھتے ہیں:

{وَتُوَقِّرُوْهُ} أی تسودوه.

''وتوقروہ یعنی ان کی خوب شان و شوکت بیان کرو۔''

(1) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 16: 267

اِنتہائی تعظیم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے

مخلوق میں سب سے زیادہ تعظیم اور بزرگی کی حقدار حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات ہے۔ مترجمین نے لفظ تَعْزِیر کا ترجمہ فقط ''مدد اور تکریم'' کیا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین کرنے والی ہے کہ صرف تعزیر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اختصاص اور حق نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق تعزیر سے شروع ہو کر توقیر کے اعلیٰ و ارفع درجے کو پہنچتا ہے۔ پہلا حق تعظیم ہے، دوسرا حق تعزیر اور تیسرا حق توقیر ہے جو کہ بلند ترین سطح کا حق ہے۔ اس لئے بہتر اور زیادہ مناسب ترجمہ یہ ہے کہ ''آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام کا بلند ترین درجہ اختیار کیا جائے۔''

سورۃ الفتح کی آیت نمبر 9 میں اہلِ ایمان سے ارشاد ہوا: وَتُسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِيْـلًا (تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح صبح و شام بیان کرو) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بزرگی بھی اس طرح بیان کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہو۔ گویا قرآن کا پیغام ہے کہ لوگو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان پختہ تر کر لو۔ یہ تفسیر القرآن بالقرآن ہے۔ جہاں تک ایمان کو مستحکم کرنے کا تعلق ہے یہ استحکام اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق استوار کرنے سے آئے گا۔ اس وقت تک کوئی شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس کا ایمان مضبوط و مستحکم نہ ہو جائے۔ مسلمان ہونے کے بعد قرآن حکیم ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ایمان کے زبانی اقرار اور قلبی تصدیق کے بعد ہمیں بحیثیت مسلمان صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنا ہے اور رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کو جہاں تک ممکن ہو بلند سے بلند درجے تک پہنچانا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حق کو ادا کرنا امت پر فرض ہے۔

تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توحیدِ باری تعالیٰ سے متصادم نہیں

محولہ بالا آیتِ قرآنی میں ادب و تعظیمِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دی گئی ہے اور ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرینے سکھائے گئے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ کوئی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ مولا! میں ادب و مقامِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے آگاہ و واقف ہی نہیں تھا؟ کیونکہ تو نے تعظیم کو ''حرام اور ممنوع'' قرار دیا تھا۔ کس میں اتنی مجال ہو گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے روبرو اس دعوے کے ساتھ پیش ہو سکے؟

حقیقت یہ ہے کہ توحیدِ باری تعالیٰ، تعظیمِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعارض و متصادم نہیں۔تعظیم و تکریمِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم قرآن مجید میں اس حد تک ہے کہ کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلند آواز میں بات نہ کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ :

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کوئی کلام نہ کرے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بات مکمل کر لیں تو تب کوئی سوال کرے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی سے پہلے کوئی اپنا جانور قربان نہ کرے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادہ پر اپنا کوئی ارادہ پیش نہ کرے۔
جنگی امور کا فیصلہ کرنے میں کوئی بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیش قدمی نہ کرے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان آداب سے بخوبی واقف تھے اس لئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روزے، عید الفطر اور قربانی جیسے امور میں بھی سبقت اور پیش قدمی نہیں کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے بارے میں قرآن مجید کے ان واضح احکام و فرامین کے پیشِ نظر منکرین کے پاس اعتراض و انکار کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ ارشادِ ربانی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ

''ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہو جائے)۔''

(1) الحجرات، 49: 1

مذکورہ آیتِ کریمہ کا خاص شانِ نزول تھا۔ جس میں امت کو آدابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دی گئی ہے۔ائمہ تفسیر کے مطابق یہ آیت عام ہے لہٰذا ہر معاملے پر اس کا اطلاق ہوگا، چاہے ان معاملات کا تعلق ارکانِ اسلام نماز، روزہ، قربانی اور حج وغیرہ کے ساتھ ہو یا دنیاوی امور جنگ، قضاء اور روزمرہ کے دیگر معمولات کے ساتھ ہو ۔ معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام فرائض کی ادائیگی پر تکریم و تعظیمِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقدم رکھا ہے۔ اس لئے اس آیتِ کریمہ میں صحابہ کو بنیادی طور پر دو باتوں کی ممانعت کی گئی:

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment