Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Thursday 21 April 2016

))))Vu & Company(((( توحید .......تعظیم اور عبادت کا مفہوم حصّہ پنجم .........(حصّہ اول )

عبادت کا معنی و مفہوم .(حصّہ اول ). 


توحید فی العبادت سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے لائق صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جملہ مخلوقات میں سے کوئی بھی ہستی عبادت میں اس کی شریک نہیں۔ عبادت ایک ایسا فعل ہے جو اﷲتعالیٰ نے صرف اور صرف اپنی غایتِ تعظیم کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ بندے کی طرف سے انتہا درجے کی تعظیم جو اﷲتعالیٰ کے لئے ہو سکتی ہے وہ صرف عبادت کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ مخلوق میں سے کوئی بھی تعظیم کی اس حد کو نہیں پہنچ سکتا۔ اﷲ تعالیٰ کی ہستی بلند ترین ہے جبکہ مخلوق عبادت گزاری کے اعتبار سے ادنیٰ ترین مقام پر ہے۔ عبادت بندے کی طرف سے اس عظیم ترین ذات کے لئے غایت درجہ ادب و تعظیم، خاکساری اور عجزو تذلل کی آئینہ دار ہے۔ عبد اور معبود کی ان دونوں انتہائوں کے مابین رابطہ و تعلق پیدا کرنے والی چیز صرف عبادت ہے، یہ چیز اس امر کی متقاضی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اِس لائق ہے کہ اسی کی عبادت و پرستش کی جائے۔ اس کے علاوہ کوئی اور یہ حق نہیں رکھتا ۔

علمائے عقائد نے عبادت کی درج ذیل تعریف کی ہے:

هو استحقاقُه سبحانه وتعالی أن يُعبَد وحدَه لا شريکَ له.

''یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خصوصی استحقاق ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے، اس کا کوئی شریک نہیں۔''

(1) ابن ابی العز دمشقی، شرح العقیدۃ الطحاویۃ، 1: 125

اس کی مزید وضاحت یوں کی گئی ہے:

هو إفراد اﷲ ل بجميع أنواع العبادة الظاهرة و الباطنة قولًا و عملاً، و نفي العبادة عن کل ما سوی اﷲ تعالی کائناً من کان.

''توحیدِ اُلوہیت (عبادت)سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا تمام ظاہری و باطنی قولی اور فعلی جملہ عبادات میں یکتا ہونا۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ماسویٰ ہر ایک چیز کی عبادت کی نفی کی جائے۔''

(1) ابن احمد الحکمی، أعلام السنۃ المنشورۃ: 21

ائمہِ تفسیر نے عجز و تذلل اور انکسار کی بلند ترین کیفیت اور تعظیم کی آخری حد کو عبادت قرار دیاہے۔

(تفصیلی بحث اسی کتاب کے باب پنجم کی پہلی فصل میں ملاحظہ کریں۔)

پس عبادت کے لئے ضروری ہے کہ اس عمل میں عاجزی و انکساری کی بلند ترین کیفیت کے ساتھ تعظیم کا انتہائی درجہ شامل ہو۔ اس کے علاوہ ایسے عمل کو جو اس سے کم تر درجے میں ہو اُسے عبادت تصور نہیں کیا جا سکتا۔

عبادت عجز و نیاز کی اِنتہائی کیفیت اور تعظیم کی آخری حد ہے

تمام اجل مفسرین کے مطابق خضوع و تذلل کی بہت سی صورتیں اور درجات ہیں لیکن عبادت عاجزی و انکساری کا بلند ترین درجہ ہے۔

اس کی کئی مثالیں ہیں جن میں سے فہم کے لئے ایک درج کی جاتی ہے: چالیس طلبہ کی کلاس میں ہم ایک طالب علم کو لیتے ہیں جو اوّل آتا ہے اور گولڈ میڈل کا حقدار قرار پاتا ہے جبکہ دوسرے انتالیس طلباء اپنی کارکردگی اور پوزیشن میں اس سے پیچھے ہیں۔ طالب علم ہونے کے ناطے وہ کلاس کا ایک فرد ہے لیکن جب ہم سب طلباء کا ذکر کریں گے تو یہ کہیں گے کہ وہ صرف طالب علم ہی نہیں بلکہ گولڈ میڈلسٹ بھی ہے۔ اپنی اس حیثیت میں وہ دوسروں سے ممتاز و یگانہ ہے اور درجے میں سب طلباء سے اوپر ہے۔ چاندی کا میڈل جیتنے والا باوجود ممتاز حیثیت رکھنے کے اس سے بھی کم درجے میں ہے اسی طرح کانسی کا میڈل حاصل کرنے والا اس سے بھی کم درجے میں ہے۔ جب آپ طلباء میں تمیز کرتے ہوئے بہتر کارکردگی کے مالک طلباء کو امتیازی اور تعریفی اسناد دیں گے تو یہ تمام طلباء تکریم کے درجہ بہ درجہ حقدار ہوں گے لیکن اعلیٰ درجے کی مظہر صرف ایک سند ہو گی جس نے امتیازات کی تمام حدوں کو عبور کر رکھا ہے۔

عاجزی، تذلل، خاکساری اور عجزو انکسار کی انتہائی شکل جو عبادت کی تعریف پر پوری اترتی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ جب ہم توحید فی العبادت کی بات کرتے ہیں تو اس کا معنی عبادت میں توحید ہے۔ اس کا اطلاق ہم تعظیم پر نہیں کرسکتے۔ قرآن حکیم میں جہاں کہیں توحید فی العبادت کا ذکر ہے وہیں اس امر کا ذکر بھی ہے۔

ہر تعظیم عبادت نہیں

عبادت اور تعظیم کی درج بالا بحث سے ثابت ہوا کہ ادب و احترام اور تعظیم کااعلیٰ ترین درجہ عبادت ہے جس کاحق دار و سزا وار صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے اس میں حقیقت و مجاز کی تقسیم بھی نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا عبادت کا کسی کے لئے مجازاً اثبات بھی شرک ہے لیکن ہر تعظیم عبادت نہیں کیونکہ کسی بھی عمل کو عبادت قرار دینے کے لئے تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔ بندہ عاجزی وتذلّل اور عجز و انکساری کی آخری حد پر ہو. .. جبکہ:

انبیائے کرام، صالحینِ عظام، والدین، شیوخ، اساتذہ یا کسی اور معزز ہستی کی عزت و توقیر، ان کا ادب و احترام،ان کی فرمان برداری، تعمیلِ ارشاد اور ان سے منسوب اشیاء کی حرمت و تکریم بھی ان کی تعظیم ہے۔ چونکہ یہ عمل درجہِ عبادت یعنی عاجزی و تذلّل اور عجز و انکساری کی آخری حد سے کم تر اور فروتر ہوتا ہے اور اس کی نوعیت بھی عمومی ہوتی ہے اس لئے عبادت کے زمرے میں نہیں آتا اور جائز امر ہے چونکہ کسی بھی طرح توحید سے متعارض و متصادم نہیں لہذا شرک کے دائرے میں ہرگز نہیں آتا۔

2۔ رب تعالیٰ کے لئے تعظیم کا آخری درجہ ہو. .. جبکہ:

انبیائے کرام، صالحینِ عظام اور بڑوں کی عزت و توقیر اور ادب و احترام ان کی تعطیم تو ہے مگر تعظیم کا آخری درجہ 'عبادت' نہیں۔ کوئی بھی راسخ العقیدہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی تعظیم عبادت کی نیت سے ہر گز نہیں کرتا۔

3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص قرار دیا ہو. .. جبکہ:

اسلامی تعلیمات اور معاشرتی ادب میں یہ بات شامل ہے کہ افرادِ امت درجہ بدرجہ ایک دوسرے کی عزت و تعظیم کریں۔ اولاد والدین کی تعظیم کرے، شاگرد استاد کی، چھوٹا بڑے کی، یہ یک ایسا مطلوب و مقبول عمل ہے جسے ترک کرنے والا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق امت سے خارج ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا وَيُؤَقِّرْ کَبِيْرَنَا.

''وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور بڑوں کی عزت نہ کی۔''

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment