Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Thursday 28 April 2016

))))Vu & Company(((( اقبال ماں بہن بیٹی کا قدرداں


اقبال ماں بہن بیٹی کا قدرداں

وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

اُردوشاعری میں حالیؔ اور اقبال ؔ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اُردو شاعری کو مقصدی شاعری کے روپ میں پیش کیا ۔ غزل کے روایتی رنگ وآہنگ کو شعوری طور ترک کرکے عملی زندگی سے اس کو استوار کیا ۔ حالیؔنے عورت کو محبوبہ اور بازاری پھندے سے آزاد کراکے ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کے روپ میں پیش کیا۔ علامہ ؔاقبال نے اس صنف نازک کے مقام و احترام کو ملحوظ نظر رکھ کر اس کی اہمیت و افادیت کو برقرار رکھنے میں اپنا زور قلم آزمایا ہی نہیں بلکہ خوابِ غفلت میں پڑی ہوئی قوم کو اس کی عظمت رفتہ کا احساس بھی دلایا ۔ دانائے راز کے فکر وفن میں عورت کو جو منصب ،مقام ومنزلت عطا ہوئی وہ ان کی تحریروں ، کلام اور ان خطبات سے ظاہر وباہر ہوتا ہے۔ علامہ نے ۱۹۲۹ ء کو مدراس میں انجمن خواتین اسلام کی تقریب میں مسلم خواتین مدراس کے ایک سپاس نامہ کے جواب میں ایک مدلل اور پُر مغز تقریر ''اسلام میں عورت کا مقام '' کے عنوان سے کی۔ اس کے علاوہ ایک اور لیکچر '' ملت بیضاپر ایک عمرانی نظر ۱۹۱۱ ء میں علی گڑھ میں تصور نسواں کے موضوع پر دیا۔ اپنے اُردواورفارسی کلام میں اقبال عورت کے متعلق اپنے زریں خیالا ت کا گلدستہ بارہا پیش کر تے ہیں۔ ''بانگِ درا'' میں اقبال نے فاطمہ بنت عبداللہ ،والدۂ مرحومہ کی یا دمیں دو نظمیں اور اس کے علاوہ عورت کے موضوع سے متعلق تین رباعیاں موجود ہیں اور ضرب کلیم میں ''عورت ''کے عنوان سے ایک پورا باب ملتا ہے ۔ ارمغان حجاز ( فارسی ) میں '' دخترانِ ملت ''کے عنوان سے ۸؍ رباعیاں ملتی ہیں اور باقی کتابوں میںبھی مختلف موضوعات کے دوران مختلف اسالیب سے عورت کا تذکرہ ملتا ہے ۔ اقبال کی نظر میں عورت کی عزت اور شرف و امتیاز اس کے ماں ہونے کی وجہ سے ہے۔ جو قومیں امومت آداب نہیں بجالاتیں، ان کا نظامِ حیات بے اساس ہوتا ہے اور خاندانی امن و سکون درم برہم ہوجاتا ہے ، چھوٹے بڑوں کی تمیز اُٹھ جاتی ہے ، اور بالا ٓخر اقدار عالیہ کے برعکس اخلاقی بحران اسی لئے رونما ہوتا ہے ۔ کہ وہاں ماں کا احترام اور صنفی پاکیزگی ختم ہوجاتی ہے ۔ وہ آزادیٔ نسواں کی مغربی تحریک کے اسی لئے حامی نہیں کہ اس کا نتیجہ دوسرے انداز میں عورت کی ہی غلامی ہے ۔ اس سے ان کی مشکلات آسان نہیں بلکہ پیچیدہ ہوجائیں گے اور انسانیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ جذبہ امومت ختم ہوجائے گا ، ماں کی مامتا کی روایت کمزور پڑ جائے گی ۔اس لئے وہ کہتے ہیں کہ جس علم سے عورت اپنی خصوصیات کھو دیتی ہے وہ علم نہیں موت ہے ۔ اقبالؔ اس زہریلے مغربی طرز تعلیم کے خلاف ہیں جو قوموں کو موت کی دعوت دے رہی ہے ۔ اپنی نظم میں عورت اور تعلیم کا تصور یوںالفاظ میں پیش کرتے ہیں   ؎

تہذیب فرنگی ہے اگر مرگِ اموت 

ہے حضرت انسان کے لئے اس کا ثمر موت

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن 

کہتے ہیں اس علم کو اربابِ نظر موت

علامہ ؔاقبال پردے کی حمایت میں کہتے ہیں کہ پردہ عورت کے لئے کوئی رُکاوٹ نہیں ،وہ پردے میں رہ کر بھی تمام جائز  ومہذب سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے ، اور اپنے فرائض اچھی طرح سے انجام دے سکتی ہیں ۔ کیونکہ خالقِ کائنات نے پس پردہ میں اس سارے عالم کو چھوڑا ہے ۔ پردے کی حمایت میں ''خلوت ''کے عنوان سے ایک نظم میں فرماتے ہیں   ؎

 رُسوا کیا اس دور کو خلوت کی ہوس نے

روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدر

بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے

ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر

 اقبال فطرت شناس انسان تھے ۔ انہوں نے مردو زن کی فطرتوں اور نظام کائنات میں ان کی حیثیت کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔

 اقبال کے نزدیک عورتوں میں بے پردگی اخلاقی زوال کا سبب بنتی ہے ، اور وہ ترقی نہیں بلکہ تنزل۔ پردے کی اہمیت کو یوں بیان کرتے ہیں:''یورپ میں عورت اپنے بلند مقام سے گر گئی ہے اور اس کی ذمہ دار وہ خود ہے ۔ وہ آزادی اور مساواتِ حقوق چاہتی ہے ، جس کا مفہوم وہ خود نہیں سمجھتی۔ اہلِ مغرب کا خیال ہے کہ ترکی میں عورت پستی کی حالت میں ہے ۔ اس لئے کہ اسے میدان زندگی میں حصہ لینے کا بہت کم حق دیاگیا ہے۔ بلا شبہ وہ ہمارے متعلق اور بالخصوص نفسیاتی پردے کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ پردہ کی تہہ میں حسد نہیں بلکہ یہ جذبہ کار فرما ہے کہ عورت ایک مقدس ہستی ہے ۔ اجبنی نگاہوں کی آلودگی سے ملوث نہیں ہونا چاہتی ہے ۔ ۔پردہ عورت کے وقار و احترام کی ایک نمایاں علامت ہے ۔کیا اس کے لئے یہ بات کم باعث عزت ہے کہ اُس سے جان سے زیادہ عزیز سمجھ کر غیروں کی نظروں کے استحفاف سے محفوظ رکھا جائے ؟ قرآن میں خلوت و حجاب نسواں کے بارے میں کئی ایک عائلی ومعاشرتی قوانین پیش کئے گئے ہیں ، پردہ ان میں سے ایک ہے ۔ اقبال عورتوں کے لئے وہی طرز حیات پسند کرتے تھے جو قرونِ اولیٰ یا عہد خلافت راشدہ میں پایا جاتاتھا۔ وہ شرعی پردہ کے اہتمام کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں ۔

  مشہور جنگ طرابلس کو یاد کیجئے ، جب اسلامی تاریخ نے ایک لمبا سفر طے کیا لیکن اسلامی تعلیمات نے مردوں تو کیا معصوم اور کمسن لڑکیوں کے دلوں میں وہ نقوش ثبت کئے جو دوسروں کی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتے ۔ پاک باز اور پردہ نشین فاطمہ بنت عبداللہ جو اپنی عمر کے چودھویں سال میں تھی اور طرابس پر اطالویوں نے لشکر کشی کی تھی اور یہ معصوم فاطمہ میدان کارِ زار میں مجاہدین اسلام کی ڈھارس بندھاتی ہے اور سقائی کا فریضہ انجام دینے میں سرگرم عمل رہتی اور اسی دوران جام شہادت بھی نوش فرماتی ہے ۔ یہ وہی کمسن عظیم المرتب عورت زاد تھی جس کے تئیں شاعر مشرق نے وہ خراج تحسین پیش کیا جو کسی ملک الزبتھ یا ملکہ وکٹوریہ کو بھی نصیب نہ ہوا   ؎

فاطمہ تو آبروئے ملتِ مرحوم ہے

ذرّہ ذرّہ تیری بنت خاک کا معصوم ہے

یہ سعادت حور صحرائی تیری قسمت میں تھی

غازیان دین کی سقائی تیری قسمت میں تھی

کیا اس شیر دل لڑکی کو اسلامی تعلیمات اور پردہ کی بندشوں نے عظمتوں کے زینے طے کر نے سے روک دیا ؟ کیا ایسی لڑکیاں قوم کی ترقی میں رُکاوٹ بن سکتی ہیں ؟دراصل ایسی ہی پاکیزہ خواتین کو قوم کی زندگی کی علامت قرار دیا گیا ہے ۔ دورِحاضر کی عظیم المرتبت دو مسلمان خواتین جو اس وقت کی مادیت پسند تہذیب کے خلاف اسلامیت کی علمبردار نامور خواتین یا نسوانی روال ماڈل ہیں:ایک محترمہ مریم جمیلہ جو جدید فلسفوں کی شناور ، متعددعلمی کتابوں کی مصنفہ اور اسلامی طرز حیات کی شیدائی تھیں ۔ آپ پردہ کی کس حد تک قائل ہیں وہ انہیں کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے :''پردہ کے اسلامی احکام مسلمان خاتون سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ باوقار انداز میں خلوت میں رہے ''۔ دوسری مثال پاکستان کی شہناز لغاری کی ہے ۔ شہناز لغاری اسلامی دنیا کی پہلی با پردہ خاتون ہیں جنہوں نے کئی سال قبل کامیابی کے ساتھ جہاز کی پائیلاٹ کا فریضہ انجام دیا ۔ پاکستانی قوم کی یہ بیٹی سر سے لے کر پیر تک پردہ میں ملبوس ہیں ۔ ان کا بیان ہے کہ مکمل پردہ کے باوجود انہیں ہوا بازی جیسے مشکل کام میں کسی قسم کی دشواری محسوس نہیں ہوئی ۔ فضا کی بلندیوں میں پرواز کرنے والے شہناز لغاری کی مثال ان لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں ، جو اسلامی پردہ سسٹم کو عورتوں اور قومی ترقی میں مخل اور جاہلانہ رسم قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی ان مسلمان عورتوں کے لئے بھی ایک سبق ہے ،جو پردہ سے خائف ہیں۔ایس ایم مدنی نسوانی حجاب کے بارے میں بھونڈے اعتراض کا صحیح جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستان، ایران ، ترکی ، مصر اور کچھ عرب ممالک میں جہاں پردے کا رواج ہے ۔ اقتصادی ، تعلیمی اور سماجی میدانوں میں کافی ترقی کی ہے اور پاکستان نے جہاں عورتوں کی بے کم تعداد مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں ، ہر میدان میں قابلِ لحاظ ترقی دکھائی ہے بلکہ در حقیقت کم از کم پاکستان میں عورتوں نے تعلیم اور صحت عامہ جیسے محکموں میں مردوں پر سبقت لے لی ہے ، اور اس کے باوجود کبھی آزادی کے ساتھ مردوں سے خلط ملط نہیں ہوئے ۔ذراآج کی مادیت پسند خواتین ہوش کے ناخن لیں اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقہ حیات حضرت عائشہ ؓ جس نے پردہ کا حکم آنے کے بعد ایک منٹ کے لئے بھی پردہ نہیں چھوڑا، وہ اعلیٰ درجہ کی فقیہ اور عالمہ تھیں ۔ آپ ؓ کی وجہ سے علوم متداولہ اور اسلامی قوانین کے بارے میں حاصل ہوجانے والی ان کی فضیلت کو چار چاند لگے۔ بڑے بڑے صحابہ  ؓ اور خلیفہ وقت تک پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں آپؓ فاضلانہ طریقے سے مدد کے لئے پیش ہوتیں تو یہ رشک ملائکہ ام المومینن لوگوں کی علمی وفقہی رہنمائی فرماتیں ۔ آپ ؓ شعرو ادب کا ذوق بھی کام درجے کا رکھتیں تھیں ۔آپ ؓ نے ملکی سیاست  اور امور ِ مملکت میںبھی غیر معمولی دلچسپی دکھائی ۔ ذرا مزید آگے چلئے اور اسلامی تاریخ کی ورق گردانی کیجئے ۔ امام مظلوم سیدنا عثمان ؓپر جب خوارجی گھر میں نقب لگا کر حملہ آور ہوئے توآپ ؓکی زوجہ ٔ محتر مہ حضرت نائلہؓ کے پائے مبارک میں پردے نے بیڑیاں نہیںڈال دیںاور آپ ؓ اپنے شوہر نامدار کی بہادارنہ مدافعت میں اپنے ہاتھ کی انگلیاں تک گنو ادیں ۔وہ عظیم المر تبت خواتین علیھاسلام جنہوں نے یزید ی قوت کوکو للکارنے کے لئے کوفہ جا نے کا ارادہ کیا، یہ با پردہ خواتین جنہیں چاند اور سورج نے کبھی نہ دیکھا تھا، پر دہ نشینی ان کے لئے سد راہ بنی اور نہ حضرت امام حسین ؓ نے انہیںاپنے ہمراہ لے جا نے سے منع فرمایا اور انہوں نے راہ ِحق میں رفاقت کا ہی حق ادا نہیں کیا بلکہ پامردی سے ناقابل بیان  حالات کا مقابلہ کیا۔ حضرت حسین ؓ کی ہمشیرہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا وہ باپردہ خاتون تھیں جنہوں نے اپنے آپ پر غم وا لم کے پہاڑ ٹوٹتے ہوئے دیکھنا گوار اکیا لیکن اپنے پائے استقامت میں کوئی تزلزل پیدا نہ دی اور یزید کے سامنے ایسی بے لاگ اور بے مثال تقریر فرمائی جس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔ کیا یہ وہی خاتون اِسلام نہیں تھی جس نے دنیا کو کربلا کا صحیح واقع سنایا؟ اور یزید کے ظلم وستم پر ایک برجستہ حملہ کیا کہ آپ ؓ کی جرأت اظہارپر آج بھی موخین عش عش کر تے ہیں ۔

 علامہ اقبال تو عارف باللہ اور داعی أ سلام تھے، اور انہوں نے ماں بہن بیٹی کی عصمت وعزت بچانے کے لئے پردے کی پاک بازی کے حصار کو اپنے فکر کا خون جگر پلایا ، مگر سچ یہ ہے کہ آج اغیار بھی اس بات کو نجوبی مانتے ہیں کہ پردہ ایک صالح معاشرہ کو وجود میں لانے کی جانب پہلا قدم ہے۔ہاں بعض بے توفیق نام نہاد لبرل اور بقول اقبال'' خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے '' ٹائپ لوگ اپنے طاغوتی مقاصد کے تحت کبھی پردے کے خلاف کھلے بندوں منفی تشہیر کرتے ہیں اور کبھی منا فقانہ رویہ اختیار کرکے حقائق کی غلط تاویلات کرکے  سچائی کو چھپائے پھرتے رہتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے اغیار کے اسی فلسفہ تبرج ( جدید جاہلیت) سے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے ،پردہ کی اہمیت اورافادیت کو تشبیہاتی انداز میں اس طرح اُجاگر کیا ہے   ؎

آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے

وہ قطرۂ نسیاں کبھی بنتا نہیں گوہر 

 غور کیا جائے تو پردہ یقینا عورت کے لئے صدف کی حیثییت رکھتا ہے جس کی آغوش میں اس کی گوہر نسوانیت کی بقاء اور تحفظ کا راز مضمر ہے ۔ لیکن! دورِحاضر میں جہاں اکثر سماجوں اور ممالک میں خود حاکم اعلیٰ اخلاق سے عاری ہوں ، نفس پرست ہوں، اور اسلام کے اقدار سے بیگانہ ہوں ، وہاںعورت کو عزت نفس کو کیا ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے؟ ایسے سماج اور ایسے حاکموں کی قلمرو میں خواتین اور عفت مآب مستورات کے تحفظ کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ ہاں صرف ایک راستہ باقی رہ جاتا ہے ، او روہ ہے اسلام کی پاک و صاف شاہراۂ حیات۔ علامہؔ اقبال نے ہماری انگلی پکڑ کر اسی جانب ہماری رہنمائی کر تے ہوئے عورت کی حفاظت و سیادت کے پیش نظر کہا ہے     ؎

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور

کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہوسرد

نے پردہ نہ تعلیم ، نئی ہوکہ پرانی

نسوانیت زن کا نگہبان ہے ققط مرد

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا

اس قوم کا خورشید بہت جلدہوا ذرد


--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment