(11) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دے کر اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکروں میں سے ایک لشکر میں تھے، لوگ کفار کے مقابلے سے بھاگ نکلے اور ان بھاگنے والوں میں، میں بھی شامل تھا پھر جب پشیمان ہوئے تو سب نے واپس مدینہ جانے کا مشورہ کیا اور عزمِ مصمم کرلیا کہ اگلے جہاد میں ضرور شریک ہوں گے۔ وہاں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کی تمنا کی کہ خود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کردیں۔ اگر ہماری توبہ قبول ہوگئی تو مدینہ میں ٹھہرجائیں گے ورنہ کہیں اور چلے جائیں گے۔ پھر ہم نے بارگاہِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںآکر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! ہم بھاگنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
لا، بل أنتم العَکَّارون. قال : فدنونا فقبلنا يده، فقال : أنا فِئَة المسلمين.
ابوداؤد، السنن، 3 : 46، کتاب الجهاد، رقم : 2647
ابوداؤد، السنن، 4 : 356، کتاب الأدب، رقم : 5223
ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 215، ابواب الجهاد، رقم : 1716
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 70، رقم : 5384
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 338، رقم : 972
قرطبي، الجامع لإحکام القرآن، 7 : 383
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 295
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 541، رقم : 33686
ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 1 : 213
حسيني، البيان والتعريف، 1 : 295، رقم : 786
مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 7 : 437
شوکاني، نيل الاوطار، 8 : 80
ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 : 145
''نہیں، بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ (یہ سن کر ہم خوش ہوگئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کو بوسہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوں(یعنی ان کا ملجا و ماویٰ ہوں، وہ میرے سوا اور کہاں جائیں گے)۔''
2۔ امِّ ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع بن عامر جو وفدِ عبدالقیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے، سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا :
لما قَدِمنا المدينة فجعلنا نتبادرُ من رواحلِنا، فَنُقَبِّلُ يدَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و رِجلَه.
ابوداؤد، السنن، 4 : 357، کتاب الأدب، رقم : 5225
بخاري، التاريخ الکبير، 4 : 447، رقم : 1493
طبراني، المعجم الکبير، 5 : 275، رقم : 5313
بيهقي، السنن الکبری، 7 : 102، رقم : 13365
بيهقي، شعب الايمان، 6 : 477، رقم : 8966
عسقلاني، فتح الباري، 8 : 85
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 57
مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 7 : 437
عسقلاني، تلخيص الحبير، 4 : 93، رقم : 1830
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 133، رقم : 418
مزي، تهذيب الکمال، 9 : 266، رقم : 1946
زيلعي، نصب الراية، 4 : 258
عسقلاني، الدراية في تخريج احاديث الهداية، 2 : 232، رقم : 691
شيباني، الآحاد والمثاني، 3 : 304، رقم : 1684
''جب ہم مدینہ منورہ گئے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دینے لگے۔''
قدمین شریفین کی برکات
جس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنا قدمِ مبارک رکھ کر تعمیر کعبہ کرتے رہے وہ آج بھی صحنِ کعبہ میں مقامِ ابراہیم کے اندر محفوظ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے لگنے سے وہ پتھر گداز ہوا اور اُن قدموں کے نقوش اُس پر ثبت ہو گئے۔ اللہ ربُ العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنّ النبی صلی الله عليه وآله وسلم کان إذا مشي علي الصخر غاصت قدماه فيه و أثرت.
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 482
سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 27، رقم : 9
'' جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پتھروں پر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدم مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔''
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبعِ فیوضات و برکات تھے۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ عرفہ سے تین میل دور مقام ذی المجاز میں تھے کہ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانی طلب کرتے ہوئے کہا :
عطشتُ و ليس عندي ماءٌ، فنزل النبي صلي الله عليه وآله وسلم و ضرب بقدمه الأرض، فخرج الماء، فقال : اشرب.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 152، 153
ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 76
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 170
خفاجي، نسيم الرياض، 3 : 507
''مجھے پیاس لگی ہے اور اس وقت میرے پاس پانی نہیں، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری سے اُترے اور اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا تو زمین سے پانی نکلنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اے چچا جان!) پی لیں۔''
جب اُنہوں نے پانی پی لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنا قدمِ مبارک اُسی جگہ رکھا تو وہ جگہ باہم مل گئی اور پانی کا اِخراج بند ہو گیا۔
3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی اور اپنے مبارک پاؤں سے ٹھوکر ماری جس سے وہ مکمل صحت یاب ہو گئے۔ روایت کے الفاظ ہیں :
فضربنی برجله، و قال : ''اللهم اشفه، اللهم عافه'' فما اشتکيت وجعي ذالک بعد.
نسائي، السنن الکبریٰ، 6 : 261، رقم : 10897
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 560، ابواب الدعوات، رقم : 3564
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 83، 107
طيالسي، المسند، 1 : 21، رقم : 143
ابويعلي، المسند، 1 : 328، رقم : 409
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 7 : 357
''پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا مبارک پاؤں مجھے مارا اور دعا فرمائی : اے اﷲ! اسے شفا دے اور صحت عطا کر۔ (اس کی برکت سے مجھے اسی وقت شفا ہو گئی اور) اس کے بعد میں کبھی بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوا۔''
4۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے تو وہ تیز رفتار ہو جاتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آ کر اپنی اُونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
والذی نفسی بيده لقد رأيتها تسبق القائد.
ابو عوانه، المسند، 3 : 45، رقم : 4145
بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 235، رقم : 14132
حاکم، المستدرک، 2 : 193، رقم : 2729
قسم اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہو گئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔''
5۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اُونٹ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر اپنے مبارک قدموں سے ٹھوکر لگائی تھی، جس کی برکت سے وہ تیز رفتار ہو گیا تھا۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے :
فضربه برجله و دعا له، فسار سيراً لم يسرمثله.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 299
مسلم، الصحيح، 3 : 1221، کتاب المساقاة، رقم : 715
نسائی، السنن، 7 : 297، کتاب البيوع، رقم : 4637
ابن حبان، 14 : 450، رقم : 6519
بيهقی، السنن الکبریٰ، 5 : 337، رقم : 10617
''تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دُعا فرمائی، پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔''
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اُن سے دریافت کیا کہ اب تیرے اُونٹ کا کیا حال ہے تو اُنہوں نے عرض کیا :
بخير قد أصابته برکتک.
بخاري، الصحيح، 3 : 1083، کتاب الجهاد والسير، رقم : 2805
مسلم، الصحيح، 3 : 1221، کتاب المساقاة، رقم : 715
ابو عوانه، المسند، 3 : 249، رقم : 4843
''بالکل ٹھیک ہے، اُسے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی برکت حاصل ہو گئی ہے۔''
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment