Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Thursday, 31 March 2016

Re: ))))Vu & Company(((( اردو کی لسانی ترقی میں ڈاکٹر عطش دُرّانی کا کردار (حصّہ دوم )

Nice

On 31 Mar 2016 3:06 pm, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
۔گھوسٹ کریکٹر تھیوری 
(Ghost Character Theory) 
ڈاکٹر عطش درّانی نے شہرہ آفاق گھوسٹ کریکٹر تھیوری پیش کی ہے جسے 'خالی کشتیوں' کی تھیوری بھی کہتے ہیں۔ گھوسٹ کریکٹرز وہ حروف ہیں جو بے نقط ہوں اور انہیں تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ استعمال کیا جا سکے۔ ڈاکٹر عطش درّانی کے مطابق ان کریکٹرز کی تعداد ۱۹ہے۔ 
ئ، ا، ب، ح ، د ، ر، س، ص، ط، ع ، ف، ق، ک، ل، م، ں، ہ، و ، ی ۔ 
یہ کریکٹرز عربی رسم الخط سے آئے جب ایران نے عربی رسم الخط اپنایا تو انھوں نے چند نئے حروف متعارف کروائے جن میں نقطے اور ایک لائن ہو۔ یہی رسم الخط ہندوستان آیا تو ان پر چار نقطوں کا اضافہ ہو گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، عربی اور فارسی زبانوں میں تین بنیادی گھوسٹ کریکٹرز شامل ہو گئے۔ و، ہ ، گ ، ھ، ے ،تھے۔ وہ زبانیں جو عربی رسم الخط استعمال کرتی ہیں۔ ان میں گھوسٹ کریکٹرز کی تعداد ۲۲ہے جو یہ ہیں۔ 
ا ب ح د ر س ص ط ع ف ک گ ل م ن ں و ہ ء ی ھ ے 
مکمل ۵۲ بنیادی کریکٹرز کم از کم ۶۶۰بنیادی حروف بناتے ہیں۔ ۶۶۰گھوسٹ بنیادی حروف ۱۹۸۰۰ رسمی حروف بناتے ہیں ۔ کل ملا کر ۲۰۴۰۰= ۱۹۸۰۰+۶۰۰ حروف بنتے ہیں۔۷؎ ان کی پیش کردہ اس گھوسٹ تھیوری سے انٹرنیشنل Unicode پر مختلف الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی مدد سے ڈاکٹر عطش درّانی نے کمپیوٹر پر مختلف زبانوں کے الفاظ کے استعمال کو بہتر بنایا ہے۔ اب تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو، براہوی، بلتی، شنا، کشمیری ، گوجری کو کمپیوٹر پر لکھا جا سکتا ہے۔ 
۶۔خاص مقصد کی زبان
(Language For Specific Purposes) 
خاص مقصد کی زبان کی اصطلاح یورپ اور بین الاقوامی سطح پر استعمال کی جا رہی ہے۔ جب زبان کے ماہرین زبان کو کسی خاص مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو وہ خاص مقصد کی زبان کہلاتی ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر عطش درّانی کے سر سہرا جاتا ہے کہ انھوں نے اس بین الاقوامی سطح کے موضوع کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کے بقول علمی مقاصدو تکنیکی امور، سائنسی علوم، فنی اور خصوصی اغراض کے لیے جو زبان استعمال ہوتی ہے خاص مقصد کی زبان کہلاتی ہے۔ یہ زبان خصوصی حلقے تک محدود ہوتی ہے۔ صرف متعلقہ مضمون و شعبہ کے ماہرین باہمی ابلاغ کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بقول اُردو کو میڈیکل، انجینئرنگ ، وکالت ، دفتری امور کی خاص زبان کے طور پر ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ تا کہ ایک خاص شعبے کے لوگ ایک خاص ٹیکنیکل زبان سمجھ سکیں۔ اُردو کے علمی تحقیقی اداروں اور جامعات میں خاص زبان کو ترقی دینے کے لیے سانچوں ، کینڈوں، محضروں کے تجزیوں ، ثقافتی تنوع اور زبان اور ترجمہ کے اصولوں پر تحقیق کروانی چاہیے۔ ۷؎
دیکھا جائے تو ڈاکٹر صاحب کی رائے میں وزن ہے اگر اس کا موازنہ بین الاقوامی سطح کے ماہرین سے بھی کیا جائے تو یہ امر واضح ہے کہ کسی بھی خاص مقصد کی زبان کو اپنانے اور ترقی دینے کے لیے اس خاص شعبے کے افراد ہی استناد رکھتے ہیں اگر کوئی ماہر لسانیات یا ادیب اس امر کا دعویٰ کر بیٹھے کہ خاص مقصد کی زبان اس سے تشکیل دلوائی جائے تو یہ درست نہیں ہو گا، کیوں کہ کسی بھی شاعر ادیب کا تعلق ادب سے ہے نہ کہ اس کے پاس اختیار ہو کہ وہ کسی خاص شعبہ میں استعمال ہونے والی زبان اور اس کے الفاظ کو تشکیل دے۔ اگر کوئی خاص مقصد کی زبان کی تشکیل کو ادیبوں سے جوڑتا ہے تو یہ محض لغو ہو گا۔ 
خاص مقصد کی زبان کے بارے میں ڈاکٹر عطش دُرّانی نے ایک جگہ کہا کہ اُردو کی خاص زبان کو ترتیب دینا ادیبوںکا کام نہیں بلکہ اس شعبے کے ماہرین کا کام ہے ۔ اگر ڈاکٹری کے شعبہ کے لیے اصطلاحات اور الفاظ ترتیب دیے جانے ہیں تو بہتر ہے اسی شعبہ کے لوگ وہ اصطلاحات بنائیں۔ اگر یہ معاملہ ادیبوں کے سپرد کیا گیا تو خاص مقصد کی زبان پروان نہیں چڑھ پائے گی ۔ ۸؎ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر صحیح معنوں میں خاص مقصد کی زبان کا حصول ممکن بنانا ہے تو اسے اس موضوع اور شعبہ کے ماہرین کے حوالے کرنا ہو گا۔ 
۷۔عام مقصد کی زبان
(Language For General Purposes)
بین الاقوامی سطح پر خاص مقصد اور عام مقصد کی زبان کا ایک ساتھ اظہار کیا جا رہا ہے ۔ دونوں کا ذکر اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ عام مقصد کی زبان سے مراد زبان کا عمومی استعمال ہے۔ ڈاکٹرصاحب کے بقول عام زبان کو بعض اوقات عمومی مقاصد کی زبان کہا جاتا ہے یہ روزہ مرہ بول چال کے علاوہ تحریر و تقریر، ادبی، صحافتی اور معلوماتی ضرورتوں کے لیے استعمال میں آتی ہے۔ اسے عام چلن کی زبان کہا جاتا ہے۔ ۹؎ ان کے نزدیک عام مقصد کی زبان اسے قرار دیتے ہیں، جو روز مرہ بول چال میں استعمال ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ روز مرہ میں استعمال ہونے والی زبان میں خاص پیشہ ورانہ اور سائنسی الفاظ کم استعمال ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کی زبان سادہ ہوتی ہے۔ یہ عام لوگوں کی زبان ٹھہرتی ہی اسی وجہ سے ہے کہ اس میں عام نوعیت کے روز مرے استعمال ہوتے ہیں چونکہ لوگوں کی اکثریت یہ زبان استعمال کرتی ہے اس لیے تقریر و تحریر میں اس کا استعمال کیا جانا امر لازم ہے۔۰ ۱؎ ڈاکٹرصاحب کی رائے سے اتفاق کرنے میں کوئی باک نہیں کہ عام مقصد کی زبان بالعموم عوامی سطح پر استعما ل کی جاتی ہے۔ 
L.S.P اور L.G.P کے بارے میں ڈاکٹر عطش درّانی کا کہنا ہے کہ خاص مقصد کی زبان (LSP) ایک قرار داد ہے اس میں لفظوں کے معنی طے کر لیے جاتے ہیں۔ یہ معنی خود بنانے پڑتے ہیں اور یہ کام اسی شعبہ کے ماہرین کرتے ہیں L.G.P ایک سماجی مسئلہ ہے یہ عام بول چال کی زبان ہے لوگ اسے پہلے ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔۱۱؎ خاص مقصد کی زبان (L.S.P )کے معنی طے کرنا پڑتے ہیں۔ انہیں ماہرین طے کرتے ہیں جبکہ عام مقصد کی زبان L.G.P کے معنی پہلے سے ہی طے شدہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ معاشرہ ان کے معنی پہلے ہی طے کر چکا ہوتا ہے۔۱۲؎ 
۸۔اصطلاحات 
جامع اللغات میں اصطلاح کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے۔ 
کوئی لفظ یا جملہ جس کے کوئی خاص معنی کوئی گروہ ٹھہرائے کسی حرفے یا فن کا خاص لفظ ۔ 
یعنی اصطلاح وہ لفظ ہے جس کے خاص معنی ٹھہرائے جاتے ہیں اور یہ معنی کوئی گروہ ٹھہراتا ہے ۔ اسی تعریف کو آگے بڑھاتے ہیں پروفیسر نیاز عرفان کے بقول اصطلاح سے مراد ہے:
اصطلاح کوئی عام لفظ نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اس کا مطلب ایک ایسا لفظ یا مجموعۂ الفاظ ہے جو کسی تصور، شے،نظریے یا کیفیت کو مختصرلیکن جامع طور پر بیان کر سکے۔ یہ عموماً عام بول چال کے الفاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ اس میں کفایت اور صحت کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ یعنی کم سے کم الفاظ میں کسی شے کی صحیح نوعیت اور ماہیت بیان کی جا سکتی ہے۔
پروفیسر نیاز عرفان اصطلاح کو کوئی عام لفظ قرار نہیں دیتے۔ ان کے خیال میں اصطلاح ایک خاص لفظ یالفظوں کا مجموعہ ہے۔ کم سے کم الفاظ میں کسی شے کا بیان ہے۔ درجہ بالا دونوں تعریفوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اصطلاح ایک خاص لفظ ہوتا ہے جو کسی شے یا نظریے کو مختصراً بیان کرتی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اصطلاح محض ایک لفظ پر مشتمل ہو گی؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی اصطلاح کے بارے میں تعریف دیکھتے ہیں۔ 
چند حروف میں کسی خاص موضوع /شعبہ یا علم کو بیان کرنا اصطلاح کہلاتا ہے۔ اصطلاح لفظ بھی ہوسکتی ہے۔ ترکیب، حرف، ہندسہ، مخفف، سرنامیہ اورترخیمہ بھی۔۵ ۱؎
اصطلاح کسی خاص موضوع یا شعبہ کے متعلق خاص لفظ ہے جو ترکیب، حرف اور ہندسہ بھی ہو سکتا ہے۔ اصطلاح کی درجہ بالا تعریفوں کو دیکھنے کے بعد اصطلاح کی یہ تعریف سامنے آتی ہے۔ 
' جب کسی شعبے کے ماہرین کسی شے، نظریے یا کیفیت کو مختصراً بیان کریں وہ اصطلاح کہلائے گی۔ اصطلاح کسی ترکیب، حرف، ہندسہ، مخفف ، سرنامیہ اورترخیمہ کی شکل میں ہو سکتی ہے'۔ 
اُردو زبان میں اصطلاحات کا سرمایہ اس وقت پیدا ہونے لگا جب یہ زبان علوم و فنون کے اظہار کا ذریعہ بنی۔ اس دور میں اصطلاحات عربی، فارسی، ترکی اور سنسکرت سے لی جاتی تھیں جبکہ اٹھارویں صدی عیسوی میں مسلم سلطنت کا سورج غروب ہوا اور انیسویں صدی میں انگریزی تسلط قائم ہواتو ایک مسئلہ درپیش ہوا، جب جدید مغربی علوم کو اُردو زبان کے ذریعے حاصل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اصطلاحات اور وضع اصطلاحات نے ایک نئی اہمیت اختیارکر لی ۔ دہلی کالج ۱۸۲۵ء میں قائم ہوا اور اس کے ساتھ وہاں 'دہلی ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی' قائم ہوئی۔ درسی کتب کی ضرورت کے لیے کیمیا ، نباتات، معدنیات ، ریاضی، طب، علم ہندسہ اور دوسرے علوم کی اصطلاحات وضع ہوئیں۔ حیدر آبادمیں شمس الامرا نے انگریزی و فرانسیسی سے اہم کتابوں کے اردو تراجم میں گہری دلچسپی لی اور ۱۸۳۴ء ۔ ۱۸۵۰ء کے درمیان بیس سے زیادہ سائنسی کتابوں اور امہات الکتب کو اُردو میں ترجمہ کرایا گیا۔ وضع اصطلاحات کی کمیٹی بھی اسی زمانے میں سر سید احمد خان نے قائم کی۔ رڑکی انجینئرنگ کالج میں ۱۸۵۶ء سے ۱۸۸۸ء تک ایک ذریعہ تعلیم اُردو زبان تھی۔ درسی ضروریات کے پیش نظر وہاں بھی متعدد کتابیں اُردو میں لکھی گئیں اور اصطلاحات وضع کی گئیں۔ اسی طرح آگرہ میڈیکل کالج میں بھی ذریعہ تعلیم اُردو تھی۔ وہاں بھی طلبہ کی درسی ضرورت کے لیے کتابیں لکھی گئیں اور جدید طبی اصطلاحات اُردو میں وضع کی گئیں۔ یہ ذخیرہ آج بھی پاکستان کے بعض کتب خانوںمیں محفوظ ہے۔ سائنٹیفک سوسائٹی، مظفر پور (۱۸۶۸ء ) نے بھی فلکیات ، معدنیات ، طبیعات ، جغرافیہ اور فن تعمیر وغیرہ پر بہت سی کتابیں نہ صرف ترجمہ کرائیں یا لکھوائیں بلکہ وضع اصطلاحات کے کام کو بھی آگے بڑھایا۔ شاہان اودھ غازی الدین حیدر اور نصیر الدین حیدر کے دور حکومت میں بہت سی علمی و سائنسی کتابیں اردو میں ترجمہ ہوئیں اور بہت سی نئی اصطلاحات وجود میں آئیں۔ ۱۸۶۵ء میں انجمن پنجاب لاہور میں قائم ہوئی اور اس کے تحت بھی ترجمہ اور اصطلاحا ت کا بہت قابل ذکر کام ہوا۔ 
بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں جامعہ عثمانیہ کا آغاز ہوا۔ یہاں اصطلاحات سازی کے کام میںغیر معمولی اور مفید پیش رفت ہوئی۔ اس کے علاوہ انجمن ترقی اُردو ہند،دارالمصنفین اعظم گڑھ (ہند)، پاکستان میں انجمن ترقی اُردو کراچی، اردو کالم ۱۹۴۹ء اور مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۵۰ئ، سائنٹیفک سوسائٹی کراچی ۱۹۵۵ئ، مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی لاہور ۱۹۵۶ء ، ترقی اُردو بورڈ کراچی ۱۹۵۸ئ، مرکزی اُردو بورڈ لاہور ۱۹۶۲ء کے ساتھ ساتھ جامعات خاص کر جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب اور دیگر علمی ادارے مجلس زبان دفتری حکومت پنجاب لاہور اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے اصطلاحوں کے موضوع پر بہت کام کیا ہے۔ ان اصطلاحات میں قانونی ، معاشرتی، معاشی، دفتری ، فطری سائنس ، سائنسی تکنیکی، سمعی، تدریسی اصطلاحات تیار کر لی گئیں۔ اصطلاحات سازی کے موضوع پر تحریر کرنے والوں میں پروفیسر منہاج الدین ، مولوی وحید الدین سلیم، مولوی عبدالحق ، میجر آفتاب حسن، ڈاکٹر عطش درّانی کے نام قابل ذکر ہیں۔ 
ڈاکٹر عطش درّانی کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ' اُردو اصطلاحات سازی' وحید الدین سلیم کے تقریباً ۷۰ سال بعد اس موضوع پر کوئی مبسوط تحریر منظر عام پر آئی۔ ڈاکٹرصاحب کے اس موضوع پر کام کو بہت پذیرائی ملی، ان کے بقول ہمارے ہاں ابھی اصطلاحات کا پورا تصور رائج نہیں ہوا۔ ہم ابھی تک لفظ سازی کے لسانی و قواعدی مرحلوں سے نہیں نکل پائے۔ ہمارے ہاں اصطلاحی الفاظ اور مرکبات کی تشکیل 'ترجمے' تک محدود ہے۔
ڈاکٹر عطش درّانی کی رائے اس معاملے میں درست ہے کہ ہمارے ہاں تاریخی طور پر اصطلاحات سازی کے ماہرین بھی اس موضوع پر تقسیم ہو کر رہ گئے کہ اُردو کے لیے اصطلاحات عربی، فارسی سے لی جائیں یا انگریزی سے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ کیا انگریزی اصطلاحات کا ترجمہ لیا جائے یا انگریزی الفاظ و اصطلاحات بعینہٖ نافذ کی جائیں۔ روایتی طور پرانھیں ہمارے ہاں ترجمے تک محدود کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی اُردو میں اسی ترجمے کے رجحان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب اصطلاحات کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصطلاحات کو منظم ، واضح ، درست منضبط، مختصر اور اپنے علم کا نمائندہ ہونا چاہیے۔ دور حاضر میں بھی ماہرین لسانیات و اصطلاحات کی یہی رائے ہے کہ اصطلاحات کو مختصر اور جامع ہونا چاہیے۔ اس طرح ترسیل معنی میں سہولت میسر آئے گی۔ ڈاکٹرصاحب کے بقول نحوی اور ترکیبی لحاظ سے اصطلاحات کی چار قسمیں ہیں۔ مفرد، اتصالی یا ترکیبی، مرکب، اشتقاتی ۔
اکثر ماہرین اصطلاحات کے ہاں بھی تقریباً یہی قسمیں ملتی ہیں۔ مولانا وحید الدین سلیم ،سلیم فا رانی نے اصطلاحات کی قسموں میں مرکب و اشتقاتی کو کافی اہمیت دی ہے۔ جہاں تک اُردو میں اصطلاحات سازی کے رجحانات کا تعلق ہے ڈاکٹر عطش درّانی کے بقول ہندی، سنسکرت ، عربی، فارسی، انگریزی زبانوں سے استفادے کا رجحان ہے۔ اُردو میں الفاظ سازی ، انگریزی میں زیادہ ہو رہی ہے۔ان کی رائے ہے کہ انگریزی اصطلاحات جو پہلے ہی رائج ہو چکی ہیں اور مطالعہ میں آ چکی ہیں انہیں ویسا ہی رہنے دیا جائے۔ تاہم موجودہ دورمیں ترجمہ کاری کے ذریعے اگر اصلاحات میں بہتری کی گنجائش ہے تو گوں نا گوں اصطلاحات اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ ۱۸؎ مولانا وحید الدین سلیم کے بقول بھی انگریزی اصطلاحات کو ویسے کا ویسا ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ انگریزی اصطلاحات جو رائج ہو چکی ہیں۔ ان کی تبدیلی سے خوا مخواہ کی بے ربطی پیدا ہو گی۔ اُردو زبان میں رائج ہندی، فارسی، عربی، ترکی اور انگریزی اصطلاحات کو من و عن رائج رکھا جائے۔ سائنسی اشیاء کے نام جو اُردو میں رائج ہیں ویسے ہی رہیں۔ تاہم مولانا وحید الدین سلیم کا یہ کہنا ہے کہ عربی و فارسی اصطلاحات کو انگریزی اصطلاحات پر فوقیت دینا چاہیے۔ ۱۹؎ سلیم فارانی کے مطابق اُردو زبان کی نوعیت اور اسلام کی یاد گار اصطلاحوں کو قائم کیا جائے۔ علوم و فنون اور انگریزی کی اصطلاحیں جیسے رائج ہیں انہیں ویسا ہی رکھا جائے کیوں کہ وہ عوامی ہو چکی ہیں۔ 
اصطلاحات کے موضوع پرڈاکٹر عطش درّانی نے گہری نظر ڈالی ہے۔ اُردو زبان کی علمی اعانت بھی اسی امر سے ہی ممکن ہے۔ اُردو کو بحیثیت زبان مختلف مقامی اور بین الاقوامی زبانوں سے معاملہ کرنا ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس الفاظ و اصطلاحات کا ایک ایسا ذخیرہ ہونا درکار ہے جو اسے دیگر زبانوں کے درمیان تمام تر توانائی کے ساتھ قائم ودائم رکھ سکے۔ ڈاکٹر درانی نے جہاں تک اصطلاحات کے نظری پہلوئوں پر گفتگو کی ہے اس کے ساتھ ساتھ اصطلاحات کو عملاً متحرک و مفید بنانے کے لیے بھی تجاویز دی ہیں۔ اصطلاحات سازی کے عمل کو بہتر اور دور رس بنانے کے لیے دوسری زبانوں سے اثر کو برا نہیں گردانتے مگر اس کے ساتھ یہ پہلو ضرور مد نظر رہے کہ اصطلاحات سادہ ہوں۔ 
۹۔لغات 
کسی بھی زبان کی ثروت مندی اور ترقی کے معیار کا اندازہ اس کے ذخیرہ الفاظ کی وسعت، ہمہ گیری اور تنوع سے ہوتا ہے۔ اس ذخیرہ الفاظ کو کسی خاص ترتیب سے منضبط کرنے اور ان کے معنی کے مختلف مفاہیم کی وضاحت کا نام لغت نویسی ہے۔ لغت نویسی کا علم زبان کی حفاظت ، اس کے استعمال کی معیار بندی اور فصاحت کے معیار کو طے کرنے میں از حد معاون ہوتا ہے۔ علم لغت (Lexicology) اور لغت نویسی (Lexicography) کو سمجھنا بجا طور پر زبان کے عروج و زوال کے عوامل کو سمجھنا ہے۔ 
سترھویں صدی عیسوی کے اواخر یعنی عالمگیری دور کے ایک منصف عبدالوسع ہانسوی کی مرتب غرائب اللغات کو اُردو کا پہلا لغت تسلیم کیا جاتا ہے۔ سراج الدین خان آرزو نے اسے نوادر الالفاظ کے نام سے ۱۱۵۶ء ہجری / ۱۷۴۳ عیسوی میں مرتب کیا۔ اُردو کا دوسرا باقاعدہ لغت میر محمدعترت کاکمال عترت ہے جو اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں تالیف ہوا۔ اس کے بعد مرزا جان طپش دہلوی کاشمس البیان مصطلحات ہندوستان آتا ہے۔ طپش کے مذکورہ لغت کے بعد جن لغات کا ذکر ملتا ہے ان میں مولوی محمد مہدی واصف کا دلیل ساطع (۱۸۳۳) ،اوحد الدین بلگرامی کا نفائس اللغات، محبوب علی رام پوری کا منتخب النفائس زیادہ اہم ہیں۔ یورپی مصنفین میں جان گل کرسٹ(John Gill Christ) کا لغت انگلش ہندوستانی ڈکشنری ، جان شکسپیئر(John Shakespear) کا اے ڈکشنری آف ہندوستانی انگلش ، ڈنکن فاربس(Dincins Forbis) کا اے ڈکشنری آف ہندوستانی انگلش، ایس ڈبلیو فلین (S.W.Falin)کا اے نیو ہندوستانی انگلش ڈکشنری اور جان ٹی پیٹس (John.T.Petis)کا اے ڈکشنری آف اُردو کلاسیکل ہندی اینڈ انگلش بہت اہم ہیں۔ 
فرہنگ آصفیہ اُردو کا ایک اہم لغت ۱۸۸۸ء میں اس کی پہلی اور دوسری جلد ۱۸۹۸ء میں تیسری اورچوتھی جلد ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد مولوی نور الحسن نئیرکا نور اللغات (چار حصے ۱۹۲۴ء تا ۱۹۳۱ئ) اور جامع اللغات (چار جلدیں ۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۵ئ) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے چھپنے والے لغت بھی اہم ہیں۔ 

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Re: ))))Vu & Company(((( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجہ نمود حُسن حقیت (حصّہ اول )

Nice

On 31 Mar 2016 3:13 pm, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجہ نمود حُسن حقیت

رسول اکرم کی تعریف و توصیف ایک ایسا مبارک ،باسعادت اور مشکبار موضوع ہے جو ایمان افروزبھی ہے اور دلآویز بھی،جس کی وسعت فرش زمین پر ہی نہیں آسمان کی بلندیوں سے بھی ماوراءہے۔ہر دور میں ان گنت انسانوں نے دربار رسالت میں پوری محبت و خلوص سے اپنی عقیدت کے گلدستے پیش کیے۔ان کی مدح سرائی کا غلغلہ بحر و بر میں بلند ہوا اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ بلند تر ہوتا چلا گیا اور آگے یہ سلسلہ مزید پھیلتا رہے گا۔تاریخ عالم شاہد ہے کہ یہ نام صبح و شام چہار دانگ عالم میں پھیلے عقیدت مندوں کے دلوں کی دھڑکن بن کر ان کےلئے باعث حیات بنا ہوا ہے۔ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے اسلوب میں عقیدت و محبت کے پھول "دربار رسالت "کی نذر کر رہا ہے۔ ہمارے آقا ﷺ حسن و جمال کا ایسا پیکر ہیں کہ جب سورج ان پر نظر ڈالتا تو حسرت بھری نگاہوں سے کہتا اے کاش!یہ حسن مجھے عطا ہوتا۔

دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں ،اے ابد کے حسیں تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
بحیثیت مسلمان ہمارے ایمان کی بنیاد اس عقیدے پر استوار ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی بقا و سلامتی کا راز محبت و غلامئ رسول میں مضمر ہے۔ آپ کی محبت ہی اصلِ ایمان ہے جس کے بغیرہمارے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشت دیدہ و دل میں عشق رسول کی شجرکاری کی جائے جس کی آبیاری اطاعت و اتباع کے سرچشمے سے ہوتی رہے تو ایمان کا شجر ثمربار ہو گا اور اس کی شاخ در شاخ نمو اور بالیدگی کا سامان ہوتا رہے گا۔ بزم ہستی میں محبت مصطفیٰ کا چراغ فروزاں کرنے سے نخل ایمان پھلے پھولے گا اور نظریاتی و

 فکری پراگندگی کی فضا چھٹ جائے گی۔
در دلِ مسلم مقام مصطفیٰ ﷺ ست
آبروئے ماز نامِ مصطفیٰ ﷺ ست

(حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکا مقام ہر مسلمان کے دل میں ہے اور ہماری ملی عزت و آبرو اسی نام سے قائم ہے۔)

مسلمانوں کے لیے نبی کریم ?کی حیات طیبہ کا مطالعہ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ اس وقت تک کوئی مسلمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے رہبر و راہنما پیغمبر ?کے اسوۂ حسنہ کی پیروی نہ کرے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں قرآن کریم کا بغور مطالعہ کرنا ہو گا کیونکہ قرآن کریم کی آیات و کلمات کا زندہ نمونہ ذات رسول پاک میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں ہم جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ہمیں ہو بہو نبی کریم کی عملی زندگی سے ملتا ہے۔ اسی لیے جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے کسی نے حضور کے خلق کے بارے میں استفسار کیا، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کان خلقہ القرآن، یعنی حضور اکرم کا خلق بعینہ قرآن تھا۔ نبی کریم ﷺکی زندگی جتنی خوبصورت اور دلکش ہے، اسی قدر وسیع اور کشادہ بھی ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں۔ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات، معاشیات، تہذیب و تمدن، سیاسیات الغرض وہ سب کچھ جس کا انسان کی انفرادی یا اجتماعی، روحانی و مادی زندگی سے ہے۔ اسوۂ حسنہ کا ابرِ رحمت ان سب پر سایۂ فگن ہوتا ہے۔

آج بھی اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت کو پذیرائی نصیب ہو اور پیغام حق دلوں کی دنیا میں ہل چل پیدا کر دے، تو اس کی صرف یہی صورت ہے کہ قرآن کی تعلیمات کے حسین خدوخال کو سیرت مصطفی کے شفاف آئینہ میں لوگوں کو دکھایا جائے۔ بالخصوص مسلمانوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ نبی کریم کی حیات طیبہ کا مطالعہ ضرور کریں۔ شاید اس کی برکت سے زندگی کے بند دریچے روشنی اور نور سے مزّین ہو سکیں۔

سرورِ کائنات کی سیرتِ مطہرہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک انسان کو جو افتخار اور مسرت حاصل ہوتی ہی' حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا غور فرمایئے جس ذات ِ اقدس کی تعریف و ثنا خود ربِ ذوالجلال نے کی ہو' کلام اللہ جس کے اوصاف و محاسن پر بولتا ہو' فرشتے صبح و شام جس پر درود بھیجتے ہوں اور جس کا نام لے لے کر ہر دور میں ہزاروں انسان زندگی کے مختلف گوشوں میں زندہ جاوید ہوگئے ہوں' اس رحمۃ للعالمین کے بارے میں کوئی شخص اپنے قلم و زبان کی تمام فصاحتیں اور بلاغتیں بھی یکجا کرلے اور ممکن ہو تو آفتاب کے اوراق پر کرنوں کے الفاظ سے مدح و ثنا کی عبارتیں بھی لکھتا رہی' یا ماہتاب کی لوح پر ستاروں سے عقیدت و ارادت کے نگینے جڑتا رہی' تب بھی حق ادا نہ کرسکے گا حضور کی سیرت کو کسی بھی انسانی سند کی ضرورت نہیں۔ حقیقتِ یہ ہے کہ سرور کائنات کے ذکر سے انسان اپنے ہی لیے کچھ حاصل کرتا ہے۔ جس نسبت سے تعلقِ خاطر ہوگا اسی نسبت سے حضور کا ذکر ایک ایسی متاع بنتا چلا جائے گا کہ زبان و بیان کی دنیا اس کی تصویریں بنا ہی نہیں سکتی۔

آپ کی شانِ جامعیت یہ ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس تمام انبیائے کرام ?اور تمام رسولانِ عظام کے اوصاف و محاسن، فضائل و شمائل اور کمالات و معجزات کا بھرپور مجموعہ اور حسین مرقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں، رسولوں اور ساری اولاد آدم کے اوصاف حمیدہ اور خصائل عالیہ حضور ?کی ذات میں جمع کر دیے تھے تو گویا آپ تمام ذریت آدم کے حسن و جمال، اوصاف و خصائل، تعریفوں، خوبیوں، صفتوں، بھلائیوں، نیکیوں، کمالوں، ہنروں، خلقوں اور پاکیزہ سیرتوں کے مجموعہ ہیں۔ چناں چہ آپ کی شخصیت میں آدم کا خلق، شیث کی معرفت، نوح کا جوشِ تبلیغ، لوط کی حکمت، صالح کی فصاحت، ابراہیم کا ولولہٴ توحید، اسماعیل کی جاں نثاری، اسحاق کی رضا، یعقوب کا گریہ و بکا، ایوب کا صبر، لقمان کا شکر، یونس کی انابت، دانیال کی محبت، یوسف کا حسن، موسیٰ کی کلیمی، یوشع کی سالاری، داؤد کا ترنم، سلیمان کا اقتدار، الیاس  کا وقار، زکریا کی مناجات، یحییٰ کی پاک دامنی اور عیسیٰ کا زہد و اعجازِ مسیحائی آپ کی صفات ظاہری میں شامل تھی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ پوری کائنات کی ہمہ گیر سچائی اور ہر ہر خوبی آپ کی ذاتِ والا صفات میں سمائی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتا ہے کہ اس نے براہِ راست تخاطب کے حوالے سے ایک دفعہ بھی حضور نبی اکرم کا نام لے کر آپ کو نہیں پکارا، بلکہ جہاں کہیں مخاطب کیا ہے تو عزت و تکریم کے کسی صیغے ہی سے آواز دی ہے کہ ﴿یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک﴾… ﴿یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین…﴾ یا پھر محبت سے ﴿یا ایھا المزمل﴾ اور ﴿یاایھا المدثر﴾ کہہ کر پکارا ہے۔ جب کہ قرآن مجید میں اولوالعزم انبیا کو جگہ جگہ ان کے اصل نام اور اسم سے پکارا گیا ہے۔ جیسے " ﴿یاآدم اسکن انت و زوجک الجنة﴾․ ﴿وما تلک بیمینک یا موسٰی﴾․﴿یا داود انا جعلنک خلیفة﴾․﴿یا زکریا انا نبشرک بغلام ن اسمہ یحیی﴾․﴿یا یحیٰی خذ الکتاب بقوة﴾․﴿یانوح اھبط بسلام﴾․ ﴿یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الیّ﴾ اس طریق مخاطبت کے مطابق چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی "یامُحَمَّداً، یااحمد" کہہ کر پکارتا، مگر اللہ تعالیٰ کو اس درجہ آپ کا احترام سکھانا مقصود تھا کہ تمام قرآنِ مجید میں ایک جگہ بھی آپ کو نام لے کر مخاطب نہیں کیا۔ بلکہ تعظیم و تکریم پر مبنی خوب صورت اور بہترین القابات پر مشتمل ناموں ہی سے آپ کو پکارا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول پاک کی حیات طیبہ پر جتنا کچھ لکھا گیا ہے پوری تاریخ انسانی میں کسی اورکی حیات پرنہیں لکھا گیا آپ کے ماننے والوں نے بھی آپ پر جی کھول کرلکھا ہے اور نہ ماننے والوں نے بھی، یہ الگ بات ہے کہ ان کے جذبات و محرکات الگ الگ رہے ہیں۔ ماننے والون نے عموما اس جذبے سے لکھا ہے کہ دنیا کے سامنے زیادہ سے زیادہ آپ کا تعارف کرایا جائے سیرت پاک کے دلکش گوشے سامنے لائے جائیں، جن سے آپ کے ماننے والوں میں عمل کا جذبہ بیدار ہو اور نہ ماننے والوں کی غلط فہمیاں دور ہوں، انھیں آپ کی دعوت، اورآپ کا مشن سمجھنے میں آسانی ہو۔

اس کے برعکس جو آپ کے مخالفین تھے، ان کے پیش نظریہ رہا ہے کہ جس قدر ہوسکے آپ کی شبیہ بگاڑی جائے، دنیا کو آپ سے متنفر کیا جائے، آپ کو محسن انسانیت، یا نبی رحمت کی حیثیت سے نھیں، بلکہ ایک ظالم وجابرحکمراں کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ یہ کام انہوں نے پوری دلیری اور نہایت ڈھٹائی سے کیا، اوردروغ بیانی اور جعل سازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
احقر نے اس مایہ ناز موضوع پر ایک کوشش کی ہے تاکہ سیرت کے ساتھ صورت سے بھی پیار پیدا ہو۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت بھی ہے کہ صورت، سیرت کی عکاس ہوتی ہے اور ظاہر سے باطن کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کیونکہ اِنسان کا چہرہ اُس کے مَن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پہلی نظر ہمیشہ کسی شخصیت کے چہرے پر پڑتی ہے، اُس کے بعد سیرت و کردار کو جاننے کی خواہش دِل میں جنم لیتی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے اَحوال و فضائل اس نقطۂ نظر سے معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننے کی خواہش فطری طور پر پیدا ہوتی ہے کہ اُس مبارک ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا، قد و قامت اور شکل و صورت کیسی تھی، جس کے فیضانِ نظر سے تہذیب و تمدّن سے ناآشنا خطہ ایک مختصر سے عرصے میں رشکِ ماہ و اَنجم بن گیا، جس کی تعلیمات اور سیرت و کردار کی روشنی نے جاہلیت اور توّہم پرستی کے تمام تیرہ و تار پردے چاک کر دیئے اور جس کے حیات آفریں پیغام نے چہار دانگِ عالم کی کایا پلٹ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی نے اُس عبدِ کامل اور فخرِ نوعِ اِنسانی کی ذاتِ اَقدس کو جملہ اَوصافِ سیرت سے مالا مال کر دینے سے پہلے آپ کی شخصیت کو ظاہری حُسن کا وہ لازوال جوہر عطا کر دیا تھا کہ آپ کا حسنِ صورت بھی حسنِ سیرت ہی کا ایک باب بن گیا تھا۔ سرورِکائنات حضرت محمد کے حسنِ سراپا کا ایک لفظی مرقع صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ ربّ العزت نے آپ کو وہ حسن و جمال عطا کیا تھا کہ جو شخص بھی آپ کو پہلی مرتبہ دور سے دیکھتا تو مبہوت ہو جاتا اور قریب سے دیکھتا تو مسحور ہو جاتا۔
حضور نبی اکرم ﷺاللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب اور مقرب نبی ہیں، اِس لئے باری تعالیٰ نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ ﷺکی ذاتِ اَقدس میں اِس طرح جمع فرما دیئے کہ آپ ﷺافضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ ﷺہی کی ذات ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺکی اِس شانِ جامعیت و کاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ.

[مزید] پيغام کا آئکون: ''(یہی) وہ لوگ (پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ آخرالزماں!) آپ اُن کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے اُن) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں اُن تمام انبیاء و رُسل کے فضائل و کمالات یکجا ہو جائیں)۔''( القرآن، الانعام، 6 : 90)اس آیتِ مبارکہ میں ہدایت سے مُراد انبیائے سابقہ کے شرعی اَحکام نہیں کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی منسوخ ہو چکے ہیں، بلکہ اِس سے مُراد وہ اَخلاقِ کریمانہ اور کمالاتِ پیغمبرانہ ہیں جن کی وجہ سے آپ ﷺکو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ کمالات و اِمتیازات جو دِیگر انبیاء ?کی شخصیات میں فرداً فرداً موجود تھے آپ ﷺمیں وہ سارے کے سارے جمع کر دیئے گئے اور اِس طرح حضور نبی اکرم ﷺجملہ کمالاتِ نبوّت کے جامع قرار پا گئے۔
لا یمکن الثناءکما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

))))Vu & Company(((( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجہ نمود حُسن حقیت (حصّہ اول )

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجہ نمود حُسن حقیت

رسول اکرم کی تعریف و توصیف ایک ایسا مبارک ،باسعادت اور مشکبار موضوع ہے جو ایمان افروزبھی ہے اور دلآویز بھی،جس کی وسعت فرش زمین پر ہی نہیں آسمان کی بلندیوں سے بھی ماوراءہے۔ہر دور میں ان گنت انسانوں نے دربار رسالت میں پوری محبت و خلوص سے اپنی عقیدت کے گلدستے پیش کیے۔ان کی مدح سرائی کا غلغلہ بحر و بر میں بلند ہوا اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ بلند تر ہوتا چلا گیا اور آگے یہ سلسلہ مزید پھیلتا رہے گا۔تاریخ عالم شاہد ہے کہ یہ نام صبح و شام چہار دانگ عالم میں پھیلے عقیدت مندوں کے دلوں کی دھڑکن بن کر ان کےلئے باعث حیات بنا ہوا ہے۔ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے اسلوب میں عقیدت و محبت کے پھول "دربار رسالت "کی نذر کر رہا ہے۔ ہمارے آقا ﷺ حسن و جمال کا ایسا پیکر ہیں کہ جب سورج ان پر نظر ڈالتا تو حسرت بھری نگاہوں سے کہتا اے کاش!یہ حسن مجھے عطا ہوتا۔

دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں ،اے ابد کے حسیں تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
بحیثیت مسلمان ہمارے ایمان کی بنیاد اس عقیدے پر استوار ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی بقا و سلامتی کا راز محبت و غلامئ رسول میں مضمر ہے۔ آپ کی محبت ہی اصلِ ایمان ہے جس کے بغیرہمارے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشت دیدہ و دل میں عشق رسول کی شجرکاری کی جائے جس کی آبیاری اطاعت و اتباع کے سرچشمے سے ہوتی رہے تو ایمان کا شجر ثمربار ہو گا اور اس کی شاخ در شاخ نمو اور بالیدگی کا سامان ہوتا رہے گا۔ بزم ہستی میں محبت مصطفیٰ کا چراغ فروزاں کرنے سے نخل ایمان پھلے پھولے گا اور نظریاتی و

 فکری پراگندگی کی فضا چھٹ جائے گی۔
در دلِ مسلم مقام مصطفیٰ ﷺ ست
آبروئے ماز نامِ مصطفیٰ ﷺ ست

(حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکا مقام ہر مسلمان کے دل میں ہے اور ہماری ملی عزت و آبرو اسی نام سے قائم ہے۔)

مسلمانوں کے لیے نبی کریم ?کی حیات طیبہ کا مطالعہ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ اس وقت تک کوئی مسلمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے رہبر و راہنما پیغمبر ?کے اسوۂ حسنہ کی پیروی نہ کرے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں قرآن کریم کا بغور مطالعہ کرنا ہو گا کیونکہ قرآن کریم کی آیات و کلمات کا زندہ نمونہ ذات رسول پاک میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں ہم جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ہمیں ہو بہو نبی کریم کی عملی زندگی سے ملتا ہے۔ اسی لیے جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے کسی نے حضور کے خلق کے بارے میں استفسار کیا، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کان خلقہ القرآن، یعنی حضور اکرم کا خلق بعینہ قرآن تھا۔ نبی کریم ﷺکی زندگی جتنی خوبصورت اور دلکش ہے، اسی قدر وسیع اور کشادہ بھی ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں۔ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات، معاشیات، تہذیب و تمدن، سیاسیات الغرض وہ سب کچھ جس کا انسان کی انفرادی یا اجتماعی، روحانی و مادی زندگی سے ہے۔ اسوۂ حسنہ کا ابرِ رحمت ان سب پر سایۂ فگن ہوتا ہے۔

آج بھی اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت کو پذیرائی نصیب ہو اور پیغام حق دلوں کی دنیا میں ہل چل پیدا کر دے، تو اس کی صرف یہی صورت ہے کہ قرآن کی تعلیمات کے حسین خدوخال کو سیرت مصطفی کے شفاف آئینہ میں لوگوں کو دکھایا جائے۔ بالخصوص مسلمانوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ نبی کریم کی حیات طیبہ کا مطالعہ ضرور کریں۔ شاید اس کی برکت سے زندگی کے بند دریچے روشنی اور نور سے مزّین ہو سکیں۔

سرورِ کائنات کی سیرتِ مطہرہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک انسان کو جو افتخار اور مسرت حاصل ہوتی ہی' حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا غور فرمایئے جس ذات ِ اقدس کی تعریف و ثنا خود ربِ ذوالجلال نے کی ہو' کلام اللہ جس کے اوصاف و محاسن پر بولتا ہو' فرشتے صبح و شام جس پر درود بھیجتے ہوں اور جس کا نام لے لے کر ہر دور میں ہزاروں انسان زندگی کے مختلف گوشوں میں زندہ جاوید ہوگئے ہوں' اس رحمۃ للعالمین کے بارے میں کوئی شخص اپنے قلم و زبان کی تمام فصاحتیں اور بلاغتیں بھی یکجا کرلے اور ممکن ہو تو آفتاب کے اوراق پر کرنوں کے الفاظ سے مدح و ثنا کی عبارتیں بھی لکھتا رہی' یا ماہتاب کی لوح پر ستاروں سے عقیدت و ارادت کے نگینے جڑتا رہی' تب بھی حق ادا نہ کرسکے گا حضور کی سیرت کو کسی بھی انسانی سند کی ضرورت نہیں۔ حقیقتِ یہ ہے کہ سرور کائنات کے ذکر سے انسان اپنے ہی لیے کچھ حاصل کرتا ہے۔ جس نسبت سے تعلقِ خاطر ہوگا اسی نسبت سے حضور کا ذکر ایک ایسی متاع بنتا چلا جائے گا کہ زبان و بیان کی دنیا اس کی تصویریں بنا ہی نہیں سکتی۔

آپ کی شانِ جامعیت یہ ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس تمام انبیائے کرام ?اور تمام رسولانِ عظام کے اوصاف و محاسن، فضائل و شمائل اور کمالات و معجزات کا بھرپور مجموعہ اور حسین مرقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں، رسولوں اور ساری اولاد آدم کے اوصاف حمیدہ اور خصائل عالیہ حضور ?کی ذات میں جمع کر دیے تھے تو گویا آپ تمام ذریت آدم کے حسن و جمال، اوصاف و خصائل، تعریفوں، خوبیوں، صفتوں، بھلائیوں، نیکیوں، کمالوں، ہنروں، خلقوں اور پاکیزہ سیرتوں کے مجموعہ ہیں۔ چناں چہ آپ کی شخصیت میں آدم کا خلق، شیث کی معرفت، نوح کا جوشِ تبلیغ، لوط کی حکمت، صالح کی فصاحت، ابراہیم کا ولولہٴ توحید، اسماعیل کی جاں نثاری، اسحاق کی رضا، یعقوب کا گریہ و بکا، ایوب کا صبر، لقمان کا شکر، یونس کی انابت، دانیال کی محبت، یوسف کا حسن، موسیٰ کی کلیمی، یوشع کی سالاری، داؤد کا ترنم، سلیمان کا اقتدار، الیاس  کا وقار، زکریا کی مناجات، یحییٰ کی پاک دامنی اور عیسیٰ کا زہد و اعجازِ مسیحائی آپ کی صفات ظاہری میں شامل تھی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ پوری کائنات کی ہمہ گیر سچائی اور ہر ہر خوبی آپ کی ذاتِ والا صفات میں سمائی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتا ہے کہ اس نے براہِ راست تخاطب کے حوالے سے ایک دفعہ بھی حضور نبی اکرم کا نام لے کر آپ کو نہیں پکارا، بلکہ جہاں کہیں مخاطب کیا ہے تو عزت و تکریم کے کسی صیغے ہی سے آواز دی ہے کہ ﴿یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک﴾… ﴿یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین…﴾ یا پھر محبت سے ﴿یا ایھا المزمل﴾ اور ﴿یاایھا المدثر﴾ کہہ کر پکارا ہے۔ جب کہ قرآن مجید میں اولوالعزم انبیا کو جگہ جگہ ان کے اصل نام اور اسم سے پکارا گیا ہے۔ جیسے " ﴿یاآدم اسکن انت و زوجک الجنة﴾․ ﴿وما تلک بیمینک یا موسٰی﴾․﴿یا داود انا جعلنک خلیفة﴾․﴿یا زکریا انا نبشرک بغلام ن اسمہ یحیی﴾․﴿یا یحیٰی خذ الکتاب بقوة﴾․﴿یانوح اھبط بسلام﴾․ ﴿یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الیّ﴾ اس طریق مخاطبت کے مطابق چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی "یامُحَمَّداً، یااحمد" کہہ کر پکارتا، مگر اللہ تعالیٰ کو اس درجہ آپ کا احترام سکھانا مقصود تھا کہ تمام قرآنِ مجید میں ایک جگہ بھی آپ کو نام لے کر مخاطب نہیں کیا۔ بلکہ تعظیم و تکریم پر مبنی خوب صورت اور بہترین القابات پر مشتمل ناموں ہی سے آپ کو پکارا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول پاک کی حیات طیبہ پر جتنا کچھ لکھا گیا ہے پوری تاریخ انسانی میں کسی اورکی حیات پرنہیں لکھا گیا آپ کے ماننے والوں نے بھی آپ پر جی کھول کرلکھا ہے اور نہ ماننے والوں نے بھی، یہ الگ بات ہے کہ ان کے جذبات و محرکات الگ الگ رہے ہیں۔ ماننے والون نے عموما اس جذبے سے لکھا ہے کہ دنیا کے سامنے زیادہ سے زیادہ آپ کا تعارف کرایا جائے سیرت پاک کے دلکش گوشے سامنے لائے جائیں، جن سے آپ کے ماننے والوں میں عمل کا جذبہ بیدار ہو اور نہ ماننے والوں کی غلط فہمیاں دور ہوں، انھیں آپ کی دعوت، اورآپ کا مشن سمجھنے میں آسانی ہو۔

اس کے برعکس جو آپ کے مخالفین تھے، ان کے پیش نظریہ رہا ہے کہ جس قدر ہوسکے آپ کی شبیہ بگاڑی جائے، دنیا کو آپ سے متنفر کیا جائے، آپ کو محسن انسانیت، یا نبی رحمت کی حیثیت سے نھیں، بلکہ ایک ظالم وجابرحکمراں کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ یہ کام انہوں نے پوری دلیری اور نہایت ڈھٹائی سے کیا، اوردروغ بیانی اور جعل سازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
احقر نے اس مایہ ناز موضوع پر ایک کوشش کی ہے تاکہ سیرت کے ساتھ صورت سے بھی پیار پیدا ہو۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت بھی ہے کہ صورت، سیرت کی عکاس ہوتی ہے اور ظاہر سے باطن کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کیونکہ اِنسان کا چہرہ اُس کے مَن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پہلی نظر ہمیشہ کسی شخصیت کے چہرے پر پڑتی ہے، اُس کے بعد سیرت و کردار کو جاننے کی خواہش دِل میں جنم لیتی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے اَحوال و فضائل اس نقطۂ نظر سے معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننے کی خواہش فطری طور پر پیدا ہوتی ہے کہ اُس مبارک ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا، قد و قامت اور شکل و صورت کیسی تھی، جس کے فیضانِ نظر سے تہذیب و تمدّن سے ناآشنا خطہ ایک مختصر سے عرصے میں رشکِ ماہ و اَنجم بن گیا، جس کی تعلیمات اور سیرت و کردار کی روشنی نے جاہلیت اور توّہم پرستی کے تمام تیرہ و تار پردے چاک کر دیئے اور جس کے حیات آفریں پیغام نے چہار دانگِ عالم کی کایا پلٹ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی نے اُس عبدِ کامل اور فخرِ نوعِ اِنسانی کی ذاتِ اَقدس کو جملہ اَوصافِ سیرت سے مالا مال کر دینے سے پہلے آپ کی شخصیت کو ظاہری حُسن کا وہ لازوال جوہر عطا کر دیا تھا کہ آپ کا حسنِ صورت بھی حسنِ سیرت ہی کا ایک باب بن گیا تھا۔ سرورِکائنات حضرت محمد کے حسنِ سراپا کا ایک لفظی مرقع صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ ربّ العزت نے آپ کو وہ حسن و جمال عطا کیا تھا کہ جو شخص بھی آپ کو پہلی مرتبہ دور سے دیکھتا تو مبہوت ہو جاتا اور قریب سے دیکھتا تو مسحور ہو جاتا۔
حضور نبی اکرم ﷺاللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب اور مقرب نبی ہیں، اِس لئے باری تعالیٰ نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ ﷺکی ذاتِ اَقدس میں اِس طرح جمع فرما دیئے کہ آپ ﷺافضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ ﷺہی کی ذات ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺکی اِس شانِ جامعیت و کاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ.

[مزید] پيغام کا آئکون: ''(یہی) وہ لوگ (پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ آخرالزماں!) آپ اُن کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے اُن) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں اُن تمام انبیاء و رُسل کے فضائل و کمالات یکجا ہو جائیں)۔''( القرآن، الانعام، 6 : 90)اس آیتِ مبارکہ میں ہدایت سے مُراد انبیائے سابقہ کے شرعی اَحکام نہیں کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی منسوخ ہو چکے ہیں، بلکہ اِس سے مُراد وہ اَخلاقِ کریمانہ اور کمالاتِ پیغمبرانہ ہیں جن کی وجہ سے آپ ﷺکو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ کمالات و اِمتیازات جو دِیگر انبیاء ?کی شخصیات میں فرداً فرداً موجود تھے آپ ﷺمیں وہ سارے کے سارے جمع کر دیئے گئے اور اِس طرح حضور نبی اکرم ﷺجملہ کمالاتِ نبوّت کے جامع قرار پا گئے۔
لا یمکن الثناءکما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

))))Vu & Company(((( اردو کی لسانی ترقی میں ڈاکٹر عطش دُرّانی کا کردار (حصّہ دوم )

۔گھوسٹ کریکٹر تھیوری 
(Ghost Character Theory) 
ڈاکٹر عطش درّانی نے شہرہ آفاق گھوسٹ کریکٹر تھیوری پیش کی ہے جسے 'خالی کشتیوں' کی تھیوری بھی کہتے ہیں۔ گھوسٹ کریکٹرز وہ حروف ہیں جو بے نقط ہوں اور انہیں تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ استعمال کیا جا سکے۔ ڈاکٹر عطش درّانی کے مطابق ان کریکٹرز کی تعداد ۱۹ہے۔ 
ئ، ا، ب، ح ، د ، ر، س، ص، ط، ع ، ف، ق، ک، ل، م، ں، ہ، و ، ی ۔ 
یہ کریکٹرز عربی رسم الخط سے آئے جب ایران نے عربی رسم الخط اپنایا تو انھوں نے چند نئے حروف متعارف کروائے جن میں نقطے اور ایک لائن ہو۔ یہی رسم الخط ہندوستان آیا تو ان پر چار نقطوں کا اضافہ ہو گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، عربی اور فارسی زبانوں میں تین بنیادی گھوسٹ کریکٹرز شامل ہو گئے۔ و، ہ ، گ ، ھ، ے ،تھے۔ وہ زبانیں جو عربی رسم الخط استعمال کرتی ہیں۔ ان میں گھوسٹ کریکٹرز کی تعداد ۲۲ہے جو یہ ہیں۔ 
ا ب ح د ر س ص ط ع ف ک گ ل م ن ں و ہ ء ی ھ ے 
مکمل ۵۲ بنیادی کریکٹرز کم از کم ۶۶۰بنیادی حروف بناتے ہیں۔ ۶۶۰گھوسٹ بنیادی حروف ۱۹۸۰۰ رسمی حروف بناتے ہیں ۔ کل ملا کر ۲۰۴۰۰= ۱۹۸۰۰+۶۰۰ حروف بنتے ہیں۔۷؎ ان کی پیش کردہ اس گھوسٹ تھیوری سے انٹرنیشنل Unicode پر مختلف الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی مدد سے ڈاکٹر عطش درّانی نے کمپیوٹر پر مختلف زبانوں کے الفاظ کے استعمال کو بہتر بنایا ہے۔ اب تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو، براہوی، بلتی، شنا، کشمیری ، گوجری کو کمپیوٹر پر لکھا جا سکتا ہے۔ 
۶۔خاص مقصد کی زبان
(Language For Specific Purposes) 
خاص مقصد کی زبان کی اصطلاح یورپ اور بین الاقوامی سطح پر استعمال کی جا رہی ہے۔ جب زبان کے ماہرین زبان کو کسی خاص مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو وہ خاص مقصد کی زبان کہلاتی ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر عطش درّانی کے سر سہرا جاتا ہے کہ انھوں نے اس بین الاقوامی سطح کے موضوع کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کے بقول علمی مقاصدو تکنیکی امور، سائنسی علوم، فنی اور خصوصی اغراض کے لیے جو زبان استعمال ہوتی ہے خاص مقصد کی زبان کہلاتی ہے۔ یہ زبان خصوصی حلقے تک محدود ہوتی ہے۔ صرف متعلقہ مضمون و شعبہ کے ماہرین باہمی ابلاغ کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بقول اُردو کو میڈیکل، انجینئرنگ ، وکالت ، دفتری امور کی خاص زبان کے طور پر ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ تا کہ ایک خاص شعبے کے لوگ ایک خاص ٹیکنیکل زبان سمجھ سکیں۔ اُردو کے علمی تحقیقی اداروں اور جامعات میں خاص زبان کو ترقی دینے کے لیے سانچوں ، کینڈوں، محضروں کے تجزیوں ، ثقافتی تنوع اور زبان اور ترجمہ کے اصولوں پر تحقیق کروانی چاہیے۔ ۷؎
دیکھا جائے تو ڈاکٹر صاحب کی رائے میں وزن ہے اگر اس کا موازنہ بین الاقوامی سطح کے ماہرین سے بھی کیا جائے تو یہ امر واضح ہے کہ کسی بھی خاص مقصد کی زبان کو اپنانے اور ترقی دینے کے لیے اس خاص شعبے کے افراد ہی استناد رکھتے ہیں اگر کوئی ماہر لسانیات یا ادیب اس امر کا دعویٰ کر بیٹھے کہ خاص مقصد کی زبان اس سے تشکیل دلوائی جائے تو یہ درست نہیں ہو گا، کیوں کہ کسی بھی شاعر ادیب کا تعلق ادب سے ہے نہ کہ اس کے پاس اختیار ہو کہ وہ کسی خاص شعبہ میں استعمال ہونے والی زبان اور اس کے الفاظ کو تشکیل دے۔ اگر کوئی خاص مقصد کی زبان کی تشکیل کو ادیبوں سے جوڑتا ہے تو یہ محض لغو ہو گا۔ 
خاص مقصد کی زبان کے بارے میں ڈاکٹر عطش دُرّانی نے ایک جگہ کہا کہ اُردو کی خاص زبان کو ترتیب دینا ادیبوںکا کام نہیں بلکہ اس شعبے کے ماہرین کا کام ہے ۔ اگر ڈاکٹری کے شعبہ کے لیے اصطلاحات اور الفاظ ترتیب دیے جانے ہیں تو بہتر ہے اسی شعبہ کے لوگ وہ اصطلاحات بنائیں۔ اگر یہ معاملہ ادیبوں کے سپرد کیا گیا تو خاص مقصد کی زبان پروان نہیں چڑھ پائے گی ۔ ۸؎ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر صحیح معنوں میں خاص مقصد کی زبان کا حصول ممکن بنانا ہے تو اسے اس موضوع اور شعبہ کے ماہرین کے حوالے کرنا ہو گا۔ 
۷۔عام مقصد کی زبان
(Language For General Purposes)
بین الاقوامی سطح پر خاص مقصد اور عام مقصد کی زبان کا ایک ساتھ اظہار کیا جا رہا ہے ۔ دونوں کا ذکر اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ عام مقصد کی زبان سے مراد زبان کا عمومی استعمال ہے۔ ڈاکٹرصاحب کے بقول عام زبان کو بعض اوقات عمومی مقاصد کی زبان کہا جاتا ہے یہ روزہ مرہ بول چال کے علاوہ تحریر و تقریر، ادبی، صحافتی اور معلوماتی ضرورتوں کے لیے استعمال میں آتی ہے۔ اسے عام چلن کی زبان کہا جاتا ہے۔ ۹؎ ان کے نزدیک عام مقصد کی زبان اسے قرار دیتے ہیں، جو روز مرہ بول چال میں استعمال ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ روز مرہ میں استعمال ہونے والی زبان میں خاص پیشہ ورانہ اور سائنسی الفاظ کم استعمال ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کی زبان سادہ ہوتی ہے۔ یہ عام لوگوں کی زبان ٹھہرتی ہی اسی وجہ سے ہے کہ اس میں عام نوعیت کے روز مرے استعمال ہوتے ہیں چونکہ لوگوں کی اکثریت یہ زبان استعمال کرتی ہے اس لیے تقریر و تحریر میں اس کا استعمال کیا جانا امر لازم ہے۔۰ ۱؎ ڈاکٹرصاحب کی رائے سے اتفاق کرنے میں کوئی باک نہیں کہ عام مقصد کی زبان بالعموم عوامی سطح پر استعما ل کی جاتی ہے۔ 
L.S.P اور L.G.P کے بارے میں ڈاکٹر عطش درّانی کا کہنا ہے کہ خاص مقصد کی زبان (LSP) ایک قرار داد ہے اس میں لفظوں کے معنی طے کر لیے جاتے ہیں۔ یہ معنی خود بنانے پڑتے ہیں اور یہ کام اسی شعبہ کے ماہرین کرتے ہیں L.G.P ایک سماجی مسئلہ ہے یہ عام بول چال کی زبان ہے لوگ اسے پہلے ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔۱۱؎ خاص مقصد کی زبان (L.S.P )کے معنی طے کرنا پڑتے ہیں۔ انہیں ماہرین طے کرتے ہیں جبکہ عام مقصد کی زبان L.G.P کے معنی پہلے سے ہی طے شدہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ معاشرہ ان کے معنی پہلے ہی طے کر چکا ہوتا ہے۔۱۲؎ 
۸۔اصطلاحات 
جامع اللغات میں اصطلاح کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے۔ 
کوئی لفظ یا جملہ جس کے کوئی خاص معنی کوئی گروہ ٹھہرائے کسی حرفے یا فن کا خاص لفظ ۔ 
یعنی اصطلاح وہ لفظ ہے جس کے خاص معنی ٹھہرائے جاتے ہیں اور یہ معنی کوئی گروہ ٹھہراتا ہے ۔ اسی تعریف کو آگے بڑھاتے ہیں پروفیسر نیاز عرفان کے بقول اصطلاح سے مراد ہے:
اصطلاح کوئی عام لفظ نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اس کا مطلب ایک ایسا لفظ یا مجموعۂ الفاظ ہے جو کسی تصور، شے،نظریے یا کیفیت کو مختصرلیکن جامع طور پر بیان کر سکے۔ یہ عموماً عام بول چال کے الفاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ اس میں کفایت اور صحت کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ یعنی کم سے کم الفاظ میں کسی شے کی صحیح نوعیت اور ماہیت بیان کی جا سکتی ہے۔
پروفیسر نیاز عرفان اصطلاح کو کوئی عام لفظ قرار نہیں دیتے۔ ان کے خیال میں اصطلاح ایک خاص لفظ یالفظوں کا مجموعہ ہے۔ کم سے کم الفاظ میں کسی شے کا بیان ہے۔ درجہ بالا دونوں تعریفوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اصطلاح ایک خاص لفظ ہوتا ہے جو کسی شے یا نظریے کو مختصراً بیان کرتی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اصطلاح محض ایک لفظ پر مشتمل ہو گی؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی اصطلاح کے بارے میں تعریف دیکھتے ہیں۔ 
چند حروف میں کسی خاص موضوع /شعبہ یا علم کو بیان کرنا اصطلاح کہلاتا ہے۔ اصطلاح لفظ بھی ہوسکتی ہے۔ ترکیب، حرف، ہندسہ، مخفف، سرنامیہ اورترخیمہ بھی۔۵ ۱؎
اصطلاح کسی خاص موضوع یا شعبہ کے متعلق خاص لفظ ہے جو ترکیب، حرف اور ہندسہ بھی ہو سکتا ہے۔ اصطلاح کی درجہ بالا تعریفوں کو دیکھنے کے بعد اصطلاح کی یہ تعریف سامنے آتی ہے۔ 
' جب کسی شعبے کے ماہرین کسی شے، نظریے یا کیفیت کو مختصراً بیان کریں وہ اصطلاح کہلائے گی۔ اصطلاح کسی ترکیب، حرف، ہندسہ، مخفف ، سرنامیہ اورترخیمہ کی شکل میں ہو سکتی ہے'۔ 
اُردو زبان میں اصطلاحات کا سرمایہ اس وقت پیدا ہونے لگا جب یہ زبان علوم و فنون کے اظہار کا ذریعہ بنی۔ اس دور میں اصطلاحات عربی، فارسی، ترکی اور سنسکرت سے لی جاتی تھیں جبکہ اٹھارویں صدی عیسوی میں مسلم سلطنت کا سورج غروب ہوا اور انیسویں صدی میں انگریزی تسلط قائم ہواتو ایک مسئلہ درپیش ہوا، جب جدید مغربی علوم کو اُردو زبان کے ذریعے حاصل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اصطلاحات اور وضع اصطلاحات نے ایک نئی اہمیت اختیارکر لی ۔ دہلی کالج ۱۸۲۵ء میں قائم ہوا اور اس کے ساتھ وہاں 'دہلی ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی' قائم ہوئی۔ درسی کتب کی ضرورت کے لیے کیمیا ، نباتات، معدنیات ، ریاضی، طب، علم ہندسہ اور دوسرے علوم کی اصطلاحات وضع ہوئیں۔ حیدر آبادمیں شمس الامرا نے انگریزی و فرانسیسی سے اہم کتابوں کے اردو تراجم میں گہری دلچسپی لی اور ۱۸۳۴ء ۔ ۱۸۵۰ء کے درمیان بیس سے زیادہ سائنسی کتابوں اور امہات الکتب کو اُردو میں ترجمہ کرایا گیا۔ وضع اصطلاحات کی کمیٹی بھی اسی زمانے میں سر سید احمد خان نے قائم کی۔ رڑکی انجینئرنگ کالج میں ۱۸۵۶ء سے ۱۸۸۸ء تک ایک ذریعہ تعلیم اُردو زبان تھی۔ درسی ضروریات کے پیش نظر وہاں بھی متعدد کتابیں اُردو میں لکھی گئیں اور اصطلاحات وضع کی گئیں۔ اسی طرح آگرہ میڈیکل کالج میں بھی ذریعہ تعلیم اُردو تھی۔ وہاں بھی طلبہ کی درسی ضرورت کے لیے کتابیں لکھی گئیں اور جدید طبی اصطلاحات اُردو میں وضع کی گئیں۔ یہ ذخیرہ آج بھی پاکستان کے بعض کتب خانوںمیں محفوظ ہے۔ سائنٹیفک سوسائٹی، مظفر پور (۱۸۶۸ء ) نے بھی فلکیات ، معدنیات ، طبیعات ، جغرافیہ اور فن تعمیر وغیرہ پر بہت سی کتابیں نہ صرف ترجمہ کرائیں یا لکھوائیں بلکہ وضع اصطلاحات کے کام کو بھی آگے بڑھایا۔ شاہان اودھ غازی الدین حیدر اور نصیر الدین حیدر کے دور حکومت میں بہت سی علمی و سائنسی کتابیں اردو میں ترجمہ ہوئیں اور بہت سی نئی اصطلاحات وجود میں آئیں۔ ۱۸۶۵ء میں انجمن پنجاب لاہور میں قائم ہوئی اور اس کے تحت بھی ترجمہ اور اصطلاحا ت کا بہت قابل ذکر کام ہوا۔ 
بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں جامعہ عثمانیہ کا آغاز ہوا۔ یہاں اصطلاحات سازی کے کام میںغیر معمولی اور مفید پیش رفت ہوئی۔ اس کے علاوہ انجمن ترقی اُردو ہند،دارالمصنفین اعظم گڑھ (ہند)، پاکستان میں انجمن ترقی اُردو کراچی، اردو کالم ۱۹۴۹ء اور مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۵۰ئ، سائنٹیفک سوسائٹی کراچی ۱۹۵۵ئ، مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی لاہور ۱۹۵۶ء ، ترقی اُردو بورڈ کراچی ۱۹۵۸ئ، مرکزی اُردو بورڈ لاہور ۱۹۶۲ء کے ساتھ ساتھ جامعات خاص کر جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب اور دیگر علمی ادارے مجلس زبان دفتری حکومت پنجاب لاہور اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے اصطلاحوں کے موضوع پر بہت کام کیا ہے۔ ان اصطلاحات میں قانونی ، معاشرتی، معاشی، دفتری ، فطری سائنس ، سائنسی تکنیکی، سمعی، تدریسی اصطلاحات تیار کر لی گئیں۔ اصطلاحات سازی کے موضوع پر تحریر کرنے والوں میں پروفیسر منہاج الدین ، مولوی وحید الدین سلیم، مولوی عبدالحق ، میجر آفتاب حسن، ڈاکٹر عطش درّانی کے نام قابل ذکر ہیں۔ 
ڈاکٹر عطش درّانی کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ' اُردو اصطلاحات سازی' وحید الدین سلیم کے تقریباً ۷۰ سال بعد اس موضوع پر کوئی مبسوط تحریر منظر عام پر آئی۔ ڈاکٹرصاحب کے اس موضوع پر کام کو بہت پذیرائی ملی، ان کے بقول ہمارے ہاں ابھی اصطلاحات کا پورا تصور رائج نہیں ہوا۔ ہم ابھی تک لفظ سازی کے لسانی و قواعدی مرحلوں سے نہیں نکل پائے۔ ہمارے ہاں اصطلاحی الفاظ اور مرکبات کی تشکیل 'ترجمے' تک محدود ہے۔
ڈاکٹر عطش درّانی کی رائے اس معاملے میں درست ہے کہ ہمارے ہاں تاریخی طور پر اصطلاحات سازی کے ماہرین بھی اس موضوع پر تقسیم ہو کر رہ گئے کہ اُردو کے لیے اصطلاحات عربی، فارسی سے لی جائیں یا انگریزی سے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ کیا انگریزی اصطلاحات کا ترجمہ لیا جائے یا انگریزی الفاظ و اصطلاحات بعینہٖ نافذ کی جائیں۔ روایتی طور پرانھیں ہمارے ہاں ترجمے تک محدود کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی اُردو میں اسی ترجمے کے رجحان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب اصطلاحات کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصطلاحات کو منظم ، واضح ، درست منضبط، مختصر اور اپنے علم کا نمائندہ ہونا چاہیے۔ دور حاضر میں بھی ماہرین لسانیات و اصطلاحات کی یہی رائے ہے کہ اصطلاحات کو مختصر اور جامع ہونا چاہیے۔ اس طرح ترسیل معنی میں سہولت میسر آئے گی۔ ڈاکٹرصاحب کے بقول نحوی اور ترکیبی لحاظ سے اصطلاحات کی چار قسمیں ہیں۔ مفرد، اتصالی یا ترکیبی، مرکب، اشتقاتی ۔
اکثر ماہرین اصطلاحات کے ہاں بھی تقریباً یہی قسمیں ملتی ہیں۔ مولانا وحید الدین سلیم ،سلیم فا رانی نے اصطلاحات کی قسموں میں مرکب و اشتقاتی کو کافی اہمیت دی ہے۔ جہاں تک اُردو میں اصطلاحات سازی کے رجحانات کا تعلق ہے ڈاکٹر عطش درّانی کے بقول ہندی، سنسکرت ، عربی، فارسی، انگریزی زبانوں سے استفادے کا رجحان ہے۔ اُردو میں الفاظ سازی ، انگریزی میں زیادہ ہو رہی ہے۔ان کی رائے ہے کہ انگریزی اصطلاحات جو پہلے ہی رائج ہو چکی ہیں اور مطالعہ میں آ چکی ہیں انہیں ویسا ہی رہنے دیا جائے۔ تاہم موجودہ دورمیں ترجمہ کاری کے ذریعے اگر اصلاحات میں بہتری کی گنجائش ہے تو گوں نا گوں اصطلاحات اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ ۱۸؎ مولانا وحید الدین سلیم کے بقول بھی انگریزی اصطلاحات کو ویسے کا ویسا ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ انگریزی اصطلاحات جو رائج ہو چکی ہیں۔ ان کی تبدیلی سے خوا مخواہ کی بے ربطی پیدا ہو گی۔ اُردو زبان میں رائج ہندی، فارسی، عربی، ترکی اور انگریزی اصطلاحات کو من و عن رائج رکھا جائے۔ سائنسی اشیاء کے نام جو اُردو میں رائج ہیں ویسے ہی رہیں۔ تاہم مولانا وحید الدین سلیم کا یہ کہنا ہے کہ عربی و فارسی اصطلاحات کو انگریزی اصطلاحات پر فوقیت دینا چاہیے۔ ۱۹؎ سلیم فارانی کے مطابق اُردو زبان کی نوعیت اور اسلام کی یاد گار اصطلاحوں کو قائم کیا جائے۔ علوم و فنون اور انگریزی کی اصطلاحیں جیسے رائج ہیں انہیں ویسا ہی رکھا جائے کیوں کہ وہ عوامی ہو چکی ہیں۔ 
اصطلاحات کے موضوع پرڈاکٹر عطش درّانی نے گہری نظر ڈالی ہے۔ اُردو زبان کی علمی اعانت بھی اسی امر سے ہی ممکن ہے۔ اُردو کو بحیثیت زبان مختلف مقامی اور بین الاقوامی زبانوں سے معاملہ کرنا ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس الفاظ و اصطلاحات کا ایک ایسا ذخیرہ ہونا درکار ہے جو اسے دیگر زبانوں کے درمیان تمام تر توانائی کے ساتھ قائم ودائم رکھ سکے۔ ڈاکٹر درانی نے جہاں تک اصطلاحات کے نظری پہلوئوں پر گفتگو کی ہے اس کے ساتھ ساتھ اصطلاحات کو عملاً متحرک و مفید بنانے کے لیے بھی تجاویز دی ہیں۔ اصطلاحات سازی کے عمل کو بہتر اور دور رس بنانے کے لیے دوسری زبانوں سے اثر کو برا نہیں گردانتے مگر اس کے ساتھ یہ پہلو ضرور مد نظر رہے کہ اصطلاحات سادہ ہوں۔ 
۹۔لغات 
کسی بھی زبان کی ثروت مندی اور ترقی کے معیار کا اندازہ اس کے ذخیرہ الفاظ کی وسعت، ہمہ گیری اور تنوع سے ہوتا ہے۔ اس ذخیرہ الفاظ کو کسی خاص ترتیب سے منضبط کرنے اور ان کے معنی کے مختلف مفاہیم کی وضاحت کا نام لغت نویسی ہے۔ لغت نویسی کا علم زبان کی حفاظت ، اس کے استعمال کی معیار بندی اور فصاحت کے معیار کو طے کرنے میں از حد معاون ہوتا ہے۔ علم لغت (Lexicology) اور لغت نویسی (Lexicography) کو سمجھنا بجا طور پر زبان کے عروج و زوال کے عوامل کو سمجھنا ہے۔ 
سترھویں صدی عیسوی کے اواخر یعنی عالمگیری دور کے ایک منصف عبدالوسع ہانسوی کی مرتب غرائب اللغات کو اُردو کا پہلا لغت تسلیم کیا جاتا ہے۔ سراج الدین خان آرزو نے اسے نوادر الالفاظ کے نام سے ۱۱۵۶ء ہجری / ۱۷۴۳ عیسوی میں مرتب کیا۔ اُردو کا دوسرا باقاعدہ لغت میر محمدعترت کاکمال عترت ہے جو اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں تالیف ہوا۔ اس کے بعد مرزا جان طپش دہلوی کاشمس البیان مصطلحات ہندوستان آتا ہے۔ طپش کے مذکورہ لغت کے بعد جن لغات کا ذکر ملتا ہے ان میں مولوی محمد مہدی واصف کا دلیل ساطع (۱۸۳۳) ،اوحد الدین بلگرامی کا نفائس اللغات، محبوب علی رام پوری کا منتخب النفائس زیادہ اہم ہیں۔ یورپی مصنفین میں جان گل کرسٹ(John Gill Christ) کا لغت انگلش ہندوستانی ڈکشنری ، جان شکسپیئر(John Shakespear) کا اے ڈکشنری آف ہندوستانی انگلش ، ڈنکن فاربس(Dincins Forbis) کا اے ڈکشنری آف ہندوستانی انگلش، ایس ڈبلیو فلین (S.W.Falin)کا اے نیو ہندوستانی انگلش ڈکشنری اور جان ٹی پیٹس (John.T.Petis)کا اے ڈکشنری آف اُردو کلاسیکل ہندی اینڈ انگلش بہت اہم ہیں۔ 
فرہنگ آصفیہ اُردو کا ایک اہم لغت ۱۸۸۸ء میں اس کی پہلی اور دوسری جلد ۱۸۹۸ء میں تیسری اورچوتھی جلد ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد مولوی نور الحسن نئیرکا نور اللغات (چار حصے ۱۹۲۴ء تا ۱۹۳۱ئ) اور جامع اللغات (چار جلدیں ۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۵ئ) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے چھپنے والے لغت بھی اہم ہیں۔ 

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Wednesday, 30 March 2016

Re: ))))Vu & Company(((( غرور................

Hmmm

On 30 Mar 2016 11:36 am, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
خاک مٹھی میں لئے قبر کی یہ سوچتا ہوں
انسان جو مرتے ہیں تو غرور کہاں جاتا ہے ؟

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Re: ))))Vu & Company(((( اسلام میں نکاح کی اہمیت

Nice

On 30 Mar 2016 11:46 am, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہٴ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے اوراسلام نے نکاح کوانسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: "النکاح من سنّتی" نکاح کرنا میری سنت ہے۔(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کوآدھا ایمان بھی قرار دیا ہے "اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ" جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔(۲) نکاح انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ ارشاد ربانی ہے "وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً" (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے یقینا رسول بھیجے اورانہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا(۳)۔ اس ارشاد ربانی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام بھی صاحبِ اہل وعیال رہے ہیں۔ارشاد نبوی اس طرح ہے حضرت ابوایوب انصاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رسولوں کی چار سنتیں ہیں: (۱) شرم و حیاکا خیال (۲)مسواک کا اہتمام (۳) عطر کا استعمال (۴) نکاح کا التزام(۴)۔
                نکاح کی اہمیت ان احادیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے (یعنی نظرکو بہکنے سے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے) اور جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اسے چاہئے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھے(۵)۔ اسی طرح ایک مرتبہ جب بعض صحابہ کرام نے عبادت و ریاضت میں یکسوئی و دلچسپی کے پیشِ نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوت شہوت کو ختم کردینے کی خواہش ظاہر کی تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا اور شادی نہ کرنے کو زندگی سے فرار اختیار کرنا قرار دیا۔ اس لیے کہ اسلام زندگی سے فرار کی راہ کو بالکل ناپسند کرتاہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "وَاللّٰہِ اِنِّیْ لاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَہ وَلٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ" بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کی ناراضگی سے بچنے والا ہوں (لیکن میرا حال) یہ ہے کہ میں کبھی نفل روزے رکھتا ہوں اور کبھی بغیر روزوں کے رہتا ہوں راتوں میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اور جو میرے طریقے سے منھ موڑے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(۶)
                انسان کسی قدر آرام طلب واقع ہوا ہے اور فطری طور پر راحت وسکون کا محتاج ہے اوراسی طرح فطری جذبات اورانسانی خواہشات کو پورا کرنے کا مزاج رکھتا ہے۔ راحت و مسرت سکون و اطمینان اس کی فطرت میں داخل ہیں۔ انسان کو اپنے مقصد تخلیق میں کامیاب ہونے عبادت میں یکسوئی و دلچسپی پیدا کرنے بندوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے اور اپنے متضاد جبلی اوصاف کو صحیح رخ پر لانے کے لیے نکاح انسان کے حق میں نہایت موٴثر ذریعہ اور کارآمد طریقہ ہے۔ اللہ نے نکاح میں انسان کے لیے بہت سے دینی ودنیاوی فائدے رکھے ہیں۔ مثلاً معاشرتی فائدے خاندانی فائدے اخلاقی فائدے سماجی فائدے نفسیاتی فائدے غرضیکہ فائدوں اور خوبیوں کا دوسرا نام نکاح ہے۔
                انسان کو نکاح کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون ذہنی اطمینان غرض کہ ہرطرح کا سکون میسر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے "ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا" وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنادیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے(۷)۔ اس آیت سے عورت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ ہے اورمرد کے لئے باعث سکون و اطمینان ہے لہٰذا جو مرد عورت کی قدر کرتا ہے وہ کامیاب اور پرسکون زندگی گزارتا ہے۔ اگر انسان نکاح سے جو انسانی فطری ضرورت ہے منھ موڑنے کی کوشش کرتا ہے تو انسان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نکاح کے بغیر سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ تاریخ میں چند استثنائی صورتوں اور چند مذہبی لوگوں کے افکار کے علاوہ دنیا میں ہمیشہ تمام انسان ہر زمانے میں شادی کو اہم ضرورت تسلیم کرتے آئے ہیں تاریخ کی روشنی میں شادی سے مستثنیٰ کبھی کوئی قوم مذہب اور ملت نہیں رہے ہیں۔ہر مذہب وملت میں مقررہ مراسم اور رواجات کے بغیر تعلقات مرد وعورت برے اوراخلاق سے گرے ہوئے سمجھے گئے ہیں اگرچہ ہر مذہب وملت میں شادی کے طور طریقے رسم و رواج الگ الگ رہے ہیں بحرحال شادی کی اہمیت پر سب متفق ہیں۔
نکاح کے متعلق بعض مذاہب اوراہلِ مغرف کے افکار
                آگے اجمالی طور پر ان مذاہب کے افکار کو پیش کیا جارہا ہے جنھوں نے شادی کو غیراہم بتایا ہے اور شادی سے انکار کیا ہے بعض مذاہب کے بعض لوگوں نے رہبانیت کے چکر میں پھنس کر شادی کو روحانی اور اخلاقی ترقی میں رکاوٹ مانا ہے تجرد رہنے اور سنیاس لینے (یعنی شادی نہ کرنے) کو اہم بتایا ہے اسی طرح روحانی و اخلاقی ترقی کیلئے انسانی خواہشات مٹانے اور فطری جذبات دبانے کو ضروری قرار دیا ہے۔ ان لوگوں کے نظریات وافکار نہ صرف فطرتِ انسانی کے خلاف ہیں بلکہ نظامِ قدرت کے بھی خلاف ہیں۔
                ڈاکٹر اسرار احمد صاحب رقم طراز ہیں: "رہبانیت کا تصور آپ کو عیسائیوں میں بھی نظر آئے گا اور ہندؤں میں بھی۔ دنیا کے اور بھی مذاہب ہیں جیسے بدھ مت جین مت ان میں بھی یہ تصور مشترک ملے گا کہ نکاح اور گھر گرہستی کی زندگی روحانیت کے اعتبار سے گھٹیا درجہ کی زندگی ہے۔ اس اعتبار سے ان مذاہب میں اعلیٰ زندگی تجرد کی زندگی ہے۔ شادی بیاہ کے بندھن کو یہ مذاہب کے بعض لوگ روحانی ترقی کے لئے رکاوٹ قرار دیتے ہیں مرد ہو یا عورت دونوں کے لئے تجرد کی زندگی کو ان کے ہاں روحانیت کا اعلیٰ و ارفع مقام دیا جاتا ہے نکاح کرنے والے ان مذاہب کے نزدیک ان کے معاشرہ میں دوسرے درجہ کے شہری (Second rate Citizens) شمار ہوتے ہیں چونکہ شادی بیاہ میں پڑکر انھوں نے اپنی حیثیت گرادی ہے"(۸)
                چنانچہ جن لوگوں نے شادی کرنے کو غلط قرار دیا ہے اور عورت سے دور رہنے کا درس دیا ہے اور روحانی ترقی کے لئے ایسا کرنا ناگزیر بتایا ہے آخر کار وہی لوگ انسانی خواہشات اور فطری جذبات سے مغلوب ہوکر طرح طرح کی جنسی خرابیوں اور اخلاقی برائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں حتیٰ کہ فطرت کے خلاف کاموں تک میں ملوث ہوئے ہیں اور برے نتائج اور تباہ کن حالات سے دوچار ہیں۔
                اسی طرح عصرِ حاضر میں خصوصاً بعض اہلِ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے بھی شادی کو غیراہم بتایاہے اور شادی سے انکار کردیا ہے۔ ان کے بے ہودہ نظریات کے مطابق انسان ہر طرح کی آزادی کا حق رکھتا ہے اور اسے اپنے فطری جذبات کو جیسا چاہے ویسا پورا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس معاملہ میں انسان کسی قسم کی روک ٹوک اسی طرح شادی جیسی کوئی پابندی اور بندھن کا قائل نہیں ہے۔ ان کے ہاں شادی کا تصور ہے بھی تواس کا مقصد صرف جنسی خواہشات کا پورا کرنا رنگ رلیاں منانا، موج مستی کرنا اور سیر وتفریح کرنا پھر ایک مقررہ وقت اورمدت کے بعدایک دوسرے سے جدا ہوجانا ہے۔ مغربی ممالک کے لوگ خصوصاً اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے دنیا کے دیگر ممالک کے افراد عموماً مرد کے لئے عورت دوست اور عورت کے لئے مرد دوست (Boy friend, Girl friend) نظریے کے تحت بے حیائی بے شرمی کے شکار ہیں۔ عاشق و معشوق کی حیثیت سے بے حیا وے بے شرم بن کر زندگی گزارتے ہیں ایشیائی ممالک میں تو بعض بیوقوف اور کم عقل لوگ اخلاق سوز فلموں اور بے ہودہ ٹی وی پروگراموں کی بدولت عشق کی خاطر جان دینے اور جان لینے کی احمقانہ باتیں اور عقل کے خلاف حرکتیں بھی کرتے ہیں۔ اہلِ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے شادی کو ایک کھیل تماشا بناکر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک میں گھرگرہستی کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ خاندان اور اقارب کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔ ماں باپ اور بچوں کے درمیان کوئی تعلق قائم نہیں رہ گیا ہے۔ اس سنگین صورت حال سے خود مغربی ممالک کے سنجیدہ اور غیور لوگ بہت پریشان ہیں اور غور و فکر کررہے ہیں کہ کس طرح ان تباہ کن حالات اور انسانیت سوز ماحول پر قابو پایا جائے اور سوسائٹی کو ان برائیوں اور خرابیوں سے محفوظ رکھا جائے۔
اسلامی طریقہٴ نکاح میں تمام مسائل ومصائب کا حل
                ان تمام مسائل کا حل اور تمام مصائب کا علاج صرف اسلام میں موجود ہے۔ اس لیے کہ اسلام دینِ فطرت اور دینِ اعتدال ہے۔ ارشاد ربانی ہے "فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْہَا لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ" یہ فطرت (یعنی فطری جذبات) اللہ کی طرف سے ہے۔ اس فطرت پر انسان قائم رہے اوراس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرے(۹)۔ ہر انسان اپنے فطری جذبات اور انسانی خواہشات کو پورا کرنے پر مجبور ہے۔ اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ اگر انسان نکاح سے فرار اختیار کرتا ہے اورجائز و مذہب طریقے پر اپنی فطری خواہشات کو پورا نہیں کرتا ہے تو ناجائز اور غیرمہذب طریقے پر پورا کرنے لگتا ہے اور ہرطرح کی برائی وبے حیائی کا شکار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جو کوئی بھی اللہ کی قائم کی ہوئی فطرت سے بغاوت کرتا ہے تو وہ خود تو تباہ و برباد ہوتا ہی ہے لیکن دوسروں کو بھی تباہ و برباد کردیتا ہے اوراس سے دنیا میں فتنہ و فساد پھیل جاتے ہیں یعنی لاوارث معصوم بچوں کے مسائل اور اسقاطِ حمل جیسے اخلاق سوز واقعات ہونے لگتے ہیں۔جیسا کہ مغربی سوسائٹی کے لئے یہ مسائل پریشانی کا باعث اور سرکا درد بنے ہوئے ہیں یورپ و امریکہ میں بہت سے لوگ ان سنگین حالات اورمسائل سے دوچار ہیں اوران ممالک میں بہت سارے لوگ لاوارث کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔
                اسی بنا پر اسلام نے نکاح کو اس قدر اہم بتایا ہے اور مرد اور عورت کو نکاح کے مہذب بندھن میں باندھنا لازمی سمجھا ہے اس لئے کہ نکاح خاندان کو وجود بخشتا ہے۔ سماج کا تصور دیتا ہے۔ گھرگرہستی کا نظام قائم کرتا ہے۔ اسلام نکاح کے ذریعہ نسل آدم کا تسلسل کے ساتھ صحیح طریقہ پر افزائش چاہتا ہے اور اس میں کسی بھی طرح کے انقطاع کو ناپسند کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: "وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا وَّجَعَلَہ نَسَبًا وَّصِہْرًا وَّکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا" وہی اللہ ہے جس نے انسان کو پانی (یعنی ایک قطرہ بوند) سے پیدا کیا (اور اس کے ذریعہ) نسل آدم کو چلادیا اور اسے خاندان اور سسرال والا بنادیا اور تمہارا رب واقعی بڑی قدرت والا ہے(۱۰)۔ اسی طرح اسلام انسانی زندگی کو اللہ کی بندگی اوراسوئہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھلی ہوئی دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام نکاح کو روحانی اوراخلاقی ترقی کے لیے رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کی شاہراہ قرار دیتا ہے۔ روحانیت اور اخلاق میں سب سے اونچا مقام اور بلند معیار انبیاء کرام کا ہوتا ہے اور انبیاء کرام کے تعلق سے ذکر کیا جاچکا ہے کہ انبیاء کرام شادی شدہ اور بال بچے والے رہے ہیں۔ انسان کو نکاح کے بعد گھر کی ذمہ داریوں کو نبھانے میں اورانسانی حقوق کے ادا کرنے میں جو پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں اگر انسان ان حقوق و ذمہ داریوں کو اسلامی تعلیمات اور اسوئہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ادا کرتا ہے تو اسلام کی نظر میں نکاح خود انسان کے حق میں روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے ایک طرف رہبانیت کو روا نہیں رکھا ہے تو دوسری طرف انسان کو بے لگام بھی نہیں چھوڑدیا ہے۔ اسلام انسان کی زندگی میں اعتدال و توازن پیدا کرتا ہے اوراسلام کے فکر اعتدال اور نظریہٴ توازن میں انسان ہی کی خیرخواہی و بھلائی ہے۔ اسلام نے نکاح کے سلسلہ میں اعتدال و توازن کا جو جامع فکری و عملی نظریہ پیش کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اسلام میں نکاح کو انجام دینے کیلئے چند اہم امور
                مندرجہ ذیل امور میں سے چند کو تفصیل کے ساتھ اور چند کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے اور وہ چند امور اس طرح ہیں۔ایجاب و قبول دوگواہوں کی موجودگی، نکاح میں عورت کے لئے ولی (سرپرست) کا موجود ہونا، نکاح کا اعلان، دعوتِ ولیمہ، مہر کی ادائیگی اور خطبہٴ نکاح۔ اگر ان امور پر غور وفکر سے کام لیا جائے تو یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہ امور عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ کس قدر دعوتِ فکر وعمل اور باعثِ ثواب ہیں۔
ایجاب و قبول:
                ایجاب سے مراد ہے ایک فریق (یعنی دلہے) کی طرف سے نکاح کے معاملہ میں پیش کش اور قبول سے مراد ہے دوسرے فریق (یعنی دلہن) کی طرف سے اس پیش کش پر رضامندی غرض کہ فریقین کا نکاح پر خوشی سے رضامند ہوجانا ایجاب و قبول کہلاتا ہے۔
                ایجاب و قبول نکاح کے لئے شرط ہے اسلام میں کسی مرد یا عورت کی مرضی و اجازت کے بغیر نکاح قرار نہیں پاسکتا چنانچہ ارشادِ ربانی ہے "یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لاَیَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ کَرْہًا" اے ایمان والو تم کو حلال نہیں کیا کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ(۱۱)۔ لفظ کرہا کا اطلاق بہت سے معنوں میں ہوتا ہے مثلاً زور زبردستی جبر دباؤ وغیرہ۔ اسی طرح کسی مرد کا نکاح کسی عورت سے اس کی مرضی و اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا چونکہ عموماً عورت باختیار نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے عورت کی اجازت و مرضی کا ذکر وضاحت سے کردیاگیا ہے اوراس سے بتانا مقصود ہے کہ اسلام نے نکاح میں عورت کو رضامندی پسند ناپسند کا پورا حق دیا ہے۔
دوگواہ:
                نکاح میں دو گواہ کا موجود ہونا بھی شرط ہے۔ نکاح میں شہادت نہایت ضروری ہے۔ اس لئے کہ اس سے بدکاری بے حیائی کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ "اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلْبَغَایَا الَّتِیْ یَنْکِحْنَ اَنْفُسَہُنَّ بِغَیْرِ بَیِّنَةٍ" عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورتیں چوری چھپے نکاح کرلیں وہ حرام کار ہیں(۱۲)۔
ولی کی اہمیت:
                عورت کے لئے نکاح میں رضامندی کے ساتھ ولی (سرپرست) کا ہونا بھی ضروری ہے۔ عورت کا نکاح بغیرولی کے نہیں ہوسکتا چنانچہ ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے "عَنْ اَبِی مُوْسٰی عَنِ النَّبِیّ قَالَ لاَ نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ" حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولی کے بدون نکاح نہیں(۱۳)۔ عورت کا شرف اور مقام اسی میں ہے کہ وہ کسی کی سرپرستی میں نکاح کرے۔ اس طرح بہت سی سماجی اور معاشرتی خرابیاں دور ہوجاتی ہیں۔ اس میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اگرچہ نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار پورا عورت کو حاصل ہے ولی اس کی مرضی اور رائے کے بغیر نکاح نہیں کرسکتا۔
اعلانِ نکاح:
                اسی طرح اسلام نے نکاح میں اعلان و تشہیر کی تعلیم دی ہے۔ نکاح کا اعلان کرنا اورمسجد میں نکاح کرنا سنت ہے۔ ارشادِ نبوی ہے "اِعْلِنُوْا ہٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوہُ فِی الْمَسَاجِدِ"(۱۴)۔ نکاح کا اعلان کرو اور مسجد وں میں نکاح کرو۔ اس کا بنیادی مقصد نکاح کو عام کرنا اور نسب کو ثابت کرنا ہے۔
ولیمہٴ مسنون:
                دولہا اپنی شادی کی خوشی و شادمانی کے موقع پر جو دعوت دیتا ہے اسے ولیمہ کہا جاتا ہے اور ولیمہ کرنا سنت ہے۔ ولیمہ شوہر کے ذمہ ہے اور دعوت ولیمہ نکاح کے بعد ہے۔ مولانا عتیق احمد بستوی صاحب رقم طراز ہیں "دعوتِ ولیمہ زن وشوہر کی پہلی ملاقات کے بعد کی جاتی ہے۔ اس میں بے شمار مصلحتیں ہیں۔ اس سے شائستہ طور پر نئے رشتے کی تشہیر ہوتی ہے۔ عورت اوراس کے اہلِ خاندان کا اعزاز ہوتا ہے ایک قابلِ قدر نئی نعمت کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا ہوتا ہے"(۱۵)۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ نکاح کے دوسرے دن کیا ہے۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے جب آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے نکاح کا ذکر کیا تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ" ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری کا ہی کیوں نہ ہو(۱۶)۔ لہٰذا نکاح کے دوسرے یا تیسرے دن ولیمہ کرنا مناسب اور سنت ہے۔ چاروں فقہی مسالک میں ولیمہ کا مستحب وقت عقد کے بعد ہے(۱۷)۔ ولیمہ اپنی حیثیت کے مطابق کیا جاسکتا ہے۔ قرض تکلف اسراف اور نمائش سے اجتناب ضروری ہے۔ ولیمہ کی دعوت میں اقارب احباب اور دیگر لوگوں کو بلانے کی گنجائش ہے۔ اپنی طاقت اور حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنا خلافِ شریعت ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسراف اور غیرضروری اخراجات سے اپنا دامن بچاتے ہوئے تکلّفات اور لوازمات سے بچتے ہوئے ولیمہ کی دعوت حیثیت کے مطابق کی جاسکتی ہے۔
                آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت انس سے فرمایا تھا کہ جاؤ فلاں فلاں کو دعوت ولیمہ میں بلالاؤ(۱۸)۔ حضرت علی کا نکاح جب حضرت فاطمہ سے ہوا تو ان کے ولیمہ میں صرف کھجوراور منقیٰ پیش کیاگیا اور سادہ پانی پلایاگیا(۱۹)۔ دعوت ولیمہ کے تعلق سے ارشاد رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ہے "قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْ دُعِیَ اِلَی الْوَلِیْمَةِ فَلْیَاتِہَا" نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تواس میں ضرور شرکت کرے(۲۰)۔ نیز فرمایا جو شخص دعوتِ ولیمہ بلاعذر قبول نہ کرے وہ اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کیا(۲۱)۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ "بدترین کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں فقط مالدار لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کردیا جائے"(۲۲)۔ عموماً ایسا کیا جاتا ہے۔ اس سے بچنا ضروری ہے ورنہ نکاح اور ولیمہ کی برکات و فیوضات سے محرومی یقینی ہے۔
مہر کی ادائیگی:
                نکاح میں مہر کا ادا کرنا واجب ہے۔ مہر عورت کا شرعی حق ہے۔ مہر اس رقم کو کہا جاتا ہے جو مرد شادی کے پرمسرت موقع پر خوشی سے اپنی ہونے والی بیوی کو تحفہ کی شکل میں دیتا ہے۔ مہر اسلام کے سوا کسی مذہب یا قوم میں نہیں ہے۔ ارشاداتِ ربانی یوں ہیں "وَآتُوْا صَدَقٰتِہِنَّ نِحْلَةً" اور دے ڈالو عورتوں کو مہر ان کے خوشی سے(۲۳)۔ "وَآتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ" بہترطریقے سے ان کے مہر ادا کرو(۲۴)۔
                آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مرد کو جو مہر زیادہ سے زیادہ مقرر کرتا ہے اور پھر اسے نہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے نہ صرف گناہ گار بتایا ہے بلکہ زانی قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے "اَیُّمَا رَجُلٍ تَزَوَّجَ اِمْرَأةً عَلٰی صَدَاقٍ وَلاَ یُرِیْدُ اَنْ یُعْطِیْہَا فَہُوَ زَانٍ" آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی عورت سے مہر کے بدلے نکاح کرتا ہے مگر وہ اسے ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے تو وہ زانی ہے(۲۵)۔ امام نووی نے مہر کو نکاح کا جز لاینفک قرار دیا ہے اوراس کے بغیر ازدواجی تعلقات کو ناجائز بتایا ہے(۲۶)۔
                مہر کی ادنیٰ رقم دس درہم یا اس کے بقدر قیمت ہے۔ قیمت کا اعتبار عقد کے وقت کا ہوگا ادائیگی کے وقت کا نہیں(۲۷) اور مہر میں زیادہ سے زیادہ کی کوئی تعیین نہیں ہے۔ شوہر کی حیثیت اور آمدنی پر انحصار ہے۔ اگر زیادہ مہر باندھتا ہے تو اسے ادا کرنا ضروری ہے۔مہر کی فوری ادائیگی مناسب اور مستحب ہے یا کچھ مدت کے بعد کا بھی جواز ہے۔ ان دونوں صورتوں کو اسلام کی اصطلاح میں اول الذکر کو مہر معجل کہا جاتاہے اورآخر الذکر کو مہر موٴجل کہتے ہیں۔ مہر کے تعلق سے مولانا محمد شہاب الدین ندوی لکھتے ہیں "مہر کے نام سے عورت کو جو تھوڑی بہت رقم ملتی ہے وہ اس کی خدمات کا پورا پورا صلہ تو نہیں ہوسکتی ہاں البتہ اس کی وحشت دور کرنے کی راہ میں ایک درجہ میں باعث اطمینان ہوسکتی ہے۔ شریعت نے اگرچہ کم سے کم مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے مگر زیادہ کی حد بھی مقرر نہیں کی ہے۔ اس میں حکمت عملی یہ معلوم ہوتی ہے کہ مہر مرد کی مالی اور اقتصادی حالت کے مطابق ہو لہٰذا اگر کوئی صاحب حیثیت اپنی منکوحہ کو ہزاروں بلکہ لاکھوں روپئے بھی دے دے تو وہ جائز ہوگا قرآن میں ڈھیرسارا مال دینے کا تذکرہ بھی موجود ہے"(۲۸)۔
                اس لئے مہرفاطمی بہت مناسب مہر ہے۔ اس کی مقدار چار سو مثقال چاندی ہے یعنی ایک کیلوسات سو گرام چاندی جس کی قیمت لگ بھگ بارہ ہزار روپئے ہوتی ہے(۲۹)۔ مہر نقد بھی ادا کیا جاسکتا ہے اور زیور کی شکل میں بھی دیا جاسکتا ہے(۳۰)۔ بیوی کی مرضی اور خواہش پر ہے۔ حضرت عمر کے ارشاد سے بھی مہر میں اعتدال و توازن کا نکتہ سامنے آتا ہے "اے لوگو! عورتوں کے بھاری بھاری مہر نہ باندھنا اس لیے کہ اگر دنیا میں یہ کوئی شرف و عزت کی چیز ہوتی اور اللہ کی نگاہ میں اچھا فعل ہوتا تو اس کے سب سے زیادہ حقدار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ سے زیادہ پر کسی عورت سے نکاح کیا ہے یا اپنی لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کا نکاح کیا ہے"(۳۱)۔
                ایک اوقیہ کی مقدار دس تولہ چاندی کے برابر ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اُم حبیبہ کا مہر زیادہ باندھا تھا، اس لیے کہ ان کا مہر حبش کے بادشاہ نجاشی نے مقرر کردیا تھا(۳۲)۔ لوگ خاندانی شرافت و عزت کی بنا پر جھوٹی شان دکھانے کی خاطر بھاری بھاری مہر مقرر کردیتے ہیں اور ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتے ہیں اس لئے حضرت عمر نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہاں اگر کوئی واقعی صاحب حیثیت ہے زیادہ سے زیادہ مہر ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے تو مضائقہ نہیں ہے۔
                آج برِصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں مسلم گھرانے لڑکیوں کے سلسلے میں جوڑے جہیز اور بہت ساری رسومات کی بنا پر پریشان ہیں تواسلامی ممالک میں مسلم گھرانے لڑکیوں کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرکے غیرضروری پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں خاص طور پر عرب ممالک میں جو جتنا زیادہ مہر باندھتا ہے اتنی جلدی نکاح کرسکتا ہے بسا اوقات نکاح کا انحصار مہر کے زیادہ مقرر ہونے پر ہے جس کی وجہ سے بہت سارے مرد شادی سے محروم ہیں۔

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Re: ))))Vu & Company(((( اردو کی لسانی ترقی میں ڈاکٹر عطش دُرّانی کا کردار (حصّہ اول )

Nice

On 30 Mar 2016 11:44 am, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
اردو کی لسانی ترقی میں ڈاکٹر عطش دُرّانی کا کردار


۱- اُردو اطلاعیات : اُ ردو کا مستقبل

ادارہ فروغ قومی زبان(مقتدرہ قومی زبان) میں ۱۹۹۸ء میں اُردو اطلاعیات کے شعبہ کی بنیاد رکھی گئی اس کا مقصد اُ ردو کو کمپیوٹر اور انٹر نیٹ پر لانا تھا۔ ڈاکٹر عطش درّانی اس ادارے کے شعبے ' مرکز فضلیت برائے اُ ردو اطلاعیات' کے انچارج رہے۔ انھوں نے دوسرے عملہ کے ساتھ مل کر اُ ردو سافٹ ویئر تشکیل دیے۔ انہی کی کوششوں سے اُ ردو کو اس قابل بنایا گیا کہ اسے موبائل فون میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اُ ردو میں ایس ایم ایس کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عطش درّانی Microsoft کے کنسلٹنٹ ہیں۔انھوں نےOffice 2003سے Office 2010 تک ونڈوز Vista اور Live کواُ ردو میں منتقل کیا اور یونی کوڈ (Unicode) پر گھوسٹ کریکٹر تھیوری دی ہے۔ جس کے مطابق تمام عربی، فارسی اور پاکستانی زبانوں کے بنیادی ۵۲حروف میں بیس ہزار حروف تہجی تیار ہو سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اب ایک ہی سافٹ وئیر اور کی بورڈ(کلیدی تختہ) پر تمام زبانوںمیں کام ہو سکتا ہے۔ شعبے کی ایک کاوش جس میں نقطوں کو کوڈنمبردینا ہے جو بہتر طور پر Unicode Version 6 میں آئے ہیں۔ اُردو کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے پشتو ، افغانی، دری اور ایرانی سافٹ ویئربھی بنائے ۔ ڈاکٹر صاحب نے چند ساتھیوں سے مل کر Window XP اور Office 2003 کے سافٹ ویئر اُ ردو میں بدلے ان میں موجود 9لاکھ الفاظ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کے مطابق اُ ردو اطلاعیات کا تعلق بھی تحقیق اور کوششوں سے ہے جن کے ذریعے اُ ردو کو تعلیم اور کاروبار میں جدید معلوماتی و مواصلاتی تکنیکوں سے مزین کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول وہ وقت بہت قریب آ رہا ہے جب اگلی نسل کمپیوٹر سکرین پر اُ ردو کا تحریری مطالعہ اور تحقیق کر رہی ہو گی۔ 
کمپیوٹر اور انٹر نیٹ پر بنیادی تحقیقی آلات ، کتابیات سازی، لغات ،اشاریے، تحقیقی جائزے ، رپورٹیں ، ادبی عنوان ، اصول قواعد ، مختلف ذخیرہ الفاظ ، تحقیقی مسلیں، فائلیں ، پتے، عنوانات موجود ہوں گے۔ مائوس قلم کی جگہ لے لے گا اور کمپیوٹر سکرین صفحے کی۔ 
دور حاضر میں تحقیق کے طریقے بدل گئے ہیں تحقیق کے عمل میں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا بھر پور استعمال کیا جا رہا ہے جو خوش آئند ہے کیونکہ جو معلومات اور جدید نظریات انٹر نیٹ کے ذریعے میسر آتے ہیں وہ کتابوں میں نہیں ملتے۔ جب اردو اطلاعیات نے مختلف کمپیوٹر ونڈوز کا اُ ردو میں ترجمہ کیا تو اس سے عام صارفین کو بہت فائدہ ہوا۔ کیوں کہ اُ ردو قومی زبان ہونے کے ناطے سمجھنے اور رابطہ کرنے کے لیے آسان ہے۔ بروقت کمپیوٹر کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح سے بیش

قیمت معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ کمپیوٹر کے آسان استعمال سے تحقیقی ، معلوماتی ، کاروباری، مواصلاتی میدانوں میں سہولت پیدا ہو گئی ۔ کاروباری مواصلاتی اداروں نے کمپیوٹر کے ذریعے معلومات کو تیزی سے بانٹنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ تحقیق کے عمل میں کمپیوٹر کے مثبت استعمال سے انکار ممکن نہیں، کتابیات ، اشاریے، رپورٹیں ، تحقیقی فائلیں بروقت کمپیوٹر پر بنائی جا رہی ہیں جن سے بآسانی انہیں استعمال کیا جارہاہے۔ 
ڈاکٹر عطش درّانی کے مطابق اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ کمپیوٹر کی اردوکلیدی تختی، فانٹ سسٹم اور سافٹ ویئر بنائے جاتے ہیں۔ لیکن ابھی اُ ردو کو بین الاقوامی تقاضوں سے لیس کرنے کی بے پناہ ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے اُ ردو میں حروف ، الفاظ ، جملوں ، تحریر ، تدریس کے حوالے سے کمپیوٹر پر بہت کام کرنا باقی ہے۔ حروف تہجی ان کی ترتیب مع حرکات و اشکال املا، اور تدریسی اصول، الفاظ کی طوالت و لہجے ، رموز اوقاف ، جملے کی ساخت، نحوی ترکیب، ٹیکسٹ ایڈیٹر کے اصول، جملوں کی زبانوں کے حوالے سے تبدیلی، لفظ و معانی کا رشتہ، جملوں میں کلیدی اور غیر کلیدی الفاظ کا تعین ،تحریری محضر اسلوب اور لسانی سانچوں کا مطالعہ، تدریس میں الفاظ کے بنت کار (Word Weaver) ، عروض اور مکالمات کے سافٹ ویئر ایسی فعالتیں ہیں جنہیں کمپیوٹر پر سر انجام دینے کی ضرورت پڑے گی۔ ان کے خیال میں زبان کی ترقی (Language Development)، لسانی منصوبہ بندی (Language Planning)، لغاتیات (Lexicology) ، اصطلاحیات (Terminology) ، اور معجم نویسی (Thesauri Buildings) شاہراہ اطلاعیات (Information Highway) پر چل کر ہی ہو سکتی ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ ادارے کی طرف سے بنایا جانے والا کلیدی تختہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسی تختہ کی بنا پر اُ ردو زبان کو اس قابل بنایا گیا کہ اس کا مثبت استعمال ہو سکے۔ کلیدی تختہ اور سافٹ ویئرز کی ایجاد واقعتا بڑے کارنامے ہیں مگر اُ ردو کے کمپیوٹر پر استعمال کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ڈاکٹر عطش درّانی نے بجا طور پر ان سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے جو کمپیوٹر پر اُ ردو کے استعمال کے لیے بہت ضروری ہیں۔ کمپیوٹر پر حروف تہجی کی بہتر صورتیں اور املا استعمال کی جا سکتی ہے۔ اصوات کے مطالعے کو حروف تہجی کے ساتھ منسلک کر کے مختلف زبانوں کے موازناتی اور تجزیاتی مطالعے کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اُ ردو اطلاعیات کا تدریس میں اہم کردار ہو سکتا ہے۔ کمپیوٹر پر سبقی اشارے ، سلائیڈز بنا کر طلبہ کو بہتر طور پر رہنمائی فراہم کی جا سکتی ہے۔ کمپیوٹر پر اطلاعیات کی مدد سے لسانی مطالعے بآسانی کیے جا سکتے ہیں۔ الفاظ ومعانی کے رشتوں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اُن کی اس فکر کو داد تحسین دینا ہو گی جس کے تحت وہ زبان کی ترقی کی بات کرتے ہیں۔ اور پھر اس ترقی کاتعلق کمپیوٹر سے جوڑا ہے۔ یقینا یہ ڈاکٹرصاحب کی وسیع نظری ہے کہ وہ لسانی منصوبہ بندی، لغاتیات، اصطلاحیات اور معجم نویسی جیسے جدید امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جن کی مدد سے صحیح معنوں میں اُ ردو کو ایک ترقی یافتہ زبان بنایا جا سکتا ہے۔ 
۲۔کمپیوٹر میں قابل رجوع نقل حرفی
شعبہ اردو اطلاعیات کی طرف سے کمپیوٹر پر اُ ردو صوتیوں کی ضابطہ تختی بھی بنائی گئی۔ اس ضابطہ تختی کی مدد سے مقامی زبانوں پنجابی، سرائیکی، پشتو، سندھی کو بھی کمپیوٹر پر بہتر انداز میں تحریر کیا جا سکتا ہے۔ جن کے ذریعے قابل رجوع نقل حرفی کی طرف توجہ دی ہے۔ قابل رجوع نقل حرفی میں کسی بھی زبان کی کمپیوٹر میں ترجمہ کاری کی جاتی ہے۔ 
ڈاکٹر عطش درّانی کے بقول نقل حرفی کے لیے کسی ایسے نظام کی ضرورت ہے جس کی مدد سے رومن حروف کے نیچے علامات بھی نہ لگانا پڑیں اور تفہیم بھی ممکن ہو جائے۔ ان کے خیال میں نقل حرفی کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھانے چاہیئیں۔ 
۱۔ ہر حرف اور اس کی حرکت کے لیے الگ حرف و علامت موجود ہو۔ 
۲۔ تمام متبادل رومن حروف اور علامتیں قابل رجوع ہوں۔ 
۳۔ تمام حرکات و علت (Vowel) کے لیے الگ رومن متبادل تلاش کیے جائیں ۔ متبادل حروف کے لیے انگریزی کے ۲۶ حروف میں سے استعمال کیے جائیں۔
ڈاکٹر صاحب کی زیر نگرانی کمپیوٹر پر اُ ردو صوتیوں کی ضابطہ تختی بنانا ایک اہم ترین کارنامہ ہے۔ جسے بروئے کار لا کر مختلف مقامی زبانوں ، پنجابی ، سرائیکی ، پشتو، سندھی وغیرہ کا بہتر طور پر انٹر نیٹ پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دور حاضر میںمختلف زبانوں میں سائنسی، تکنیکی، علمی ، ادبی مواد تحریر ہورہا ہے۔ اگر اس جدید علم کا بروقت مشینی ترجمہ کر لیا جائے تو بہت زیادہ فائدے کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسی عمل کے لیے کوشاں ہیں کہ بہتر طور پر اصوات کا استعمال کر کے کمپیوٹر پر ترجمے کے عمل کو کارگر اور سہل بنایا جائے اس طرح جدید علوم تک دسترس آسان ہو جائے گی۔ 
۳۔جدید تدوین متن اور اُ ردو اطلاعیات 
ڈاکٹر عطش درّانی نے کمپیوٹر کے ذریعے تدوین متن کے موضوع پر موجودہ محققین کے لیے بہت رہنمائی فراہم کی ہے۔ انھوں نے ایسے راستے دکھائے ہیںجن پر چل کر جدید تحقیق کی منزلوں کو سر کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول تدوین متن میں کمپیوٹر اور اطلاعیات بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نسخوں کا تقابل کرنے کے لیے زپ (ziP) استعمال کی جاتی ہے۔ زپ (ziP) تدوین متن میں ایسا طریقہ کار ہے جس میں حروف 'غائب' ہو جاتے ہیں۔ لیکن امکانی طور پر موجود رہتے ہیں۔ اس طریقے سے تدوین کا عمل سہل ہو جاتا ہے۔ تدوین میں ایک اور سافٹ ویئر 'الگوزم' ہے جو مساوی عبارت میں مکرر حروف پر عبارتیں تلاش کرتا ہے۔ وہ تکرار کو محض عدد کے ایک نشان سے ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح وہ 'فاصلے' کا تعین کرتا ہے۔ مختلف نسخوں میں 'اجنبیت' ا ور 'فاصلے' سے تدوین میں مدد لی جا سکتی ہے۔ بالخصوص 'اجنبیت' سے مصنف کے مختلف متون میں اجنبیت تلاش کر کے اس عہد کے لسانی کینڈے سے ہم آہنگ ہونے کی شرائط کے حوالے سے استناد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس سافٹ ویئر سے متون میں موجود مرتبین کے اضافے، الحاقات، اغلاط الگ کیے جا سکتے ہیں۔
دور حاضر میں جدید تدوینی ذرائع اختیار کرنے کی کلیدی اہمیت ہے۔ ڈاکٹرصاحب نے تدوین کو بین الاقوامی سانچوں کے مطابق ڈھالنے کی طرف نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ اس کے طریق کار بھی تجویز کیے ہیں۔ جن کی مدد سے تدوین کے عمل کو مستند اور تیز بنایا جا سکتا ہے۔ 
۴۔ادارہ مرکز فضیلت برائے اُردو اطلاعیات 
(Institute For Urdu Informatics) 
ادارہ مرکز فضیلت برائے اُردو اطلاعیات کا آغاز ۱۹۹۸ء میں ہوا ۔ سلسلہ کچھ یوں ہے کہ نیشنل ڈیٹا بیس آرگنائزیشن ، اسلام آباد (NDO) ان دنوں قومی شناختی کارڈ کی تیاری کے لیے پر تول رہا تھا۔ لیکن اس وقت تک اُردو لفظ کاری (Word Processing) کے جتنے بھی سافٹ ویئر سامنے آئے تھے وہ بنیادی طور پر شبیہ (Image) کے اصول اور اپنے اپنے ایسکی ضابطے (ASCII Code) پر عمل کرتے تھے اور ان میں عمل کاری (Processing) صرف انہی کے سافٹ ویئر میں ہو سکتی تھی۔ اس طرح حرف کی بنیاد اور یونی کوڈ یا آئی ایس او جیسے معیارات کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ اس معیار بندی کے لیے پہلا سیمینار ستمبر۱۹۹۸ء میں نیشنل یونیورسٹی فاسٹ(FAST) لاہور میں منعقد ہوا۔ اس طرح مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد میں اُردو اطلاعیات کے مرکز فضیلت کی بنیاد رکھی گئی اور یوں معیاری کلیدی تختے اور میعاری ایسکی کوڈ پلیٹ کی تیاری کا کام شروع ہوا۔ اس طرح اس ادارہ کے تحت مائیکروسافٹ نے WindowsXP 2000میں جزوی طور پر کلیدی تختہ شامل کر لیا تھا اور ۲۰۰۲ء میں LLP کے تحت اپنے سافٹ ویئر اُردو میں بدلنے کا آغاز کیا۔ Windows XP 2000 اور Office 2003 کو اُردو میں بدلا۔ 
ڈاکٹر عطش درّانی نے' ادارہ مرکز فضیلت برائے اُردو اطلاعیات' کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ وہ ایسے اداروں کو زبان کی ترقی کے لیے بہت اہم گردانتے ہیں۔ ان کے مطابق ادارہ مرکز فضیلت برائے اُردو اطلاعیات کے بہت فوائد ہیں۔ ان میں اُردو کا عوام کی دسترس میں آنا، برقی ترجمہ مشین سے ترجمہ کی سہولت، برقی اُردو ڈیٹا بیس سے مقامی سافٹ ویئر کی ترقی شامل ہیں۔
۱۹۹۸ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد میں قائم کیے جانے والے' مرکز فضیلت برائے اُردو اطلاعیات' میں ڈاکٹرصاحب نے مختلف ونڈوز اور سافٹ ویئرز کے اردو تراجم اور ان کا استعمال کر کے عام عوام کی ان تکنیکی چیزوں تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے۔ 

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.