Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Tuesday, 22 March 2016

))))Vu & Company(((( محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم حب الٰہی کی شاخ ہے:

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

'' قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآ ئُکُمْ وَ اَبْنَائُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہ وَ اللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ '' (سورۃ التوبۃ: ۲۴). , 

مسلمانو!اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے، تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں، تمھارے کنبے، قبیلے اور مال و دولت جو تم جمع کرتے ہو، تجارت اور کاروبار جس میں نقصان ہونے سے ڈرتے ہو اور وہ گھر جو تمھیں بڑے پسند ہیں، یہ ساری چیزیں اگر تمھارے نزدیک اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری اور محبوب ہیں تو پھر تم اس وقت کا انتظار کروجب اللہ تعالیٰ اپنے عذاب اور سزا کا حکم لائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فاسق اور نا فرمان لوگوں کو پسند نہیں کرتے۔

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم حب الٰہی کی شاخ ہے:

مسلمان کا اپنے رب سے تعلق، ڈر اور احترام کا بھی ہوتا ہے، محبت اور گہری وابستگی کا بھی ہوتا ہے، فرمایا:

{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ} [البقرۃ:۱۶۵]
 ''بلا شبہ ایمان والے تو اللہ کی محبت میں
 بڑے پختہ اور مضبوط ہوتے ہیں۔''

اللہ تعالیٰ سے محبت اور گہری وابستگی کا قدرتی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی محبت رکھتا ہے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ  وسلم اصل میں حب الٰہی کی ایک شاخ ہے اور اس کا نتیجہ ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور یہ اللہ اور رسول کے ساتھ ایک ایسی محبت اور تعلق ہے جس کے بغیر ایمان کبھی مکمل نہیں ہو تا۔خاص طور پر جب تک نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم  کی پوری عزت، احترام، وقار اور محبت دل کے اندر نہ ہو، اسلام اور ایمان کا کوئی تصور نہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو بھیجا ہی اس لیے ہے کہ: {لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ} [الفتح:۹] اللہ اور اس کے رسول پرایمان بھی لاناہے اور رسول کی دین میں مدد بھی کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی توقیر، عظمت اور احترام بھی کرنا ہے۔ اسی عظمت اور احترام کی وجہ سے پھر یہ حکم ہوا کہ:

{لاَ تَرْفَعُوْآ اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ} [الحجرات:۲] 

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی بات سے اپنی بات کو اونچا مت کرو۔دیکھنے اور محسوس کرنے میں بھی بات اونچی نہ ہو اور عملی طور پر بھی اونچی نہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ دیکھنے میں اورظاہری طور پر تو تم نے اپنے لہجے کو پست رکھا لیکن جب عمل کا وقت آیا تو اپنی یا کسی اور کی مان لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بات کو چھوڑ دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے احترام، عزت، ادب اور آپ کے ساتھ مسلمان کا جو تعلق ہوتا ہے اور ہونا چاہئے اس کے منافی ہے۔فرمایا :

{لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ} (الحجرات: ۱) 

اللہ اور رسول سے آگے بڑھنے کی
 کوشش نہ کروکہ اپنی عقل، رائے اور قیاس کو آپ کی بتائی ہوئی بات سے زیادہ اہمیت دو یا جہاں تک آپ کسی معاملے میں لے جانا چاہتے ہو، وہاں تک جائو، جہاں سے روکنا چاہتے ہو وہاں رک جائو، اس سے آگے نہ بڑھو۔ بلکہ مقررہ حدود کی پابندی کرو، یہ اس ادب، احترا م اور محبت کا تقاضا ہے۔
ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیوں کرتے ہیں:
مگرسوال یہ ہے کہ یہ محبت اور احترام کیا ہے، محبت کیوں ہوتی ہے، کیسے ہوتی ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟

محبت کیا ہے، دل کی ایک کشش، میلان اور رجحان ہے، کسی کی طرف رجوع ہے، کسی پسندیدہ شخص یا پسندیدہ چیز کے لیے دل کے رجحان، میلان اور کشش کو محبت کہتے ہیں۔ یہ قدرتی اور طبعی بھی ہوتی ہے، جیسے اپنے اقربائ، اپنے ماں باپ، اپنی اولاد، اپنے بہن بھائی اور اپنے قریبی رشتہ دار وں سے کرتے ہیں۔
ہم میں سے کسی کا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خون کے رشتے کا تعلق نہیں، اس زمانے میں جو آپ کے قریبی تھے ان کے ساتھ تھا، اب تو ایسی بات نہیں مگر روحانی لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے بڑے ہیں، امت کے باپ ہیں:
{اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِم} ''اور ہر قریبی سے زیادہ آپ کا ہر امتی پر حق ہے۔''

اگرچہ بظاہر ہمارا خونی اور نسبی تعلق نہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفقت کے لحاظ سے، آپ امت کے بڑے اور رہنما ہونے کے لحاظ سے دل میں والد سے زیادہ آپ کیلئے احترام ہونا چاہئے، زیادہ کیوں ؟ اس لیے کہ
(لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ) [صحیح البخاری)

 ''ایمان تو تب مکمل ہو گا جب تم میرے ساتھ وہ تعلق اور محبت رکھو گے جو والد،
 اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ ہے۔ ''

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کی دوسری وجہ

دوسری قسم جس کو علماء نے عقلی محبت کانام دیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کے جمال، کمال، کسی کی خوبصورتی، خوب سیرتی یا اس کے ہمارے اوپر کسی احسان کی وجہ سے ا س کی اچھی صور ت، سیرت، کمال اور احسان پر غور کرکے شعوری طور پردل کے اندر محبت پیدا کرنا اور پیدا ہونا ہے۔
جہاں تک کمالِ ظاہری اور خوبصورتی کا تعلق ہے وہ بھی دل کے اندر ایک (اچھی یا بری)کشش پیدا کرتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے اندر یہ تینوں چیزیں موجود تھیں، کمالِ صورت بھی، کمالِ سیرت بھی اور کمال احسان بھی۔
جہاں تک ظاہری کمال اور صورت کاتعلق ہے جن لوگوں نے دیکھا، انہوں نے اپنی گواہی کو قیامت تک کتابوں میں محفوظ کیا، جیسے حضرت جابررضی اللہ عنہ جن کی بات مسلم کی صحیح میں موجود ہے :
(کَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ)  اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو سورج اور چاند کی طرح حسن عطافرمایاہوا تھا۔ کسی نے اس طرح بیان کیا :
'لَوْ رَأَیْتَہ رَأَیْتَ الشَّمْسَ طَالِعَۃً' [سنن الدارمی، مقدمہ ، باب فی حسن النبی (۱/۴۴) رقم (۶۰) شعب الإیمان (۲/۱۵۱) الرقم (۱۴۲۰)]

آپ کے باطنی کمالات کی وجہ سے محبت:

جہاں تک باطنی اور اندرونی کمالات کا ذکر ہے اور جن کا تعلق انسان کی سیرت اور کردار سے ہوتا ہے، یہ ایک الگ اور مستقل مضمون ہے لیکن اختصار کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے آپ کی سیرت اور کردار کے بارے میں عرش عظیم سے گواہی دی:
{اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ}[القلم:۴] آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اخلاق اورکردار بہت ہی اونچے معیار کے ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کی قسم کھائی ہے، اتنی پاک زندگی اور بے داغ سیرت کہ اللہ کریم قرآن پاک میں اس کی قسم کھاتے ہیں:

{لَعَمْرُکَ اِنَّھُمْ لَفِیْ سَکْرَتِھِمْ یَعْمَھُوْنَ} [الحجر:۷۲]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے دکھ سکھ کی ساتھی اور غمخوار بیوی خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا جنہوں نے آپ کے شب و روز کو دیکھا تھا، آپ کی سیرت اور کردار کی عظمت سے اچھی طرح واقف تھیں، پہلی وحی آنے کے بعد ان کی گواہی دی، جب قدرتی طور پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار تھے کہ اتنی بڑی ذمہ داری مجھ پر ڈالی جارہی ہے، پورے عرب اور پھر پوری دنیا کی اصلاح میں اکیلا کیسے کروں گا، تسلی دینے کے لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کردار کا خلاصہ چند الفاظ میں بیان کیا:
(إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَ تَقْرِی الضَّیْفَ،وَتُعِیْنُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ)) [صحیح البخاری] 
آپ قریبیوں، رشتہ داروںاور عزیزوں سے بہترین برتائو کرنے والے ہیں، لوگوں کا بو جھ اٹھانے والے ہیں، نادارکو سرمایہ دینے والے، مہمان کی خدمت کرنے والے ہیںاور مصیبت زدگان کی مدد کرنے والے ہیں، اس لیے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بڑے کام میں جو آپ پر ڈالا جا رہا ہے، جو ذمہ داری آپ پر عائد کی جا رہی ہے، اس کام میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائیں گے۔
محسن انسانیت سے محبت اس لیے بھی
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ}۔[التوبۃ:۱۲۸] جو چیزیں انسانیت کو تکلیف دینے والی ہیں، ان کی تکلیف کسی اور سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود محسوس فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
{لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ}۔[الشعرائ:۳] آپ تو اس غم میں اپنی جان کو ہلکان کر رہے ہیں، اس غم میں گھلے جا رہے ہیں کہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے ؟…حق پر یقین کیوں نہیں کرتے ؟ …میرے سچے پیغام کو کیوں نہیںمانتے اور یہ غم کیوں ہے، یہ غم اس لیے ہے کہ اگر نہیں مانیں گے تو ان کا نقصان ہو گا، نہیں مانیں گے تو جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ آپ کی ساری تگ ودو انسانیت کو جہنم سے بچانے کے لیے ہے۔راتوں کی دعائیں، دن کی بھا گ دوڑ، لوگوں سے جدل، بحث اور گفتگو، دور دراز کے سفر، جہاد اور جنگیں، زخم کھانا اور اپنے عزیز ترین، پیارے ساتھیوں کوشہید کروانا، یہ سب کیوں تھا، سب لوگوں تک ہدایت پہنچانے کی کوشش تھی، لوگوں کو جہنم سے بچانے کی کوشش تھی، ان کو آگ سے بچا کر جنت کے راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((أَنَا آخِذٌ بِحُجَزِکُمْ وَأَنْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْ النَّارِ)) [صحیح مسلم] میری کوشش یہ ہے کہ میں تمھیں کھینچ کر جہنم کے راستے سے واپس لے آئوں۔
یہ ہمدردی و محبت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو انسانیت، امت کے ساتھ تھی، اس کا لازمی تقاضا پھر یہ بھی ہے کہ امت اور انسان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ محبت رکھیں۔ آپ بخشش اور مغفرت کی دعائیں کرتے تھکتے نہیں تھے، یہاں بھی آپ کی دعائیں جاری ہیں اور قیامت کے میدان میں بھی جب سب اپنی اپنی جان کی فکر میں لگ جائیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کا لازمی جزوہے
یہ محبت ایمان کا لازمی نتیجہ بھی ہے، اسے آپ محبت شرعی بھی کہہ سکتے ہیں، ایسی محبت کہ جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ حفیظ جالندھری نے اسی حدیث کا ترجمہ ہی کیا ہے 

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

اگریہ محبت دل میں نہیں تو ایمان نہیں اور اسلام نامکمل ہے۔
صحیح بخاری میں ایک اور حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں:
(ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ وَجَدَ حَلاَوَۃَ الإِیْمَانِ)  تین چیزیں ایسی ہیں، اگر تم اپنے اندر پیدا کر لو تو تمھیں ایمان کی حلاوت، مٹھاس اور ایمان کا صحیح ذائقہ مل جائے۔ ان میں سب سے پہلی کیا ہے:

اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت کو اپنے دل میں اس حد تک بسا لو کہ کسی اور کا مقام نہ ہو، دل میں کسی اور کے لیے وہ جگہ نہ ہوجو اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کی محبت کا اچھوتا انداز

بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے، یہ پہلے قریش کے نمائندے اور سفیر تھے، بات چیت کرنے کے لیے آئے، مسلمان مکے سے باہر تھے، انہوں نے جاکر اپنے ساتھی سرداروں کو بتایاکہ مسلمان تو اب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتنی عزت اور احترام کرتے ہیں کہ تم تصور بھی نہیں کرسکتے:
میں نے دنیا کے درباردیکھے اور میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی رئیس اور بڑے کی اس کے ساتھیوں نے ایسی عزت، احترام اور محبت نہیںکی جو محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھی آپ کی کرتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں؟
'وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہُ'۔
مجلس میںباتیں ہور ہی ہوں لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بولتے ہیں تو سب خاموش ہو جاتے ہیں، سب اپنی آوازیں بند کر لیتے ہیں:
'وَمَا یُحِدُّوْنَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیمًا لَہُ'۔
میں نے کسی آدمی کو نظر بھر کے آپ کی طرف دیکھتے ہوے نہیں پایا، وہ نظریں نیچی رکھتے ہیں، احترام اور ادب کرتے ہیں:
'وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِہِ'۔ [صحیح البخاری]
نماز کا وقت ہوا، میرے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضو کے لیے پانی منگوایا، جانثاروں نے وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے دیا، وہ زمین پر گرنے سے پہلے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیتے تھے اور برکت، تعظیم اور محبت کے لیے اپنے ہاتھوں، بازئوںاور چہروں پر ملتے تھے۔
اس نے کہا، میرے ساتھیو!اس سے سبق ملتا ہے کہ جو قوم اپنے پیارے اور محبوب قائد کے وضو کا استعمال شدہ پانی نیچے نہیں گرنے دیتی وہ آپ کے خون کے قطرے کب اور کیسے گرنے دے گی، اب ہم ان کے ساتھ نہیں لڑ سکتے، اب صلح بہتر ہے، جس شرط پر بھی ہو مان لینا چاہیے۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے ہر چیز قربان
اس حد تک تعلق اور احترام کہ کوئی رشتہ اور تعلق اس سے زیادہ تو دور کی بات ہے، صحابہ کے نزدیک اس کے برابر بھی نہیں تھا، جیسا کہ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ  اور آپ کے بیٹے عبد الرحمٰن کا آپس میں مکالمہ ظاہر کرتا ہے۔ ابو بکر  رضی اللہ عنہ کا یہ بیٹا جنگ بدر کے موقع پر مسلمان نہیں تھا، بعد میں اسلام لایا،

  اس نے مسلمان ہونے کے بعد باپ کو یاد دلایا:

(فَقَالَ لأَبِیْہِ لَقَدْ ہَدَفْتَ لِیْ یَوْمَ بَدْرٍ مِرَارًا فَصَدَفْتُ عَنْکَ)
میں نے آپ کو پہچان لیا، مجھے پتا چل گیا کہ میدان کارزار میں لڑتے لڑتے آپ میرے سامنے آگئے، آپ کی توجہ نہیں تھی، اگر میں چاہتا تو ایک ہی وار سے سر قلم کر سکتا تھا لیکن بہر حال مخالفوں کی صفوں میں ہونے کے باوجود میں بیٹا تھا، آپ باپ تھے، آپ میرے محسن اور بڑے تھے اس لیے میں نے وار نہیں کیا:
تاریخ میں حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کا جواب یاد گار ہے، آپ نے فرمایا: 'لَوْ ہَدَفْتَ لِیْ لَمْ أَصْدِفْ'۔
افسوس کہ مجھے پتا نہیں چلا، اگر تم میرے وار کی زد میں ہوتے تو میں اس وجہ سے وار نہ روکتا کہ تم میرے بیٹے ہو، وار کرتا اور تمھار ے ٹکڑے ٹکڑے کرتا، یہ سمجھ کرکہ تم میرے بیٹے توہو لیکن میرے نبی اوراس کے دین کے مخالف ہو۔ [السیرۃ النبویۃ الحلبیۃ (۲/۴۱۴)]
یہ ہے وہ محبت اور تعظیم کا جذبہ، جو صحابہ کے د ل کے اندر تھا۔ ابو بکر  صلی اللہ علیہ وسلم  تو خاص آدمی ہیں، عام صحابی حتیٰ کہ عورتیں، احد کی مشہور جنگ میں ایک خاتون صحابیہ کو خبر ملی کہ تیرا باپ، خاوند اور بیٹا باری باری تینوں شہید ہو گئے، لیکن وہ ہر اطلاع ملنے پر کہتی تھی، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کیسے ہیں؟کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تومحفوظ ہیں؟اور پھر جب وہ لاشوں کو سنبھالنے کے لیے میدان جنگ میں آئی تو اس نے اپنی آنکھوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو آتے دیکھا تو اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے جو تاریخ نے محفوظ کیے ہیں: 'کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلُ'۔
مجھ پر باپ، شوہر اور بیٹے کی شہادت کی شکل میں تین مصیبتیں یکدم اور اکٹھی آئی ہیں، لیکن اگر آپ ہیں تو اللہ کی رضا کے لیے ان سب تکلیفوں کو برداشت کروں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہوتے ہوئے مجھے اس بڑے نقصان کی پروا تو ہے لیکن وہ نہیں جو ہونی چاہیے۔[سبل الہدی والرشاد (۱۱/۴۳۱) سیرۃ ابن ہشام (۲/۹۹)]
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا چشمہ ایمان ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے جو محبت اور تعلق ہے اس کی عجیب کیفیت ہے، یعنی آپ اندازہ کریںکہ ''ہندہ''جو ابوسفیان کی بیوی تھی، جو اتنی شدید دشمن اور مخالف تھی کہ اس نے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کروایا اور یہی نہیں بلکہ اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے آپ کے سینے کو چاک کر کے دل اور جگر کو نکالا (بدر کی لڑائی میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوںجو اس کے قریبی رشتہ دار مارے گئے، ان کے بدلے میں اس نے نذر مانی تھی کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کو ختم کرائوں گی اور پھر اس کے جگر اور دل کا ہار بنا کر گلے میں پہنوں گی تب میرا دل ٹھنڈا ہو گا)
یہ کام اس نے کیا لیکن جب ایمان لائی تو اس نے کہا کہ چند لمحے پہلے دنیا میں کسی اور سے اتنی زیادہ نفرت نہیںتھی جتنی آپ اور آپ کے پورے گھرانے سے تھی اور اب ایمان اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دل سے قبول کرنے کے بعد میں محسوس کرتی ہوں کہ آپ کے لیے دل میں جو مقام ہے وہ اور کسی کے لیے نہیں۔ مگر یہ یاد رکھیں کہ محبت کی یہ جو اعلیٰ اور پاکیزہ ترین قسم ہے، جو ایمان سے پھوٹتی ہے اور ایمان کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے جس میںوہ ساری باتیں جن کا ذکر ہوا، شامل ہوتی ہیں اور عقیدے پر ہوتی ہے، یہ اطاعت اور فرمانبرداری کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، وہ ایمان جس کے ساتھ عمل، اطاعت اور فرمانبرداری بھی ہو، اس سے یہ محبت دل میں آتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کی عجیب مثال

اس صحابی کا واقعہ تو مشہور ہے:

اس نے آکر کہا، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو اپنی جان، مال اور اولاد سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھے بغیر مجھے چین نہیںآتا، گھر اور کاروبار میں ہوتا ہوں، یاد آتی ہے توسب کچھ چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میںآجاتا ہوں، جب محبت کا یہ جوش ہوتاہے تو مجھے ایک فکر ہوتی ہے کہ مرنے کے بعدجنت میں، میںآپ کو دیکھ سکوں گا یانہیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ رہ سکوں گا یا نہیں، جنت میں چلا بھی گیا، آپ تو انبیاء کے ساتھ اونچے درجات پر ہوں گے، میںآپ کو کیسے دیکھوںگا، اب تو میں سب کچھ چھوڑکر جس وقت چاہتا ہوں آجاتا ہوں، وہاں کیا ہو گا ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خاموشی اختیار کی جواب آپ نے نہیںدیا، بلکہ آیت کی شکل میںجواب عرش عظیم سے آیا، قرآن مجید کی سورۃنساء میںآج تک موجودہے اور قیامت تک رہے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابی کو آیت پڑھ کر سنا دی :
{وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِینَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا}۔[النسائ:۶۹]
جو اطاعت اور فرمانبرداری کرے اللہ اور رسول کی تو یہ لوگ جنت میں ان لوگوں کے ساتھ ہوںگے جن پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہو ا، انبیاء اورانبیاء کے قریب ترین ساتھی اور ان کی تصدیق کرنے والے صدیق اکبررضی اللہ عنہ  جیسے لوگ اور بڑے بڑے شہداء و صالحین۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی محترم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سچی، حقیقی محبت عطا کرے اورآپ کی اطاعت کر کے اس محبت کو صحیح معنوں میں مضبوط بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment