Nice
On 22 Mar 2016 2:22 pm, "Jhuley Lal" <jhulaylall@gmail.com> wrote:
-- --حفاظت کا اُلوہی اِہتمامقرآن حکیم کا دوسرا اعجاز یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خود ہی فرمایا ہے :إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.(1) الحجر، 15 : 9''بے شک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتاراہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔''چنانچہ وعدہ اِلٰہی کے مطابق قران آج تک ہر قسم کی کمی و بیشی اور حذف و اضافہ سے محفوظ رہا ہے، اس لئے یہ کامل بھی ہے اور تمام بھی۔ عہدِ رسالت میں قرآنی آیات متعدد اشیاء پر معرض تحریر میں لائی جاتی تھیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں بھی جب بہت کم لوگ لکھنے کے فن سے آشنا تھے پورا قرآن تحریری طور پر موجود و محفوظ تھا، اور اس پر مستزاد خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی قرآن کے حافظ تھے لیکن باقاعدہ طور پر عہدِ صدیقی میں "مصحف" کے نام سے ایک جامع نسخہ مرتب کیا گیا جسے طویل اور مختصر سورتوں کے اعتبار سے "سبع طوال"، "مئین"، "مثانی" اور "مفصل" میں تقسیم کر دیا گیا لیکن سورتوں اور آیات کی ترتیب بلا کم و کاست وہی رہی جو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذریعہ وحی مقرر فرما دی تھی۔عہدِ عثمانی میں پھر تمام صحابہ و اہل بیت اور حفاظ کرام رضی اللہ عنہم کے مکمل اتفاق سے سرکاری طور پر ایک نسخہ تیار کیا گیا جو "مصحفِ عثمانی" کے نام سے معروف ہوا۔ قرآن کی جمع و تدوین کا یہ کام جو سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچا، دراصل خود اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور حفاظت میں ہوا کیونکہ ارشادِ ربانی ہے :إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ.القيامه، 75 : 17''بے شک اسے (آپ کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ذِمّہ ہے۔''اس پہلو کا جائزہ لینا بیعتِ رضوان کے حوالے سے نہایت ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے قرآن کی جمع و تدوین کا آخری کام متعدّد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفاء کے باوجود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہی سے کیوں لیا؟ اس کی وضاحت صلحِ حدیبیہ کے واقعہ سے ہوتی ہے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ بمقام حدیبیہ پڑاؤ کیا اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ کی طرف سفیر بنا کر بھیجا۔ اس اثناء میں اطلاع ملی کہ کفار و مشرکین مسلمانوں پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں۔ اندریں صورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جہاد پر آمادگی کی بیعت لی، جسے "بیعتِ رِضوان" کہا جاتا ہے۔ اِس کا ذکر قرآن حکیم میں یوں آتا ہے :إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ.الفتح، 48 : 10''(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ اور آپ اسے بیعت کو اپنی بیعت قرار دیا۔ جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیعت ہو چکی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :إن عثمان فی حاجة اﷲ تعالٰی وحاجة رسوله، فضرب بأحدی يديه علی الأخری، فکانت يد رسول اﷲا لعثمان خيرا من أيديهم لأنفسهم.ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عثمان بن عفان، 5 : 636، رقم : 3702''(اے اللہ!) عثمان تیرے اور تیرے رسول کے کام میں مصروف ہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر رکھا اور اپنے ہی ہاتھ کو عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے ان کی طرف سے بیعت لی۔ پس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ان کے اپنے ہاتھوں سے بہتر تھا۔''یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ ادھر حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا جبکہ دوسری طرف {يَدُ اﷲِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ (گویا) اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے} کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دیا گویا بالواسطہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت قرار دیا، لہذا اس ہاتھ سے جمع و تدوینِ قرآن کے کام کا انجام پانا وعدہ الٰہی إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ '' بے شک اِس (قرآن) کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے''} - کے مطابق خود اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت سے ہی انجام پانا ہے۔باری تعالیٰ نے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ '' بیشک ہم نے اِس ذکر کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اِس کی حفاظت فرمانے والے ہیں''} کے اَلفاظ کی صورت میں وعدہء حفاظت قرآن کے سوا کسی اور الہامی کتاب یا صحیفے کے حق میں نہیں فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل کی جمع و تدوین کی پوری تاریخ رد و بدل، حذف واضافہ اور تحریف و ترمیم کی تاریخ ہے۔ دوسری صدی عیسوی سے لے کر سترھویں صدی عیسوی تک عہد نامہ جدید (New Testament) میں کئی حصوں کو پادریوں کے حسب ِمنشاء اور مختلف کونسلز (Councils) کے فیصلوں کے مطابق کبھی داخل کیا جاتا رہا اور کبھی نکالا جاتا رہا۔ برنباس اور کئی کتابیں جن کا مجموعہ 1672ء میں اپوسٹالک فادرز (Apostolic Fathers) کے نام سے شائع ہوا تھا، ایسی تھیں جنہیں عیسائیت کے اوائل دور میں نہایت مقبولیت حاصل رہی لیکن بعد میں انہیں بائبل میں سے محض اِس لئے خارج کر دیا گیا کہ ان کی تعلیمات سینٹ پال کی خود ساختہ عیسائیت کے باطل عقائد کے خلاف تھیں۔ اِسی طرح اپوکریفا (Apocrypha) اس عیسائی لٹریچر کا مجموعہ ہے جسے عیسائی پادریوں نے اپنے مذہبی مفادات کے خلاف تصور کرتے ہوئے چھپا دیا لیکن اِن کا وجود دنیا سے اب تک ختم نہیں ہو سکا۔سب سے پہلی مکمل بائبل گوٹن برگ (Guten Burg) کے مطبع سے 1455ء میں ولگیٹ (Vulgate) کے نام سے چھپی جس کے خلاف 16 ویں صدی کے اوائل میں پروٹسٹینٹ اِصلاحی تحریک کے ساتھ اِعتراضات و تنقیدات کا دروازہ کھل گیا۔ الغرض 1546ء میں Trent of Council کے ذریعے اسے حتمی شکل دی گئی اور بالآخر رومن چرچ نے اسے بائیبل کے مستند نسخے کے طور پر اپنا لیا لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس میں پھر ردّ و بدل کی ضرورت محسوس کی گئی اورPope Sixtus V نے ضروری ترمیمات و تصحیحات کے ذریعے یونیورسٹی آف پیرس کے متن کی صورت میں 1590ء میں شائع کیا۔یہ مختصر تاریخی خاکہ تمثیلاً اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ اس کے تناظر میں قرآن کی حفاظت اور کاملیت و تمامیت کا جائزہ لیا جا سکے کہ دوسری الہامی کتابوں کے اِرتقائی اَحوال کیا ہیں اور وہ کس طرح ہمیشہ ناقص و ناتمام رہی ہیں اور ان کے برعکس قرآن کا عالم کیا ہے کہ وہ ابتدائی دور سے لے کر آج تک اپنے متن اور عبارت کے لحاظ سے کامل و مکمل رہا ہے۔ اس میں آج تک کسی لفظ یا آیت کی کمی کی گئی اور نہ کسی شے کااضافہ۔ یہ جس حالت میں پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمت کو عطا کیا تھا آج تک اُسی حالت میں بغیر کسی تغیّر وتبدّل کے محفوظ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک کے لئے ہے، اس لئے رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کو بھی قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا۔ اِعجاز ِقرآن کا تسلسل قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ کے بعد تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کر دیا گیا تھا اس لئے انبیائے سابق پر نازل ہونے والے اِلہامی صحیفوں کی حفاظت کی ضرورت بھی نہ تھی۔یہ اسی حفاظت الٰہیہ کا کرشمہ ہے کہ 400,1 سال گزر جانے کے باوجود آج تک قرآن میں ایک آیت، ایک لفظ یا ایک حرف کی حد تک بھی کمی بیشی نہیں ہو سکی۔ آج بھی بعض علاقوں میں ہزار بارہ سو سال پرانے کلامِ مجید کے نسخے موجود و محفوظ ہیں لیکن ان میں اور آج کے مطبوعہ نسخوں میں زیر زبر تک کا فرق نظر نہیں آتا۔
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment