فصاحت و بلاغت
قرآن کا اسلوب سادگی اور سلاست کے علاوہ فصاحت و بلاغت کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہے جس کا معارضہ آج تک بڑے بڑے فصحاء و بلغاء نہیں کر سکے۔ اس میں مقتضائے حال کی رعایت، استعارہ و کنایہ اور صنائع و بدائع کا استعمال ناقابل بیان حسن اور ادبی چاشنی پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔
علامہ کرمانی اپنی کتاب ''العجائب'' میں لکھتے ہیں کہ معاندینِ اسلام نے عرب و عجم کے تمام کلام ڈھونڈ مارے مگر کوئی کلام بھی حسنِ نظم، جودتِ معانی، فصاحتِ الفاظ اور ایجاز میں اس کی مثل نہ ملا اور انہیں بالآخر اس امر پر متفق ہونا پڑا کہ انسانی طاقت قرآن کی آیت کی مثل لانے سے قاصر ہے۔
قرآن کی فصاحت وبلاغت کا یہ اعجاز ہے کہ دنیائے عرب کے ادبی شاہکار "سبع معلقات" - سات اساتذہ کے لا جواب قصائد و غزلات - جو خانہ کعبہ کے دروازے پر آویزاں تھے، نزولِ قرآن کے بعد اس لئے اتار لیے گئے کہ قرآنی فصاحت و بلاغت کا کوئی شے بھی معارضہ نہیں کر سکتی۔ فصاحت قرآنی کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
ا۔ مجاز و کنایہ
1. نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ.
البقره، 2 : 223
''تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ۔''
2. هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ.
البقره، 2 : 187
''وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو۔''
3. أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ.
النساء، 4 : 43
''یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو۔''
مذکورہ بالا آیات میں بیان کی بے ساختگی اور اظہار کی بے تکلفی بھی ہے اور کمال درجہ حیاء و شرافت کی آئینہ داری بھی۔ اشاروں کنایوں میں نہایت حسن و خوبی کے ساتھ ایسے مضامین اور احکام و مسائل بیان کر دئیے گئے ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا ادیب اشارت اور صراحت کے ایسے خوبصورت امتزاج سے بیان نہیں کر سکتا۔
ب۔ تشبیہ و استعارہ
1. مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ.
النور، 24 : 35
''اس کے نور کی مثال (جو نور محمدی کی شکل میں دنیا میں روشن ہوا) اس طاق (نما سینہ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغ (نبوت روشن) ہے۔''
2. كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا.
الجمعه، 62 : 5
''گدھے کی مِثل ہے جو پیٹھ پر بڑی بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو۔''
یہاں علم سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے والوں کی کيفیت کس قدر خوبصورت انداز میں بیان کی گئی ہے۔
3. وَالَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَo وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَo
التکوير، 81 : 17، 18
''اور رات کی قسم جب اس کی تاریکی جانے لگےo اور صبح کی قسم جب اس کی روشنی آنے لگے۔''
ان دو آیات میں رات کے دھیرے دھیرے رخصت ہونے اورصبح کے رفتہ رفتہ آنے کا ذکر جس دلکش جمالیاتی انداز میں کیا گیاہے وہ ادبی چاشنی میں اپنی مثال آپ ہے۔
اِسی طرح ایجاز کی مثال ملاحظہ ہو :
4. وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ.
البقره، 2 : 179
''تمہارے لئے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے۔''
امام سیوطی نے ''الاتقان" میں لکھا ہے کہ اس آیت میں 20 صنعتیں بیان ہوئی ہیں۔
صوتی حسن و ترنم
قرآن حکیم کی ہر آیت اور اس کے مطلع ومقطع میں ایک خاص قسم کا صوتی حسن و جمال پایا جاتا ہے۔ یہ معنوی نغمگی اور باطنی موسیقیت شعری اوزان وقوافی سے مبرا ہونے کے باوجود جمالیاتی اہتزاز و بالیدگی کا احساس دلاتی ہے۔ قرآن کی سحر بیانی کافی حد تک اس حسن صوتی پر منحصر ہے۔ اس اعتبار سے قرآنی سورتیں تین (3) اَقسام پر منقسم ہیں : "طویل" مثلاً سورۃ النساء، "متوسط" مثلاً سورۃ الاعراف اور الانعام، اور "قصیر" مثلاً سورۃ الشعراء اور الدخان۔ صوتی ترنم کی یہ کيفیت ہر شخص کے لئے عجیب لطف و شگفتگی کا سامان پیدا کر دیتی ہے۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
1. ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ.
القلم، 68 : 1
2. وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفاًo فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفاًo وَّالنَّاشِرَاتِ نَشْراًo فَالْفَارِقَاتِ فَرْقاًo فَالْمُلْقِيَاتِ ذِکْراًo عُذْراً اَوْ نُذْرًاo
المرسلات، 77 : 1.6
3. فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْo وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْo وَ اِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْo وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ o لِاَيِ يَوْمٍ اُجِّلَتْo
المرسلات، 77 : 8. 12
4. وُجُوْهٌ يَوْمَئِذٍ نَاعِمَةٌo لِّسَعْيِهَا رَاضِيَةٌo فِيْ جَنَّةٍ عَالِيَةٍo لَّا تَسْمَعُ فِيْهَا لَاغِيَةًo فِيْهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌo
الغاشيه، 88 : 8.12
5. وَالشَّمْسِ وَضُحٰهَاo وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰهَاo وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰهَاo وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰهَاo وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَاo وَالْاَرْضِ وَمَا طَحَاهَاo وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰهَاo فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَاo
الشمس، 91 : 1.10
6. اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاo وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَاo وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَهَاo
الزلزال، 99 : 1. 3
7. فَاَثَرْنَ بِهِ نَقْعاًo فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعاًo
العاديات، 100 : 4، 5
مذکورہ بالا آیات میں سے ہر ایک کا اختتامی لفظ ایک خاص صوتی نغمگی پیدا کر رہا ہے۔ الفاظ کا چنائو اور وزن، ان کا آپس میں ربط، جوڑ اور ترکیب، پھر ان میں تلفظ کی سلاست اور بہاؤ ایک عجیب موسیقیت اور موزونیت کی فضا پیدا کرتا ہے۔ ان آیات کو بار بار پڑھیں، سادگی سے پڑھیں یا مترنم انداز میں زبان میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی اور ہر لمحہ عجیب سی حلاوت کا یک گونہ احساس ہونے لگتا ہے۔ مستزاد یہ کہ اگر مذاقِ سلیم اور حسِ لطیف ہو تو ان آیات کے صوتی آہنگ سے ہی کسی حد تک معنی ومفہوم کی ترجمانی ہونے لگتی ہے مثلاً سورۃ الناس کو بار بار پڑھیں تو ہر آیت کا آخری حرف "س" نرمی پستی، سیٹی کی آواز کثرت استعمال کے باعث سرگوشی کی فضا پیدا کر دیتا ہے۔ یہی سرگوشی اور وسوسہ اندازی اس سورت کا بنیادی موضوع ہے۔
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment