Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Monday, 28 March 2016

))))Vu & Company(((( دین و شریعت محمدی کا اعجاز (حصّہ پنجم)

اَحوالِ غیب کا بیان

قرآن حکیم کے اعجازِ بیان کا ایک بہت بڑا ثبوت اس میں احوال غیبی کا بیان ہے۔ قرآن مجید نے اپنی اس حیثیت کو خود اپنے لفظوں میں اس طرح واضح کیا ہے :

ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَـاءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْکَ.

آل عمران، 3 : 44

''(اے محبوب!)یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں۔''

ایک اور مقام پر اس کی تصریح کرتے ہوئے فرمایا :

تِلْکَ مِنْ اَنْبَـاءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَا إِلَيْکَج مَا کُنْتَ تَعْلَمُهَا اَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا.

هود، 11 : 49

''یہ (بیان ان) غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ اس سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔''

قرآنی اعجاز کا یہ پہلو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات سے نمایاں ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی علومِ غیب کے بیان میں بخل نہیں کرتے تھے۔ سائل جس قسم کا بھی سوال لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا، تسلی بخش جواب پا کر جاتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمہ جہت علم کے اس گوشے کا ذکر قرآن حکیم یوں کرتا ہے :

وَمَا هُوَ عَلَی الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍo

(3) التکوير، 81 : 24

''اور وہ (نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لئے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔''

قرآن حکیم میں احوالِ غیب کا بیان کئی اعتبارات سے آیا ہے لیکن یہاں وضاحت کے لئے صرف دو کا ذکر کیا جاتا ہے :

الف۔ اُممِ سابقہ کے احوال و واقعات

ب۔ مستقبل کی پیشین گوئیاں

ا۔ اُممِ سابقہ کے اَحوال و واقعات

قرآنِ حکیم نے اُممِ سابقہ اور گزشتہ انبیاء کے حوالے سے بہت سے واقعات وحالات بیان کئے ہیں جن میں سے کئی ایک کا ذکر پہلی کتابوں میں سرے سے موجود ہی نہ تھا اور بعض کا ذکر پہلی کتابوں میں ہے لیکن وہ اس قدر محرف ومتبدل صورت میں ہے کہ اس کی صحت کے بارے میں کسی کے پاس کوئی یقینی شہادت موجود نہیں۔ قرآن نے ان احوال وواقعات اور انبیاء کی تعلیمات وخدمات کو سند تصدیق عطا کر دی اس لئے اس کا لقب مُصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ (اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والا) قرار پایا۔

قرآن مجید نے کئی مقامات پر حضرت آدم و حوا علیھما السلام، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، خضر علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، داؤود علیہ السلام، یونس علیہ السلام، ذوالکفل علیہ السلام، صالح علیہ السلام، شعیب علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، یحییٰ علیہ السلام، عیسیٰ و مریم علیھما السلام اور اَصحابِ کہف وغیرہم کے حالات کا بیان ہے۔ یہ سب علوم غیبیہ ہیں۔

ان کے علاوہ قومِ ہود، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط اور دیگر اقوام و ملل کا ذکر تذکیر بایام اﷲ کے انداز میں کیا گیاہے۔ اسی طرح فرعون، نمرود، قارون اور ہامان وغیرہم کے احوال کا عبرت انگیز بیان ہے۔ ان کے علاوہ بھی قرآن حکیم میں اسی قبیل کے متعدد واقعات مذکور ہیں۔

ب۔ مستقبل کی پیشین گوئیاں

اعجازِ قرآن کے داخلی دلائل میں سے یہ دلیل بھی بہت مؤثر اور فیصلہ کن ہے کہ قرآن نے بعض پیشین گوئیاں ایسے حالات میں کیں جن میں ظاہراً ان کے وقوع پذیر ہونے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا۔ مخالفینِ قرآن وہ پیشین گوئیاں سن کر حیران وششدر رہ گئے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پیشین گوئیاں اپنے اپنے وقت پر حقائق و وقائع کے قالب میں ڈھلتی چلی گئیں۔ یہ سب کچھ اب تاریخ کا ناقابل تردید حصہ بن چکا ہے جو زبانِ حال سے قرآن کی صداقت وحقانیت کا اعلان کر رہا ہے۔ ذیل میں چند قرآنی پیشین گوئیاں بیان کی جاتی ہیں :

.i غلبہ روم کی پیشین گوئی

یہ پیشین گوئی سب سے نمایاں اور حیرت انگیز ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے :

 المo غُلِبَتِ الرُّوْمُo فِيْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْم بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَo فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْم بَعْدُ.

الروم، 30 : 1.4

'الف لام میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o اہلِ روم (فارس سے) مغلوب ہو گئےo نزدیک کے ملک میں، اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہو جائیں گےo چند ہی سال میں (یعنی دس سال سے کم عرصہ میں)، امر تو اﷲ ہی کا ہے پہلے (غلبہ فارس میں) بھی اور بعد (کے غلبہ روم میں) بھی۔''

اس پیشین گوئی کے اعلان یعنی رومیوں کے آغاز شکست سے ٹھیک آٹھ برس بعد 622ء میں رومیوں کے تن مردہ میں پھر حیاتِ نو پیدا ہوگئی۔ وہ اسی کاہل وعشرت پرست کمانڈر ہرقل کے زیر قیادت منظم ہو کر ایرانیوں پر حملہ آور ہوئے۔ 623ء میں یعنی پیشین گوئی کے ٹھیک نویں برس رومی فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوئے۔ بالآخر یہ فتح اس شان سے پایہ تکمیل کو پہنچی کہ انہوں نے مشرقی مقبوضات کا ایک ایک شہر واپس لے لیا اور ایرانیوں کو باسفورس اور نیل کے کناروں سے ہٹا کر پھر دجلہ وفرات کے ساحلوں تک دھکیل دیا۔ اس طرح قرآن کی پیشین گوئی کے حرف بہ حرف سچ ثابت ہونے پر بے شمار کافر مسلمان ہو گئے۔

.ii فتحِ مکہ کی پیشین گوئی

6 ہجری میں جب مسلمان صلح حدیبیہ سے واپس لوٹے تو ان میں قدرے مایوسی پائی جاتی تھی۔ وہ اس صلح اور اس کی شرائط کو اپنے لئے شکست کا اعتراف سمجھ رہے تھے یہاں تک کہ بعض نے صاف لفظوں میں اس خیال کا اظہار بھی کر دیا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اطمینانِ قلب کے لئے قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کا اعلان فرمایا :

اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِيْناًo

الفتح، 48 : 1

''(اے حبیبِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرما دیا (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدّ و جہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے)۔''

اس آیت میں یہ اشارہ تھا کہ حدیبیہ کی صلح کو شکست نہ سمجھو بلکہ یہ درحقیقت پیش خیمہ ہے ایک عظیم الشان فتح کا، جو فتح مکہ کی صورت میں اہلِ ایمان کو حاصل ہونے والی ہے چنانچہ اسی سورت میں فرمایا گیا :

لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ .

الفتح، 48 : 27

''بیشک اﷲ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو حقیقت کے عین مطابق سچا خواب دکھایا تھا کہ تم لوگ، اگر اﷲ نے چاہا تو ضرور بالضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے امن و امان کے ساتھ، (کچھ) اپنے سر منڈوائے ہوئے اور (کچھ) بال کتروائے ہوئے (اس حال میں کہ) تم خوفزدہ نہیں ہو گے۔''

بالآخر اس پیشین گوئی کا ظہور فتحِ مکہ کی صورت میں 8ھ میں ہوا۔ اس طرح وہ جو صلحِ حدیبہ کی بظاہرمایوس کن شرائط سے دل گرفتہ تھے اُنہوں نے اس صلح نامے سے حاصل ہونے والی کامیابی کو بدل و جاں تسلیم کر لیا۔ کفارِ مکہ اس معاہدے سے روگرداں ہو گئے جس کا خمیازہ انہیں کئی صورتوں میں بھگتنا پڑا۔

.iii فتحِ خیبر کی پیشین گوئی

غزوہ خیبر کی فتح کے بارے میں بھی سورہ الفتح میں پیشین گوئی کرتے ہوئے قرآن مجید میں اِرشاد فرمایا گیا :

سَيَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰی مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ.

الفتح، 48 : 15

''جب تم (خیبر کے) اموالِ غنیمت کو حاصل کرنے کی طرف چلو گے تو (سفرِ حدیبیہ میں) پیچھے رہ جانے والے لوگ کہیں گے ہمیں بھی اجازت دو کہ ہم تمہارے پیچھے ہو کر چلیں۔''

یہاں جو لوگ حدیبیہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نہیں آئے تھے ان کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ صلحِ حدیبیہ سے واپس لوٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے از راہِ بشارت فتح خیبر کی پیشین گوئی بھی کر دی اور صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو یہ بھی بتا دیا کہ غزوہ خیبر میں تمہارے ہاتھ بہت سا مال غنیمت بھی آئے گا لیکن ہم نے وہ مالِ غنیمت صرف ان مجاہدین کے لئے مخصوص کر دیا ہے جو حدیبیہ کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ہیں۔ اس وقت ساتھ نہ دینے والے اس مالِ غنیمت سے بھی محروم رہیں گے۔ چنانچہ اس پیشین گوئی کی صداقت بھی تاریخِ عالم کے صفحات پر جلی حروف میں رقم ہوئی، خیبر فتح بھی ہوا اور بے شمار مالِ غنیمت بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔

.iv غلبہ اِسلام کی پیشین گوئی

سب سے بڑھ کر حیرت انگیز وہ پیشین گوئی ہے جس میں مسلمانوں کو روئے زمین پر عظیم الشان تمکن واستخلاف اور اقتدار و استحکام کی خوشخبری سنائی گئی تھی، حالانکہ اس وقت روم وایران کی دو عظیم عالمی طاقتیں مشرق ومغرب پر اس طرح قابض ومتصرف تھیں، جس طرح بعد کی دُنیا میں امریکہ اور روس دو سپر طاقتوں کی شکل میں مسلّط تھے، جزیرہ نمائے عرب کے ان صحرا نشینوں کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اپنی بے سروسامانی کے عالم میں وہ بین الاقوامی سطح پر ایک عظیم اور مؤثر طاقت بن کر ابھرنے کا سوچ بھی سکتے تھے کیونکہ اس وقت یہ دونوں عالمی طاقتیں اس انقلابی قوم کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔ اندریں حالات قرآن نے اس بشارت کا اعلان ان الفاظ میں کیا :

وَعَدَ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَکـِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْناً.

النور، 24 : 55

''اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل اُمت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت(یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو (حق) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین (اسلام) کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدارکے ذریعہ)مضبوط ومستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور(اس تمکن کے باعث ) ان کے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اورسماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لئے امن وحفاظت کی حالت سے بدل دے گا۔''

چشمِ فلک نے اس پیشین گوئی کا عملی ظہور بھی مستقبل قریب میں دیکھ لیا۔ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسلامی فتوحات کے جس سلسلے کا آغاز ہوا تھا، وہ عہدِ خلافتِ راشدہ میں اس قدر وسعت پکڑ گیا کہ روم اور ایران سمیت قریباً 10 لاکھ مربع میل سے زائد رقبہ اسلامی سلطنت کے زیرِ نگین آ گیا۔ عہدِ فاروقی میں مسلمان اسلام کا آفاقی پیغام لے کر بلوچستان کی سرحدوں تک پہنچ چکے تھے، ابھی اسلام کی پہلی صدی ختم نہ ہوئی تھی کہ اسلامی سرحدیں سپین سے آگے فرانس تک پھیل چکی تھیں، مشرق میں سندھ اور ملتان تک، ماوراء النہر سے آگے چین، وسطی ایشیا، شمالی افریقہ تک اسلام کی روشنی پہنچ گئی اور دنیا کے کثیر ترین حصے پر پرچم اسلام لہرانے لگا۔ سطوت اسلام کا یہ پرشکوہ نظارہ قرآنی وعدے کے مطابق تقریباً چھ سو سال تک قائم ودائم رہا۔ زوالِ بغداد کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد پھر ترکوں کی زیرِ قیادت ملت اسلامیہ کی سیاسی قوت مجتمع ہوئی اور بالآخر بین الاقوامی سطح پر غلبہ اسلام کا دور پھر چھ سو سال تک منصہ عالم پر شہود پذیر رہا۔

اس طرح کی پیشین گوئیاں جو قرآن نے بیان کیں وہ اپنے وقت پر عالمِ خارج میں واقعہ بن کر حقانیتِ قرآن کی حتمی دلیلیں بنیں، وہ تعداد میں اتنی ہیں کہ ان کا شمار آسانی سے نہیں کیا جا سکتا۔

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment