محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجہ نمود حُسن حقیت
رسول اکرم کی تعریف و توصیف ایک ایسا مبارک ،باسعادت اور مشکبار موضوع ہے جو ایمان افروزبھی ہے اور دلآویز بھی،جس کی وسعت فرش زمین پر ہی نہیں آسمان کی بلندیوں سے بھی ماوراءہے۔ہر دور میں ان گنت انسانوں نے دربار رسالت میں پوری محبت و خلوص سے اپنی عقیدت کے گلدستے پیش کیے۔ان کی مدح سرائی کا غلغلہ بحر و بر میں بلند ہوا اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ بلند تر ہوتا چلا گیا اور آگے یہ سلسلہ مزید پھیلتا رہے گا۔تاریخ عالم شاہد ہے کہ یہ نام صبح و شام چہار دانگ عالم میں پھیلے عقیدت مندوں کے دلوں کی دھڑکن بن کر ان کےلئے باعث حیات بنا ہوا ہے۔ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے اسلوب میں عقیدت و محبت کے پھول "دربار رسالت "کی نذر کر رہا ہے۔ ہمارے آقا ﷺ حسن و جمال کا ایسا پیکر ہیں کہ جب سورج ان پر نظر ڈالتا تو حسرت بھری نگاہوں سے کہتا اے کاش!یہ حسن مجھے عطا ہوتا۔
دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں ،اے ابد کے حسیں تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
بحیثیت مسلمان ہمارے ایمان کی بنیاد اس عقیدے پر استوار ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی بقا و سلامتی کا راز محبت و غلامئ رسول میں مضمر ہے۔ آپ کی محبت ہی اصلِ ایمان ہے جس کے بغیرہمارے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشت دیدہ و دل میں عشق رسول کی شجرکاری کی جائے جس کی آبیاری اطاعت و اتباع کے سرچشمے سے ہوتی رہے تو ایمان کا شجر ثمربار ہو گا اور اس کی شاخ در شاخ نمو اور بالیدگی کا سامان ہوتا رہے گا۔ بزم ہستی میں محبت مصطفیٰ کا چراغ فروزاں کرنے سے نخل ایمان پھلے پھولے گا اور نظریاتی و
فکری پراگندگی کی فضا چھٹ جائے گی۔
در دلِ مسلم مقام مصطفیٰ ﷺ ست
آبروئے ماز نامِ مصطفیٰ ﷺ ست
(حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکا مقام ہر مسلمان کے دل میں ہے اور ہماری ملی عزت و آبرو اسی نام سے قائم ہے۔)
مسلمانوں کے لیے نبی کریم ?کی حیات طیبہ کا مطالعہ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ اس وقت تک کوئی مسلمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے رہبر و راہنما پیغمبر ?کے اسوۂ حسنہ کی پیروی نہ کرے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں قرآن کریم کا بغور مطالعہ کرنا ہو گا کیونکہ قرآن کریم کی آیات و کلمات کا زندہ نمونہ ذات رسول پاک میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں ہم جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ہمیں ہو بہو نبی کریم کی عملی زندگی سے ملتا ہے۔ اسی لیے جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے کسی نے حضور کے خلق کے بارے میں استفسار کیا، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کان خلقہ القرآن، یعنی حضور اکرم کا خلق بعینہ قرآن تھا۔ نبی کریم ﷺکی زندگی جتنی خوبصورت اور دلکش ہے، اسی قدر وسیع اور کشادہ بھی ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں۔ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات، معاشیات، تہذیب و تمدن، سیاسیات الغرض وہ سب کچھ جس کا انسان کی انفرادی یا اجتماعی، روحانی و مادی زندگی سے ہے۔ اسوۂ حسنہ کا ابرِ رحمت ان سب پر سایۂ فگن ہوتا ہے۔
آج بھی اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت کو پذیرائی نصیب ہو اور پیغام حق دلوں کی دنیا میں ہل چل پیدا کر دے، تو اس کی صرف یہی صورت ہے کہ قرآن کی تعلیمات کے حسین خدوخال کو سیرت مصطفی کے شفاف آئینہ میں لوگوں کو دکھایا جائے۔ بالخصوص مسلمانوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ نبی کریم کی حیات طیبہ کا مطالعہ ضرور کریں۔ شاید اس کی برکت سے زندگی کے بند دریچے روشنی اور نور سے مزّین ہو سکیں۔
سرورِ کائنات کی سیرتِ مطہرہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک انسان کو جو افتخار اور مسرت حاصل ہوتی ہی' حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا غور فرمایئے جس ذات ِ اقدس کی تعریف و ثنا خود ربِ ذوالجلال نے کی ہو' کلام اللہ جس کے اوصاف و محاسن پر بولتا ہو' فرشتے صبح و شام جس پر درود بھیجتے ہوں اور جس کا نام لے لے کر ہر دور میں ہزاروں انسان زندگی کے مختلف گوشوں میں زندہ جاوید ہوگئے ہوں' اس رحمۃ للعالمین کے بارے میں کوئی شخص اپنے قلم و زبان کی تمام فصاحتیں اور بلاغتیں بھی یکجا کرلے اور ممکن ہو تو آفتاب کے اوراق پر کرنوں کے الفاظ سے مدح و ثنا کی عبارتیں بھی لکھتا رہی' یا ماہتاب کی لوح پر ستاروں سے عقیدت و ارادت کے نگینے جڑتا رہی' تب بھی حق ادا نہ کرسکے گا حضور کی سیرت کو کسی بھی انسانی سند کی ضرورت نہیں۔ حقیقتِ یہ ہے کہ سرور کائنات کے ذکر سے انسان اپنے ہی لیے کچھ حاصل کرتا ہے۔ جس نسبت سے تعلقِ خاطر ہوگا اسی نسبت سے حضور کا ذکر ایک ایسی متاع بنتا چلا جائے گا کہ زبان و بیان کی دنیا اس کی تصویریں بنا ہی نہیں سکتی۔
آپ کی شانِ جامعیت یہ ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس تمام انبیائے کرام ?اور تمام رسولانِ عظام کے اوصاف و محاسن، فضائل و شمائل اور کمالات و معجزات کا بھرپور مجموعہ اور حسین مرقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں، رسولوں اور ساری اولاد آدم کے اوصاف حمیدہ اور خصائل عالیہ حضور ?کی ذات میں جمع کر دیے تھے تو گویا آپ تمام ذریت آدم کے حسن و جمال، اوصاف و خصائل، تعریفوں، خوبیوں، صفتوں، بھلائیوں، نیکیوں، کمالوں، ہنروں، خلقوں اور پاکیزہ سیرتوں کے مجموعہ ہیں۔ چناں چہ آپ کی شخصیت میں آدم کا خلق، شیث کی معرفت، نوح کا جوشِ تبلیغ، لوط کی حکمت، صالح کی فصاحت، ابراہیم کا ولولہٴ توحید، اسماعیل کی جاں نثاری، اسحاق کی رضا، یعقوب کا گریہ و بکا، ایوب کا صبر، لقمان کا شکر، یونس کی انابت، دانیال کی محبت، یوسف کا حسن، موسیٰ کی کلیمی، یوشع کی سالاری، داؤد کا ترنم، سلیمان کا اقتدار، الیاس کا وقار، زکریا کی مناجات، یحییٰ کی پاک دامنی اور عیسیٰ کا زہد و اعجازِ مسیحائی آپ کی صفات ظاہری میں شامل تھی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ پوری کائنات کی ہمہ گیر سچائی اور ہر ہر خوبی آپ کی ذاتِ والا صفات میں سمائی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتا ہے کہ اس نے براہِ راست تخاطب کے حوالے سے ایک دفعہ بھی حضور نبی اکرم کا نام لے کر آپ کو نہیں پکارا، بلکہ جہاں کہیں مخاطب کیا ہے تو عزت و تکریم کے کسی صیغے ہی سے آواز دی ہے کہ ﴿یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک﴾… ﴿یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین…﴾ یا پھر محبت سے ﴿یا ایھا المزمل﴾ اور ﴿یاایھا المدثر﴾ کہہ کر پکارا ہے۔ جب کہ قرآن مجید میں اولوالعزم انبیا کو جگہ جگہ ان کے اصل نام اور اسم سے پکارا گیا ہے۔ جیسے " ﴿یاآدم اسکن انت و زوجک الجنة﴾․ ﴿وما تلک بیمینک یا موسٰی﴾․﴿یا داود انا جعلنک خلیفة﴾․﴿یا زکریا انا نبشرک بغلام ن اسمہ یحیی﴾․﴿یا یحیٰی خذ الکتاب بقوة﴾․﴿یانوح اھبط بسلام﴾․ ﴿یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الیّ﴾ اس طریق مخاطبت کے مطابق چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی "یامُحَمَّداً، یااحمد" کہہ کر پکارتا، مگر اللہ تعالیٰ کو اس درجہ آپ کا احترام سکھانا مقصود تھا کہ تمام قرآنِ مجید میں ایک جگہ بھی آپ کو نام لے کر مخاطب نہیں کیا۔ بلکہ تعظیم و تکریم پر مبنی خوب صورت اور بہترین القابات پر مشتمل ناموں ہی سے آپ کو پکارا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول پاک کی حیات طیبہ پر جتنا کچھ لکھا گیا ہے پوری تاریخ انسانی میں کسی اورکی حیات پرنہیں لکھا گیا آپ کے ماننے والوں نے بھی آپ پر جی کھول کرلکھا ہے اور نہ ماننے والوں نے بھی، یہ الگ بات ہے کہ ان کے جذبات و محرکات الگ الگ رہے ہیں۔ ماننے والون نے عموما اس جذبے سے لکھا ہے کہ دنیا کے سامنے زیادہ سے زیادہ آپ کا تعارف کرایا جائے سیرت پاک کے دلکش گوشے سامنے لائے جائیں، جن سے آپ کے ماننے والوں میں عمل کا جذبہ بیدار ہو اور نہ ماننے والوں کی غلط فہمیاں دور ہوں، انھیں آپ کی دعوت، اورآپ کا مشن سمجھنے میں آسانی ہو۔
اس کے برعکس جو آپ کے مخالفین تھے، ان کے پیش نظریہ رہا ہے کہ جس قدر ہوسکے آپ کی شبیہ بگاڑی جائے، دنیا کو آپ سے متنفر کیا جائے، آپ کو محسن انسانیت، یا نبی رحمت کی حیثیت سے نھیں، بلکہ ایک ظالم وجابرحکمراں کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ یہ کام انہوں نے پوری دلیری اور نہایت ڈھٹائی سے کیا، اوردروغ بیانی اور جعل سازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
احقر نے اس مایہ ناز موضوع پر ایک کوشش کی ہے تاکہ سیرت کے ساتھ صورت سے بھی پیار پیدا ہو۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت بھی ہے کہ صورت، سیرت کی عکاس ہوتی ہے اور ظاہر سے باطن کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کیونکہ اِنسان کا چہرہ اُس کے مَن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پہلی نظر ہمیشہ کسی شخصیت کے چہرے پر پڑتی ہے، اُس کے بعد سیرت و کردار کو جاننے کی خواہش دِل میں جنم لیتی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے اَحوال و فضائل اس نقطۂ نظر سے معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننے کی خواہش فطری طور پر پیدا ہوتی ہے کہ اُس مبارک ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا، قد و قامت اور شکل و صورت کیسی تھی، جس کے فیضانِ نظر سے تہذیب و تمدّن سے ناآشنا خطہ ایک مختصر سے عرصے میں رشکِ ماہ و اَنجم بن گیا، جس کی تعلیمات اور سیرت و کردار کی روشنی نے جاہلیت اور توّہم پرستی کے تمام تیرہ و تار پردے چاک کر دیئے اور جس کے حیات آفریں پیغام نے چہار دانگِ عالم کی کایا پلٹ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی نے اُس عبدِ کامل اور فخرِ نوعِ اِنسانی کی ذاتِ اَقدس کو جملہ اَوصافِ سیرت سے مالا مال کر دینے سے پہلے آپ کی شخصیت کو ظاہری حُسن کا وہ لازوال جوہر عطا کر دیا تھا کہ آپ کا حسنِ صورت بھی حسنِ سیرت ہی کا ایک باب بن گیا تھا۔ سرورِکائنات حضرت محمد کے حسنِ سراپا کا ایک لفظی مرقع صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ ربّ العزت نے آپ کو وہ حسن و جمال عطا کیا تھا کہ جو شخص بھی آپ کو پہلی مرتبہ دور سے دیکھتا تو مبہوت ہو جاتا اور قریب سے دیکھتا تو مسحور ہو جاتا۔
حضور نبی اکرم ﷺاللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب اور مقرب نبی ہیں، اِس لئے باری تعالیٰ نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ ﷺکی ذاتِ اَقدس میں اِس طرح جمع فرما دیئے کہ آپ ﷺافضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ ﷺہی کی ذات ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺکی اِس شانِ جامعیت و کاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ.
[مزید] پيغام کا آئکون: ''(یہی) وہ لوگ (پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ آخرالزماں!) آپ اُن کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے اُن) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں اُن تمام انبیاء و رُسل کے فضائل و کمالات یکجا ہو جائیں)۔''( القرآن، الانعام، 6 : 90)اس آیتِ مبارکہ میں ہدایت سے مُراد انبیائے سابقہ کے شرعی اَحکام نہیں کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی منسوخ ہو چکے ہیں، بلکہ اِس سے مُراد وہ اَخلاقِ کریمانہ اور کمالاتِ پیغمبرانہ ہیں جن کی وجہ سے آپ ﷺکو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ کمالات و اِمتیازات جو دِیگر انبیاء ?کی شخصیات میں فرداً فرداً موجود تھے آپ ﷺمیں وہ سارے کے سارے جمع کر دیئے گئے اور اِس طرح حضور نبی اکرم ﷺجملہ کمالاتِ نبوّت کے جامع قرار پا گئے۔
لا یمکن الثناءکما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment