Search Papers On This Blog. Just Write The Name Of The Course

Monday, 21 March 2016

))))Vu & Company(((( دین و شریعت محمدی کا اعجاز (حصّہ اول).

دین و شریعتِ محمدی کا اِعجاز

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیتی اور رسالتی اہمیت کے باب میں ایک اہم پہلو آپ کا عطا کردہ دین اور شریعت کا معجزانہ پہلو ہے۔ پہلے تمام انبیاء کے ذریعے انسانیت کو جو نظام زندگی اور دین دیا گیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور تحریف کی وجہ سے اسکی اصل شکل محو ہو گئی۔ اسلام کی اہمیت یہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اس کے بنیادی سر چشمے اپنی اصل صورت میں انسانیت کی رہنمائی کے لئے موجود ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو معجزات عطا کیے گئے ان میں شریعت اور بنیادی سرچشمہ یعنی قرآن مجید صدیاں گزرنے کے باوجود حرف بہ حرف اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو عطا کیا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ِگرامی ہے :

ما من الأنبياء من نبی إلا قد أعطی من الأيات ما مثله أمن عليه البشر و إنما کان الذی أوتيت وحيا أوحی اﷲ إلٰی فأرجو أن أکون أکثرهم تابعاً يوم القيامة.

1. بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام، باب، قول النبی صلی الله عليه وآله وسلم : بعثت بجوامع الکلم، 6 : 2654، رقم : 6846

2. بخاری، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب کيف نزل الوحی، 4 : 1905، رقم : 4696

3. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب وجوب الايمان، 1 : 124، رقم : 152

4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 451، رقم : 9827

''پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے اِس قدر معجزات عطا کئے جن کو دیکھ کر لوگ ایمان لائے، لیکن جو معجزہ مجھے دیا گیا ہے وہ وحی (یعنی قرآن) ہے جس کو باری تعالیٰ نے مجھ پر اُتارا۔ اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔''

اس حدیثِ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے سابقہ اَنبیاء اور رسولوں کو معجزات عطا فرمائے تاکہ لوگ ان معجزات کو دیکھ کر ان انبیاء کی حقانیت پر ایمان لا سکیں اور وہ اللہ رب العزت کے وجود کا اقرار کریں۔ لیکن یہ معجزات دائمی حیثیت کے حامل نہ تھے۔ قوانیں، ضابطہ ہائے حیات اور شریعتیں بھی ہمیشہ کے لیے نہ تھیں۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلسلہ نبوت و رسالت کا اختتام ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن حکیم کی صورت میں ایک ایسا معجزہ عطا کیا گیا جس کی حیثیت دائمی ہے۔ نتیجتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت نے قیامت تک موجود اور انسانیت کے لیے راہنما رہنا ہے۔ اب چونکہ قیامت کا دن طلوع ہونے تک انسانیت نے راہنمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ سر چشمہ ہدایت سے لینی ہے لہذا قیامت کے دن تک لوگ اسی ہدایت کی طرف متوجہ اور راغب ہوں گے اور قیامت کے دن آپ کے لوگوں اور پیرو کاروں ہی کی کثرت ہو گی۔

اب ہم کلامِ مجید کے اعجاز پر مشتمل چند نکات پیش کرتے ہیں جس سے قرآن کی معجزانہ شان بطریق ِاحسن ظاہر ہوتی ہے :

اِعجازِ قرآن کے دلائل

اِعجازِ قرآن کے دلائل میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

عدمِ مثلیت
حفاظت کا اُلوہی اِہتمام
عدمِ اختلاف و تناقض
ندرتِ اسلوب و نظمِ کلام
فصاحت و بلاغت
صوتی حسن و ترنم
احوالِ غیب کا بیان
نتیجہ خیزی کی ضمانت
اُمیّتِ صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(1) عدمِ مثلیت

قرآن نے جملہ انس و جاں کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ساری مخلوقات اپنی اجتماعی کوششوں کے باوجود اس کا مثل لانے سے قاصر ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا.

بنی اسرائيل، 17 : 88

''فرما دیجئے! اگر تمام انسان اور جنات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل(کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی ) وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔''

دوسرے مقام پر مخالفین کو چیلنج دیا گیا کہ پورے قرآن کا مثل تو درکنار قرآن کے بارے میں نبی اکرم ا پر افتراء پردازی کرنے والے اپنے قول کی تائید میں صرف دس سورتوں کی ہی مثل لے آئیں :

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ.

هود، 11 : 13

''کیا کفار یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے؟ فرما دیجئے : تم (بھی) اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں لے آؤ۔''

لیکن اس پر بھی معترضین بے بس رہے تو باری تعالیٰ نے ایک اور چیلنج کیا :

وَإِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ.

البقره، 2 : 23

''اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلاہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور(اس کام کے لئے بیشک) اللہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو۔''

اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دے سکا اور ابدالآباد تک منکرین حق کا ناکامی سے دوچار ہونا مقدر کر دیا گیا ہے، جس کی شہادت چودہ سو سال کی تاریخ دے رہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ.

البقره، 2 : 24

''پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا اور تم ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی اُن کے بت) ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔''

اس قرآنی دلیل کی صداقت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ عالمِ یہودیت اور عالمِ عیسائیت اسلام کے خلاف کس حد تک برسر ِپیکار رہے ہیں۔ تاریخ کا ہر طالب ِعلم اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے اور آج بھی اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے اور اسلامیانِ عالم کو گمراہ کرنے کے لئے نہ صرف پرنٹ میڈیا بلکہ اِنٹرنیٹ تک پر کتنی کوششیں یہود و نصاریٰ کے ذریعے دنیا بھر میں ہو رہی ہیں، جو اہل ِبصیرت سے مخفی نہیں، لیکن ان بھر پور مخاصمانہ کاوشوں کے باوجود آج تک قرآن کی کسی ایک سورت یا آیت کی مِثل نہیں بنائی جا سکی اگر اس کے اِلہامی ہونے کا دعویٰ غلط ہوتا تو اس کے مماثل کئی نسخے معرضِ وجود میں آ چکے ہوتے۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد عالمِ عیسائیت میں انجیل کے 133 نسخے رواج پا چکے تھے جن میں سے بالآخر 129 کو رد کر کے بقیہ چار کو سند ِصحت عطا کر دی گئی۔

آج بھی انجیلِ یوحنا، انجیلِ مرقس، انجیلِ لوقا، انجیلِ متی کے نام سے چار مختلف نسخے موجود ہیں۔ ایک پانچواں نسخہ انجیلِ برنباس کا بھی ہے اور پوری دنیائے عیسائیت ان میں سے کسی ایک پر بھی متفق نہیں ہو سکی۔ اس کے برعکس اسلام کے خلاف اندورنی اور بیرونی سطح پر لاکھوں سازشیں ہوئیں لیکن قرآنِ مجید کا عدمِ مثلیت کا وصف اسی طرح برقرار رہا اور آج بھی تقریباً ایک ارب افراد پر مشتمل ملّت ِاسلامیہ صرف ایک ہی متن کو قرآن مانتی ہے اور اس امر میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا بلکہ صفحہ ہستی پر آج تک قرآن کا کوئی متبادل نسخہ پیش نہیں کیا جا سکا۔ بعض جھوٹے مُدعیانِ نبوت نے جزوی طور پر ایسی جسارت کرنا چاہی لیکن ہمیشہ خاسر و خائب ہوئے۔ اسی طرح اگر کسی اور نے بھی قرآن کی عظمت و اِعجاز کو نہ سمجھتے ہوئے ایسا اِقدام کیا تو وہ بھی ناکام و نامراد ہی رہا۔

ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ ''الوفاء بأحوال المصطفٰی'' میں امام ابنِ عقیل رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ابو محمد نحوی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ اِعجاز ِقرآن پر گفتگو کر رہے تھے۔ وہاں فاضل شیخ بھی موجود تھا۔ اس نے کہا کہ قرآن میں ایسی کون سی ندرت و کمال ہے جس سے فضلاء و بلغاء عاجز آ جائیں۔ پھر وہ کاغذ قلم لے کر بالا خانے پر چڑھ گیا اور وعدہ کیا کہ تین دن کے بعد قرآنِ مجید کی مِثل کچھ لکھ کر لاؤں گا۔ جب تین دن گزر گئے اور نیچے نہ اترا تو ایک شخص بالا خانے پر چڑھا۔ اس نے اسے اس حال میں پایا کہ اس کا ہاتھ قلم پر سوکھ چکا تھا۔ ایسے واقعاتفَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا (پس اگر تم ایسا نہ کر سکو اور تم ہر گز ایسا نہ کرسکو گے)(1) کی زندہ شہادت ہیں۔

(1) البقرة، 2 : 24

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment