عدمِ اِختلاف و تناقض
قرآن اپنی معجز بیانی پر ایک دلیل یہ بھی پیش کرتا ہے کہ وہ اختلاف و تناقض سے مبرا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اِخْتِلاَفاً کَثِيْراً.
النساء، 4 : 82
''اور اگر یہ (قرآن) غیرِ خدا کی طرف سے آیا (ہوتا) تویہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔''
عام مصنفین کی تالیفات سے قطع نظر دیگر مذاہب کی الہامی کتابوں پر بھی نظر ڈالیں تو آپ کو لاتعداد تضادات ملیں گے جن میں تطبیق کرنا ممکن نہیں۔ مضامین کا اختلاف، ناموں اور نسبوں کا اختلاف، واقعات کا اختلاف، لشکر کی تعداد کا اختلاف، بیانات کا اختلاف، سنین و اوقات کا اختلاف، الغرض اجمال و تفصیل میں ہر جگہ مضحکہ خیز حد تک تضادات اور تناقضات ہیں جن کا جواب آج تک اس مذہب کے پیروکار نہیں دے سکے اور نہ ایسی کتابوں کو موضوع یا محرف ماننے کو ہی تیار ہیں۔ مذکورہ بالا حقیقت کا مشاہدہ بائیبل کے تنقیدی و تقابلی مطالعہ سے بآسانی ہو سکتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا امیریکانا (Encyclopaedia Americana) میں بائبل (Bible) کے مضمون کے تحت اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اس کے مختلف نسخہ جات میں کم و بیش تیس 30 ہزار اغلاط موجود ہیں۔ اسی طرح Fred Glad Stonb Bratton نے History of Bible (مطبوعہ بوسٹن USA) کے صفحہ 5 پر اس حقیقت کو بصراحت تسلیم کر لیا ہے کہ بائبل کے اندر واقعاتی اغلاط، غیرسائنسی نظریات، خدا اور انسان کی نسبت ناپاک تصورات، تضادات وتناقضات، نامعقول بیانات، مبالغہ آمیزیاں اور ناپختہ خیالات کثرت کے ساتھ موجود ہیں لیکن اس کے برعکس قرآن اول سے آخر تک ہر قسم کے اختلاف اور تناقض سے پاک ہے بلکہ ہر آیت دوسری کی مؤید اور ہر مقام دوسرے کا مصدِّق ہے :
آفتابِ آمد دلیل آفتاب
گر دلیلے بایدت از وی رو متاب
قرآن حکیم میں ایک واقعہ بعض اوقات متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔ ہر مقام پر اندازِ بیان اورسیاق و سباق مختلف ہونے کے باوجود اس کی واقعیت میں کوئی خفیف سا اختلاف اور تضاد نظر نہیں آتا۔ اس امر کی صحیح اہمیت کا اندازہ اس صورت حال کو سامنے رکھ کر ہو سکتا ہے کہ قرآن دیگر کتابوں کی طرح تصنیف نہیں ہوا بلکہ 23 سال کے عرصہ میں اس کا نزول کبھی دن کو، کبھی رات کو، کبھی سفر میں، کبھی حضر میں، کبھی گھر اور کبھی میدان جنگ میں ہوتا رہا اور ہمیشہ حسبِ ضرورت اس کی چند آیات جن کی تعداد بالعموم تین سے دس تک ہوتی تھی نازل ہوتیں۔ آپ ذرا غور فرمائیے کہ اس طرح آیات کا تدریجی نزول تقریباً 23 سال کے عرصہ کو محیط ہے۔ اس عرصہ میں متغیرحالات و قوع پذیر ہوتے رہے اور قرآن کبھی اس دوران ایک جلد کی صورت میں مرتب بھی نہ ہو سکا بلکہ لوگ اپنے طور پر کاغذوں، کپڑوں، پتھروں اور ہڈیوں کے ٹکڑوں پر لکھ کر محفوظ کرتے رہے۔ اس انداز سے اس کا نزول اور جمع و تدوین عمل میں آیا پھر بھی یہ ہر قسم کے اختلاف سے یکسر پاک رہا جو اس کے منزل من اللہ اور مبنی بر حق ہونے کی دلیل ہے!
(4) ندرتِ اُسلوب و نظمِ کلام
عہدِ نزولِ قرآن تک عربوں میں قصائد، مکتوبات، خطابات اور محاورات کے صرف چار معروف اسالیب متداول تھے، وہ کسی اور اسلوبِ بیان سے واقف ہی نہ تھے۔ ان معینہ اور معلومہ اسالیب سے مختلف ایک نیا اسلوب بیان پیدا کر لینا قرآن حکیم ہی کا ایک اعجاز تھا۔
قرآن کی ندرت کا اسلوب اور منفرد انداز آج تک کسی اور ادب میں پیدا نہیں ہو سکا۔ عام کتابیں ابواب و فصول پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن قرآن ایسی کسی تبویب و تفصیل سے پاک ہے اور نہ اس کے مختلف مضامین کو الگ الگ عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے اسلوبِ بیان اور نظمِ کلام میں ایک جُوئے آبِ رو کا سا تسلسل اور روانی ہے، کسی جگہ پر انقطاع نظر نہیں آتا۔ قرآن نے اپنی بعض سورتوں کو حمد و ثنا سے شروع کیا اور بیان کی وضاحت کی غرض سے، بعض کا اختتام جامع کلمات پر کیا اور بعض کا نصیحتوں پر، کبھی وعدہ اور کبھی تبشیر کا انداز اپنایا، کبھی تہدید کی، کبھی تاکید، کبھی مخلوق کا بیان کیا، کبھی خالق کا، کبھی کائنات کی نشانیاں بیان کیں، کبھی انبیاء اور اُممِ سابقہ کے قصص اور واقعات، کبھی حلت و حرمت کے احکام دئیے کبھی استثناء و رخصت کے، کبھی احقاقِ حق کیا کبھی ابطالِ باطل، کہیں مخاصمہ کا رنگ اپنایا کہیں موعظت کا، کہیں انبیاء و مرسلین کی تعلیمات و خدمات بیان کیں، کہیں ان کی عظمتوں اور رفعتوں کا ذکر کیا، کہیں خطاب ہے کہیں غیاب اور کہیں تکلم، اندازِ کلام بغیر تکلف کے بڑی بے ساختگی سے بدلتا رہتا ہے لیکن حلاوت اور دلکشی برقرار رہتی ہے اور آیات کا ربط کہیں متاثر نہیں ہوتا۔ قرآن کے اُسلوبِ بیان اور نظمِ کلام کے سلسلے میں مزید دو اُمور قابل توجہ ہیں :
الف۔ انتشارِ مطالب
ب۔ تکرارِ مضامین
قرآنی علوم اور معارف و مطالب عام طور پر پانچ انواع پر مشتمل ہیں :
علم الأحکام، علم المخاصمة، علم التذکير بآلاء اﷲ، علم التذکير بأيام اﷲ وعلم التذکير بالموت.
شاه ولی اﷲ محدث دهلوی، الفوز الکبير : 1
الف۔ قرآنی اسلوب میں انتشارِ مطالب کا معنی یہ ہے کہ قرآن اس امر کی رعایت نہیں کرتا کہ اس سورت میں صرف فلاں نوع کا علم ذکر کیا جائے گا اور دوسری سورت میں فلاں نوع کا بلکہ اس کی ایک ہی سورت میں متعدد انواع کے مطالب و معارف بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک علم کے ساتھ متصلاً دوسرا علم بیان کرنا کسی دوسری کتاب میں تو یقینا مذاقِ لطیف پر گراں گزرتا ہو گا لیکن قرآنی اعجاز کا یہ عالم ہے کہ بدلتے ہوئے مضامین و مطالب کے باوجود بیان اور تفہیم میں بے ساختہ روانی اور لطافت برقرار رہتی ہے۔ یہاں تک کہ کسی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ اب روئے سخن بدل گیا ہے۔ بات بغیر کسی تکلیف اور تکلف کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ جیسے سورۃ الکوثر پر نظر ڈالیے :
اِنَّا اَعْطَيْنٰکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo اِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْاَبْتَرُ.
الکوثر، 108 : 1.3
''بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہاء کثرت بخشی ہےo پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکر ہے)o بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشان ہو گا۔''
اس مختصر سی سورت کی تین آیتوں میں چار جملے ہیں۔ تینوں آیتوں میں احکام مختلف ہیں، لیکن ایک دوسرے سے معنوی اعتبار سے پیوست اور مربوط معلوم ہوتے ہیں۔ چاروں جملوں میں الگ الگ اور اپنی اپنی جگہ مستقل معانی و مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلے عطائے نعمت کا بیان ہے پھر حکمِ عبادت ہے، آخر میں مخالفوں کے لیے چیلنج ہے بلکہ پیشین گوئی بھی ہے گویا انتشارِ مطالب میں بھی معنوی اتحاد اور تسلسل کی کيفیت ابھرتی نظر آتی ہے۔
ب۔ تکرارِ مضامین میں حکمت و مصلحت یہ ہے کہ بعض اوقات صرف ایک حقیقت سے دوسرے کو آگاہ کرنا مقصود ہوتا ہے، اور بعض اوقات اسے سامع کے دل میں جاگزیں کرنا مطلوب ہوتا ہے : پہلے مقصد کے لیے تو صرف ایک مرتبہ کا بیان کافی رہتا ہے لیکن دوسرے مقصد کے لیے بات کو بار بار مختلف انداز سے بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس نوع کے مضامین کے لیے قرآن کے پیش نظر ایک خاص مقصدِ تخاطب ہوتا ہے چنانچہ ایک ہی مضمون بار بار بیان ہوا لیکن ہر دفعہ نئی حکمت و موعظت کے ساتھ اس کی کئی پرتیں کھلتی چلی گئیں؛ مثلاً سورۃ الشعراء میں اِنَّ فِيْ ذَالِکَ لَاٰيَةً وَمَا کَانَ اَکْثَرُهُمْ مُؤْمِنِيْنَo وَاِنَّ رَبَّکَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ آٹھ بار آیا ہے، سورۃ القمر میں وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلْذِّکْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ چار مرتبہ آیا ہے، سورۃ المرسلات میں وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِيْنَo دس بار آیا ہے، سورۃ الرحمان میں فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِo اکتیس مرتبہ آیا ہے لیکن ہر جگہ نہ صرف ایک نیا لطف اور منفرد کيفیت نصیب ہوتی ہے بلکہ اس تکرار سے دل و دماغ پر اکتاہٹ کی بجائے ہر بار نئے معانی و غوامض اور اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں۔
(1) الشعراء، 26 : 9، 68، 104، 122، 140، 159، 175، 191
(2) القمر، 54 : 17، 22، 32، 40
(3) المرسلات، 77 : 15، 19، 24، 28، 34، 37، 40، 45، 47، 49
(4) الرحمن، 55 : 13، 16، 18، 21، 23، 25، 28، 30، 32، 34، 36، 38، 40، 42، 45، 47، 49، 51، 53، 55، 57، 59، 61، 63، 65، 67، 69، 71، 73، 75، 77
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment