جان ایمان رحمۃ للعالمین محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبّت
ںبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان رحمت ہے،کہ
اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم علیہ السلام سے کنانہ کو چنا،بنی کنانہ سے قریش کو چنا قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم سے مجھے چنا۔ امام مسلم ترمذی
پیش نظر وہ نوبہار سجدے کو دل ہے بیقرار روکئے سر کو روکئے ہاں یہی امتحان ہے
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دین حق میں شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی
خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی
وجہ تخلیق کائنات سروردوعالم نبی محتشم رسول مکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بندہ مومن کے تعلق کے بارے میں شریعت مطہرۃ میں انتہائی واضح اورصریح احکامات موجود ہیں،کہ کوئی بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا ،کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ اس کو اس کی جان اس کی اولاد اس کے ماں باپ اس کے مال یہاں تک کہ دنیا کی ہر شے سے زیادہ محبوب اور پیاری نہ ہوجائے۔
یہی اصل ایمان ہے کہ روح کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہا درجہ کا تعلق عشق و محبت رکھاجائے،اگر صحابہ کرام علیہم الرضوان کے شب وروز کا مطالعہ کریں،تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس انتہائی درجے کا عشق اور کس قدر عظیم الشان محبت کا مظاہرہ کرتے تھے
کیونکہ اقامت واحیائے دین کا دارومدار ایمان پر ہے اور پھر کامل ایمان کا انحصار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت اور انتہادرجہ کی تعظیم وتکریم پرہے
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و تعظیم وتکریم کے معیار کے اصول اور پیمانے کیاہیں؟۔۔۔
تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت جس قدرصحابہ کرام علیہم الرضوان کرتے تھے اس کی مثال ملنا مشکل وناپید ہے ،کہ
صحابہ کرام علیہم الرضوان کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جس پاس ادب تھا اور جو تعظیم رسالت اور تکریم رسالت صحابہ کرام علیہم الرضوان کو حاصل تھی یہ سب کچھ ان کو سرکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت کی بدولت ملا تھا نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا یہ تسلسل صحابہ کرام علیہم الرضوان سے لے کر تابعین و تبع تابعین اور اکابر ائمہ تک جاتاہے ۔
اسلاف واخیار کے ادب وتکریم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ ذکر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے ہی ان کی آنکھیں چھم چھم برسنے لگتی۔
آج امت مسلمہ دین سے جس قدر ہوتی جارہی ہے اس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناآشنا ہوتے جارہے ہیں اور امت مسلمہ کا سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری کے سبب گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موقع مل رہا ہے کہ وہ امت کے بھولے بھالے اور سیدھے سادھے مسلمانوں کہ شرک وبدعت کی آڑ میں گمراہ کرکے اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کررہے ہیں
اہل ایمان کے دلوں سے ادب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتعظیم وتکریم رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ختم کرنے کے لئے درجنوں گمراہ فرقے وجود میں آگئے ہیں
مختلف ناموں سے گمراہی کا یہ ٹولہ اپنے ایمان کا تو بیڑا غرق کرہی چکا ہیاب وہ بھولے بھالے اور سادہ لوح مسلمانوں کو شرک وبدعت کے نعرے کی آڑ میں ورغلا کر اپنے شکنجے میں لے کر ان کے دلوں سے شمع عشق ورسالت کو بجھانا چاہتاہے
جو لوگ سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوری طرح واقف نہیں اور جن کو درست عقائد کا صحیح علم نہیں ہے وہ وہ سیدھے سادھے مسلمان،ان گمراہ وبدمذہبوں کے جال میں پھنس کراپنے ایمان کی قیمتی دولت کو گنوادیتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہرمسلمان کو چاہئے کہ آئے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور رفعت وکمال سے آگاہ ہواورعقائد صحیحہ سے بھی آگاہی حاصل کرلے
جتنا عشق اور جتنی محبت حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کریں گے اسی قدر ادب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت کا ادراک حاصل ہوگا
یہاں پرایک سوال اور بھی پیداہوتاہے،کہ گمراہ فرقے،جوکہ ایک ہی حمام کے سب ننگے ہیں ،یہ سب مذہب،رسول (علیہ السلام)دشمنی اور بعض نبی کے معاملے میں بہت اچھی طرح سے ساجھے دار ہیں یہ لوگ مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،یہ علماء وفقہاء سے بحث نہیں کرتے ،بلکہ یہ عام لوگوں سے ابحاث کرکے گمراہ کرتے ہیں
ان کے گستاخانہ طرزعمل میں ایک گمراہ کن سوال یہ بھی سیدھے سادھے مسلمانوں سے ہوتاہے کہ یہ اہلسنت بریلوی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم حد سے زیادہ کرکے اس تعظیم کو اللہ تعالیٰ کے برابرکردیتے ہیں ،حالانکہ ایسا نہیں ہے یہ محض جھوٹ ،افتراء اور الزام ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور ہم یہ شہادت ہر نمازمیں التحیات پڑھتے وقت دیتے ہیں ،لہذا ثابت ہواکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا بندہ و مخلوق تسلیم کرتے ہیں ،جبکہ اللہ تعالیٰ خالق اورمعبود ہے
تفصیلی بحث اندرکتاب میں مناسب موضوع کے لحاظ سے کروں گا یہاں محض 2الفاظ میں ان گستاخوں کو لپیٹ لیتا ہوں،کہ آپ ،جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی حد کی وضاحت کردیں کہ وہ حد کہاں تک ہے؟...تاکہ ہم اس حد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کریں
ویسے ایک بات کی اور وضاحت کرکے ان گمراہوں کے ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوڑہی دیتاہوں،کہ اللہ تعالیٰ تو لامحدود ہے اور ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر کو کس طرح لاسکتے ہیں اس لامحدودیت کی طرف یہ تو ممکن ہی نہیں کہ مخلوق،معبود کے درجات تک پہنچ جائے۔
باقی رہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظت و توقیر کی اور ادب کی ،تو اس کا تو ہمیں حکم دیا جارہاہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں،اور جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرے گا ،وہ مومن تو نہیں ہوسکتا،
مومن تو وہی ہیں ،کہ جو اللہ تعالیٰ کے احکامات مکمل طور پر بجالائیں،جن میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان کے معاملے میں مومنین کو آزمائے گا بھی ،گووہ یہ جانتا بھی ہے کہ کون مومن ہے اور کون مومن نہیں ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی حجت قائم فرمائے گا
ترجمہ کنزالایمان
کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہے کہ اتنی بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ ہم لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی
سورۃ العنکبوت2
اس آیت کریمۃ کی روشنی میں دیکھیں تو اس بات کی گنجائش ہی نہیں کہ محض یہ کہنا کہ ہم ایمان لائے ہیں ان کے اس قول کو تسلیم کرلیا جائے گا اس کے لئے ان کی آزمائش ہوگی کہ وہ ایمان والے ہیں بھی یا نہیں جن کا ثبوت یہ بھی ہے
ارشاد ربانی ہے،کہ
کیا اس گمان میں ہوکہ جنت میں چلے جاؤگیاور ابھی تم پر اگلوں کی سی رواداد نہ آئی ،پہنچی انہیں سختی اور شدت اور ہلا ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ کہ اٹھا رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کب آئے گی مدد اللہ کی ؟۔۔۔ سن لو اللہ کی مدد قریب ہے۔ سورۃ بقرۃ 214
شان نزول اخذ از ترجمہ کنزالایمان
یہ آیت کریمہ غزوہ احزاب کے متعلق نازل ہوئی جہاں مسلمانوں کوسردی اور بھوک وغیرہ کی سخت تکلیفیں پہنچی تھی، ان میں انہیں صبر کرنے کی تلقین فرمائیء گئی اور بتایا گیا کہ راہ خدا میں تکالیف برداشت کرنا قدیم سے خاصان خدا کا معمول رہا ہے ابھی تو تمہیں پہلوں کی سی تکلیفیں پہنچی بھی نہیں ہیں
حضرت خباب بنارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سایہ کعبہ میں اپنی چادر مبارکہ سے تکیہ کئے ہوئے تشریف فرماتھے ،ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے دعا کیوں نہیں فرماتے ہماری مدد کیوں نہیں کرتے؟۔۔۔تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ تم سے پہلے لوگ گرفتار کئے جاتے تھے زمین میں گڑھا کھود کر اس میں دبائے جاتے تھے آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے تھے اور لوہے کی کنگیوں سے ان کے گوشت نوچے جاتے تھے اور ان میں کوئی مصیبت انہیں انکے دین سے روک نہ سکتی تھی
سورۃ البقرۃ 214 شان نزول ترجمہ کنزالایمان بابت سورۃ العنکبوت 2
یہ حال بتایاجارہاہے ایمان والوں کا جو ہرآزمائش وابتلاء میں بھی صبر سے کام لیتے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جڑے رہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اصل الایمان یہی ہے کہ جان ایمان روح کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جڑا رہتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ انتہادرجے کا تعلق عشق و محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب واحترام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم وتوقیر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت وہر حکم ماننا ہی عین ایمان ہے اور اس کے خلاف کرنا کفر ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بالاسناد مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،کہ
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا ،کہ جب تک میں اس کو اس کی جان ،اس کی اولاد،اس کے ماں باپ اور تمام لوگوں سے یہاں تک کہ دنیا کی ہر شے سے زیادہ پیارہ نہ ہوجاؤں
۔ محمد بن مثنی، عبدالوہاب ثقفی، ایوب، ابوقلابہ، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ تین باتیں جس کسی میں ہونگیں، وہ ایمان کی مٹھاس (مزہ) پائے گا، اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں اور جس کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ ہی کے لئے کرے اور کفر میں واپس جانے کو ایسا برا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو۔
مذکورہ احادیث کریمہ میں مومنین کو ایمان کی حلاوت و لذت کے بارے میں آگاہ کیا جارہاہے کہ ایمان لانے کے بعد ایمان کی حلاوت پانابھی اہم قرار دیا جارہاہیممحض یہ نہیں کہ کہدیاکہ ہم ایمان لائے بلکہ ایمان کی حلاوت کے لئے جب وہ آزمائش کے مرحلے میں ہو، تو کفرپر نہ لوٹ جائے بلکہ آزمائش میں صبر کرتے ہوئے ثابت قدم رہے اور کفر پر لوٹنے کو ایسا جانے جیسے کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کرے اور
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو دنیا ومافیہا کی تمام محبتوں پر فوقیت دے اس جگہ پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا تذکرہ کیا گیا ہے
اللہ تعالیٰ فرماتاہے،کہ
ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔سورۃ البقرۃ165
نیز ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے،کہ
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ۱ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَؒ :یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمادیں،کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کُنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا
سورۃ التوبۃ24
آیات بالا میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا ذکرکیاگیاہے،کہ ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں دوسری جگہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے،کہ اللہ اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ میں لڑنے سے زیادہ اگر کوئی اور محبوب ہو تو راستہ دیکھو حتیٰ کہ اللہ اپنا حکم لائے۔
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ یہ بیان فرمادیاکہ اس انسان کی
جتنی بی رشتہ داریاں ہیں یا اس کی محبت کے جتنے بھی زاویئے ہیں ان سب کو سمیٹ کر اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا جھنڈا بلند ہونا چاہئے ایک طرف اس کی محبت اپنے باپ کے ساتھ ہے اپنے بیٹے کے ساتھ اپنی زوجہ کے ساتھ ہے اپنے کمائے ہوئے مال کے ساتھ ہے اپنی کوٹھی اپنے بنگلہ کے ساتھ ہے
اور دوسری طرف اس کی محبت اللہ تعالیٰ و رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے ساتھ ہے اور جہاد کے ساتھ ہے جب یہ سب محبتیں آپس میں متعارض ہوجائے ،تو مومن وہ ہوگا ،کہ جو ان ساری (مادی) چیزوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو بلند کرے گا اور ان دو ذوات کی محبت کو باقی تمام ذوات کی محبتوں پر غالب کردے گا ۔
مذکورہ آیت کریمہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی تفصیل کا ذکرکیا وہاں ساتھ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا تذکرہ بھی کیا ہے،تاکہ کسی کو غلط فہمی نہ رہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کی محبت میں کوئی فرق ہے ،خالق کائنات ہم سے دوسری تمام محبتیں چھڑواناچاہتاہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ ان میں نہیں فرمایا جن کی محبت اللہ تعالیٰ چھڑوانا چاہتاہے ،بلکہ رب کائنات نے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ اس محبت کے ساتھ فرمایاہے ،جس میں کہاگیاہے کہ تمام چیزوں کی محبت سے اوپر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو مقدم ہونا چاہئے ۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنی محبت کے ساتھ ذکرکرکے اس بات کو واضح کیا ہے کہ اس کے سوا باقی ہرمحبت کو چھوڑنا ہوگا ،وہ محبت جو اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقابل آجائے ،اس کو ہر حال میں چھوڑنے کو کہا جارہاہے ،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اللہ تعالیٰ نے اس محبت میں نہیں رکھا لکھا جومقابل آجائے،بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ ہی کی محبت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا ذکرفرمایاہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضوفرمارہے تھے صحابہ کرام علیہم الرضوان مستعمل پانی حاصل کررہے تھے اور اسے چوم رہے تھے ماتھوں پر لگارہے تھے ،جب ان سے پوچھاگیا،کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ،کہ میں وضوکرتاہوں اور تم میرے وضو کے پانی کے لئے تڑپتے ہو اس کو حاصل کرتے ہو اس کی کیا وجہ ہے؟...توصحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یحب اللہ ورسولہ :یہ کام اللہ تعالیٰ کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے لئے کرتے ہیں
بخاری شریف
ملاحظہ فرمایاآپ نے،کہ وضو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے ہیں اور خالق کائنات تو اعضاء سے بھی پاک ہے،لیکن اس مستعمل پانی کے بارے میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کا نظریہ یہ تھا ،کہ
پانی سے ہمیں دونو کی خوشبو آتی ہے اس واسطے قرآن و سنت میں یہ دونوں محبتیں ہمیشہ یکجا کی جارہی ہیں،یکجا ہی بیان کیا گیا ہے اور نفس الامر میں ان دونوں محبتوں کا حکم ایک ہی ہے
بات ہے اللہ تعالیٰ سے محبت کی ،لیکن کہی بھی کس طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کرسکتاہے اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے قانون اورقرینہ بتادیاہے،آپ کچھ بھی کرلیں آپ کو گھوم پھرکر سروردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس ہی کی طرف آنا پڑے گا اور اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں،کہ
ارشادباری تعالیٰ ہے،کہ
اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمادیجئے،کہ لوگوں اگر تم اللہ تعالیٰ کو دوست رکھتے ہو،تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ،اللہ تعالیٰ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے
سورۃ آل عمران۔آیت31
جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے یا کرنا چاہتاہے اس کو بتا دیاگیاہے کہ تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرو ،جب تم اللہ کے اس محبوب کی پیروی کروگے تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا تمہیں دوست رکھے گا مگر شرط یہی ہے کہ تم رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرو اور لازمی بات ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی وہی کرے گا ،کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھے گا اور جو محبت رکھے گا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے حد ادب واحترام بھی کرے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم وتوقیر بھی کرے گا اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و پیروی کرنا ایمان بن جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ پر ایمان لانا ہی عین ایمان ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کریمہ ہی ایمان کا مدار ہے اور کامل ایمان کا انحصار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عشق اورمحبت اور انتہا درجہ کی تعظیم وتکریم پرہے
اورتاریخ اسلام گواہ ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اپنے والہانہ عشق و محبت سے سرشار ہوکر جس شاندار انداز میں اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کیا اور جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم وتوقیر کی ،اس کی نظیر مل ہی نہیں سکتی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرایمان لانا مقصود ہی نہیں ہے،مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جان اپنی اولاد اپنے ماں باپ اور مخلوق میں سے ہر شے سے زیادہ محبوب رکھے
اللہ تعالیٰ فرماتاہے،کہ
یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے۔سورۃ الاحزاب ۔آیت6
اللہ تعالیٰ نے جب سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مالک بنادیاہے،ہماری جانوں کا۔تو پھر کس کو اختیار ہے کہ کوئی بھی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب واحترام نہ کرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت نہ کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی تعظیم وتوقیر نہ کرے۔
اگرکوئی اس کے برعکس جاتاہے،تو کافرومشرک ہے اور اگر محض دکھاوے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے اور دل میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں ، ادب و احترام نہیں ہے اور تعظیم و توقیر سے کٹتا ہے ،توایسا شخص ہر گز مومن ومسلم نہیں،بلکہ ایسے شخص کو منافق سے تعبیر کیا گیا ہے
کامل مومن اسے ہی کہا گیا ہے کہ جوآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے انتہا درجہ عشق و محبت کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام کرے اور تعظیم و توقیر بجالائے یہی عن ایمان ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے
لیکن بعض گمراہ اور بدمذہب لوگوں کی طرف سے مختلف ہتکنڈوں سے مومنین کے دلوں سے تعظیم رسالت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے لئے مختلف فرقے مختلف ناموں سے دشمنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرکمرکس کرمیدان میں آئے ہوئے ہیں
ان کے دلوں میں بغض نبی ہے اور زبان سے شرک وبدعت کا نعرہ لگاکر شرک وبدعت کی آڑ میں لوگوں کے ایمان خراب کرنے پرتلے ہوئے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ
لوگوں کے دلوں سے شمع عشق رسالت کو بجھادیاجائے جولوگ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ناواقف ہیں اور جن کو عقائد صحیحہ کا درست علم نہیں حالانکہ وہ مسلک اہلسنت والجماعت سے منسلک بھی ہیں لیکن اس پر شدت اور پختگی نہیں ہے یا وہ ان گمراہوں اوربدمذہبوں کی جانب سے کئے جانے والے کچھ سوالات کے جوابات اپنے مسلک کے بارے میں نہیں دے سکتے کیونکہ وہ ان کے بنائے ہوئے سوالات سے ناواقف ہوتے ہیں اور اچانک جواب نہیں دے پاتے اس لئے وہ مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ بدمذہب اور گمراہ اس پر فورا شرک شرک کا الزام لگادیتاہے اور وہ شخص چونکہ درست عقائد سے ناواقف ہوتاہے لہذا وہ بھٹک جاتاہے اور بدمذہبوں اور گمراہوں کے شکنجے میں آجاتاہے
اس طرح وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے اور گمراہ ہوجاتاہے لہذا ہرمسلمان پرلازم ہے،کہ
نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور رفعت وکمال سے آگاہی اور درست عقائد کی معلومات ہو
بدمذہب اور بدعقیدہ و باطل پرست لوگ اپنے گمراہ اور باطل عقائد ،شرک و بدعت کی آڑ میں پھیلاتے ہیں حالانکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کریمہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت شرک نہیں کرے گی ۔ جیساکہ
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں
ایک دن نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے کاشانہ اقدس سے نکلے ( میدان احد پہنچے ) اور شہدا احد کی قبروں پر نماز جنازہ ادا فرمائی پھر واپس تشریف لا کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے ارشاد فرمایا : میں تمہارے لئے " فرط " ہوں اور میں تم پر شہید ہوں
اور بیشک اللہ کی قسم ! میں اب اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں یا زمین کی چابیاں عطا کر دی گئیں اور اللہ کی قسم ! مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ تم طلب دنیا میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کروگے
بخاری شریف جلد ۱ ص ۱۷۹
ملاحظہ فرمایاآپ نے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر اعلان فرمادیا ،کہ میری امت سے مجھ کو شرک کا خوف نہیں ہے پھر آج گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ٹولہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اقدس کے خلاف جاکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر شرک کے الزامات کیوں لگاتا ہے بدعت کے الزامات کیوں لگاتاہے کچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری ہے
اس سلسلے میں یہ حدیث کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں،کہ
عَنْ حُذَیْفَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اِنَّ مَا اَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ قَرَۃَ الْقُرْآنَ حَتَّی اِذَا رُءِیَتْ بَھْجَتُہُ عَلَیْہِ وَ کَانَ رِدْءًا لِلْاِسْلَامِ غَیْرَہُ اِلَی مَاشَاءَ اﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْہُ وَ نَبَذَہُ وَرَاءَ ظُھْرِہِ وَ سَعَی عَلَی جَارِہِ بِالسَّیْفِ وَرَمَاہُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : یَا نَبِیَّ اﷲِ، اَیُھُمَا اَوْلَی بِالشِّرْکِ الْمَرْمِیُّ اَمِ الرَّامِی قَالَ : بَلِ الرَّامِی.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اﷲ کے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرک کا الزام لگانے والا
رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی التَّارِیْخِ، ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ واِسْنَادُہُ حَسَنٌ.
(والبخاری فی التاریخ الکبیر، 4 ؍ 301، الرقم : 2907، ابن حبان فی الصحیح، 1 ؍ 282، الرقم : 81، والبزار فی المسند، 7 ؍ 220، الرقم : 2793، والطبرانی فی المعجم الکبیر، 20 ؍ 88، الرقم : 169، و فی مسند الشامیین، 2 ؍ 254، الرقم : 1291، والہیثمی فی مجمع الزوائد، 1 ؍ 188، و قال : اسنادہ حسن، و ابن کثیر فی تفسیر القرآن العظیم، 2 ؍ 266.
۔
مذکورہ بالا2احادیث کریمہ آپ پھربغورپڑھیں،کہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے،کہ جو لوگ شرک شرک اور بدعت بدعت کرتے رہتے ہیں اور شرک وبدعت کی آڑ میں لوگوں کوگمراہی پر مائل کرتے ہیں درحقیقت یہی لوگ ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے موجب ،یہی لوگ مرتکب شرک ہوتے ہیں اور نہ صرف شرک کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ یہی لوگ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم وتکریم کے بھی انکاری ہیں،ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان رحمت ہے،کہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل فرماتے ہیں،کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،کہ
بے شک تم میں سے ایسے لوگ ہوں گے جوعبادت کریں گے اور اپنی عبادت میں تندہی سے کام لیں گے یہاں تک کے وہ لوگوں کو بھلے لگیں گے اور وہ خود بھی اپنے آپ پراترائیں گے حالانکہ وہ دین سے اس طرح خارج ہوں گے،کہ جس طرح تیرشکار سے خارج ہوجاتاہے۔
مسنداحمدبن حنبل۔المسند الہیشمی غ مجمع الزوائد مصنف عبدالرزاق
یہ ہے حقیقت ان لوگوں کی ،جوآداب رسالت اور تعظیم وتوقیر رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہیں یوں جان لوکہ یہ لوگ ایمان بالرسالت کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاکر مومن بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایمان بالرسالت کے بغیر ایمان،ایمان کہلاتاہی نہیں ،تو پھر ایسا ایمان مقبول کس طرح ہوگا؟۔۔۔
کیا وجہ ہے،کہ یہ لوگ اسلام میں پورے پورے داخل نہیں ہوتے ،جبکہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،کہ
اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ پھریہ احکاماتِ قرآن کریم کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہیں؟۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے خلاف کیوں جاتے ہیں؟۔۔۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کو آداب رسالت کے تمام قرائن سکھادئے تعظیم مومنوں کے دلوں میں راسخ کردی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت قرار دے دیا اور جس نے اس سے انحراف کیا وہ بہت دور گمراہی میں مبتلا ہوگیاکیونکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت وفرمانبرداری ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی میں ہی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے ،تو اگر کوئی شخص جناب احمد مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم وتوقیر بجالاتاہے،تو درحقیقت ،وہ اللہ تعالیٰ ہی کی رضا وخوشنودی کو حاصل کرتا ہے
یہی اصل ایمان ہے ،کہ جان ایمان روح کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ انتہادرجے کا تعلق عشق ومحبت قائم کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے انتہا تعظیم وتوقیر کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزاردے
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Vu and Company" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-and-company+unsubscribe@googlegroups.com.
Visit this group at https://groups.google.com/group/vu-and-company.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment